مثنوی پھول بن کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ

مثنوی پھول بن

 (ابن نشاطی)

تحریر: احمد

مثنوی پھول بن جتنی مقبول و مشہور ہے اس کے مصنف کی حالات زندگی اتنی ہی تاریکی اور گمنامی میں ہے۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس زمانے میں شعراء کے تذکرے لکھنے کا کوئی خاص رجحان نہیں تھا۔ چند تاریخی شواہد سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ ابن نشاطی کا نام شیخ محمد مظہرالدین باپ کا نام محمد فخرالدین تھا۔

ابن نشاطی کے متعلق نصیرالدین ہاشمی رقمطراز ہیں’’ابن نشاطی سلطان عبداللہ قطب شاہ کے دربار کا معزز عہدےدار تھا۔ نثر نویسی میں باکمال تھا۔ مثنوی پھول بن کھنے سے پہلے شعر گوئی کی کوشش نہیں کی تھی۔ اس کی تاریخ پیدائش تعلیم و تربیت اور شاعری میں کس سے درس تلمّذ حاصل کیا ان سب باتوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ اس کی دریافت شدہ تصنیفات میں صرف مثنوی پھول بن کا پتہ چل سکا ہے، جو ایک فارسی قصہ بساتین کا ترجمہ ہے جس کو ابن نشاطی نے تین ماہ کی مدت میں پورا کیا۔ اس میں اشعار کی تعداد سترہ سو ہیں بقول بعضے ۱۰۷۴ھج میں اس کی تصنیف ہوئی‘‘(دکن میں اردو ص:۱۳۴)

مجلس اشاعت دکھنی مخطوطات نے پہلی دفعہ ۱۹۳۷ء میں اسے شائع کیا۔ اس کی تدوین و ترتیب پروفیسر عبدالقادر سروری نے کی۔

ایک اندازے کے مطابق ابن نشاطی کی ولادت ۱۰۴۰ھ سے ۱۰۴۵ھ کے درمیان ہوئی ہوگی۔

مثنوی پھول بن کئی لحاظ سے اس زمانے کی دوسری مثنویوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ اس میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو اس زمانے کی اعلیٰ درجے کی مثنویوں میں پائی جاتی تھیں۔ اس کی زبان صاف سلیس اور قابل فہم ہے۔ جس کے بناء پر قاری اس کے پڑھنے اور سمجھنے میں کسی الجھن کا شکار نہیں ہوتا۔

نصیرالدین ہاشمی لکھتے ہیں ’’ مثنوی پھول بن میں لفظی و معنوی صنائع و بدائع کا استعمال بہت ہواہے‘‘ ۔ مرقع نگاری اس مثنوی کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ الغرض مثنوی پھول بن صوری و معنوی ہر اعتبار سے ایک قابل قدر کارنامہ ہے۔ یہ ایک عشقیہ مثنوی ہے۔ اس میں واقعات سے واقعات پیدا کرنے والی داستانی روایت کا ثبوت ملتا ہے۔ اس میں پرانی داستانوں الف لیلیٰ وغیرہ کا بھی عکس نظر آتا ہے۔

آغاز قصہ

قصے کا آغاز مشرق کے ایک بادشاہ سے ہوتا ہے جو کنچن پٹن نامی شہر کا بادشاہ رہتا ہے، اس شہر کی ہر چیز سونے کی رہتی ہے اس لئے اس کا نام کنچن پٹن رہتا ہے۔ بادشاہ خواب میں ایک درویش کو دیکھتا ہے کہ وہ اس طرح کھڑا ہےمانو اس کی اجازت کا منتظر ہو۔ صبح جب آنکھ کھلتی ہے تو بادشاہ خدام کے ذریعے درویش کو طلب کرتا ہے۔ بادشاہ درویش سے مل کر بہت خوش ہوتا ہے۔ درویش ہر روز بادشاہ کو ایک حکایت سناتا ہے۔ جسے سن کر بادشاہ بن پیے     مست ہو جاتا ہے۔

ایک شب جب بادشاہ بہت خوش ہوتا ہے، درویش سے کہتا ہے آج کچھ ایسا سناؤ کہ دل مچل جائے۔ درویش ایک مجازی حکایت سنانا شروع کرتا ہےکہ:

میرا باپ ملک خراسان کا پردھان تھا۔ وہ بہت ہی عقل مند اور روشن ضمیر شخصیت کا مالک تھا۔ اسی سے میں نے ایک حکایت سنی ہے کہ:

قصہ گل و بلبل

 کشمیر میں ایک نہایت عقلمند اور عادل بادشاہ تھا۔ ایک روز جب موسم بہار تھا ہر طرف پھول کھلے ہوئے تھے۔ بادشاہ نے مجلس جمائی اتنے میں باغباں ایک پھول لے کر حاضر ہوا جو نہایت ہی خوبصورت تھا۔ اس کی خوشبو مثل مشک و عنبر تھی۔ باغباں نے پھول بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا۔ بادشاہ متعجب ہو کر پوچھا یہ کیسا پھول ہے ایسا پھول میں نے آج تک چمن میں نہیں دیکھا، اگر تو اس کا پودا لا کر چمن میں لگائے گا تو منہ مانگی قیمت پاوےگا۔ یہ سن کر مالی مڑا اور پودے کی تلاش و جستجو میں لگ گیا۔ کئی روز کی مشقت کے بعد وہ پودا اس کے ہاتھ لگ گیا۔ مالی نے اس پودے کو بادشاہ کے چمن میں لگا دیا۔ اور ہر روز ایک پھول بادشاہ کی خدمت میں پیش کرنے لگا۔

ایک روز بادشاہ نے دیکھا کہ پھول میں کچھ سوکھنے کے آثار نمایا ہو رہے ہیں۔ رنجیدہ ہوکر مالی سے سبب دریافت کیا۔ مالی نے جواباً عرض کیا چمن میں ایک کالا بلبل ہے، وہ اپنے پروں کو اس پہ پھیلاتا ہے تو کبھی اپنے چونچ سے اس کے کلیوں کو کھولتا ہے تو کبھی زار و قطار آہ و بکا کرتا ہے۔ اسی وجہ سے پھول مرجھا گیا ہے۔

یہ سن کر بادشاہ غصہ میں بلبل کو قید کرنے کا حکم دے دیتا ہے۔ بلبل کو قید کرکے بادشاہ کے پاس لایا جاتا ہے۔ بلبل گل سے جدا ہو کر زار و قطار روتا رہتا ہے۔ بلبل کی یہ حالت دیکھ بادشاہ کو اس پر ترس آتا ہے اور ایک دن وہ اس سے پوچھتا ہے تو کیوں اتنا پریشان ہے، کیوں ہمیشہ روتا رہتا ہے۔ بادشاہ کے دریافت کرنے پر بلبل اپنے احوال کچھ اس طرح سناتا ہے:

میرا باپ ختن کا سوداگر تھا۔ مال و دولت کی کوئی کمی نہیں تھی، ہر طرح کی آسائشیں موجود تھیں۔ ہمارے قریب ہی میں ایک زاہد پارسا رہتا تھا۔ اس کی ایک نہایت ہی خوبصورت بیٹی تھی۔ میں اس ماہ رو سے عشق کرتا تھا، چھپ چھپ کر ہم دونوں ملا کرتے۔ ناگہاں کسی نے زاہد کو اس کی خبر کر دی۔ زاہد نے یہ سن کر غصے میں ہمارے لئے بددعاء کر دی جس کے سبب ہم گل اور بلبل کی شکل میں تبدیل ہو گئے آگے سب تجھے معلوم ہے۔

سارا قصہ سننے کے بعد بادشاہ نے خزانے سے جادوئی انگوٹھی منگا کر آیۃالکرسی کی مدد سے دونوں کو انسانی شکل میں لا کر دونوں کی شادی کرا دی۔ سوداگر کے بیٹے کو دربار میں بڑا منصب عطا کیا جاتا ہے وہ ہر روز بادشاہ کا نئے نئے قصوں سے دل بہلایا کرتا ہے۔

چین کے نقاش کا   تذکرہ

ایک روز بادشاہ کی فرمائش پہ وہ چین کے نقاش کا قصہ شروع کرتا ہے۔ چین کا نام سن کر بادشاہ غمزدہ ہو جاتا ہے کیونکہ چند دنوں پہلے بادشاہ نے ملک چین فتح کرنے کیلئے اپنے ایک وزیر کو بھیجا تھا جو اس وقت تک نہیں لوٹا ہوتا ہے۔ بادشاہ کو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں وہ ملک فتح کر کے خود اس کا راجہ نہ بن بیٹھا ہو۔ یہ تمام باتیں سوچ کر بادشاہ اپنا غم ہلکہ کرنے کیلئے ایک ندیم کو طلب کرتا ہے اور کوئی حکایت سنانے کا حکم دیتا ہے۔ ندیم موقع شناس رہتا ہے لہذا موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے حکایت سنانا شروع کرتا ہے:

دغاباز وزیر، راجہ اور رانی ستونتی کا قصہ

ایک راجہ جو اپنی فہم و فراست کی وجہ سے بڑا مشہور تھا۔ اسے جوگیوں سے بڑی عقیدت تھی۔ ایک روز ایک جوگی شہر میں آیا بادشاہ نے خود اس سے ملاقات کی اس کی بڑی عزت کی۔ جوگی نے بادشاہ کی عزت افزائی سے خوش ہو کر اسے نقل روح کا منتر سکھا دیا۔ اسی زمانے میں بادشاہ کا ایک وزیر بڑا کارنامہ انجام دیکر آیا ہوا تھا وہ بہت ہی چالاک اور ہوشیار تھا۔ بادشاہ نے اس سے کہا منگ تو کیا منگو کیا مانگتے ہو، وزیر نے چالاکی کا مظاہرہ کیا اور کہا آپ کے کرم سے مال و زر کی کوئی کمی نہیں اگر آپ نقل روح کا منتر سکھا دیں تو ذرہ نوازی ہو۔

بادشاہ زبان دے چکا تھا اس لئے با دل نخواستہ نقل روح کا منتر وزیر کو سکھا دیا۔ ایک روزبادشاہ اور وہی وزیر شکار پہ گئے اتفاق سے دونوں لشکر سے جدا ہوگئے۔ گھومتے گھومتے دونوں جنگل میں پہنچے راستے میں ایک ہرنی کو مرا ہوا دیکھ کر بادشاہ نے نقل روح کے منتر کو آزمانے کے غرض سے اپنی روح اس کے جسم میں منتقل کر دیا اور جنگل میں پھرنے لگا۔ وزیر نے بادشاہ کے جسم کو خالی دیکھ بادشاہ بننے کی ہوس میں اپنی روح کو بادشاہ کے جسم میں منتقل کیا اور اپنے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اس طرح وہ دھوکے سے بادشاہ بن بیٹھا۔

بادشاہ کی رانی ستونتی جو پاکدامنی میں ضرب المثل تھی اسے نقلی بادشاہ(وزیر) پہ شبہ ہو گیا جب بھی وہ اسکے قریب ہونے کی کوشش کرتا رانی ستونتی حیلے سے ٹال دیتی۔

دوسری طرف اصلی بادشاہ جنگل کی سیر سے جب واپس لوٹا تو اپنے جسم کو نہ پاکر بڑا پریشان ہوا اور سارا ماجرا سمجھ گیا لیکن آخر کرتا بھی تو کیا کرتا۔ ادھر اُدھر مارا مارا پھرتا رہتا۔ ایک مرے ہوئے طوطے پر اس کی نظر پڑی اس نے فوراً اپنی روح اس میں منتقل کر دیا اوربادشاہ کے شکاری کے گھر پہ آبیٹھا اور شکاری کے ہاتھوں بخوشی اس شرط پر گرفتار ہو گیا کہ وہ اسے بادشاہ کے ہاتھو بیچے گا۔

شکاری اس پر راضی ہو گیا اور ایک پنجرے میں ڈال کر مکار بادشاہ(وزیر) کے پاس لے گیا۔ اس نے اسے خرید کر رانی ستونتی کے پاس رکھ دیا۔ موقع پاکر طوطے(بادشاہ) نے سارا واقعہ رانی سے کہ دیا۔ اور رانی کو اس پر یقین بھی ہو گیا کہ یہی اصلی راجہ ہے۔ طوطے کے مشورے کے مطابق رانی نے نقلی راجہ کو اپنی روح ایک پرندے ک جسم میں منتقل کرنے پر آمادہ کر لیا۔ جونہی نقلی راجہ نے اپنے جسم کو منتقل کیا اصلی راجہ(طوطہ) نے اپنی روح اپنے پرانے جسم میں منتقل کر کے اس پرندے کو مار ڈالا اس طرح وہ دوبارہ راجہ بن گیا۔

یہ قصہ سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا۔ وزیر نے یہ دیکھا کہ بادشاہ کی طبیعت قصہ سننے کی طرف راغب ہے ایک اور قصہ شروع کیا۔

سمن بر اور ہمایوں فال کا قصہ

وزیر نے داستان کہنا شروع کیا کہ:

ملک عجم کے بادشاہ کے بیٹی سمن بر جو نہایت ہی خوبصورت تھی اس کی خوبصورتی کے چرچے ہر خواص و عام کے زبان پہ تھے۔ مصر کا شہزادہ سمن بر کے بارے میں سن کر اس سے ملنے کا خواہاں ہوا۔ ایک دن دونوں کی ملاقات ہو جاتی ہے دونوں ایک دوسرے کو دل و جان سے چاہنے لگتے ہیں۔ اور ایک دن دونوں گھر سے نکل بھاگتے ہیں اور شہر سندھ جو اصل میں ہند ہے گنگا کنارے بیت العاشقین نامی ایک محل میں قیام کرتے ہیں۔ دونوں خوشی خوشی زندگی گزارنے لگتے ہیں۔

سند کے بادشاہ کو ایک مالنی کے ذریعہ جس اسی کی اطلاع ملتی ہے تو وہ سمن بر کو دیکھنے کیلیےبے چین ہو جاتا ہے۔ اپنے وزراء کے ساتھ نکل پڑتا ہے، اتفاق سے سمن بر اس وقت اپنے بال سکھاتی رہتی ہے۔ جیسے ہی بادشاہ کی نظر اس پر پڑتی ہے اسے پانے کی ہوس اس کے دل میں جاگ اٹھتی ہے۔

ایک منصوبے کے تحت وہ ہمایوں فال کی دعوت کرتاہے اور اسے شطرنج میں شکست دیکر مقررہ شرط کے مطابق ندی میں کودنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہمایوں فال جوں ہی غوطہ لگاتا ہے ایک مچھلی اسے نگل جاتی ہے۔ اس واقعہ کی خبر سن کر سمن بر کا برا حال ہوجاتا ہے، وہ بادشاہ کے مکر و فریب کو سمجھ جاتی ہے اور اس سے متنفر ہو جاتی ہے۔

دوسری طرف مصر کا بادشاہ بیٹے کی جدائی میں دن رات آنسوبہاتا رہتا ہے۔ کسی نے آکر شہزادے کے دغا سے مارے جانے کی خبر دے دی، بادشاہ غصے میں آگ بگولہ ہو جاتا ہے اور سند پر چڑھائی کر دیتا ہےاسے فتح ملتی ہے۔ سند کا بادشاہ گرفتار کر لیا جاتا ہے، طلسمی مچھلی کے ذریعے جو سندھ کے بادشاہ کے خزانے میں رہتی ہے ہمایوں فال کا پتہ چلتا ہے جو پریوں کے قید میں فرفتار رہتا ہے۔

ادھر سمن بر ہمایوں فال کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے پریوں کے علاقے میں پہنچ جاتی ہے جہاں پریوں کی رانی ملک آراء سے مل کر سارا واقعہ سناتی ہے۔ ملک آراء کے حکم سے جن اور پریاں مل کر ہمایوں فال کو ڈھونڈ نکالتی ہیں۔ اس طرح سمن بر اور ہمایوں فال دوبارہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ دونوں بادشاہوں کو اس کی خبر ملتی ہے کہ ان کے بچے زندہ ہیں اور صحیح سالم ہیں دونوں بہت خوش ہوتے ہیں۔ ہمایوں فال اپنے ملک پہنچ کر تخت پر بیٹھتا ہے ہر طرف خوشی کے شادیانے بجنے لگتے ہیں۔

مثنوی پھول بن میں کل چھ قصے ہیں، جن میں تین مرکزی اور تین تعارفی قصے ہیں۔

پھول بن کے مرکزی قصے ہیں حسب ذیل ہیں:

(۱)سمن بر اور ہمایوں فال کا قصہ سب سے اہم ترین قصہ ہے۔

(۲)جوگیوں کا معتقد بادشاہ اس کا دھوکے باز وزیر اور رانی ستونتی کا قصہ۔

(۳)ختن کے سوداگر کا بیٹا(بلبل) اور گجرات کے عابد کی بیٹی(گل) کا قصہ۔

تعارفی قصے حسب ذیل ہیں:

(۱)کنچن پٹن کے بادشاہ(جس کے ارد گرد پوری مثنوی گردش کرتی ہے) اور درویش کا قصہ۔

(۲)ملک خراسان کے پردھان کا قصہ۔

(۳)چین کے نقاش کے وارد ہونے کا قصہ۔

پھول بن کے اہم کردار

سمن بر: ملک عجم کے بادشاہ کی بیٹی اور ہمایوں فال کی معشوقہ۔

ہمایوں فال: مصر کا شہزادہ، سمن بر کا عاشق۔

ملک آراء: پریوں کی رانی۔

درویش: ملک خراسان کے پردھان کا بیٹا۔

گل: گجرات کے عابد کی بیٹی۔

بلبل: ختن کے سوداگر کا بیٹا۔

کشمیر کا بادشاہ: جس کی مدد سے گل و بلبل اپنی اصلی ہیئت پر واپس آتے ہیں۔

جوگی: بادشاہ کو نقل روح کا منتر سکھاتا ہے۔

رانی ستونتی: راجا کی بیوی جو نہایت ہی پاکدامن خاتون رہتی ہے۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں