مثنوی کا فن اور ارتقاء (دوسری قسط)

مثنوی کافن اور ارتقاء

(دوسری قسط) 

تحریر: احمد

صنف مثنوی

اردو شاعری کے دیگر اصنافِ سخن کے مقابلے میں مثنوی ایک اہم صنف۔ کیونکہ اس میں طویل سے طویل تر مضمون اور مربوط خیال کو آسانی کے ساتھ ادا کیا جا سکتا ہے۔ اردو شاعری کے دیگر اصنافِ سخن کے مقابلے میں مثنوی ایک اہم صنف۔کیونکہ اس میں طویل سے طویل تر مضمون اور مربوط خیال کو آسانی کے ساتھ ادا کیا جا سکتا ہے۔

فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں مثنوی ایک اہم صنف سخن کی حیثیت رکھتی ہے۔ اردو شاعری کے ابتدائی نقوش جو ہمیں نظم کی شکل میں ملتے ہیں وہ دراصل مختصر مثنویاں ہیں، جسے اس دور کے صوفیا اور بزرگانِ دین نے دین کی اشاعت و تبلیغ کی غرض سے تحریر کیا تھا۔

مثنوی کی ابتداء  نویں صدی ہجری کے وسط سے

ایک اندازے کے مطابق یہ مثنویاں نویں صدی ہجری کے وسط سے لیکر گیارہویں صدی ہجری کے اوائل تک لکھی گئی۔بعد کے زمانے میں مثنوی کا استعمال ایک طرح سے داستانوں کے ساتھ مختص ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج مثنوی کا نام لیتے ہی ہمارے ذہن و دماغ میں قطب مشتری، پھول بن، سحر البیان اور گلزارِ نسیم جیسے ادبی کارنامے گردش کرنے لگتے ہیں۔

زمانہ قدیم میں مثنوی کا موضوع بہت وسیع تھا۔ چنانچہ اس میں پہیلیاں، علماء و صلحاء کے پند و نصائح، صوفیا اور بزرگانِ دین کے ملفوظات،  اظہارِ واقعات، قوم کے نڈر اور بہادر جانبازوں کے کارنامے جیسے مضامین بھی مذکور ہوتے تھے۔

دورِ جدید کی مثنویاں

دور جدید کے مثنویوں میں عموماً مافوق الفطرت واقعات یعنی جن اور پریوں کے قصوں سے لیکر عام انسانوں کے حسن و عشق کی داستان، جنگی قصے اور کہانیاں، شادی اور موت کے رسم و رواج کا بیان اخلاقی قصوں، تصوف کے مسائل اور مذہبی تعلیم کا بیان جیسے مضامین پائے جاتے ہیں۔

مثنوی کے ابتدائی نقوش

مثنوی کے ابتدائی نقوش سب سے پہلے ایران میں ملتے ہیں۔ یہ فن اردو میں فارسی کے ذریعے ایا ہے۔ رود کو فارسی کا پہلا باقاعدہ شاعر تسلیم کیا گیا ہے، جس نے بے شمار مثنویاں تحریر کی۔

دکنی مثنویاں و مثنوی نگار

ہندوستان میں دیگر شعری اصناف کی طرح مثنوی کے ابتدائی نقوش بھی دکن میں ملتے ہیں۔ دکن کا پہلا مثنوی نگار فخرالدین نظامی کو تسلیم کیا گیا ہے، جس نے ٨۶٥_۶۸ھ کے درمیان مثنوی کدم راو پدم راو لکھی۔ نظامی کے علاوہ اشرف بیابانی، فیروز بیدری، شاہ برہان الدین جانم، میراجی شمش العشاق اور ان کے فرزند شاہ برہان الدین جانم وغیرہ نے بھی مثنویاں تحریر کی جن کی تفصیلات حسب ذیل ہیں:

بہمنی دور کےقابل قدر مثنوی نگار اور ان کی مثنویاں

فخرالدین نظامی:  مثنوی کدم راو پدم راو
میراجی شمش العشاق:  خوش نامہ، شہادت التحقیق، خوش نغز
اشرف بیابانی : لازم المبتدی، نوسرہار یعنی واقعہ کربلا

قطب شاہی دور کے اہم مثنوی نگار اور ان کی مثنویاں

قطب الدین فیروز:  پرت نامہ جس کو توصیف نامہ بھی کہا جاتا ہے
ملا اسداللہ وجہی:  قطب مشتری، ۱۰۱۸ھ
غواصی: سیف الملوک و بدیع الجمال، ۱۰۳۵ھ، طوطی نامہ، ۱۰۳۹ھ
احمد:  مصیبت اہل بیت، لیلیٰ مجنوں
عاجز:(لیلیٰ مجنوں ۱۰۴۰ھ)
جنیدی:  ماہ پیکر ۱۰۶۴ھ
قطبی: تحفۃالنصائح، ۱۰۴۵ھ
ابن نشاطی:  پھول بن، ۱۰۶۶
طبعی : بہرام و گل اندام، ۱۰۸۱ھ

عادل شاہی دور کی مثنویاں

شاہ برہان الدین جانم :وصیت الہادی، منفعت الایمان، مغز مرغوب
ابراہیم عادل شاہ ثانی : نو رس
عبد الغنی عبدل:ابراہیم نامہ
محمد مقیم مقامی:چندر بدن و مہیار
امین :بہرام و گل اندام
حسن شوقی: فتح نامہ نظام شاہ، میزبانی نامہ
محمد ابراہیم خان صنعتی :قصہ بے نظیر، گلدستہ
کمال خان رستمی:  خاور نامہ
محمد نصرت نصرتی: گلشنِ عشق، علی نامہ، تاریخ اسکندری

مثنوی کا ارتقاء شمالی ہند میں

شمالی ہند کی سب سے پہلی مکمل اور مستند مثنوی افضل کی بکٹ کہانی ہے۔ یہ ایک بارہ ماسہ ہے۔ اس مثنوی میں تقریباً تین سو اشعار ہیں۔ افضل کے بعد بہت سے شعراء نے اس فن میں ہاتھ آزمائے اور عمدہ سے عمدہ مثنویاں تحریر کیں جن میں چند مشہور و مقبول مثنویوں کے نام حسب ذیل ہیں:
مولانا شیخ عبداللہ انصاری امین: فقہ ہندی،۱۰۷۴ھ
محبوب عالم شیخ محمد جیون: محشر نامہ، درد نامہ، خواب نامہ پیغمبر
میر جعفر زٹلی: ظفرنامہ اورنگزیب شاہ عالم گیر بادشاہ غازی در صفت پیری، طوطی نامہ
اسمٰعیل امروہوی: تولد نامۂ بی بی فاطمہ ۱۱۰۵ھ، قصۂ معجزانہ ۱۱۲۰ھ
نواب صدرالدین محمد خان فائز دہلوی :مناجات، در مدح شاہ ولایت، تعریف کنگسٹن،، تعریف ہولی
شاہ مبارک آبرو :بلا عنوان بہت ساری مثنویاں تحریر کیں
شاہ ظہور الدین حاتم مشہور بہ شاہ حاتم:مثنوی قہوہ، مثنوی حقہ، مثنوی سراپا، ساقی نامہ
شاہ آیۃ اللہ جوہر :گوہر جوہری
محمد فقیہ دردمند :ساقی نامہ

شمالی ہند میں مثنوی کا عہد زرّیں

شمالی ہند میں باقاعدہ مثنوی گوئی کا آغاز میر تقی میر اور مرزا سودا سے ہوتا ہے۔
مرزا سودا: شیخ چاند کی تحقیق کے مطابق مرزا کی مثنویوں کی تعداد ۲۱ کے قریب ہے، حالانکہ بعض محققین نے مثنویات سودا کی تعداد ۲۴ شمار کی ہیں، ان میں ۱ عشقیہ، ۱۲ ہجویہ، ۵ مدحیہ، ۱ اخلاقی و سماجی، ۲ ادبی تنقید،۲ خطوط، اور ۱ موسم کے عنوان پر مشتمل ہیں۔میر سوز کے دیوان کے اخیر میں ایک مثنوی بلا عنوان ہے جس میں تقریباً ۱۲۷ اشعار ہیں۔
میر تقی میر: مثنویاتِ میر کی تعداد ۳۲ کے قریب ہیں۔ جن میں مشہور خواب و خیال، معاملاتِ عشق، دریائے عشق، جوش عشق، اعجازِ عشق، حکایتِ عشق وغیرہ۔
جعفر علی حسرت: طوطی نامہ، ساقی نامہ، مثنوی ہجو حکیم۔
بسمل فیض آبادی: پورا نام حکیم محمد جواد عرف مرزاءالدین بسمل۔ حسن و عشق، بارہ ماسہ۔
قائم چاند پوری: جذب الفت، رمز الصلوۃ، گرگ و گوسفند وغیرہ قائم چاند پوری کے مثنویوں کی کل تعداد ۲۷ کے قریب ہیں۔

میر حسن اور ان کے معاصرین کا عہد

راسخ عظیم آبادی:میر تقی میر کے شاگرد تھے انکی مثنویوں کی تعداد ۲۱ کے قریب ہیں۔ جن میں حسن و عشق، ناز و نیاز، سبیل نجات،، کشش عشق، نیرنگ محبت وغیرہ۔
میر اثر: میر درد کے چھوٹے بھائی ہیں، ان کی مشہور مثنوی خواب و خیال ہے۔
میر حسن: میر حسن کی کلیات میں تقریبا ۱۱ مثنویاں ہیں جن میں، رموز العارفین، گلزار ارم،  سحر البیان طویل ہیں باقی مختصر ہیں۔ جن کے نام قصاب کی نقل، کلافوت کی نقل، دو احمق دوستوں کی نقل، مثنوی شادی، در تہنیت عید، قصر جواہر، خوان نعمت، ہجو حویلی میر حسن ہیں۔
نظیر اکبر آبادی: نظیر کی مثنویاں آج تک تاریخی دھندلکے میں ہے حالانکہ نظیر کی مثنویاں بھی فنی خوبی کے لحاظ سے کسی حد تک میر حسن سے کمتر نہیں ہےہے۔ نظیر کی مثنویوں میں سیرِ درد قابلِ ذکر ہے۔
مصحفی: پورا نام غلام ہمدانی اور مصحفی تخلص تھا۔ محقق قاضی عبد الودود مصحفی کی مثنویوں کی تعداد ۲۰ لکھتے ہیں۔ جن میں چند یہ ہیں ہجو چارپائی، در ہجو افراط کھٹمل، جذبہ عشق وغیرہ۔
انشاء: انشاء کی چند مختصر مثنویوں کا پتہ چلتا ہے جن میں در ہجو زنبور، کھٹمل نامہ، در ہجو مگس، مرغ نامہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
رنگین: پورا نام سعادت یار خان رنگین ہے۔ مثنویات رنگین کی تعداد ۴۳ کے قریب پہنچتی ہے۔ جن میں چند یہ ہیں: فرس نامہ، مثنوی دلپذیر، مثنوی نیرنگ رنگین در ہندی، نامہ زنانی وغیرہ۔ رنگین کی زیادہ تر مثنویاں طویل ہیں۔

نسیم اور ان کے ہم عصروں کا زمانہ

مومن: کلیات مومن میں بارہ مثنویاں ہیں جن میں سات عشقیہ اور پانچ دیگر موضوعات پر ہیں۔ مومن کی چھ مثنویاں مشہور ہیں جو حسب ذیل ہیں:
شکایت ستم، قصہ غم، قول غمیں، تف آتشیں، حنین مغموم، آہ و زاری۔
نسیم: پورا نام دیاشنکر نسیم ہے۔ نسیم کی مثنوی گلزار نسیم دبستانِ لکھنو کی سب سے عظیم اور نمائندہ مثنویوں میں سے ایک ہے۔ یہ مثنوی پہلی بار ۱۸۴۴ء میں شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ تحفہ مجلس سلاطین بھی نسیم کا ایک اہم کارنامہ ہے۔

دور جدید کے مثنوی نگار

محمد حسین آزاد: آزاد کی مشہور مثنویوں میں شبِ قدر، صبحِ امید، حبِ وطن وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
الطاف حسین حالی: الطاف حسین حالی کی سب سے پہلی مثنوی برکھارت ہے جو پہلی مرتبہ ۱۸۷۴ء میں لاہور کے مشاعرے میں پڑھی گئی۔ اس کے علاوہ نشاطِ امید، حبِ وطن، مناظرہ رحم و انصاف، مثنوی تعصب و انصاف، مثنوی کلمۃ الحق، مناجاتِ بیوہ وغیرہ حالی کی شاہکار مثنویاں ہیں۔

نوٹ:۔ یہ مضمون نیٹ جے آر ایف،سیٹ،ٹیٹ وغیرہ امتحان میں پوچھے جانے والے سوالوں کے پیش نظر تیار کیا گیا ہے۔ اس طرح کے مزید مضامیں حاصل کرنے کیلئے لال رنگ کے گھنٹی والےنشان کو دبا کر ہماری ویب سائٹ ’’علم کی دنیا‘‘      ilmkidunya.in   کو سبسکرائب کر لیں تاکہ ہماری ہر اپڈیٹ آپ تک بذریعہ   Notification پہنچ جائے۔ والسلام

اپنی راۓ یہاں لکھیں