سیدناعمرفاروق اعظمؓ عہدخلافت اورشہادت
یکم/محرم الحرام شہادت خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
نوربصیرت۔۔۔۔محمدمحفوظ قادری 9759824259
تاریخ عالم میں بہت کم شخصیات ایسی ملتی ہیں کہ جن کی ذات میں بے بناہ صلاحیتیں اورخوبیاں ایک ساتھ جمع ہوں،ان خوبیوں میں ایک طرف نظام حکومت میں مساوات،عدل وانصاف،مذہبی رواداری اپنے عروج پر ہو۔دوسری طرف فتوحات کا سلسلہ جاری ہو۔ساتھ ہی زہدوتقویٰ،روحانیت اوربصیرت بھی اپنے پورے عروج وکمال پر نظر آئے۔جب ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو سیدنا حضرت عمر فارق اعظم رضی اللہ عنہ کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔اسلامی تاریخ کی بے باک،اُلوالعزم وعبقری شخصیت،خسر رسول،بارگاہ رسالت کے انتہائی قریبی رفیق مملکت اسلامیہ کے خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں ہجرت نبوی سے چالیس سال قبل پیدا ہوئے۔آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے ایک سمجھدار فرزند تھے۔آپ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں جاکرحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب سے مل جاتا ہے۔آپکا نام’’عمر بن خطاب‘‘لقب ’’فاروق اعظم‘‘اور کنیت’’ابوحفصہ‘‘تھی۔پینتیس سال کی عمر میں اعلان نبوت کے چھٹے سال حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔حضرت عمر نے چالیس مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد اسلام قبول کیا تھا۔موئرخین کے نزدیک آپ انتالیس مردوں اور تیئیس عورتوں کے بعد اسلام میں داخل ہو ئے۔آپ سابقین عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔حضرت عمر سے پہلے جن لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا وہ خوف و حراس کی وجہ سے اپنے اسلام کو ظاہر نہیں کرتے تھے۔لیکن دعائے رسول کا ثمرہ حضرت عمر کی حالت ان لوگوں سے مختلف تھی جب آپ نے اسلام قبول کیا تو آپ علی الاعلان دشمنان اسلام کے دروازوں پر جاجا کر انہیں بتا تے تھے کہ ’’میں نے بت پرستی چھوڑکر دین اسلام کو قبو ل کر لیا ہے،کسی میں ہمت ہے تو میرے مقابلہ پر آجا ئے‘‘سب سے بڑے اسلام کے دشمن ابو جہل کے دروازے پر جا کر آپ نے اپنے مسلمان ہو نے کا اعلان کیا تو اس نے ڈرو خوف کی وجہ سے دروازہ کو بند کر لیا۔اسی طرح دوسرے تمام دشمنان اسلام کو آپ کے مقابلہ میں آنے کی ہمت وجرأت نہیں ہو تی تھی۔حضرت عمر کے اسلام لانے سے پہلے مسلمانوں میں یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنے اسلام کو ظاہر کرکے علی الاعلان خانہ کعبہ میں نمازادا کرسکیں،لیکن جب حضرت عمر مسلمان ہوئے تو آپ کے رعب اوردبدبے کی وجہ سے مشرکین سہمے سہمے سے رہنے لگے۔اس کے بعد مسلمان آزادانہ طور پر خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے لگے پھر مشرکین کی اتنی بھی ہمت نہیں ہوئی کہ مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکتے حقیقت یہی ہے کہ حضرت عمر بہت بڑے دلیر نڈر اور بے باکی کے ساتھ اپنی بات کو کہنے والے بزرگ شخص تھے۔مکہ سے جتنے بھی مہاجرین نے مدینہ کیلئے ہجرت کی وہ سب مشرکین مکہ سے چھپ چھپ کر خاموشی کے ساتھ ہجرت کر کے گئے۔لیکن جب حضرت عمر کی ہجرت کرنے کی باری آتی ہے تو آپ نے ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کردیااور ہاتھ میں تلوار لیکر سات مرتبہ تن تنہاخانہ کعبہ کا طواف کیا اور نمازادا کی،پھران سرداران قریش کو مخاطب ہو کر کہا جو خانہ کعبہ میں جمع تھے’’میں ہجرت کرکے مدینہ جا رہا ہوں جو اپنی ماں کو بے اولاداور اپنی بیوی کو بیوہ بنانا چاہے میرے مقابلہ پر آجائے‘‘اگر چہ حضرت عمر اس وقت اکیلے تھے لیکن اس ایمانی قوت کی للکار کے سامنے آنے کی کسی کو ذرہ برابر ہمت نہیں ہو ئی۔اسی رعب اور دبدبے کاذکر کرتے ہوئے محسن انسانیت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاقسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے اے ابن خطاب!(یعنی اےعمر)جب شیطان تمہیں کسی راستہ پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو تمہارے راستہ کو چھوڑکر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔حضرت عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہی ہجرت کرکے مدینہ پہنچ گئے تھے۔مکہ سے ہجرت کرکے جب مدینہ پہنچے تو وہاں بھی آپ کی بے باکی کا یہی عالم تھا کہ آپ ہر وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی جان قربان کرنے کو تیا ررہتے تھے۔اسلام قبول کرنے کے بعد آپ حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ رہے۔اسلام لانے کے بعد اُحدو حنین،خیبراورتبوک کی لڑائیوں میں آپ بہت ہی دلیری وجوانمردی کے ساتھ لڑے،اوران لڑائیوں سے یہ بھی ثابت ہواکہ آپ بہترین سپہ سالار بھی تھے۔اورآپ تمام غزوات میں بھی شانہ بشانہ شامل رہے۔اسلامی لشکر جب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیرسرپرستی فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہوا تو آپ اس معرکہ میں بھی سب سے آگے تھے۔غرض کہ ہمت وجرأت اور دلیری میں کوئی آپ کے مقابلہ کا نہیں تھا۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد 23/جماد ی الثانی 13ھ۔634ء کو تمام صحابہ کرام اور مسلمانوں نے بغیر کسی اختلاف کے حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی (یعنی خلیفہ ثانی مقرر کرلیا)۔644ء تک آپکا دور خلافت رہا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے ہی تمام صحابہ کرام میں حضرت عمر کو غیر معمولی عزت و عظمت وشہرت حاصل تھی۔سب آپ کا ادب واحترام کرتے اور آپ کے تقدس،تدبراور ہوش مندی کے قائل تھے۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بے پناہ عزیز تھے۔ایک روایت میں آتا ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے عمر سے بغض رکھااس نے مجھ سے بغض رکھااور جس نے عمر سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔حضرت عمرکے مقام و مرتبہ کو ظاہر کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتا۔صحیح بخاری اورمسلم کی روایت میں آتا ہے کہ خود پیارے نبی علیہ السلام نے اپنی حیات مبارکہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں بشارت سنائی تھی۔جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار کائنات حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنا خواب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ میں نے اپنے آپ کو ایک ایسے کنویں پر دیکھا جس پر ایک ڈول پڑا تھا۔میں نے کچھ ڈول پانی کے کھینچے،میرے بعد ابو بکر نے ڈول لے لیامگر ایک یا دو ڈول کھینچنے کے بعد وہ پیچھے کو ہٹ گئے،پھر عمر آئے انہونے اس طرح ڈول پر ڈول کھینچنے شروع کئے کہ میں نے کسی جواں مرد کو بھی اس طرح کھینچتے ہوئے نہیں دیکھا۔یہاں تک کہ چاروں طرف سے پیاسے آئے اور خوب سیراب ہو گئے۔اس حدیث کے متعلق ائمہ کرام کی رائے ہے کہ یہ حضرت ابو بکر صدیق کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف صاف اشارہ ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بالکل صحیح ثابت ہوا۔دنیا نے اس بات کو خوب اچھے طریقے سے دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورحکومت میں بے اندازہ بے پناہ فتوحات حاصل ہوئیں اوراسلام دور دراز تک پھیلتا رہا۔حضرت عمر کے بارے میں صحابہ کرام کیسی پاکیزہ رائے رکھتے اس کا اندازہ ان اقوال سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ’’مجھے روئے زمین پر حضرت عمر سے زیادہ کو ئی عزیز نہیں ہے‘‘اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے’’جب تم صالحین کا ذکر کرو تو حضرت عمر کو کبھی نہ بھولنا‘‘حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ’’عمر نہایت ہی تیز فہم اورتیز نظر تھے‘‘حضرت ابن عمر کا بیا ن ہے کہ ’’ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی آدمی کو حضرت عمر سے زیادہ ذکی اورذہین نہیں پایا‘‘یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں صحابہ کرام کے پاکیزہ خیالات تھے۔حضرت عمر کی ذات مبارک فی الحقیقت اسلام اور حکومت اسلامیہ کیلئے ایک نعمت عظمیٰ تھی،کیونکہ آپ کے دورحکومت میں نہ صرف اسلام کو خوب عروج حاصل ہو ابلکہ حکومت اسلامیہ ایک ایسی صف اول کی حکومت بن گئی جس نے بہت ہی مختصر سی مدت میں ملک پر ملک فتح کر ڈالے اوراسلام کو دور دور تک پہنچا کر اپنی عظیم الشان فتوحات سے ساری دنیا کو حیرت میں ڈال دیاتھا۔
حضرت عمر کا کردار اور ملکی خدمات:
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بہت ہی اعلیٰ کردار کے مالک تھے۔خدا نے آپ کو بہت ہی ذی شعور ،ہوش منداورسلجھی ہوئی عقل والا بنایا تھا۔آپ انصاف کرتے وقت دوست اوردشمن میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے۔جس کے حق میں فیصلہ جاتا اسی کو اس کا حق دلایا کرتے تھے۔آپ بہترین مدبر ہونے کے ساتھ لائق مند فوجی اور جرنیل بھی تھے۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی حضرت عمر نے اس کو اپنے دورحکومت میں خوب ترقی دی۔آپ مملکت اسلامیہ کے سپہ سالاروں اورافسروں پر بہت گہری نظر رکھتے تھے۔کسی سمجھدار سے سمجھدارحاکم کے بارے میں آپ کو معلوم ہوجاتا کہ اس نے سادہ زندگی ترک کرکے شاہانہ زندگی اختیار کرلی ہے تو آپ اس کو فوراً معزول کردیتے تھے۔سب سے بڑے اسلامی سپہ سالار حضرت خالد بن ولید سے بھی آپ بہت خفا رہتے تھے کیونکہ خالد بن ولید ضرورت سے زیادہ خرچ کیا کرتے تھے،آپ نے ان کو بھی اسلامی لشکر کی سرداری سے معزول کر دیا تھا،ساتھ ہی دوسرے بڑے سپہ سالارحضرت سعد بن ابی وقا ص فاتح ایران کے محل کو آگ لگوادی تھی اور ان کو معزول بھی کیا صرف اس لئے کہ سعد بن ابی وقاص نے ایرانی باد شاہوں جیسا لباس پہنا شروع کر دیا تھا۔ عوام کو ان کے انصاف کے بارے میں شکایتیں ملنا شروع ہوگئی تھیں۔آپ جس مسلمان کو بھی رومیوں یا ایرانیوں جیسا لباس پہنے ہوئے دیکھتے تھے تو اس لباس کو فوراًٍپھاڑ دیا کرتے تھے۔حضرت عمر خود بھی سادہ زندگی گزارتے تھے اور جو لوگ آپ کے ساتھ کام کرتے تھے آپ چاہتے تھے کہ یہ لوگ بھی عام مسلمانوں کی طرح سادہ زندگی گزاریں۔آپ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ جب شاہان وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اس مملکت اسلامیہ کے بادشاہ کے لباس میں پیوند لگے ہوئے دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے۔آپ بہت بڑے سخی اور فیاض انسان تھے جو بھی مال غنیمت آپ کے پاس آتااس کو غریبوں اور محتاجوں کے درمیان تقسیم فرمادیا کرتے تھے یہاں تک کہ اپنے لئے خود دوسرے وقت کے کھانے کیلئے بھی نہیں روکتے تھے۔آپ نے اسلام کے پرانے خادموں اوررسول اللہ کے خاندان والوں کیلئے وظائف مقرر کئے تھے۔حضور کے چچا حضرت عباس کا سالانہ وظیفہ دولاکھ درہم تھااورحضور کے دوسرے قرابت داروں کے وظائف بھی مقرر تھے۔جو لوگ بدر میں لڑے تھے ان کو پانچ ہزاردرہم سالانہ دیا جاتا تھااوراسی طرح جن مجاہدین نے شام،ایران اورمصر میں جنگی کار نامے انجام دیئے تھے ان کو بھی معقول پینشن دی جاتی تھی۔ رسول اللہ کی ازواج مطہرات کا وظیفہ دس دس ہزار درہم سالانہ مقرر تھا،لیکن حضرت عائشہ کو بارہ ہزاردرہم سالانہ دیا جاتا تھا۔نواسئہ رسول حضرت حسن اورحسین کاوظیفہ پانچ پانچ ہزاردرہم مقررتھا۔اس کے علاوہ دوسرے مستحق حضرات کے بھی حسب حیثیت وظائف مقرر تھے۔
ملکی اصطلاحات:
ملکی اصطلاحات میں بھی آپ نے بہت بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں۔آپ نے حکومت کا نظام وکارو بار چلانے کیلئے اسلامی مملکت کو صوبوں اوراضلاع میں تقسیم کیا۔
بیت المال کا شعبہ قائم کیا۔
عشرہ خراج کا نظام نافذ کیا۔
فوج کیلئے دفتر قائم کئے۔
رضاکاروں کی تنخواہیں مقرر کیں۔
ملک کی پیمائش کا رُول وقاعدہ جاری کیا۔
آپ ہی کے ذریعہ سب سے پہلے مردم شماری کرائی گئی۔
نہریں کھدوائی گئیں۔
شہر آباد کئے۔
مقبوضہ علاقوں کو باقاعدہ صوبوں میں تقسیم کیا۔
صوبوں کیلئے گورنر اور حکام مقرر کئے۔
جیل اور پولیس کا محکمہ قائم کیا۔
پرچہ نویسی یعنی سی آئی۔ڈی اورمخبروں کو مقرر فرمایا۔
سڑکیں بنوائیں۔
مسافروں کیلئے سڑکوں پر کنوئیں اور سرائیں تعمیر کرائیں۔
مفلوک الحال عسائیوں اور یہودیوں کیلئے روزینے مقرر کئے۔
مملکت اسلامیہ میں باقاعدہ سکے جاری کئے۔
آپ ملزموں کو سزا دینے میں بہت سخت تھے،کوڑے کی سزا کو آپ نے ہی ایجاد کیا تھاجیسا کہ ’’درئہ عمر‘‘ آج تک مشہور ہے۔
آپ راتوں کو خود گشت کرکے رعایا کا حال معلوم کیا کرتے تھے۔آپ ہی کے دور میں باجماعت نماز تراویح پڑھنا شروع کی گئی۔
آپ کے زمانہ کی فتوحات پر غور کرنے کے بعد عقل انسانی حیران رہ جاتی ہے آپ کی فتوحات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جو ملک آپ کے دور خلافت میں فتح ہو ئے انکا رقبہ 22 لاکھ مربع میل تھا۔اس 22لاکھ مربع میل کے اندر36ہزار شہر اور قلعے مسلمانوں کے قبضے میں آئے۔آپ نے دوبڑی طاقتوں ایران اورروم کو شکست دی،شام،فلسطین،مصر،خراسان،مکران وآزمینہ جیسے ملک آپ ہی کے زمانہ خلافت میں مملکت اسلامیہ میں شامل ہوئے۔ان تما م ملکوں میں مذہب اسلام چاروں طرف کو خوب پھیلتا چلا گیا۔بہرحال آپ کے دور حکومت میں اس قدر شاندار طریقے سے فتوحات حاصل ہوئیں جن کی مثال ملنا اس سے پہلے ساری دنیا کی تاریخ میں ممکن نہیں ہے۔اسلام کے اس عظیم الشان سپوت،سادہ مزاج،نڈراور بے باکی کے ساتھ اپنی بات کہنے والے مملکت اسلامیہ کے بادشاہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فتوحات سے اہل باطل اتنا گھبراگئے کہ آپ کے خلاف سازشوں کا جال بچھا دیا گیااور26 ذی الحجہ23ھ کو فجر کی نماز میں ابولئولئو فیروز نامی مجوسی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو زہر آلود خنجر سے شدید زخمی کردیاکئی دن تک آپ اس زخم کی تکلیف کو برداشت کرتے رہے،آخر اس زخم کی تاب نہ لاکر یکم /محرم الحرام24 ھ۔645ء کو امام عدل وانصاف،خلیفہ راشد،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائوں کا ثمرہ،امیرالمومنین فاتح عرب وعجم حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں جام شہادت نوش فرمایااور اُسی روزروضئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کی تدفین کی گئی۔آپ نے ساڑے دس سال خلافت کی۔اللہ رب العزت آپ کے عدل وانصاف کی جھلکیاں امت مسلمہ کو عطا فرماکر پھر سے نظام فاروقی قائم فرمادے۔آمین