دینی ارتقاء کی فکر
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
مکمل دین کی اتباع اور شرعی احکامات پر عمل آوری میں بالعموم دو طرح کے لوگ کوتاہی برتتے ہیں۔ ایک وہ جنہیں سرے سے راہِ حق نہ ملی ہو،یا ملنے کے بعد انہوں نے اُسے کھو دیا اور اب ایمان واسلام کے راستے سے دور مثل جانوروں کے، بے سُدھ اور مگن ہوکر دنیا میں اپنی زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔
دوسرے وہ لوگ ہیں جو ویسے تو ہدایت واستقامت کی راہ پر ہیں، مگر ان کے پاس زادِ راہ بالکل نہیں،یا بہت تھوڑا سا ہے، چنانچہ چند قدم چل کر رُک جاتے ہیں۔انہوں نے راہِ حق پر چند قدم بڑھانے اور دین کے کچھ حصوں پر عمل آوری کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ اگر کوئی ان سے مزید آگے بڑھنے کا مطالبہ کرتا ہے تو حیرت واستعجاب کی نگاہ سے اُسے دیکھتے ہیں۔ حالانکہ انہیں خود اپنے دینی وایمانی حال پر افسوس اور تعجب کرنا چاہیے۔
راہِ ہدایت میں کام آنے والا زادِ راہ علمِ دین، بالخصوص اللہ کے رسولﷺ کی سنت اور سیرت کا سرمایہ ہے۔ عام مسلمانوں کا یہ طرزِ عمل بہت حیرتناک اور سخت افسوس کے لائق ہے کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن وسنت کے مطالعے کے نتیجے میں انہیں اللہ کی مرضیات وتعلیمات کا بیش از بیش علم حاصل ہوگا اور دنیا میں انہیں ربِ کریم کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا سلیقہ نصیب ہوجائےگا، مگر یہ سب جاننے کے باوجود وہ قرآن وحدیث کے مطالعے اور تدبر کے لیے اپنا وقت فارغ نہیں کرپاتےکرپاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مادی ومعاشی معیارِ زندگی کی طرح دینی وروحانی معیارِ زندگی میں بھی بہتری اور خوب سے خوب تر کی جستجو کیوں نہیں کی جاتی؟ جب بڑی آسانی سے ہم اللہ کے محبوب بندے بن سکتے ہیں اور بندگی کی معراج کو پا سکتے ہیں،تو پھر کیوں آغازِ سفر نہیں کرتے اور کیوں ابتری اور کمی پر مطمئن اور راضی بیٹھے ہیں؟
اللہ نے فرمایا ہے:
{یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمْ وَاخْشَوْا یَوْماً لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَن وَلَدِہِ وَلَا مَوْلُودٌ ہُوَ جَازٍ عَن وَالِدِہِ شَیْْئاً إِنَّ وَعْدَ اللَّہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا وَلَا یَغُرَّنَّکُم بِاللَّہِ الْغَرُورُ } (لقمان،۳۳)
’’اے لوگو، بچو اپنے رب کے غضب سے اور ڈرو اُس دن سے جب کہ کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ نہ دے گا اور نہ کوئی بیٹا ہی اپنے باپ کی طرف سے کچھ بدلہ دینے والا ہوگا۔ فی الواقع اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ پس یہ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ دھوکے باز (شیطان)تم کو اللہ کے معاملہ میں دھوکا دینے پائے۔‘‘
طلبِ علم اور فکرِ دین کے تعلق سے ہمارے اسلاف کا طرزِ عمل کیا تھا، اسے ایک واقعے میں ملاحظہ کرو۔ حضرت جابرؓ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ مجھے اطلاع ملی کہ (میدانِ حشر میں)بدلہ ملنے کے بارے میں ایک صحابی کوئی حدیث سناتے ہیں جو میں نے نہیں سنی۔ پس میں نے اونٹ خریدا اور اُس پر کجاوہ کس کر نکل کھڑا ہوا، یہاں تک کہ ایک ماہ کا سفر طے کرکے مصر جاپہنچا۔
میں حضرت عبداللہ بن انیسؓ کے گھر حاضر ہوا اور کہا:’’بدلہ ملنے کے بارے میں ایک حدیث کے تعلق سے مجھے معلوم ہوا جسے آپ نے اللہ کے رسولﷺ سے سنا ہے، مگر میں اسے نہیں سن سکا، مجھے اندیشہ تھا کہ اس حدیث کو سنے بغیر مر نہ جائوں، اس لیے فی الفور چلا آیا۔‘‘
حضرت عبداللہ نے کہا:’’میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس روز لوگوں کو اس حال میں جمع کیا جائے گا کہ وہ ننگے سر، برہنہ بدن اورغیر مختون ہوں گے، ان میں کوئی لنگڑا لولا نہ ہوگا، اور نہ کوئی دوسرا عیب ہوگا،اس روز اللہ پکارے گا اور اس کی پکار کو -دور ہو کہ نزدیک-ہر ایک سنے گا۔ وہ کہے گا:’’میں بادشاہِ حقیقی ہوں، میں بدلہ دینے والا ہوں، اگر جنت میں جانے والے کسی بندے سے کسی دوزخی کو ظلم کی شکایت ہے، تو میں آج اس کا بدلہ دِلائوں گا، اور دوزخ میں جانے والے کسی بندے سے کسی جنتی کو ظلم کی شکایت ہے تو میں آج اسے بدلہ دلائوں گا، پھر چاہے شکایت صرف ایک چانٹا مارنے کی کیوں نہ ہو۔‘‘
ہم نے یہ سنا تو حضورﷺ سے پوچھا:’’جب ہم برہنہ بدن،ننگے سر،غیر مختون اور بے سروسامان کے ہونگے، تو اللہ بدلہ کس چیز سے ادا کرائے گا؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا:’’اس دن نیکیوں یا برائیوں (کے لین دین)سے بدلا چُکایا جائے گا۔‘‘
[بلغنی عن رجل من أصحاب رسول اللہﷺ حدیث فی القصاص لم أسمعہ منہ فابتعت بعیرا فشددت رحلی ثم سرت إلیہ شہرا حتی قدمت مصر فأتیت عبداللہ بن أنیس فقلت حدیث بلغنی عنک تحدث بہ سمعتہ من رسول اللہﷺ ولم أسمعہ فی القصاص خشیت أن أموت قبل أن أسمعہ فقال عبداللہ سمعت رسول اللہﷺ یقول یوم یحشر العباد أو قال الناس حفاۃ عراۃ غرلا لیس معہم شییٔ ثم ینادیہم بصوت یسمعہ من بعد کما یسمعہ من رب أنا لاملک أنا الدیان لا ینبغی لأحد من أہل الجنۃ أن یدخل الجنۃ ولأحد من أہل النار علیہ مثلمۃ حتی أقصہ منہ ولا ینبغی لأحد من أہل النار أن یدخل النار ولأحد من أہل الجنۃ عندہ مظلمۃ حتی أقصہ منہ حتی اللطمۃ،قال قلنا کیف وإنما نأتی اللہ عزوجل عراۃ حفاۃ غرلا بہماقال بالحسنات والسیئات] (مسند احمدؒ: ۳/۴۹۵۔ مستدرک حاکمؒ:۴/۶۱۸۔ مجمع الزوائد، ہیثمیؒ:۱۰/۶۲۵)
اب ذرا ہم اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں۔ کتنی حدیثیں ہیں جنہیں ایک بار سنے اور پڑھے بغیر ہمیں موت کی آخری ہچکی آجائے گی؟ اب حدیثوں کی حصول یابی کے لیے ہمیں مہینے مہینے بھر دوردراز سفر پر جانے کی ضرورت نہیں۔ ہر جگہ سنت وحدیث پر مشتمل کتابیں بہ آسانی دستیاب ہیں۔ بلکہ سوال کرنا چاہیے کہ آج تک تم نے کتنی حدیثیں سنی ہیں اور کتنی ہیں جو سن کر بھلا دی ہیں؟ بلکہ کتنی حدیثیں اور سنتیں ایسی ہیں جنہیں ہم نے سنا اور برابر جمعے کے خطبوں اور دینی جلسوں میں سنتے رہتے ہیں اور جو کم وبیش ہمارے حافظے کا جزو بن گئی ہیں، مگر ان کے مطابق عمل کرنا ہمیں دوبھر لگتا ہے اور ان کے مطابق زندگی بسر کرنے پر ہم خود کو تیّار نہیں کر پاتے ہیں؟
ایمان کی کمزوری، دینی غیرت وحمیت کا فقدان اور حبِ الٰہی اور حبِ نبوی سے دلوں کی تاراجی اورویرانی؛ اس کے جہاں دیگر اسباب و وجوہات ہیں، وہاں ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ ہم حدیثوں کا مطالعہ نہیں کرتے۔ نبوی تعلیمات وارشادات میں پنہاں عظیم حکمتوں اور رہنمائیوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ شایانِ شان طریقے سے اقوالِ نبویہ پر غور وفکر نہیں کرتے۔ پھر بھی ہم شیدائیانِ محمد ﷺ ہیں اور اللہ کے نبی ﷺ ہمارے محبوب ومطلوب ہیں۔ ہمارا حال بھی عجیب ہے، ہماری محبت بھی عجیب ہے، مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ آخرت میں ہمارا انجام بھی عجیب نہ ہوجائے۔ یعنی جو حسین توقعات اور دل فریب خوش گمانیاں اور خیالی پلاؤ ہم نے وہاں کے بارے میں پال رکھے ہیں اور عمل ان کے مقابلے میں پاسنگ بھر بھی نہیں، کہیں رب کے حضور یہ سب بے سود اور دھوکا نہ ثابت ہو۔
اللہ ہم سب کو توبہ کی توفیق دے، دین کو زندگی میں لانے کی توفیق دے، نبی ﷺ کی سنت وسیرت کو جاننے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین، یا رب العالمین۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔