سید قطبؒ-جہدِ مسلسل زندگی(پہلی قسط)
ذکی الرحمن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
یہ مضمون زیرِ طبع کتاب’’سید قطبؒ:مالہ وماعلیہ‘‘ [صفحات:266] کا پہلا چیپٹر ہے۔ اس کتاب میں اصلاً تکفیرِ امت کے حوالے سے سید قطبؒ کے افکار ونظریات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اہلِ ذوق اورعلمی وفکری تحریکات سے دلچسپی رکھنے والے اسے پڑھیں گے۔
٭٭٭
سید قطبؒ کو ہمارے ماضی وحال میں واقع ہونے والے فکری جہاد یا جہادی فکر کے حوالے سے ایک بلند وبالا راہنما اور ایک لمبی شاہراہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ان کا وجود ایک گھنا سایہ دار درخت تھا جس کی تناوری اور بارآوری بیسویں صدی کے ربع اول سے آج تک قائم اور دائم رہی ہے۔سید قطبؒ کی پوری زندگی کو اگر کسی ڈور سے باندھا اور کسی ایک عنوان کے تحت لایا جا سکتا ہے جس میں ان کی تمام فکری جولانیاں اور نظری اکتشافات منسلک ہوجائیں تو اس جامع ڈور اور ہمہ گیر عنوانِ زندگی کانام جہدِ مسلسل یا پیہم معرکہ آرائی ہوگا۔
سید قطب کی پوری زندگی نہ ختم ہونے والے معرکوں کا سلسلہ ہے جو انھوں نے پوری شجاعت اورپامردی سے لڑے۔ یہ معرکے ادبی میدان میں بھی لڑے، جہاں ایک نقاد اورتخلیق کار کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا۔ یہ معرکے فکری میدان میں بھی لڑے چاہے وہ سیاسی فکر ہو یا سماجی،یا اسلام کی نظریاتی اورتحریکی فکر ہو۔اس میدان میں بھی سید قطبؒ کی شہرت وقابلیت مقامی اور ملکی حدود سے نکل کرپوری دنیا میں پھیل گئی،بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ اسی وجہ سے سید قطبؒ دنیا سے رخصت ہوجانے کے باوجود اپنے فکری اثرات اورنظریاتی تلامذہ کی وجہ سے زندۂ جاوید ہیں۔
٭٭٭
سید قطبؒ (۱۳۲۴ھ/۱۹۰۶ئ- ۱۳۸۶ھ/ ۱۹۶۶ئ)کاپورانام سید قطب ابراہیم حسین شاذلی ہے۔’’سید‘‘ اصل نام ہے اور ’’قطب‘‘ خاندانی نسبت ہے۔ سید قطبؒ کا شمار ان اسلام پسند مفکرین ومصنّفین میں کیا جاتا ہے جنھوں نے بڑے پیمانے پر معاصر اسلامی بیداری کی تحریکوں اور جدید فکری رجحانوں کو متاثر ومرعوب کیا ہے اور جن سے تاثر وانفعال کا یہ عمل آج بھی پوری آب وتاب کے ساتھ جاری وساری ہے۔آپ کی ذات اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسے ڈھب پر تخلیق فرمائی تھی کہ ہمیشہ مباحثوں اور مناقشوں کا سلسلہ آپ کے بارے میں قائم رہے گا۔
سید قطبؒ کی پیدائش مصر کی سرزمین میں ضلع اسیوط کے ایک قصبے ’’موشا‘‘ میں ہوئی تھی۔آپ کا گھرانہ معاشی لحاظ سے متوسط اور وضع دار ومستور الحال سمجھا جاتا ہے۔ یہ خاندان اپنا انتساب وطنِ عزیز ہندوستان کی طرف کرتا ہے۔ سید قطبؒ کے اجداد یہاں سے ہجرت کرکے ملکِ مصر میں جابسے تھے۔
چھے برس کی عمر میں سیدقطبؒ نے قصبے کے پرائمری اسکول میں داخلہ لیا اور چار سال وہاں گزارے۔ان سالوں میں آپ نے ابتدائی تعلیم کے علاوہ قرآنِ کریم مکمل حفظ کیا۔
٭٭٭
سن۱۹۲۱ء میں سیدؒ حصولِ تعلیم کی غرض سے دارالسلطنت قاہرہ منتقل ہوئے،اور تعلیمی میدان میں ڈگری حاصل کرکے ایک پرائمری اسکول میں تدریسی خدمت انجام دینا شروع کر دی۔اس دوران آپ نے دارالعلوم قاہرہ (یونی ورسٹی)میں داخلہ لیا اور استعداد وصلاحیت پختہ کرنے والے شعبوں میں اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا۔ بعد میں ’’مدرسہ دارالعلوم العلیا‘‘ میں داخلہ لیا اور سن ۱۹۳۳ء میں فراغت پائی۔ اس کے بعد آپ نے کئی سال مسلسل ابتدائی مکاتب میں برسرِ ملازمت گزارے اور دمیاط،سویف اور حلوان جیسے علاقوں میں پوسٹنگ ہوتی رہی۔
دار العلوم قاہرہ میں اس زمانے میں امام حسنؒ البناء بھی طالبعلم تھے، یا تو وہ سید قطبؒ کے ساتھیوں میں شامل تھے یا ان سے چند سال آگے تھے۔تاہم دورانِ تعلیم دونوں میں کسی شناسائی کا ثبوت نہیں ملتاہے۔ امام حسنؒ البناء کی طرف ان کی توجہ پہلی بار امریکہ میں مبذول ہوئی جب انھوں نے ان کی شہادت پر وہاں سرکاری اہل کاروں کو جشن مناتے ہوئے دیکھا۔
٭٭٭
سن۱۹۴۴ء میں سید قطبؒ اپنے علاقے میں ابتدائی تعلیم کے مکاتب کے نگراں اور محتسب مقرر ہوئے،لیکن اس کے ایک سال بعد ہی ’’منسٹری آف کلچرل افیئرس‘‘ سے جڑگئے۔
قاہرہ میں قیام کے دوران سید قطبؒ نے انگریزی دانی پر خاص توجہ دی اور اس دور میں وہ انگلش ادب اورکلچر سے خاصے متاثر بھی ہوئے۔اس پر مستزاد یہ کہ آپ کے اندر ایک شعری وادبی اور فنی ملکہ چھپا ہوا تھااور فیاضِ ازل نے انھیں منفرد تنقیدی مزاج اور صلاحیت سے نوازا تھا۔ ان صلاحیتوں میں مزید ترقی اور پختگی پہلے مختصر عرصے کے لیے طہ حسین(۱۸۸۹ئ-۱۹۷۳ئ) اور پھر مستقل طور سے عباس محمود عقاد(۱۸۸۹ئ-۱۹۶۴ئ) سے شرف تلمذ ونیاز مندی حاصل کرنے سے بھی پیدا ہوئی۔ عباس محمود عقاد کے ساتھ سیدقطبؒ کی وابستگی اور عقیدت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ ادبی وشعری حلقوں میں انھیں عقاد کا دست گرفتہ اور شاگرد وجانشین تصور کیا جانے لگا تھا۔
مگر ایک قابلِ لحاظ مدت کے بعد سید قطبؒ کی اپنی مستقل فکر تشکیل پاتی چلی گئی،اور یہاں سے سیدقطبؒ نے اپنے استاد (عباس محمودعقاد)کے علم پر تکیہ کرنے کے بجائے ازخود علمی مراجع ومصادر سے براہِ راست استفادہ کرنے کو ترجیح دینا شروع کردی۔تاہم اس دور میں سید کی نغزگوئی اور شاعری کو ’’اپولو‘‘ (Apolo)شعری دبستان کا امتداد وامتزاج، اور ان کی ادبی اٹھان اور تگ وتاز کو عقاد کے مدرسۂ دیوان کی ترقی یافتہ شکل کے طور پر دیکھا جاتا رہا۔
سید قطبؒ کے اندر انتقادی صلاحیت بے پناہ تھی۔ ان کی کتاب ’’أصول النقد الأدبی‘‘ (Principles of literary Criticism)اس کا منھ بولتا ثبوت ہے۔عربی ادب کے بعض مورخین اور ناقدین نے اعتراف کیا ہے کہ یہ کتاب اپنی الگ شناخت،اہمیت اور امتیاز رکھتی ہے، تاہم اسے زیادہ شہرت ومقبولیت نصیب نہیں ہوئی۔شاید اس کی وجہ یہ رہی ہے کہ اسے لکھنے والا جلد ہی اسلام پسندوں کی صف میں شامل ہوگیا تھا اور اس کا شمار اسلامی موضوعات پر لکھنے والوں میں ہونے لگاتھا۔ چنانچہ ترقی پسنداور آزاد خیال ادباء ونقاد کے حلقوں میں ان کے اس کام کی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہوئی۔دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کتاب میں سید قطبؒ نے ادبی تنقید کے بارے میں جو نظریات پیش کیے تھے وہ اب ازکارِ رفتہ ہوچکے ہیں۔تاہم اس کتاب سے سیدؒ کی انتقادی صلاحیت نکھر گئی۔
پھریہی خداداد انتقادی صلاحیت ان کی دو کتابوں ’’التصویر الفنی فی القرآن‘‘ (Artistic Imagery in the Quran)اور ’’مشاہد القیامۃ فی القرآن‘‘ (Aspects of Resurrection in the Quran)میں نمایاں نظر آتی ہے۔ ان دونوں کتابوں کو علم وادب کے حلقوں میں بے نظیر وبے مثال مانا گیا ہے۔
٭٭٭
استاد محمودؒ عبدالحلیم نے اپنی کتاب ’’أحداث صنعت التاریخ‘‘(تاریخ ساز واقعات) میں ذکر کیا ہے کہ سید قطبؒ نے اپنی جوانی کے ایام میں قاہرہ کے ایک روز نامے ’’الأہرام‘‘ میں مضمون لکھا تھا اور تمام لوگوں کو مادر زاد برہنہ رہنے کی دعوت دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ماں کے پیٹ سے جس حالت میں نکلتے ہیں اسی فطری حالت پر ہمیں پوری زندگی گزارنی چاہیے۔استاد محمود عبدالحلیم بتاتے ہیں کہ میں نے ان کے ردّ میں ایک مضمون لکھا اوراشاعت کے لیے بھیجنے سے پہلے اسے امام حسنؒ البناء کو دکھایا۔ مؤخر الذکر نے اسے شائع نہ کرنے کا مشورہ دیا تاکہ سید قطبؒ کی یہ اباحیت پسندانہ فکر اپنی موت آپ مر جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ جواب اور جواب الجواب سے عام لوگوں کی دلچسپی بڑھتی ہے اور گاہے اس سے فکری گمراہی کا دائرۂ اثر وسیع ہوجاتا ہے۔
بہ ظاہر سید قطبؒ کے بارے میں یہ انکشاف بڑا حیرت انگیز اور عجیب ہے کیونکہ واقفِ حال لوگوں کے مطابق وہ زندگی کے کسی موڑ پر بھی اس قدر اباحیت پسند واقع نہیں ہوئے تھے۔ مگر دوسری طرف استاد محمودؒ عبدالحلیم کو بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا ہے، بالخصوص جب وہ اس معاملے میں امام حسنؒ البناء کو بھی شریک کر رہے ہیں۔(ابن القریۃ والکتاب، یوسف القرضاوی:۱/۴۲۸)
٭٭٭
سید قطبؒ کی سیاسی وابستگی بھی مختلف مدارج سے گزری ہے۔ان کی سیاسی نسبت کا سفر وفد پارٹی(حزب الوفد)اور سعدی فورم(الھیئۃ السعدیۃ) سے ہوتا ہوا ’’اخوان المسلمون‘‘ کی تحریک سے جڑنے پر ختم ہوتا ہے۔سیاسی زندگی کی طرح ہی،سید قطبؒ کی علمی وفکری زندگی بھی مختلف اورجداگانہ مراحل سے گزری ہے۔فکری وعلمی سفر کے آغاز میں آپ ایک شاعر، ادیب اور نقاد کی حیثیت سے سامنے آئے اور بیسویں صدی کی تیسری اورچوتھی دہائیوں میں متعدد اساطینِ علم وادب کے خلاف تنقیدی معرکوں میں سرگرم حصہ لیا۔اس فکری دور میں سید قطبؒ کی اسلامی شناخت کے تئیں محبت کمال اورپختگی کے درجے میں پہنچی ہوئی نظر نہیں آتی۔حالانکہ اس دور میں ان کی دینِ اسلام سے اعتقادی وتہذیبی وابستگی کا ثبوت ان کی اس کتاب میں بھی نظر آتا ہے جو انھوںنے طہ حسین کی کتاب’’مصر کا تہذیبی مستقبل‘‘(مستقبل الثقافۃ فی مصر)کی تنقید میں لکھی تھی۔
سیدؒ کی یہ کتاب سن۱۹۳۸ء میں بہ نام ’’نقد کتاب مستقبل الثقافۃ فی مصر لطہ حسین‘‘ (Critique of a Book by Taha Husain: the Future of Culture in Egypt)شائع ہوئی تھی۔
طہ حسین ایک خدا بیزار اور ہر دو لحاظ سے اندھا انسان تھا جس نے اپنی پوری زندگی دشمنانِ دین کا آلۂ کار بننے اور اسلام کو نقصان پہنچانے میں گزاری۔اپنی اس کتاب میں طہ حسین نے دعوی کیا تھا کہ ’’مشرقی عقل ودانش دراصل قدیم زمانے سے دانشِ یونانی کی اسیرودست نگر رہی ہے۔قرآنِ کریم نے بھی مشرقی عقل کی اس یونانیت زدگی میں کوئی قابلِ ذکر تغیر وتبدیلی نہیں پیدا کی،بالکل اُسی طرح جیسے اناجیلِ اربعہ نے مغربی عقل کی یونانیت زدگی میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا ہے۔اس سلسلے میں قرآن اورانجیل کے مابین کوئی خاص فرق نہیں ہے۔جب یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ ہم نے قدیم زمانے سے دانشِ یونان سے خوشہ چینی کی ہے تو کیوں نہیں ہم آج پھرمغربی تہذیب کو اس کی اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ،اس کی مٹھاس اورتلخی کے ساتھ اور اس کی قابلِ تعریف اورقابلِ مذمت احوال وخصائص کے ساتھ کھلے دل سے قبول نہیں کرلیتے؟‘‘ [العقل الشرقی ہو عقل یونانی منذ القدم وأن القرآن لم یغیّر من یونانیۃ ہذا العقل الشرقی کما لم یغیّر الإنجیل من یونانیۃ العقل الغربی لأن القرآن لا فارق بینہ وبین الإنجیل فی ہذا الأمر وإذا کان العقل الشرقی قد قبل الیونانیۃ قدیما فلِمَ لا یقبل الیوم الحضارۃ الأوربیۃ بخیرہا وشرہا، حلوہا ومرہا، ما یحمد منہا وما یعاب](مستقبل الثقافۃ فی مصر:ص۱۳۹)
سید قطبؒ نے طہ حسین کی اس فکری دریوزہ گری اورنظریاتی شکست خوردگی کا نہایت مدلل جواب دیا ہے۔سیدؒ کی تنقید یا تردید کا یہ حصہ دارالعلوم کے روزنامہ اخبار میں۱۹۳۹ء میں قسط وار شائع ہواتھا۔(تفصیل کے لیے دیکھیں:الانتماء الحضاری:للغرب أم الاسلام،الدکتور محمد عمارہ: ص۵۳-۱۵۹)
سید قطبؒ نے اپنی تنقید میں درج ذیل امور پر خاصا زور دیا ہے:
۱)قدیم زمانے میں مصر کبھی بھی یونانی فکر ومزاج میں نہیں ڈھلا تھا۔
۲)کسی بھی قوم یاامت کی عقلیت اور اس کے فکری رجحانات اور رویوںکی تشکیل وتعمیر میں دین فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔اس میں اسلام کی خصوصیت اور فاعلیت اور بھی زیادہ ہے کیونکہ یہ روحانی پہلو کے علاوہ انسانی زندگی کے معاشی، سیاسی اور اجتماعی پہلوئوں کو بھی منظم اور مرتب کرنے والے فرامین اور قوانین عطا ہے۔یہ ایسی خصوصیت ہیں جو قرآن کو انجیل سے اور اسلام کو مسیحیت سے ممتاز اور منفرد بنادیتی ہے۔
۳)یونانی فلسفوں نے قدیم تاریخ میں کبھی بھی مصری فکر ومزاج کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار نہیں نبھایا،کیونکہ تاریخ میں بہت کم مواقع پر ایسا ہوا کہ یونانیت نے مصر کی سرزمین میں صحرائے اسکندریہ سے باہر قدم بڑھائے ہوں۔اس کے برخلاف ’’منف‘‘جو قدیم مصر کا پایۂ تخت رہا ہے، اس نے ہمیشہ اپنے مخصوص فرعونی اور مصری مزاج اورتہذیب کا تحفظ کیا ہے۔یہ حال اس وقت بھی باقی رہا جب رومیوں نے مصر کو فتح کرلیاتھا۔اس وقت بھی مصر نے فاتحین کی تہذیب اورفکر کو ناپسند کرتے ہوئے حتی الامکان اعراض واغماض کا رویہ ہی اختیار کیے رکھا۔
۴)اسلام کی آمد پر زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ باشندگانِ مصر پوری رغبت ورضا کے ساتھ مسلمان ہوگئے اور اسلام کے زیرِ نگیں آئے دیگر ممالک کی مانند مصر بھی اسلامی تعلیمات اورنظام ہائے زندگی سے متاثر ہوا۔تب سے آج تک دانشِ اسلامی ایک اوریکساں رہی ہے اور اسلامی حکومتوں کے سیاسی تفرقے وانتشار کی وجہ سے کسی نوع کی تقسیم یا جزبندی کا شکار نہیں ہوئی۔
۵)مسیح علیہ السلام اور مسیحی تعلیمات کے مطابق دینِ مسیح اس کا دائرہ کار صرف شفاف روحانیت ، تزکیۂ باطن اور ترکِ دنیارہا ہے۔اس کے برعکس اسلام نے انسانی زندگی کے لیے مکمل نظامِ زندگی کی وکالت کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے انسانی زندگی اور عالمی سماج پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔قرآنِ کریم میں متعدد قوانین وتشریعات موجود ہیں۔دینی،اجتماعی،معاشی اور سیاسی پابندیاں اور حدود وتعزیرات ملتی ہیں۔درآںحالیکہ انجیل ایسے کسی بھی قسم کے فرامین، حتی کہ اشارات وتلمیحات سے بھی یکسر خالی نظر آتی ہے۔
۶)مغربی تہذیب اپنی اصل نمود میں ایک مادہ پرستانہ تہذیب ہے،اس لیے اس کے اور ہمارے عقائدوعادات اور ذہن وضمیر میں ایک گونہ تنفر اور تضاد پایا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے اس تہذیب کو بہ تمام وکمال اختیار کرنے والے قلیل التعدادمسلمان ہمیشہ ایک نفسیاتی الجھن اورکشمکش کا شکار رہتے ہیں اور اس وجہ سے ان کے دل کی دنیا میں قلق اور اضطراب برپا رہتا ہے۔
۷)طہ حسین کی خواہش ہے کہ ہم مغربی تہذیب کو اختیار کریں اور ہمارا اصرارہے کہ ہمارے ذاتی امتیازات وخصائص باقی رہنے چاہئیں۔دونوں میں تطبیق کا بہترین وسیلہ یہ ہے کہ ہم مغربی تہذیب کو دو حصوں میں تقسیم کردیں،ثقافت اور تمدن۔ہم مان لیں کہ ہماری ثقافت ہمارے دین،علوم ومعارف،اخلاقی تعلیمات اور قومی رسم ورواج پر مشتمل ہے۔ہمیں اس ثقافت کی حفاظت کرنی ہے اور ماضی کے ثقافتی ورثہ سے کسی حالت میں دست بردار نہیں ہونا ہے۔اس پہلو سے تجدید اورترقی اتنی مقدار میں ہی کی جائے گی جتنا کہ طبعی ارتقاء کا تقاضا ہو۔اس سے بالکل الگ چیز مدنیت یا تمدن ہے جو ہمارے صنعتی وعملی علوم وفنون پر مشتمل ہے۔اس تمدن کو ہم یورپ سے براہِ راست اوربلاکسی روک ٹوک کے لے سکتے ہیں۔ہم بھی اس پہلو سے جاپان کے مثل کارنامہ انجام دے سکتے ہیں کہ یورپین تمدن کو اپنا لیں اور اپنی ثقافت کے اصولوں اورتاریخی اقدار وروایات پر باقی رہتے ہوئے تمدنی خطوط پر اپنی پیش رفت اور ترقی کریں۔
٭٭٭
سن ۱۹۴۵ء میں سید قطبؒ نے اپنی پہلی مشہور اسلامی ادبی نگارش پیش کی جس کا نام ’’التصویر الفنی فی القرآن‘‘(Artistic Imagery in the Quran) تھا۔ اس کے چند سال بعد ان کی دوسری کتاب ’’مشاہد القیامۃ فی القرآن‘‘ (Aspects of Resurrection in the Quran)منظرِ عام پر آئی۔اول الذکر کتاب میں تھیوری پیش کی گئی تھی اور دوسری کتاب میں اسے رو بہ کار لایا گیا۔یہ دونوں کتابیں اس لحاظ سے بہت اہم ہیں کہ انھیں ہم سید قطبؒ کی اسلامی دعوتی مشن اور اقامتِ دین کے نصب العین سے وابستگی کی تمہید یا ابتداء یا دونوں مرحلوں کے بیچ ایک ہمزۂ وصل کہہ سکتے ہیں۔یہ انہی دونوں کتابوں کا نتیجہ تھا کہ سید قطبؒ قرآنی ہدایات واصلاحات پر لکھنے اور بولنے لگے، اگرچہ ابھی تک ان کے قرآنی مطالعے میں الفاظ کی ساختیات، اسلوب اور بلاغت وبیان کے پہلوئوں کو غلبہ حاصل تھا۔
٭٭٭
سن ۱۹۴۸ء میں اصلاح وتجدید اور تغیر وتبدیلی کے لیے اٹھنے والی اسلام پسند جماعتوں کے ساتھ ان کے فکری وتنظیمی روابط استوار ہونے لگے۔وہ اسلام کو ایک ابدی عقیدے اور مکمل نظامِ زندگی کی حیثیت سے دیکھ رہے تھے جو دنیا میں عدلِ اجتماعی قائم کر سکتا ہے اور انسانی سماج سے مکمل طور پر ظلم وستم کا خاتمہ کر سکتا ہے۔اسلامی شریعت کے اندر غریب اورپسماندہ طبقات کے حقوق کی بھرپور رعایت اور حفاظت کی گئی ہے اور اس کے لیے دو تدبیریں کی گئی ہیں۔ نمبر ایک قانونی تحفظ دیا گیا ہے، اور نمبر دو اخلاقی وروحانی تلقین وترغیب سے کام لیا گیا ہے۔
سید قطبؒ کی زندگی میں اس بدلائو کی کچھ ظاہری علامتیں بھی دکھائی پڑنے لگیں۔ مثال کے طور پر اب وہ مصر میں سماجی مظالم اور اجتماعی خرابیوں کے خلاف آواز اٹھانے لگے۔انھوں نے دیہاتوں میں قائم جاگیردارانہ نظام کی خرابیاں بتائیں۔ شہروں میں سرمایہ دارانہ نظام کی مکروہ صورتوں کو بے نقاب کیا جن میں سرِ فہرست ذخیرہ اندوزی اور کالابازاری تھی۔سید قطبؒ دیکھ رہے تھے کہ شہروں کے ساہوکاروں اور دیہات کے جاگیرداروں نے دو پاٹوں کی شکل بنالی ہے جن میں ملک کا محنت کش(مزدور اور کسان) طبقہ بری طرح پیسا جا رہا ہے۔
سیدؒ کی زندگی میں یہ رجحان اس وقت نمایاں ہوا جب انھوں نے ’نئی فکر‘(الفکر الجدید) نامی میگزین کی ادارت میں تعاون کیا جو اس وقت جماعت ’اخوان المسلمون‘ کا ترجمان ہوا کرتا تھا اور جس میں سماجی اصلاحات پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا تھا۔۔فکرِ جدید مجلہ کے جنوری۱۹۴۸ء کے شمارے میں انھوں نے اسلام کی معاشی اوراجتماعی فکر کی قانون سازی کا ایک خاکہ بھی پیش کیاتھا۔
اس عرصے میں آپ کے رشحاتِ قلم کمیونسٹ پارٹی کے نقیب مجلے ’’الاشتراکیۃ‘‘اور مصری کانگریس پارٹی کی بالا کمیٹی کی جانب سے شائع ہونے والے مجلے’’اللواء الجدید‘‘ میں بھی جگہ پاتے رہے۔سید قطبؒ کا یہ طبعی ارتقاء اسی کے ساتھ ادبی اورفنی تنقید نگاری میں بھی پختگی کا سبب بنا۔چنانچہ سن۱۹۴۹ء میں سید قطب نے مصری ڈرامہ نگار توفیق حکیم (۱۸۹۸ئ- ۱۹۸۷ئ) پر محض اس لیے شدید تنقید کی تھی کہ اس نے اپنے ڈرامے’’اودیب‘‘کے لیے یونانی دیومالائی خرافات اور بت پرستانہ عقائد وافکار کو مأخذ ومصدر بنایا تھاجو کہ صریح طور سے اسلامی تعلیمات وعقائد کے منافی ہیں۔
اپنے تنقیدی مضامین میں سید قطبؒ نے دعوت دی کہ ہمیں مغرب کے فنی سانچوں کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ مغرب کے اعتقادی والٰہیاتی تصورات کو۔
٭٭٭
سن۱۹۴۸ء کے اواخر میں سید قطبؒ نے امریکہ میں ایک سالہ قیام کے لیے سفر کیا۔ اس سفر کا مقصد تھا کہ وہاں کے تربیتی اورتعلیمی نظاموں اور اصولی طریقوں سے واقفیت بہم کی جائے۔ یہاں سید قطبؒ نے سر کی آنکھوں سے مغربی تہذیب کی مادہ پرستی،دنیا طلبی،آخرت بے زاری،اخلاقی دیوالیہ پن اوراعلیٰ انسانی اقدار وروایات سے تہی دامنی اور قلاشی کا نظارہ کیا۔ موجودہ مغربی تہذیب اپنی عظیم الشان مادی کامیابیوں کے علی الرغم لبرل اباحیت اورسرمایہ دارانہ استحصال کے گرداب میں پھنس کر بے سمتی کا شکار ہوگئی ہے۔اس سفر کے بعد ہی سید قطبؒ کے اندر اسلامی کاز کے لیے بھرپورعملی جدوجہد کا داعیہ اور جذبہ پیدا ہوا اور فکری ونظریاتی ہم آہنگی سے آگے بڑھ کر انھوں کرعملاًکچھ بڑا کرنے کا عزمِ مصمم فرمالیا۔
سید قطبؒ نے امریکہ میں اپنے قیام کے دوران دیکھا کہ امام حسنؒ البنا شہید(۱۹۰۶ء -۱۹۴۹ئ)کو جب بارہ فروری۱۹۴۹ء میں موت کے گھاٹ اتار دیاگیا تو امریکہ کے مذہبی اور فکری حلقوں میں بے اندازہ خوشیاں منائی گئیں۔اس سے سیدؒ کو احساس ہوا کہ اسلام بہ حیثیتِ نظامِ زندگی سے مغربی یا امریکی منافرت وعداوت آخری حد تک گہری اور راسخ ہے۔اسی زمانے میں انھوں نے’’الاسلام الأمریکانی‘‘نام سے ایک کتاب لکھی جو بعد میں ’’أمریکا من الداخل‘‘ (America from Inside)کے عنوان سے طبع ہوئی۔ کتاب میں انھوں بتایا کہ امریکہ یامغربی عالمی طاقتیں بالعموم کس قسم کے اسلامی ورژن کو انگیز کرسکتی ہیں اور وہ کیا کیا تبدیلیاں موجودہ مذہبی ڈھانچے کے خد وخال میں لانے کی خواہاں ہیں۔
وہ لکھتے ہیں:’’جس اسلام کو امریکہ اور اس کے مشرقی ومغربی حلیف چاہتے ہیں وہ ایسا اسلام ہے جو سامراجیت اور سامراجی عزائم کی مخالفت نہ کرتا ہو،وہ کسی طاغوتی طاقت کے سامنے خم ٹھونک کر نہ آتا ہو۔اس کی مخالفت وعداوت کا مرکز اور نشانہ اگر کچھ ہوتو وہ اشتراکیت اور اس کے علم بردار ہوں۔وہ کبھی گوارا نہیں کرتے کہ اسلام حاکمانہ پوزیشن پر آجائے،اور اگر کہیں ایسا ہوجائے تو اس پر ضبط وتحمل کا انھیں یارا نہیں ہوگا۔انھوں اچھی طرح معلوم ہے کہ اسلام کو اگر زندگی میں حاکمانہ پوزیشن حاصل ہوگئی تووہ تمام قوموں اور امتوں کو ایک بالکل دوسری ہی اٹھان بخش دے گا۔وہ اسلامی ممالک کو سکھا دے گاکہ عسکری اورسیاسی طاقت تیار رکھنا ایک دینی فریضہ ہے،اور سامراجیت خواہ کسی بھی شکل میں ہو، اس کا خاتمہ ضروری ہے اور یہ کہ اس پہلو سے امریکی استعمار ہو یا اشتراکی یلغار ہو،ہر ایک وبائی ہیجان ہے۔ان میں سے ہر ایک عالمِ اسلام کا دشمن ہے اور ہر ایک جبراً اسلامی دنیا پر قبضہ جمائے رکھنا چاہتا ہے۔امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کی خواہش ہے کہ وہ مشرقِ اسلامی میں امریکہ کا پسند فرمودہ اسلامی ورژن پروموٹ کریں۔وہ اسلام ایسا ہو کہ اس سے منعِ حمل کے بارے میں فتویٰ پوچھا جائے،خواتین کے پارلیامنٹ میں داخلے کی اجازت مانگی جائے،نواقضِ وضو کی تفصیلات کے بارے میں سوالات ہوں،لیکن کبھی بھولے سے بھی امت کی معاشی اورسماجی صورتِ حال کے بارے میں یاسرکاری آمد وخرچ کے نظام کے بارے میں استفسار نہ کیا جائے۔اس سے کبھی یہ فتویٰ نہ پوچھا جائے کہ ہمارے سیاسی اور قومی تناظر میں وہ کیا رہنمائیاں دیتا ہے یا یہ کہ مغربی سامراج کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے۔اسلامی حاکمیت،اسلامی قانون سازی یا زندگی میں اسلام کی فتح مندی وہ شجرِ ممنوعہ ہے جو کسی قلم،گفتگو یا استفتاء کاموضوع نہیں بن سکتا ہے۔‘‘[إن الإسلام الذی یریدہ الأمریکان وحلفاؤہم فی الشرق لیس ہو الإسلام الذی یقاوم الاستعمار ولیس ہو الإسلام الذی یقاوم الطغیان ولکنہ فقط الإسلام الذی یقاوم الشیوعیۃ، إنھم لایریدون للإسلام أن یحکم ولا یطیقون من الإسلام أن یحکم لأن الإسلام حین یحکم سینشیٔ الشعوب نشأۃ أخری وسیعلّم الشعوب أن إعداد القوۃ فریضۃ وأن طرد المستعمر فریضۃ وأن الشیوعیۃ کالاستعمار وباء فکلاہما عدو وکلاہما اعتدائ، الأمریکان وحلفاؤہم إذن یریدون للشرق إسلاما أمریکانیا یجوز أن یستفتی فی منع الحمل ویجوز أن یستفتی فی دخول المرأۃ البرلمان ویجوز أن یستفتیٰ أبدا فی أوضاعنا الاجتماعیۃ أو الاقتصادیۃ أو نظامنا المالی ولا یستفتیٰ أبدا فی أوضاعنا السیاسیۃ والقومیۃ وفیما یربطنا بالاستعمار من صلات فالحکم بالإسلام والتشریع بالإسلام والانتصار للإسلام لا یجوز أن یمسہا قلم ولا حدیث ولا استفتاء فی الإسلام الأمریکانی](امریکا من الداخل،سید قطبؒ:ص۵۶)
٭٭٭
سن۱۹۴۹ء میں اسلامی تناظر میں سماجیات کے موضوع سید قطبؒ کی پہلی اہم فکری تصنیف ’’العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام‘‘(Social Justice in Islam) یعنی ’’اسلام میں عدلِ اجتماعی‘‘ شائع ہوئی۔یہ کتاب سید قطبؒ کی زندگی کے ایک اہم موڑ اور بدلائو کی نشاندہی کرتی ہے۔ اب تک وہ ایک مسلمان ادیب کی حیثیت سے لکھ رہے تھے، مگر اس کتاب کے ذریعے سے انھوں نے ایک اسلامی داعی اور مفکر کی حیثیت سے خود کو متعارف کرایا۔
اسلام میں عدلِ اجتماعی کے موضوع پر ان سے پہلے شیخ محمد الغزالیؒ نے دو اہم کتابیں ’’الإسلام والأوضاع الاقتصادیۃ‘‘ اور ’’الإسلام والمناہج الاشتراکیۃ‘‘ لکھی تھیں۔ علاوہ ازیں بہت سے مضامین ومقالات بھی سپرد قلم کیے تھے جو بعد میں ’’الإسلام المفتری علیہ بین الشیوعیین والرأسمالیین‘‘ نامی کتاب کی شکل میں شائع ہوئے تھے۔سید قطبؒ نے ان سبھی کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کیا تھا اور اپنی کتاب کے پہلے اڈیشن میں مراجع ومصادر کی فہرست میں ان کے نام بھی درج کیے تھے۔ مگر انھیں نے نیاکام یہ کیا کہ ان تصورات ومعلومات کو بڑے خوبصورت اور مرتب انداز میں یکجا کر دیا اور جدید عصری اسلوب میں تعلیم یافتہ طبقے کے سامنے ایک علمی کتاب کی حیثیت سے پیش کر دیا۔
اس کتاب کا انتساب انھوں نے مسلم نوجوانوں کے نام کیا ہے۔لکھا ہے: ’’اُن نوجوانوں کے نام جنھیں میں چشمِ تصور سے آتا ہوا محسوس کر رہا تھا، مگر میں نے پایا کہ وہ عملی زندگی میں موجود ہیں، اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کر رہے ہیں، اپنے دل کی گہرائیوں میں ایمان رکھتے ہیں کہ سربلندی صرف اللہ، اس کے رسولﷺ اور اہلِ ایمان کے لیے ہے۔ اُن نوجوانوں کے نام جو کبھی میرے تخیل میں ایک تمنا اور خواب کی حیثیت رکھتے تھے، مگر آج حقیقت میں میرے سامنے ہیں، یقینا سچائی خیال سے بڑھ کر ہے اور عملی زندگی تمنائوں سے بڑی ہوتی ہے۔ اُن نوجوانوں کے نام جو غیب کے ضمیر سے پھوٹ کر نکلے، جیسے زندگی عدم کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اور جیسے روشنی تاریکیوں سے رِس رِس کر نکلتی ہے۔ اُن نوجوانوں کے نام جو اللہ کے نام سے، اس کے راستے میں ، اس کی برکت کے زیرِ سایہ جہادِ زندگانی میں لگے ہوئے ہیں؛ ایسے تمام نوجوانوں کے نام میں یہ کتاب معنون کرتا ہوں۔‘‘[إلی الفتیۃ الذین کنت ألمحہم بعین الخیال قادمین فوجدتہم فی واقع الحیاۃ قائمین۔۔۔مجاہدین فی سبیل اللّٰہ بأموالہم وأنفسہم۔۔۔ مؤمنین فی قرارۃ نفوسہم أن العزۃ للّٰہ ولرسولہ وللمؤمنین، إلی ہؤلاء الفتیۃ الذین کانوا فی خیالی أمنیۃ وحلما فإذا ہم حقیقۃ وواقع۔۔۔ حقیقۃ أعظم من الخیال وواقع أکبر من الآمال، إلی ہؤلاء الفتیۃ الذین انبثقوا من ضمیر الغیب کما تنبثق الحیاۃ من ضمیر العدم وکما ینبثق النور من خلال الظلمات، إلی ہؤلاء الفتیۃ الذین یجاہدون باسم اللّٰہ فی سبیل اللّٰہ علی برکۃ اللّٰہ أہدی ہذا الکتاب۔۔۔۔!]
اس کتاب کو عالمِ عرب اور عالمِ اسلام میں توقعات سے بڑھ کر پذیرائی اور کامیابی ملی۔تاہم اس کتاب کے ایک باب کے مندرجات نے امت کی تاریخ اور فکری تسلسل سے دلچسپی رکھنے والے علماء اور دانشوروں کو برہم بھی کیا۔سید قطبؒ نے اپنی کتاب کے ایک باب ’’الواقع التاریخی فی الإسلام‘‘ میں، بالخصوص کتاب کے پہلے اڈیشن میں خلیفۂ راشد امیر المومنین حضرت عثمانؓ بن عفان پر تیز وتندتنقید کرتے ہوئے ناروا لب ولہجہ اختیار کیا تھا۔ خلفائے بنو امیہ کے بارے میں بھی سید قطبؒ کا زاویۂ نگاہ تقریباًمایوس کن اورتاریک رہا ہے اور کتاب میں ہرلحاظ سے انھیں قصرِ اسلام کوڈھانے والا باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔اس ناوکِ تنقیص کی زد میں امیر المومنین حضرت معاویہؓ بن ابی سفیان اور اجتہادی اقدامات میں ان کا ساتھ دینے والے صحابۂ کرامؓ (مثلاً حضرت عمروؓ بن العاص، حضرت نعمانؓ بن بشیر، حضرت عبداللہ بن جعفرؓ بن ابی طالب، حضرت عقیلؓ بن ابی طالب وغیرہ)بھی آجاتے ہیں۔
کتاب کے اس باب نے علامہ محقق ’’محمود محمد شاکر‘‘ کو سخت برآفروختہ کر دیا اور انھوں نے ’’المسلمون‘‘ پرچے میں متعدد مقالات اس کتاب کے رد میں لکھے جن میں یقینابعض جگہوں پر رہوارِ قلم تنقید سے نکل کر تنقیص کی سرحدوں میں داخل ہوگیاہے۔ اس زمانے میں ’’مجلۃ المسلمون‘‘ کی ادارت کی ذمے داری علامہ سعید رمضان اٹھا رہے تھے۔ان مقالات میں ’’حکم بلا بینۃ‘‘، ’’ألسنۃ المفترین‘‘، ’’تاریخ بلا إیمان‘‘ اور ’’لا تسبّوا أصحابی‘‘ کا کافی چرچہ ہوا۔
ویسے حقیقت یہ ہے کہ قرنِ اول کی تاریخ کا یہ دور بڑا پُر پیچ اور دشوار گزار ہے۔ایک مسلمان کی حیثیت سے -اور ہماری یہی حیثیت دیگر تمام حیثیات سے بڑھ کر ہے-ہم مانتے ہیں کہ صحابۂ کرامؓ، تابعینؒ اور تبعِ تابعینؒ کا دور ملت کی تاریخ کا سنہرا دور ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں بھی اسے ’’خیر القرون‘‘ کہا گیا ہے۔اس کی تاریخ پر لکھتے ہوئے مضبوط علمی تحقیق مطلوب ہے۔ہمارے علماء ومحدثین نے روایات کی نقد وتمحیص کے لیے جو پیمانے وضع کیے ہیں ان پر تاریخی روایات کو جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔ہماری قدیم کتابیں تاریخ سے زیادہ موادِ تاریخ پر مشتمل ہیں۔ ان کتابوں میں درج ہر بات کو حقیقتِ مسلّمہ کے طور پر لیا جانے لگے تو خود صاحبِ رسالتﷺ کی سیرت وکردار کے بارے میں کیا کچھ نہیں مل جائے گا۔
بیشتر کتبِ تاریخ میں بات کو سند سے بیان کرنے کا اہتمام بھی نہیں ہوا ہے اور جن میں ہوا ہے تو ان اسانید میں بیشتر کذاب، ضعیف یا مجہول الحال راوی بھرے ہوئے ہیں۔محدثین نے ان راویوں کی عدالت وثقاہت پر سوالیہ نشان کھڑا کیا ہے اور ان کی فراہم کردہ معلومات کو مشکوک جانا ہے۔
اولین مورخین نے سندوں کی چھان پھٹک پر توجہ نہیں دی، حالانکہ ان میں سے بعض حضرات اس کی صلاحیت ومقدرت رکھتے تھے جیسا کہ امام طبریؒ۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہے کہ ان کی نگاہ میں تاریخ پر شریعت کے حلال وحرام کی بنیاد نہیں رکھی جاتی۔ چنانچہ ان حضرات نے اپنی سندوں سے تاریخی معلومات کتابوں میں یکجا کر دیں اور آئندہ لوگوں کے لیے یہ کام چھوڑ دیا کہ ازخود ان سندوں کی جانچ پڑتال کریں اور صحیح تاریخی سچائیوں کا سراغ لگائیں۔ مگر وہ اس حقیقت کو بھول گئے -اور یہ ان کی ایک اجتہادی غلطی ہی کہی جائے گی- کہ تاریخ پر اگرچہ احکامِ شرعیہ کی بناء نہیں رکھی جاتی ہے، تاہم دوسری بہت سی اہم چیزیں اس سے وابستہ اور متعلق ہیں۔تاریخ اگر غلط اور جھوٹی ہوگی تو اس سے خیر القرون میں امتِ مسلمہ کی غلط تصویر سامنے آئے گی۔ صحابۂ کرامؓ کی شکل میں جو آئیڈیل انسانی جماعت اللہ کے رسولﷺ کی براہِ راست نگرانی اور تربیت میں تیار ہوئی ہے، بعد کے زمانوں میں خلافت وملوکیت کا نعرہ لگاتے ہوئے بعض مخبوط الحواس لوگ اسے اپنے سے کمتر اور گھٹیا سمجھنے اور کہنے لگیں گے جیسا کہ آج ہم سرکی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ کا منصفانہ مطالعہ کریں۔ نہ اسے اتنا مقدس بنائیں کہ ٹچ کرنا بھی حرام ہوجائے اور نہ علمیت اور غیر جانبداری کے نام پر اتنا اوچھا اور پست بنا کر دکھائیں کہ جی مالش کرنے لگے۔
ہمیں انصاف کرنا چاہیے اور اسی کا ہمیں حکم ہوا ہے:{وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُواْ وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبَی وَبِعَہْدِ اللّہِ أَوْفُواْ ذَلِکُمْ وَصَّاکُم بِہِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُون} (انعام، ۱۵۲)’’اور جب بات کہو انصاف کی کہو، خواہ معاملہ اپنے رشتے دار ہی کا کیوں نہ ہو اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ان باتوں کی ہدایت اللہ نے تمھیں کی ہے شاید کہ تم نصیحت قبول کرو۔‘‘
پھرہر مسلمان کے بارے میں اصل یہ ہے کہ اسے راست باز مانا جائے اور جب تک اس کے جرم پر گواہی اور بینہ قائم نہ ہوجائے اس کی دینداری کو مطعون کرنا یا اسے دائرۂ اسلام سے خارج کردینا ٹھیک نہیں۔ خلفائے امویہ بہرکیف مسلمان تھے۔ اس دنیا میں بہ حیثیتِ انسان -نبیوں کے علاوہ- کوئی معصوم نہیں ہوا۔ ہر انسان میں اچھائیاں ہوتی ہیں اور کچھ برائیاں بھی۔ ان کے تناسب کی بنیاد پر اس کے نیک یا بد ہونے کا ترجیحی فیصلہ کیا جاتا ہے۔ایک ہی انسان مختلف پہلوئوں سے قابلِ تعریف اور قابلِ مذمت ہوسکتا ہے۔اجر وثواب کا مستحق یا وبال وعقاب کا مورد ہوسکتا ہے۔اچھائیوں کو دیکھتے ہوئے اس سے محبت کی جاتی ہے اور برائیوں کو دیکھتے ہوئے نفرت رکھی جاتی ہے۔یہی اہلِ سنت والجماعت کا مسلک ہے۔البتہ یہ مسلک معتزلہ اور خوارج اور ان کے ہم نوائوں کے خلاف ہے۔اگرہماری سمجھ میں یہ بدیہی حقیقت آگئی ہے تو صاف ہے کہ خلفائے بنی امیہ کے بارے میں بھی وہی سب کہا جائے گا جو ان کے جیسے دوسرے خلفاء وسلاطین کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ ان کے جو اعمال اچھے ہوں گے جیسے نماز پڑھنا،حج کرنا، جہاد کرنا،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور اسلامی حدود وتعزیرات نافذ کرنا؛ان کاموں کی وجہ سے انھیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی فرماں برداری کے اجروثواب کا مستحق سمجھا جائے گا۔ اور جو غلط کام بھی ان سے ہوئے ہیں اُن پر انھیں بہ تقاضائے عدل سزا اور عذاب کا مستحق مانا جائے گا۔ الا یہ کہ اللہ اپنے فضل وکرم سے انھیں معاف فرما دے تو یہ اس کی مرضی ہے۔
بنو امیہ کے زمانے میں اسلامی ریاست کا بین الاقوامی اثر اور سیاسی رعب داب قائم تھا۔ وقت کے حکمراں کو خلیفۃ المسلمین ہی کہتے تھے۔اس وقت تک عضد الدولۃ،عز الدولۃ، رکن الدین اور قطب الدین جیسے القاب وخطابات ایجاد نہ ہوئے تھے۔بنو امیہ کا ہر خلیفہ مسجد میں پانچ وقت امامت کرتا تھا، اپنے ہاتھ سے جہاد کا پرچم باندھتا تھا،مختلف علاقوں کے امراء تعینات کرتا تھا۔ہر خلیفہ اپنے گھر میں رہتا تھا۔اس زمانے میں خلفاء قلعوں اور محلوںمیں نہیں رہتے تھے اور نہ رعایا سے کٹ کر اور نگاہوں سے روپوش ہوکر نظم ونسق چلاتے تھے۔(منہاج السنۃ:۸/۲۳۸)
صحابۂ کرامؓ کے مابین جو تنازعات ہوئے اور اس کے بعد جو ہولناک حادثات رونما ہوئے ان کے بارے میں ہم وہی کہتے ہیں جو ہم سے پہلے امام ذہبیؒ نے کہا تھا کہ ’’ہم عافیت کی نعمت پر اللہ کا شکر اداکرتے ہیں جس نے ہمیں ایسے دور میں پیدا کیا کہ حق نکھرکر سب کے سامنے آگیاہے اور (مشاجرات) کے دونوں فریقوں کا موقف واضح ہوگیا ہے اور دونوں گروہوں کے اندر پائی جانے والی کمیاں بہ خوبی جان لی گئی ہیں۔اب ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ بصیرت کا راستہ چنیں۔جنہیں معذور سمجھ سکتے ہیں انھیں معذور سمجھیں۔جنھیں غلط سمجھتے ہیں ان کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اور زیادہ کھوج کرید کے بجائے اجمالی موقف اختیار کریں۔ان میں جو لوگ اب ہمارے نزدیک زیادتی کرنے والے ثابت ہوچکے ہیں انھیں فی الجملہ مسلمان مانتے ہوئے ان کے حق میں رحمت کی دعا مانگیں اور ان کی خطائوں کو لائقِ مغفرت تصور کریں اور ان کے بارے میں وہی بات کہیں جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دی ہے:{وَالَّذِیْنَ جَاؤُوا مِن بَعْدِہِمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بِالْإِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّکَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ}(حشر،۱۰)’’جو ان اگلوں کے بعد آئے ہیں کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب،ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو پہلے ایمان لائے ہیں، اور ہمارے دلوں میں اہلِ ایمان کے لیے کوئی بغض اور کدورت نہ رکھ،اے ہمارے رب تو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔‘‘(سیر اعلام النبلائ، ذہبی:۳/۱۲۸)
سید قطبؒ سے اس کتاب میں غلطی یہ ہوئی ہے کہ انھوں نے کتبِ تاریخ میں درج روایات پر بلا تحقیق وتمحیص بھروسہ کیا اور یک طرفہ انتخاب کرتے ہوئے امیر المومنین حضرت عثمانؓ بن عفان اور دیگر خلفائے بنی امیہ کی کردار کشی میں حصہ لیا۔اللہ انھیں معاف فرمائے۔تاہم بعد میں ان کی تحریروں میں یہ جارحانہ رنگ دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔بلکہ وہ جگہ جگہ کہتے ہیں کہ اسلامی تاریخ بارہ صدیوں تک عروج واقبال سے ہم کنار رہی ہے۔ان کی آخری کتاب ’’مقومات التصور الإسلامی وخصائصہ‘‘ (The Cherecteristics and Values of Islamic Conduct)یعنی’’اسلامی تصور کی خصوصیات‘‘ جوان کی شہادت سے تقریباً بیس سال بعد (سن۱۴۰۶ھ/۱۹۸۶ء میں) شائع ہوئی، اس کے مقدمے میں ایک جگہ رقم طراز ہیں: ’’اسلام کا پرچم ایک ہزار سے زائد سال، بلکہ تقریباً بارہ سو سال تک بلند وبالا رہا۔اسلامی ممالک کے زیرِ سایہ اسلام نظامِ زندگی کا حصہ بنارہا۔وہی اجتماعی نظام تھا جس میں رہتے ہوئے لوگ ہر مسئلے کے لیے اللہ کی شریعت کی طرف رجوع کرتے تھے۔زندگی کے ہر معاملے میں ملت کے قاضیان ومفتیان اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے فرماتے تھے۔اس شریعت کے علاوہ معاش کے کسی معاملے میں بھی کسی دوسری چیز کو حکم اور فیصل نہیں بنایا جاتا تھا۔‘‘[وارتفع لواء الإسلام عالیا وظل مرفوعا أکثر من ألف عام بل حوالی مائتین وألف عام ممثّلا فی النظام الإسلامی فی ظل الأقطار الإسلامیۃ وہو النظام الذی یرجع الناس فیہ إلی شریعۃ اللّٰہ وحدہا ولا یحکم قضاۃ ہذہ الأمۃ إلا بالشریعۃ الإسلامیۃ فی کل أمر من أمور الحیاۃ ولا یتحاکم الناس إلی غیر ہذہ الشریعۃ فی شأن واحد من شؤون المعاش] (مقومات التصور الإسلامی:ص۲۶)
٭٭٭
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین