فلسطین: مذہبی اہمیت اور تاریخی پس منظر

فلسطین – مذہبی اہمیت اور تاریخی پس منظر۔

 مفتی ولی اللہ مجید قاسمی۔

اسلام میں جن مقامات کو مقدس ،متبرک اور زیارت گاہ قرار دیا گیا ہے ان میں ایک اہم مقام سرزمین فلسطین ہے۔ یہ نبیوں اور رسولوں کی سرزمین ہے، اور خاصان خدا کا مرکز ومسکن ، قرآن کریم میں ایسے پچیس نبیوں کا ذکر آیا ہے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق اسی علاقے سے ہے، اس کی اسی عظمت اور اہمیت کے پیش نظر قرآن حکیم میں اس کی قسم کھائی گئی ہے، ارشاد ربانی ہے :
والتين والزيتون وطور سينين وهذا البلد الامين۔ (سورہ التین:1-3)
قسم ہے انجیر، زیتون ،طور سینا اور اس امن والے شہر کی۔
انجیر اور زیتون بول کر ملک شام اور فلسطین مراد لیا گیا ہے کہ ان جگہوں میں یہ دونوں پھل کثرت سے ہوتے ہیں جیسا کہ رئیس المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس کی رائے ہے (فتح القدیر للشوکانی ۔466/5)
دوسری جگہ اسے مقدس شہر کا خطاب دیا گیا ہے چنانچہ ارشاد باری ہے :
يا قوم ادخلوا الارض المقدسة التي كتب الله لكم۔ (سورہ المائدہ:21)
 اے قوم! اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے۔
  حضرت عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ ” مقدس سرزمین سے مراد فلسطین ہے. (احکام القرآن للجصاص 42/4) 
  یہی وہ مبارک شہر ہے جسے ملت حنیف کے داعی حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بناتے ہیں ، اسی خاک سے حضرت اسحاق و یعقوب علیہ السلام اٹھتے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر سے اس علاقے میں آبسنے کا وعدہ کیا گیا تھا، حضرت داؤد و سلیمان علیھما السلام نے اسی حصے میں عظیم مملکت قائم کی، یہ حضرت یحییٰ  و حضرت زکر یا علیہما السلام کا وطن ہے ،حضرت ادریس و حضرت الیاس علیہما السلام نے اسی کے ذره خاک کو آسمان کی رفعت عطا کی ، اور یہیں سے حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے ، اور یہیں سے آخری نبی جناب رسالت مآب آسمانی سفر کے لئے تشریف لے گئے ۔ بیت مقدس کے راستہ سے آسمان پر اس لئے  لے جایا گیا تا کہ اس کی عظمت ظاہر ہو، اور اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ جلد ہی مسجد حرام اور مسجد اقصی کی امانت خائنوں اور بد عہدوں سے چھین کر آپ صلی اللّٰه علیہ وسلم کے حوالے کی جائے گی اور اب ان مقدس گھروں کے آپ ہی وارث ہوں گے ،ورنہ تو مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ سے آسمان کے راستے میں کوئی فرق نہیں ہے، اس عظیم الشان اور یادگار واقعہ کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
سبحان الذي اسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام الى المسجد الاقصى الذي باركنا حوله لنريه من آيتنا انه هو السميع البصير (سورہ بنی اسرائیل:1)
 پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے (محمد ﷺ ) کو شب کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی، جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تا کہ ہم ان کو اپنے کچھ عجائبات دکھلا ئیں، حقیقت میں وہی سب کچھ سنے والا اور دیکھنے والا ہے۔ 
 احادیث میں معراج کا واقعہ بڑی تفصیل سے مذکور ہے ، حضرت انس سے حقول روایت کے ابتدائی حصہ میں ہے :
اتيت بالبراق وهو دابة ابيض طويل فوق الحمار دون البغل يضع حافره عند منتهی طرفه قال فركبته حتى اتيت بيت المقدس قال فربطته بالحلقة التي يربط بها الانبياء قال ثم دخلت المسجد فصليت فيه رکعتین (صحیح مسلم 91/1, کتاب الایمان)
اسی مسجد میں آپ ﷺ نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا: 
فحانت الصلوۃ فاممتھم (صحیح مسلم 96/1) 
نماز کا وقت ہو گیا تو میں نے تمام انبیاء کی امامت کی۔ اللہ واحد کی کبریائی کا اظہار اور عبودیت کیلئے روئے زمین پر سب سے پہلے مکہ المکرمہ میں کعبہ کی تعمیر
عمل میں آئی ، چنانچہ قرآن پاک میں ہے:
 ان اول بيت وضع للناس للذى ببكة مباركا وهدى للعالمين (آل عمران:96) 
 وہ مکان جو سب سے پہلے لوگوں کے لئے بنایا گیا مکہ میں ہے، جو بابرکت گھر ہے اور جہان بھر کے لوگوں کیلئے رہنما ہے۔
اور اس کے بعد مسجد اقصی کی تعمیر ہوئی، جیسا کہ حضرت ابوذرغفاری سے منقول ہے کہ انھوں نے دریافت کیا:
یا رسول الله ای مسجد وضع فى الارض اول قال المسجد الحرام قال قلت ثم اى قال ثم المسجد الاقصى قلت كم بينهما قال اربعون عاما (بخاری و سلم۔ مشکاۃ 219/1)
 اللہ کے رسول اسب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ جواب ملا مسجد حرام۔ انھوں نے پوچھا اس کے بعد ؟ فرمایا: مسجد اقصیٰ ۔ انھوں نے سوال کیا دونوں کے درمیان کتنی مدت کا وقفہ تھا؟ فرمایا : چالیس سال۔
مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے درمیان اسی یگانگت  اور تعلق کی بنیاد پر آخری نبی ﷺ نے ایک مدت تک دونوں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے ، اور مکہ سے ہجرت کے بعد سترہ مہینے تک صرف بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی ، تا کہ دونوں مسجدوں سے آپ کا تعلق ظاہر ہو اور اللہ تعالیٰ کے محبوب نبی کو دونوں گھروں کی فضیلت حاصل ہو، اس مناسبت سے مسجد اقصیٰ کو قبلہ اول کہا جاتا ہے۔ سترہ ماہ کے بعد ہمیشہ ہمیش کے لئے مسجد حرام کو قبلہ مقرر کر دیا گیا۔ تحویل قبلہ کے اس واقعہ کو ان نے ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:
سيقول السفهاء من الناس ما ولهم عن قبلتهم التي كانوا عليها (سورہ البقرہ:142)
بیوقوف لوگ کہیں گے کہ کیا بات ہے کہ مسلمان اپنے سابق قبلہ سے جس کی طرف وہ رخ کرتے تھے دوسری طرف پھر گئے۔ 
اسلام نے جن مقامات کو زیارت گاہ قرار دیا ہے، ان میں سے ایک مسجد اقصی بھی ہے اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
 لا تشد الرحال إلا إلى ثلثة مساجد مسجد الحرام والمسجد الاقصى و مسجدي هذا . (بخاری و مسلم ۔مشکاۃ219/1) 
 صرف تین مسجدوں کیلئے سفر کیا جاسکتا ہے مسجد حرام، مسجد اقصی اور میری مسجد۔ 
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باندی حضرت میمونہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا اللہ کے رسول ! ہمیں بیت المقدس کے بارے میں بتلائے تو آپ ﷺ نے فرمایا:
ارض المحشر والمنشر ائتوه فصلوا فيه فان صلوة فيه كالف صلاة فيما سواه قالت ارأيت من لم يطق ان يتحمل اليه ان ياتيه قال فليهد لها زيتا يسرج فيه فان من اھدى له زيتا كان كمن صلى فيه (ابن ماجہ و احمد )
 قیامت کے موقع پر وہ حشر و نشر کی زمین ہے ، وہاں جا کر نماز پڑھو، کیونکہ وہاں کی ایک نماز دیگر جگہوں کی ہزار نماز کے برابر ہے۔ انھوں نے دریافت کی جو شخص وہاں جانے کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔ آپ  نے فرمایا کہ اس کے لئے تیل بھیج دے جس سے وہاں چراغ جلایا جاسکے، کیونکہ وہاں کیلئے تیل بھیجنے والا بھی وہاں نماز پڑھنے والے کی طرح ہے۔ 
 حضرت عبد اللہ بن عمرو سے منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
لما فرغ سليمان بن داود من بناء بيت المقدس سال الله ثلاثاً حكما يصادف حكمه و ملكا لا ينبغي لاحد والا يأتي هذا المسجد أحد لا يريد إلا الصلاة فيه إلا خرج من ذنوبه  كيوم ولدته أمه فقال النبي صلى الله عليه وسلم اما الاثنتان فقد اعطيهما وارجوا ان يكون قد اعطى الثالثة (ابن ماجه و احمد.) 
حضرت سلیمان علیہ السلام جب بیت المقدس کی تعمیر کر چکے تو انھوں نے اللہ تبارک و تعالی سے تین دعا کی ۔ ایسے فیصلہ کی صلاحیت جو اللہ کی مرضی کے موافق ہو، ایسی سلطنت جو ان کے بعد کسی کیلئے مناسب نہ ہو اور اس مسجد میں جو شخص بھی صرف نماز کے ارادے سے آئے اسے گناہ سے اس طرح پاک وصاف کر دیا جائے جس طرح بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان کی دو دعا تو قبول ہوگئی اور تیسری کے متعلق مجھے امید ہے کہ وہ بھی قبول ہوگئی ہوگی۔ حضرت ابو امامة سے منقول ہے کہ رسول اللہ اللہ نے فرمایا :
 لا تزال طائفة من امتى على الدين ظاهرين لعدوهم قاهرين لا يضرهم من خالفهم الا ما اصابهم من لاواء حتى ياتى امر الله و هم کذلک قالوا يا رسول الله و این هم قال بيت المقدس و اكناف بيت المقدس (ابن جرير الطبري، مسند عمر (٢/٨٢٣) • إسناده صحيح)
  میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ دین پر قائم رہے گی ، اور اپنے دشمنوں پر غالب ہوگی ، ان کا مخالف انہیں گزند نہ پہونچا سکے گا، البتہ انہیں بدحالی سے سابقہ پیش آئے گا ، یہ لوگ اسی حالت پر قیامت رہیں گے صحابہ نے پوچھا اللہ کے رسول یہ لوگ کہاں ہوں گے، فرمایا بیت المقدس اور اس کے اطراف میں۔ 
  حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ نبی اللہ نے فرمایا:
   ان لي حوضاً ما بين الكعبة و بين المقدس ابيض مثل اللبن آنيته عدد النجوم واني لاكثر تبعا يوم القيامة (سنن ابن ماجه 438/2)
میرے لئے ایک حوض ہے جو کعبہ اور بیت المقدس کے درمیان ہوگا ، جو دودھ کی طرح سفید ہے، اس کے پیالوں کی تعداد ستاروں کے برابر ہے، اور قیامت کے دن سب سے
زیادہ پیرو کار میرے ہوں گے ۔ 
نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ حرم بيت مقدس دجال کے فتنوں سے محفوظ رہے گا (حوالہ مذکور) امام مہدی کا ظہور وہیں سے ہوگا ۔ (ترمذی، ابن ماجہ، طبرانی۔فضائل بیت المقدس/72) وغیرہ ۔
 ان احادیث سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک مسلمان کے لئے بہت مقدس اور فلسطین کی کس قدر اہمیت ہے؟اور اس کے حصول کے لئے کوشش ایک مذہبی فریضہ اور ذمہ داری ہے، نہ تویہ کوئی سیاسی مسئلہ ہے اور نہ آزادی وطن کی تحریک بلکہ ایک دینی اور مذہبی مسئلہ  ہے۔
فلسطین عہد بعہد : 
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وطن عراق کا مقام ” ار” تھا (توریت ۔کتاب پیدائش۔باب 15,7) لیکن جب وہاں دعوت حق کی تمام راہیں بند ہو گئیں، باپ نے نکل بھاگ جانے ورنہ سنگسار کرنے کی دھمکی دی، قبیلہ اور خاندان دشمنی پر کمربستہ ہو گیا، حکومت وقت نے جلا کر مار ڈالنے کی ناتمام کوشش کی ، تو آپ نے بحکم الہی سرزمین فلسطین کی طرف ہجرت کی، جس کا قدیم نام کنعان تھا ، ارشادر بانی ہے:
 ونجيناه و لوطا الى الارض التي باركنا فيها للعالمين۔ (الانبياء :41)
  ہم نے ابراہیم اور لوط کو اس سرزمین میں پناہ دی جسے ہم نے دنیا والوں کے لئے با برکت بنا رکھا تھا۔
اور توریت کتاب پیدائش میں ہے: 
سو ابراہیم خداوند کے کہنے کے مطابق روانہ ہوا اور لوط بھی تو وہ ملک کنعان آئے ، اس وقت ملک میں کنعانی تھے ۔ ( پیدائش باب 12)
جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین تشریف لائے ، توریت کے بیان کے مطابق اس وقت وہاں متعدد قومیں آباد تھیں جیسے کنعانی، فرزی، فلستی ، یبوسی وغیرہ ، یہ سب عرب قومیت کی حامل تھیں اور3000ق، م کے مابین آباد تھیں ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو صاحبزادے تھے ، حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام – حضرت اسماعیل علیہ السلام جزیرۃ العرب میں آباد ہوئے اور حضرت ابراہیم نے انہیں لے کر خانہ کعبہ کی تعمیر فرمائی ، دوسرے فرزند حضرت اسحاق اور بھتیجے حضرت لوط علیہما السلام نے فلسطین کو اپنا وطن بنایا اور یہیں پر مسجد اقصی تعمیر کی گئی۔
حضرت اسحاق علیہ السلام کے فرزند حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے پورے خاندان کے ساتھ مصر منتقل ہو گئے ، اور پھر تقریباً پانچ سو سال کے بعد بنی اسرائیل حضرت موسی و هارون علیهما السلام کی قیادت میں فلسطین کے لئے روانہ ہوئے ( واضح رہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام اسرائیل ہے۔ اسی مناسبت سے قوم یہود کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے ) اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: 
یٰقَوۡمِ ادۡخُلُوا الۡاَرۡضَ الۡمُقَدَّسَۃَ الَّتِیۡ  کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمۡ وَ لَا تَرۡتَدُّوۡا عَلٰۤی  اَدۡبَارِکُمۡ فَتَنۡقَلِبُوۡا خٰسِرِیۡنَ(سورہ المائدہ: 21 
اے میری قوم ! اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے واسطے لکھ دی ہے، اور اپنی پشت کے بل پیچھے نہ لوٹو، ورنہ پلٹ کر نامراد جاؤ گے۔
 لیکن فرعون کی غلامی کے اثرات اس قوم میں اس قدر رچ بس گئے تھے کہ انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس دردمندانہ خطاب کا بڑا بزدلانہ جواب دیا ۔ 
 قالوا يا موسى ان فيها قوما جبارين وانا لن ندخلها حتى يخرجوا منها ۔۔ (المائده:22)
  کہنے لگے موسیٰ ! وہاں تو بڑے زبر دست آدمی ہیں، جب تک وہ وہاں سے نہ نکل جائیں ہم وہاں ہرگز قدم نہ رکھیں گے۔
  قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِنَّا لَنۡ  نَّدۡخُلَہَاۤ  اَبَدًا مَّا دَامُوۡا فِیۡہَا فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ  اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ ۔(سورہ المائدہ:24)
وہ کہنے لگے : اے موسیٰ ! جب تک وہ لوگ اس (ملک) میں موجود ہیں، ہم ہرگز ہرگز اس میں قدم نہیں رکھیں گے (اگر ان سے لڑنا ہے تو) تو بس تم اور تمہارا رب چلے جاؤ، اور ان سے لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔
 بلکہ توریت کے بیان کے مطابق ایک گروہ نے اس موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا اور اس سرکشی اور بغاوت کی پاداش میں یہ چالیس سال تک ایک میدان میں حیران و سرگرداں پھرتے رہے یہاں تک کہ ایک نسل ختم ہوگئی ، اور پھر حضرت یوشع کی قیادت میں فلسطین میں داخل ہوئے لیکن یہاں آنے کے بعد انھوں نے قدیم بت پرست قوموں کی روش اختیار کی ، اپنی صفوں میں اتحاد باقی نہ رکھ سکے ، بلکہ ہر قبیلہ مختلف علاقوں پر قبضہ کیلئے ایک دوسرے سے برسر پیکار تھا، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا مشرک قوموں نے مل کر ان پر حملہ بھی کر دیا، اور انہیں فلسطین کے ایک بڑے حصے سے بے دخل کر دیا (بنی اسرائیل کی بت پرستی اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے خلاف ان کی بغاوت کی تفصیل کے لئے دیکھئے:توریت۔گنتی ۔باب 13تا16.استثناء۔باب 6تا10وغیرہ)
آخر بنی اسرائیل کی درخواست پر اللہ تبارک و تعالی نے ان کے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دیا جس کی سرکردگی میں مشرکوں کے خلاف جنگ لڑی گئی اور مومنوں کو کامیابی نصیب ہوئی سورہ بقرہ میں تفصیل سے یہ واقعہ مذکور ہے۔ یہ واقعہ 1020 ق م  کا ہے، اس کے بعد حضرت داؤد ( 1004-965 ق م) اور حضرت سلیمان علیہما السلام نے ایک بے مثال سلطنت قائم کی اور پورے فلسطین میں کہیں بھی مشرکوں کی حکومت باقی نہ رہی ، صرف شمالی اور جنوبی فلسطین پر دو مشرک ریاستیں بچ گئی تھیں جو اسلامی حکومت کو ٹیکس ادا کرتی تھیں ، انہیں کے دور میں مسجد اقصیٰ کی توسیع ہوئی ، اور ایک عظیم الشان عبادت خانہ بنایا گیا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد یہودی پھر آپسی اختلاف کا شکار ہو گئے اور شمالی و جنوبی فلسطین میں دو الگ الگ حکومتیں قائم ہو گئیں ،  سامریہ اور یہودیہ۔
 یہ وہ دور تھا جب ان میں شرک اس درجہ سرایت کر گیا تھا کہ اللہ کے برگزیدہ بندوں اور نبیوں نے اصلاح کی کوشش کی تو ان کے قتل کے درپے ہو گئے۔ اسرائیلی فرمانروا “اخی اب” ایک مشرک کی شہزادی سے نکاح کر کے خود شرک و بت پرستی کا داعی بن گیا، حضرت الیاس علیہ السلام نے اس کو گمراہی سے روکا تو ان کا جانی دشمن بن گیا۔
سارگون کا حملہ:
 جب ان کی سرکشی اور شرارت حد سے آگے بڑھ گئی تو غضب خداوندی اشوری حکمراں سارگون کی شکل میں نمودار ہوئی اور متعدد حملوں کے ذریعہ اس نے ریاست سامریہ کا نام ونشان مٹا دیا ۔ہزاروں اسرائیلی ذبح کر دیئے گئے اور جو بچ گئے، انہیں اشوری سلطنت کے مختلف اضلاع میں بکھیر دیا گیا۔ اور ان کی جگہ عرب قومیں آکر آباد ہو گئیں۔ یہ721 ق ،م کا واقعہ ہے۔
بخت نصر کا حملہ : 
دولت یہودیہ کی تنزلی کی رفتار قدرے سست رہی ، اور اس لئے ان کو مہلت بھی ملتی رہی اگر چہ اشوریوں نے اس ریاست پر بھی متعدد حملے کئے لیکن یہ ریاست باقی رہی، یہاں تک کہ جب یہاں بھی علانیہ بت پرستی ہونے لگی ۔ انبیا علیہم السلام کی نصیحت پر عمل کے بجائے ان کی دشمنی پر آمادہ ہو گئے ۔ حضرت یرمیاہ علیہ السّلام کو حوالہ زنداں کر دیا۔ تو 587 ق م میں بابل کے حکمراں  بخت نصر نے پے بہ پے تین حملے کر کے یروشلم اور فلسطین کے تمام علاقوں کو تہ و بالا کر ڈالا ۔تمام بنی اسرائیل کو قید کر کے بھیڑ اور بکریوں کی طرح ہنکاتا ہوا بابل لے گیا ، اور یرمیاہ علیہ السّلام کی  پیش گوئی پوری ہوئی۔ بنی اسرائیل کی ملک بدری کے بعد دولت یہودیہ  میں بھی عرب قو میں آکر آباد ہو گئیں۔
ٹیٹس کا حملہ:
یرمیاہ نبی  نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ بی اسرائیل ستر ہیں بابل میں ذلت و خواری کے ساتھ غلام رہیں گے ، اور اس کے بعد پھر اپنے وطن میں آئیں گے (دیکھئے:صحیفہ یرمیاہ۔باب 19-10) چنانچہ ایرانی فرمانروا سائرس نے 539ق ،م  میں بابل کے بادشاہ کو شکست دے کر بنی اسرائیل کو اس کے ظلم و ستم سے نجات دلائی۔ اور 522ق م میں دارا اول کے فرمان اور مدد سے بیت مقدس کی دوبارہ تعمیر کی گئی جسے بخت نصر نے زمین دوز کر ڈالا تھا، اور یہودیوں کو پھر سے فلسطین آکر آباد ہونے کا موقع ملا لیکن یہ وقفہ بھی چار سو برس سے دراز نہ ہوا کہ یہودیوں کی مسلسل سازش سے تنگ آکر روی کمانڈر ٹیٹس نے70ء میں دوبارہ بیت مقدس اور ہیکل سلیمانی کی اینٹ سے اینٹ بجادی ، اس کی کوئی دیوار باقی نہ رہی ، ظالم نے اسے کھود کر پھینک دیا۔ 
بخت نصر اور ٹیٹس کے ذریعہ بنی اسرائیل کی ملک بدری اور مسجد اقصیٰ کی تباہی کا تفصیلی تذکرہ
خود قرآن میں مذکور ہے۔ (دیکھئے سورہ بنی اسرائیل) 
135ء میں ایک دوسرے رومی بادشاہ نے محسوس کیا کہ جب تک کوئی بھی یہودی یہاں موجود ہے ، ان کے لئے امن و سکون اور راحت کی فضا ناممکن ہے، اس لئے اس نے پورے فلسطین سے یہود کو نکال باہر کیا ، اس نے اس شہر کا نام تک بدل ڈالا، اور ہیکل سلیمانی کی جگہ رومی مندر تعمیر کی گئی ۔ اور یہودیوں کا وہاں داخلہ تک ممنوع قرار دیا گیا، آباد ہونا تو دور کی بات ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب فلسطین پر اسلامی جھنڈا لہرایا، اس وقت ان کو وہاں جانے کی اجازت دی گئی لیکن محسن کش قوم اس احسان کو کب مان سکتی ہے؟
ایرانیوں اور رومیوں کی آویزش:
  614 ء میں ایرانیوں کے سخت گیر اور تباہ کن حملے میں یہ شہر پھر تباہ ہوا، رومی مغلوب ہوئے اور ایرانی فاتح ، چونکہ رومی حضرت عیسی علیہ السلام کے ماننے والے اور اہل کتاب تھے ، اس لئے مسلمانوں کو جو ابھی مکہ میں کس مپرسی کی زندگی گزار رہے تھے، اس ہار کی وجہ سے دلی صدمہ پہونچا اور مشرکین مکہ کو ایرانیوں سے ذہنی مناسبت تھی ، اس لئے انہیں خوشی ہوئی اور مسلمانوں پر زہر میں بجھے ہوئے تیر بھی چلائے گئے ، اس موقعہ پر قرآن میں یہ پیش گوئی کی گئی کہ یہ رومی جلد ہی فاتح بن کر دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوں گے، چنانچہ چشم فلک نے یہ منظر دیکھا کہ وہ قوم جو ہر اعتبار سے کچل دی گئی تھی ، اور بظاہر اس کے ابھرنے کی کوئی امید نہ تھی ، دس سال کے قلیل عرصہ میں ایرانیوں کو ان کے وطن میں دفن کر ڈالا ، مقدس آتشکدہ تباہ و برباد ہو گیا۔ 
  یہ624 ء کا واقعہ ہے اور یہ وہی سال ہے جس میں مسلمانوں کو بدر کے میدان میں مشرکین کے مقابلہ میں بے مثال فتح نصیب ہوئی۔ 
فتح بیت المقدس :
  بیت مقدس سے مسلمانوں کا جو اسلامی اور جذباتی رشتہ ہے ، گذشتہ آیات واحادیث کی روشنی میں بخوبی واضح ہے، اور اسی تعلق اور رشتہ کی وجہ سے جناب رسالت مآب صلی اللّٰه علیہ وسلم کی دلی خواہش تھی کہ توحید کے اس دوسرے مرکز کو بھی کفر و شرک کی نجاستوں اور آلائشوں سے پاک رکھا جائے ، چنانچہ آپ اللہ نے اپنی حیات مبارکہ میں دو مرتبہ رومیوں سے جنگ کے لئے صحابه کرام کو روانہ کیا، یہاں تک کے 15ھ مطابق 636 ء میں وہ مبارک گھڑی آہی گئی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں قدسی صفات بندوں نے مسجد اقصی کے تقدس کو بحال کیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بذات خود تشریف لے جا کر رومی پادری کے ہاتھ سے یروشلم کی کنجی لیتے ہیں اور مشہور تاریخی معاہدہ لکھتے ہیں جس میں عیسائیوں کو ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی ضمانت اور دین و مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی جاتی ہے، پھر آپ مسجد اقصی کا رخ کرتے ہیں اور برسوں سے سجدوں سے پیاسی سرزمین قدسی صفات بندوں کے سجدوں سے سیراب ہوتی ہے، دوران قیام آپ نے مسجد اقصی سے کچھ دور پیچھے ہٹ کر ایک مسجد تعمیر کرائی جسے مسجد عمر کہا جاتا ہے۔
معرکہ ہلال و صلیب :
ہلال و صلیب کی معرکہ آرائی کی داستان بڑی طویل ہے، جو اپنوں کی سادہ لوحی بلکہ غیروں کا آلہ کار بننے اور مسلمانوں کے خلاف یہودیوں اور عیسائیوں کی سخت ترین عداوت اور بغض اور طرح طرح کی سازشوں سے عبارت ہے۔ 493 ھ مطابق 1099ء میں عیسائیوں کا لشکر جرار عالم اسلام پر حملہ آور ہوتا ہے اور مسلمانوں کے شومی اعمال کی وجہ سے بیت مقدس ان کے ہاتھوں سے چھن جاتا ہے۔ محاورتا نہیں بلکہ حقیقتا مسلمانوں کے خون کی ندی بہنے لگتی ہے ۔ستر ہزار مسلمان صرف مسجد اقصی کے صحن میں شہید کر دیے جاتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ جو احسان کیا تھا مسلمانوں کو اس کا بڑا “اچھا بدلہ” ملتا ہے،یہ قتل وغارت گری کی  ایک ایسی داستان ہے جسے لکھنے سے کلیجہ منہ کو آتا ہے، اور جسے سن کر پتھر کا سینہ پانی ہو جاتا ہے، لیکن صلیبیوں  کو اپنی حرکات پر کوئی شرمندگی نہیں ۔ بالآخر رحمت الہی جوش میں آتی ہے ، اور مرد مجاہد سلطان صلات الدین ایوبی کی قیادت میں 88 سال کے بعد  583ھ مطابق 1187ء مسجد اقصی پر دوبارہ اسلام کا پرچم لہرانے لگتا ہے، لیکن یہ ایوبی کا اسلامی ظرف تھا کہ اس نے مغلوب اور بے بس عیسائیوں کے ساتھ انتقامی  کارروائی نہیں کی بلکہ ان سے جزیہ لے کر شہر سے جانے کی اجازت دیدی اور جو جزیہ ادا نہ کر سکتے تھے ان کا جزیہ اپنے جیب سے ادا کیا۔ قبہ الصخرہ سے صلیب کو اتار کر اس کی جگہ
ھلالی پرچم نصب کیا۔
 اپنوں کی سادگی اور غیروں کی عیاری :
  بارہویں صدی عیسوی سے لے کر اٹھارہویں صدی عیسوی تک یہ مقدس شہر مسلمانوں کی تولیت میں رہا لیکن یہودی اور ان کے ساتھ عیسائیوں کیلے مسلمانوں کا وجود کا کانٹا بن کر چھبتارہا، اور وہ مسلسل سازشوں کے تانے بانے بنتے رہے ۔ 1880ء سے فلسطین میں جا کر آباد ہونے کی کوشش کرتے رہے، لیکن اس راہ میں ان کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ سلطان عبدالحمید کی ذات والا صفات تھی، وہ یہودیوں کو وہاں بسانے کی ہر ممکن مخالفت کرتے رہے۔ اگر چہ خلافت اسلامیہ مضمحل ہو چکی تھی لیکن وہ بڑا غیور انسان تھا، یہودیوں نے اسے لالچ دی کہ اگر وہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے پر آمادہ ہو جائیں تو یہودی ترکی کا تمام قرض ادا کر دیں گے لیکن سلطان کا غیرت مندانہ جواب تھا کہ میری زندگی میں تم فلسطین کی ایک انچ زمین بھی حاصل نہیں کر سکتے ہو اور میں تمہاری دولت پر تھوکتا ہوں۔ 
  1901ء میں مشہور یہودی مفکر اور یہودیوں کیلئے قومی وطن کا محرک اول ہرتزل نے سلطان کویہ پیغام بھیجا تھا اور ان کے جرات مندانہ جواب نے اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اس کے بعد یہودیوں نے سلطان کی معزولی کیلئے زیر زمین تحریک شروع کر دی ، جن کے لئے وہ مسلمان آلہ کار ثابت ہوئے جو مغربی تعلیم کی وجہ سے ترکیت کے علمبردار تھے، فری میسن اور ریاکارانہ اسلام قبول کرنے والے یہودیوں نے ان کی پشت پناہی کی ۔ بالآخر 1908ء میں سلطان کو معزول کر دیا گیا اور اس قوم کی بے حسی کی انتہا تھی کہ معزولی کا پروانہ لے جانے والے تین شخصوں میں ایک وہ یہودی بھی تھا جس کے ہاتھوں ہرتزل نے اپنا پیغام بھیجا تھا۔ سلطان عبدالحمید کے معزول ہوتے ہی یہودی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ۔نئی حکومت کے ذریعہ وہ قوانین منسوخ کرا دیئے گئے جس کے رو سے ان کا فلسطین میں جا کر آباد ہونا‌ ممنوع تھا، جس کے بعد فلسطین میں یہودی آباد کاروں کا سیلاب سا آگیا۔
جنگ عظیم اول سے پہلے لندن میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں غور و فکر کے بعد یہ طے کیا گیا کہ استعماری قوتوں کیلئے اصل خطرہ مسلمانوں سے ہے، ان کی تہذیب وثقافت ایک ہے ، اگر یہ ایک ہوجائیں تو سامراجی طاقتوں کا جینا دو بھر ہو جائے گا، لہذا اس کیلئے ضروری ہے کہ انہیں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے ، اور اس علاقے میں ایسی  مملکت قائم کر دی جائے جو افریقہ کو مغربی ایشیا سے الگ کر دے اور ان ریاستوں کی سرکشی کو لگام دینے کیلئے مملکت یہود کا قیام مناسب ہے ۔ یہ 1907ء کا واقعہ ہے۔ اس تجویز کے پیش نظر عربوں اور ترکوں میں اختلاف کی خلیج پیدا کرنا ضروری تھا چنانچہ اس کے لئے عرب قومیت اور ترکوں کے خلاف جذبات ابھارے گئے ، ان کے دل ودماغ میں عصبیت کی روح پھونکی گئی کہ وہ غیر عرب کی غلامی کے طوق کو اپنی گردن سے نکال پھینکیں چنانچہ عرب علاقوں میں متعدد ایسی تنظیمیں عیسائیوں کے زیر اثر وجود میں آگئیں جنھوں نے عربوں کے حقوق کو بہتر بنانے اور الگ حکومت کا مطالبہ شروع کر دیا۔ دوسری طرف ترکوں میں ترک قوم پرستی کا جذبہ پیدا کیا گیا، انجمن اتحاد و ترقی کا قیام عمل میں آیا جس نے بالآخر مصطفے کمال اتاترک کی قیادت میں  خلافت کو ختم کرنے کا “کارنامہ” انجام دیا۔ 
مسلمانوں کے درمیان باہمی آویزش کی یہ سازش کامیاب رہی ، جنگ عظیم اول 1914ء میں عربوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا اور ترک حکومت کے خلاف بغاوت کردی ، ان کی مدد سے انگریزوں نے فلسطین، عراق اور شام میں ترکوں کے خلاف کامیابی حاصل کی لیکن انگریزوں نے عربوں کو بڑا “اچھا صلہ” دیا کہ جس علاقے پر انھوں نے ان کی مدد سے قبضہ کیا تھا اس کو یہودیوں کے حوالے کر دیا گیا تا کہ وہ وہاں سے عربوں کو نکال باہر کریں اور دیگر ریاستوں کے عربوں کی سرکشی پر سرکوبی اور برطانوی وامریکی مفاد کا تحفظ ہو سکے۔
ایک طرف تو برطانیہ عربوں کو ترکوں کے مفروضہ ظلم و ستم سے نجات دلانے کی ذمہ داری لے رہا تھا ، ان کی خود مختاری اور عرب مملکت کی بنیاد رکھی جا رہی تھی ۔ دوسری طرف اپنے حلیفوں سے ایک دوسرا معاہدہ کر رہا تھا ، جس کی رو سے عالم عرب کو انگلینڈ اور فرانس کے درمیان تقسیم کر دیا گیا اور فلسطین کو یہودیوں کا حصہ قرار دیا گیا ، روس کے ذریعہ شریف حسین کو اس معاہدہ کی خبر مل چکی تھی مگر وہ انگریزوں پر ایمان لا چکا تھا ، لارڈ بالفور اسے یقین دلا رہا تھا کہ یہ سب جھوٹی خبر ہے، اور دوسری طرف اسی لارڈ نے 2 نومبر 1917ء کو یہودیوں کی قومی مملکت بنانے کا اعلان کیا (دیکھئے:سہ روزہ دعوت ۔خصوصی اشاعت/93) جس میں کہا گیا کہ شاہ برطانیہ کیلئے یہ خوشی کا باعث ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کیلئے ایک قومی وطن بنایا جائے۔حکومت برطانیہ اس مقصد کیلئے پوری کوشش کرے گی۔ 
اس اعلان کے وقت فلسطین میں یہودیوں کی تعداد پانچ فی صد بھی نہ تھی ، اور وہ انیس سو برس پہلے اس ملک کو چھوڑ کر دنیا کے مختلف حصوں میں بکھرے ہوئے تھے ۔ اس اعلان کے مطابق اسے یہاں لاکر آباد کرنا تھا اور جو قوم ڈھائی ہزار سال سے یہاں آباد چلی آرہی ہے اسے برباد اور بے گھربار کرنا تھا ، بد دیانتی اور ظلم وستم کی یہ وہ داستان ہے جس سے انگریزوں کی پوری تاریخ بھری پڑی ہے اس موقع پر لارڈ بالفور نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا :
ہمیں فلسطین کے متعلق فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے موجودہ باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے صیہونیت ہمارے لئے ان سات لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو اس قدیم سرزمین میں اس وقت آباد ہیں (ماہنامہ افکار ملی /19)
مجلس اقوام اور اقوام متحدہ کا کارنامہ : 
آنجہانی مجلس اقوام ہو یا اس کی جانشین اقوام متحدہ دونوں کے قیام کے پس پشت یہودی ذہنیت کارفرما ہے ، اور دونوں کے قیام کا مقصد یہودی اور مغربی مفادات کا تحفظ ہے جس پر دونوں کی پوری تاریخ گواہ ہے، 1922ء میں مجلس اقوام نے فلسطین کو انگریزوں کے زیر انتظام کر دیا کہ وہ وہاں مجلس اقوام کی نیابت کرتے ہوئے انتظامی امور کو چلائیں اور اس کے حوالے یہ کام کیا گیا کہ وہاں فلسطین میں یہودی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرے اور یہودیوں کو نظم ونسق میں شریک کرے ، وہاں کے قدیم باشندوں کے متعلق جو اس وقت بھی اکثریت میں تھے ۔ صرف یہ کہا گیا کہ ان کے مذہبی اور شہری حقوق کی حفاظت کی جائے ، ان کے سیاسی حقوق کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ، چنانچہ اس انتظامیہ نے غاصب وقابض قوم کو اقتدار میں شریک کیا۔ انھیں مسلح کیا گیا اور فوجی تربیت دی گئی ، اور مسلمانوں کو ان کی زمین سے جبرا بے دخل کیا گیا اور خوف و ہراس اور قتل و غارت گری کی فضا بنا کر ان کو ملک بدر کیا گیا،
انگریز انتظامیہ کے اس کارنامے سے مطمئن اقوام متحدہ نے 1947ء میں فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا، امریکہ نے زور زبردستی سے اس فیصلے کو پاس کروایا ، جس کے مطابق فلسطین کا 55 فی صد حصہ 33 فی صد یہودیوں کو دیا گیا اور 45 فی صد حصہ 67 فی صد مسلمانوں کو دیا گیا حلانکہ اس وقت فلسطین کا صرف چھ فی صد حصہ یہودیوں کے قبضہ میں آیا تھا ، یہ تھا انصاف کے علمبرداروں کا “انصاف” لیکن یہود اس “انصاف” پر بھی راضی نہ ہوئے ، اور انھوں نے انگریزوں کی مدد سے قتل وغارت کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ حصہ پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ، یہانتک کہ جب عرب ریاستوں نے مداخلت کی اور ان کی فوجیں فلسطین میں داخل ہوئیں تو 1948 میں اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرائی ، اور اس وقت یہودی 77 فیصد حصے پر قابض ہو چکے تھے۔ 
1967ء میں عرب ریاستوں نے اسرائیل پر متحدہ حملہ کیا لیکن انھیں اسرائیل کے مقابلے میں شکست ہوئی اور نتیجتاً فلسطین کا بقیہ حصہ بھی یہودیوں کے قبضہ میں چلا گیا مسجد اقصی اور قدس پر یہودی قابض ہو گئے ، اس جنگ میں امریکہ نے کھل کر اسرائیل کا ساتھ دیا تھا، اور سویت روس جس پر عربوں کو بڑا بھروسہ تھا کچھ کام نہ آیا ، یہودیوں اور عیسائیوں کے اس ناپاک اتحاد کے نتیجے اور مسلمانوں کی بے حسی، بے غیرتی اور بے دینی کی پاداش میں ایک مرتبہ پھر صلیب کا غلبہ ہو، گیا اور مسجد اقصیٰ کا تقدس پامال ہوا ، چنانچہ جنگ کے بعد سنڈے ٹائمز نے ایک کتاب شائع کی جس کا نام تھا (67) The Holy war june) اس کا جو باب بیت المقدس پر یہودی قبضے کے بیان میں ہے اس کا عنوان رکھا گیا ہے Back After 896 Years یعنی 896 برس کے بعد واپسی اب یہ ظاہر ہے کہ 896 سال پہلے بیت المقدس پر سے صلیبی عیسائیوں کا قبضہ ختم  کیا گیا تھا نہ کہ یہودیوں۔ کا اس کے صاف مطلب  یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ انگریزوں کی ہمدردی میں صلیبی جذبہ کام کر رہا تھا اور وہ اس لڑائی کو صلیبی جنگوں ہی کا حصہ سمجھتے تھے (ماہنامہ افکار ملی /22) غرضیکہ یہودی ریاست برطانیہ اور امریکہ کا خطر ناک سیاسی و فوجی مہرہ ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں، اور وہ مقصد ہے مسلمانوں سے صلیبی جنگوں کی شکست کا بدلہ۔
 یہودیوں کا خطرناک منصوبہ:
  یہودیوں کا یہ دعوی ہے کہ نیل سے لیکر فرات تک ان کا علاقہ ہے، چنانچہ اسرائیل کی پارلیمنٹ پر یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں ” اے اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے لیکر فرات تک ہیں” اس کے مطابق جو نقشہ ان کے پیش نظر ہے اس میں مصر، اردن ، شام مکمل طور پر اور عراق و ترکی کا کچھ حصہ اور مدینہ منورہ مکمل طور پر شامل ہے ، بقول ان کے یہ پورا علاقہ ان کے لئے خدائی عطیہ ہے جسے حاصل کرنا ان کی مذہبی ذمہ داری اور فریضہ ہے، اور جب تک کہ وہ ان علاقوں کو اپنی حکومت میں شامل نہ کرلیں گے ان کے عظیم تر اسرائیل کا خواب پورا نہ ہوگا ، اور اس خواب کی تکمیل کیلئے ہر طرح کا حربہ استعمال کرنا ان کے لئے عین مذہب ہے۔
ان کا دوسرا اہم منصوبہ اور مذہبی فریضہ مسجد اقصی اور قبہ صخرہ کو ڈھا کر کے ہیکل سلیمانی کو تعمیر کرنا ہے، کیونکہ اس کے بغیر متعدد یہودی رسمیں اور عبادتیں انجام نہیں دی جاسکتی ہیں، قدس پر قبضہ کے بعد وہ اس خواب کی تعمیل کر سکتے تھے لیکن اس کی راہ میں رکاوٹ ایک عقیدہ ہے ان کا خیال ہے ہیکل سلیمانی کی تعمیر مسیح موعود ہی کر سکتا ہے لیکن یہودیوں کی اکثریت لادین ہے اسے ان مذہبی روایتوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے اس لئے وہ مختلف ذریعوں سے مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں ، چونکہ مسلمانوں کی طرف سے شدید رد عمل کا اندیشہ ہے اس لئے احتیاطا ایسی تدابیر اپنائی جارہی ہیں جس کی وجہ سے مسجد اقصی خود بخود منہدم ہو جائے اور اسے حادثاتی واقعہ قرار دے دیا جائے۔
کامیابی تو کام سے ہوگی :
غرضیکہ تیرہ سو بس قبل مسیح یہودی فلسطین کے علاقے میں داخل ہوئے وہ یہاں کے اصل باشندے نہ تھے بلکہ قدیم باشندے دوسری قومیں تھیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق عرب سے تھا اور اور جن کے نام خود بائبل میں تفصیل سے مذکور ہیں، اور وہ شمالی فلسطین میں صرف چار سو سال اور جنوبی فلسطین میں زیادہ سے زیادہ آٹھ سو سال رہے اور عرب کم از کم شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار اور جنوب میں دو ہزار سال سے آباد چلے آرہے ہیں فلسطین میں قوم یہود کو کبھی بھی قدم جمانے کا موقع نہ ملا اور حضرت داؤد وسلیمان علیہما السلام کے دور میں جسے یہود اپنی تاریخ کا سنہرا دور قرار دیتے ہیں۔ اس وقت بھی وہ ان علاقوں کے مالک نہیں ہوئے تھے جن پر” عظیم تر اسرائیل” کے نقشہ کے مطابق ان کا دعوی ہے ، شام، مصر، تر کی عراق حجاز یہ سب ان کے دائرہ حکومت سے خارج تھا۔
یہ صحیح ہے کہ یہودی ایک دور میں دنیا کی افضل ترین قوم تھی اس پر اللہ کی نعمتوں کی مسلسل بارش ہو رہی تھی ، (دیکھئے:سورہ البقرہ:47) لیکن اس کی بنیاد نسل اور قوم پر نہیں بلکہ وحدانیت اور حسن عمل پر تھی جیسا کہ خود تورات میں اس کی صراحت ہے، اور اس میں یہ بھی مذکور ہے یہ قوم اپنی بد عملی اور بد کرداری کی وجہ سے اللہ کی نگاہ سے گر جائیگی اور مختلف ملکوں میں تر بتر ہو جائیگی (تورات۔کتاب استثناء۔باب 28.آیت15-64) اور ان کے بعد ایک دوسری قوم جوان کے بھائی بنی اسماعیل سے ہوگی اسے اس منصب پر سرفراز کیا جائے گا (استثناء۔باب 18)
 اور مسلمانو! تمھیں بھی اس منصب پرنسل اور ذات کی بنیاد پر فائز نہیں کیا گیا ہے بلکہ جب ایک قوم کی اصلاح کی امید باقی نہ رہی تو پھر اس کی جگہ دوسری قوم برپا کی گئی ہے تا کہ اسے آزمایا جائے کہ وہ کیا کرتی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
 ثُمَّ  جَعَلۡنٰکُمۡ  خَلٰٓئِفَ فِی الۡاَرۡضِ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ  لِنَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ( سورة يونس: 14)
 پھر ہم نے ان کے بعد زمین میں تم کو جانشین بنایا ہے تاکہ یہ دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ؟
 بیت مقدس کے سقوط میں تمہارے عمل و کردار کو بہت زیادہ دخل ہے، یہ ہماری بد عملی کی سزا ہے ۔ لہذا فلسطین کے حصول کیلئے ہمیں اپنی روش بدلنی ہوگی ، اپنے کردار و عمل کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا ہوگا ، یہودیوں اور عیسائیوں کا طریقہ اختیار کرنے سے بچنا ہوگا جس کی وجہ سے وہ لعنت زدہ ، گمراہ اور اللہ کے غضب کا شکار ہوئے، نیز ہمیں اتنا طاقتور بنے کی کوشش کرنا ضروری ہے جس سے ہمارا دشمن پر لرزتا رہے، قرآن حکیم کا یہ حکم ہے :
اعدوا لهم ما استطعتم من قوة و من رباط الخيل ترهبون به عدو الله وعدوكم (سورہ الانفال 60)
 ان دشمنوں کیلئے جو قوت اور جنگی گھوڑے تم فراہم کر سکتے ہوا سے فراہم کر لو کہ اس کے ذریعہ تم اپنے اور اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ کرتے رہو۔ 
  یاد رکھو فلسطین کا سقوط عیسائیوں اور یہودیوں کی مشترکہ کوشش کا نتیجہ ہے، لہذا اس سلسلہ میں ان سے تعاون کی امید بچھو سے ڈنک نہ مارنے کی امید کے مترادف ہے، امریکہ اور اقوام متحدہ پر بھروسہ کرنے کے بجائے اللہ سے لو لگاؤ اور اس پر بھروسہ رکھو اور اس کے حکم کے مطابق جنگی ساز و سامان تیار کرو کہ یہ قومیں دلیل و حجت کی زبان نہیں بلکہ طاقت کی زبان سمجھتی ہیں لیکن اس کے لئے ایثار، قربانی اور مسلسل جد وجہد کی ضرورت ہے ، مسجد اقصیٰ اور مدینہ منورہ کی حفاظت کیلئے کیا تم خود کو اس کیلئے آمادہ کر سکتے ہو؟؟؟
(شائع شدہ ماہنامہ ضیاء الاسلام ۔شیخو پور اعظم گڑھ ۔
ستمبر ۔اکتوبر 2002)
اپنی راۓ یہاں لکھیں