جو جھک سکا نہ بک سکا اس رہنما کی بیٹیاں!
سرفرازاحمدقاسمی،حیدرآباد
برائے رابطہ:8099695186
تاریخ کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی آمد سے قبل انسانی معاشرہ مختلف طرح کی بیماریوں میں مبتلاء تھا یا دوسرے الفاظ میں یہ کہئیے کہ وہ ایک حیوانی معاشرہ بن چکاتھا۔ ہر قسم کی اخلاقی ومعاشرتی بیماریاں اس سماج میں موجود تھیں۔ تعلیم وتربیت سے کوئی سروکار نہ تھا۔غربت و افلاس نے چاروں جانب ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ظلمت وبربریت عروج پر تھا۔ان سب چیزوں کے درمیان اس معاشرے میں بیٹیوں کی پیدائش کو باعث ننگ و عار سمجھا جاتاتھا۔اورانکی پیدائش ہوتے ہی انھیں زندہ درگور کردیاجاتاتھا۔پھر جب 1400سال پہلے اسلام کا پیغام عام ہوا اور وہ اپنی کرنوں سے دنیا کو منور کرنے لگا تو صاحب اسلام،حضور اکرم ﷺ پوری کائنات کےلئے رحمت بن کر تشریف لائے،اور پھر آپ ﷺ نے دنیا کے اس بدترین رسم کا خاتمہ فرمایا۔صنف نازک کو وہ حقوق عطافرمائے، انھیں سماج میں وہ مقام اور مرتبہ عطافرمایا جو اسلام سے پہلے انھیں کسی مذہب نے نہیں دیاتھا۔پہلے جس عورت کو زحمت اور رسوائی کا سبب سمجھا جاتاتھا۔سرورکونین ﷺ نے اسی خاتون کو بیٹی کے روپ میں باپ کےلئے رحمت،بھائیوں کےلئے عزت،بیوی کے روپ میں شوہر کے دین وایمان کی محافظ اور ماں کے قدموں تلے جنت کی بشارت سنائی۔
اسلام نے بیٹیوں کی بہترین پرورش پر دنیا وآخرت کی بھلائی اور ساتھ ساتھ جنت کی بشارت بھی عطافرمائی۔ایک معروف حدیث میں یہ ارشاد ہے کہ’ جس کسی کے تین بچیاں ہوں اور وہ انکی تکلیف ومعاشی پریشانیوں پر صبرکرے توان کے ساتھ ہمدردی کرنے کی وجہ سے رب کریم اسے جنت عطافرمائے گا۔ایک صحابی نے پوچھا یارسول اللہ!اگرکسی کو دوبچیاں ہوں اور وہ انکے ساتھ اچھا سلوک کرے تو؟ ارشادہوا اگر دوہوں تب بھی اللہ تعالیٰ جنت عطافرمائے گا۔پھرکسی نے پوچھا یارسول اللہ! اگرایک ہی بیٹی ہوتو؟آپ ﷺ نے فرمایا اگرایک بچی ہو اور وہ اسکی اچھی تربیت کرے،اسکی تعلیم وتربیت پرتوجہ دے تب بھی اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائےگا”(مسنداحمد)اس طرح کی اور بھی بہت سی روایتیں حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔مجھے یہاں ساری حدیثیں نقل نہیں کرنی ہے بلکہ یہ بتانا ہے کہ صدیوں سے خواتین جس جائز حق اور عزت کی حقدار تھی اسلام نے اسے ہر وہ حق عطافرمایا،یہی وجہ ہے کہ ماں کی گود کو پہلی درسگاہ اور پہلا اسکول قرار دیا۔یہ بتانے کےلئے کہ افراد معاشرہ کے تربیت کی اولین ذمہ داری قدرت نے خواتین کے سپرد کی ہے۔لہذا ایک بچی کی بہترین تعلیم وتربیت ایک نسل کی تربیت ہے۔بیٹی رحمت اس وقت بن سکتی ہے جب اسکی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہو۔آپ نے اپنی اولاد کو دنیا بھرکی ساری چیزیں،سارے وسائل،ٹیکنالوجی سب فراہم کردیا لیکن اگر انھیں اپنے مذہب سے روشناس نہیں کرایا،اسلامی تعلمیات سے انکی واقفیت نہیں ہوسکی،انکی تربیت پرتوجہ نہیں دی گئی تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ وہ اولاد آپ کےلئے،آپ کے گھراور خاندان کےلئے رحمت ہو۔اللہ نے اگر آپ کو بیٹیاں دی ہیں تو یہ ضروری ہے کہ آپ انھیں اسلام کی بے شمار اور باکمال شہزادی و پاکباز خواتین کے تذکرے اور کارناموں سے واقف کرائیں۔
اسلام نے بیٹیوں کواتنی اہمیت دی کہ خود رسول اکرم ﷺ اپنی صاحب زادیوں کے ساتھ انتہائی محبت اور رحمت کے ساتھ پیش آتے تھے۔اپنی بچیوں کو آتے دیکھتے تو آپ ﷺ محبت میں کھڑے ہوجاتے،انکی پیشانی چومتے اور پاس بٹھاتے۔کبھی اپنی چادر زمین پرانکےلئے بچھادیتے۔حضرت فاطمہؓ کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایاکہ”وہ میرے جگرکا ٹکڑا ہے”چاربیٹیوں میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سب سے چھوٹی بیٹی ہیں۔حضرت زینب،حضرت رقیہ،اورحضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہن یہ چاروں بیٹیاں اللہ نے آپ کو عطافرمائی۔حضرت فاطمہؓ کے ساتھ آپ کامعاملہ انتہائی مشفقانہ ہوتاتھا اور بہت زیادہ شفقت و محبت کا معاملہ فرمایاکرتے تھے۔آپ ﷺ جب بھی سفرمیں تشریف لےجاتے توسب سے آخر میں حضرت فاطمہ سے ملتے اورجب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ ہی کے گھر تشریف لےجاتے۔یہ تھی آپ کی بیٹیوں سے محبت۔کیا ہم لوگ بھی اپنی بیٹیوں سے اسی طرح کابرتاؤ اور محبت کرتے ہیں؟یادرکھئے بیٹیوں کوجائزحقوق اوربہترین تعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ کرنا،ہروالدین کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
اسلام کے ذریں اصولوں کے پیرائے میں تربیت یافتہ بیٹیاں ملک وقوم کا بہترین سرمایہ ہے،انھیں عظیم سرمایوں میں ایک نام”مسکان خان”کا بھی ہے،جن کا تذکرہ آج سوشل میڈیا سے لیکر پوری دنیا کے ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں ہے،انھوں نے جو کارنامہ انجام دیا وہ یقیناً پوری قوم کےلئے باعث فخر ہے۔کل تک انھیں کوئی نہیں جانتاتھا آج پوری دنیا میں ہرزبان پر انھیں کا تذکرہ ہے۔قومی وعالمی میڈیا کے لوگ ان سے انٹرویو کےلئے انکے گھر پر دستک دے رہے ہیں۔اسلامی تاریخ کا آپ مطالعہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ایسی بہادر،جری اور باکمال خواتین کی ایک طویل فہرست ہے،جنھوں نے اہم کارنامے انجام دیئے ہیں۔مسکان خان کا تعلق کرناٹک کے منڈیا ضلع سے ہے۔ان کے والد کا نام محمد حسین خان ہے۔وہ منڈیا پری یونیورسٹی کالج کی طالبہ ہے۔بی- کام سکینڈ ایر کی طالبہ مسکان خان نے زعفرانی اور بھگوا لشکر کا تن تنہا مقابلہ کیا۔100 سے زائد سنگھ پریوار کے غنڈوں نے جب انھیں کالج کے احاطے میں ٹووہیلر پارک کرتے دیکھا تو جے شری رام کے نعروں کے ساتھ یہ لوگ انکی جانب بڑھے۔مسکان خان نے جب ان لوگوں کو اپنے قریب آتے دیکھا تو زور زور سے اللہ اکبر،اللہ اکبر کے نعرے لگائے۔یہ ویڈیو آن واحدمیں جنگل کے طرح پوری دنیا میں پھیل گئی۔ہرطرف اس کے تذکرے ہونے لگے۔اسکی بہادری،اورجوش وخروش کی مثال پیش کی جانےلگی۔اس ویڈیو نے کئی لوگوں کی آنکھیں اشک بارکردی۔میں نے بھی اس ویڈیو کو بار بار دیکھا اور جتنی بار دیکھا میں اپنے آنسو نہ روک سکا۔آج جب یہ تحریر لکھ رہاہوں تب بھی میری آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ اس ویڈیو نے میرے بدن میں لرزہ طاری کردیا۔میں نے جتنی بار اس ویڈیو کو دیکھا اسلام کی درجنوں شہزادیوں کی یادتازہ ہوگئی،اور میں ان وادیوں میں گم ہوگیا۔
مسکان خان کی ویڈیو نے فلسطین کی یاد بھی تازہ کردی،جہاں برسوں سے اپنی بے مثال قربانیاں پیش کررہی ہیں”کچھ عرصہ قبل،چند اسرائیلی فوجی،فلسطینی خواتین اور بچوں کے ساتھ بدتمیزی پر اترآئے تو ایک فلسطینی بچی لپکی،چندلمحے مزاحمت کے بعد اس نے ایک اسرائیلی فوجی کے منھ پر زوردار تھپڑ دے مارا۔بچی کا یہ تھپڑ آزادی فلسطین کی جدوجہد کی ایک نئی شناخت بن گیا۔اس منظر کو اب تک کروڑوں لوگوں نے دیکھا۔فلسطین کی اس بیٹی کا نام عہد تمیمی ہے۔اسکے والد باسم تمیمی فلسطین کی آزادی کےلئے مسلسل جدوجہد کرنے والے جانبازوں میں سے ایک ہیں۔اس کے خاندان کے جوان کیا،بلکہ کئی خواتین بھی اقصی کی آزادی کی راہ میں شہید ہوچکی ہیں۔اگست 2015 میں اس کے بارہ سالہ بھائی کو اسرائیلی فوج گرفتار کرنے آئی تو اسوقت بھی وہ ان سے لڑپڑی،اور اس فوجی کے ہاتھ پر کاٹنے کا منظر بہت مشہور ہوا۔ 2017 میں عہد تمیمی کے گھر اسرائیلی فوجی گھسے،غیرت مند بیٹی چادر اورچار دیواری کی بے حرمتی برداشت نہ کرسکیں،اسلحہ سے لیس فوجیوں پر حملہ آور ہوئی اور گھوسے و تھپڑ کے ذریعے فوجیوں کو نشانہ بنانے لگی۔2017 میں 15دسمبر کو اسرائیلی فوجیوں نے انھیں گرفتار کیا،انکی والدہ ناریمان تمیمی بیٹی سے ملنے جیل گئی توانھیں بھی گرفتار کرلیاگیا۔جج نے ہتھکڑیوں میں جکڑی فلسطین کی اس بہادر بیٹی سے پوچھا:تم نے فوجی کو کس طرح مکا مارا؟کہنے لگی۔۔۔۔۔ آپ میرے ہاتھ کھلوائیں میں مکا مارکر بتاتی ہوں۔جج نے آٹھ ماہ کی سزاسنادی۔29 جولائی 2018 کو جب وہ سزا مکمل کرکے جیل سے باہر نکلی تو آزادی فلسطین کے رہنماؤں نے اس کا استقبال کیا۔31جنوری 2018 کو عہد تمیمی کی سالگرہ تھی،جواس نے جیل میں منائی اور دنیا بھر سے لوگوں نے انھیں پھول بھیجے۔عجیب بات یہ ہےکہ یورپ وامریکہ کی نئی نسل کے یہودیوں نے بھی اس کے حق میں آواز بلندکی۔عہد تمیمی کی بہادری نے فلسطین کی تحریک آزادی میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔وہ جانبازی وشجاعت کا ایک استعارہ بن چکی ہے۔اسکی جرأت وبہادری اور بے خوفی وجانبازی کے ایک نغمے نے آزادی فلسطین کی تحریک کےلئے ایک ملی ترانے کی حیثیت اختیار کرلی ہے”(قلم نما)
آپ کو یاد ہوگا 2019 میں جامعہ ملیہ میں سی اے اے اور این آرسی کے خلاف جو احتجاج شروع ہواتھا جو بعد میں تحریک شاہین باغ میں تبدیل ہوگیاتھا۔شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جب جامعہ ملیہ دہلی میں احتجاج چل رہاتھا وہاں اندر کیمپس میں جس طرح پولس داخل ہوکر غنڈہ گردی کرنے لگی اور درندوں کی طرح لاٹھی برسانے لگی تو وہاں کی بہادر طالبہ لدیدہ اورفرزانہ نے اپنی بہادری کا ثبوت پیشں کرتے ہوئے پولس کے سامنے ڈٹ گئی تھی۔یہ ویڈیو بھی خوب وائرل ہوئی اور پوری دنیامیں کروڑوں لوگوں نے اس ویڈیو کو دیکھا۔ان کی بہادری کی بھی مثالیں دی جانے لگی تھی۔مسکان خان نے ایک بار پھر اسے تازہ کردیا،تحریک شاہین باغ ملک کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔یہ تحریک 100دن سے زائد پورے ملک میں چلنے والی ایک طویل تحریک تھی۔اور اس تحریک نے ملک کے مظلوم مسلمانوں کو ایک راہ دکھلائی،امید کی ایک آس جگائی،اور برسوں سے مایوسی کے عالم میں زندگی بسرکرنے والے مسلمانوں کو ایک عزم اور ایک طاقت عطاکی۔اس تحریک نے مسلمانوں پر انمٹ نقوش چھوڑے۔جس کے اثرات برسوں محسوس کئے جائیں گے۔اس تحریک کی روح رواں بھی ملک کی خواتین ہی تھی۔80برس کی بوڑھی دادیاں جواس تحریک کا اہم چہرہ تھیں،انھیں دنیا کی 100 بااثر شخصیات میں ایک میگزین نے شامل کیا۔یہ تحریک اگر کامیاب ہوجاتی تو ملک میں انقلاب ضرور آجاتا۔لیکن طاقت کے نشے میں چور اس مغرور حکومت نے شاہین باغ احتجاج کو توجبرا ختم کردیا لیکن اس تحریک نے جو غیرمعمولی اثرات مرتب کئے اسے یہ حکومت کیسے ختم کرےگی؟آج ملک میں جس تیز رفتاری کے ساتھ نفرت کو عروج حاصل ہورہاہے اور پورے ملک مسلم مخالف فضاء بنائی جارہی ہے،مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ ان چیزوں سے ملک ایک اور تقسیم کی جانب بڑھ رہاہے۔
اس وقت جنوبی ریاستوں میں حجاب اور پردے کا ایشو گرم ہے اور اس طرح نفرت اور تفریق کی کھیتی کی جارہی ہے۔جو ملک کےلئے کسی طور بہتر نہیں ہے۔اب تو حالات یہ ہیں کہ اس ملک میں مسلمانوں کا وجود خطرے میں ہے۔انکی مذہبی شناخت پر برابر حملہ جاری ہے اوراسے ختم کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔بھارت میں مسلمان اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ ہی باقی رہیں گے یہ فیصلہ مسلمانوں نے ملک کی آزادی کے بعد ہی کرلیاتھا۔ہماری تہذیب و ثقافت سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔شاید اسی لئے ملک کو سیکولر قراردیاگیا اوریہاں کے دستور کو سیکولر دستور بنایاگیا،ہر مذہب اور طبقے کو آزادی و حقوق دیئے گئے۔لیکن آج آزادی، جمہوریت اوردستور پر شب خون مارا جارہاہے۔مسلمانوں ذہنی اذیت میں مبتلاء کیاجارہاہے۔ایسے میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہرمحاذ پر مضبوطی کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کریں،اوراپنی بقاء کےلئے جدوجہد کریں۔یہ ملک کسی کے باپ کا نہیں ہے۔مسلمانوں نے اس ملک کی آزادی کےلئے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔اوراب آگے بھی قربانی کی ضرورت ہے اسکےلئے ہمیں تیاررہناہوگا۔کرناٹک کی مسکان خان نے ملک کو ایک چوطرفہ پیغام دیاہے،ایک پیغام تو یہاں کی سنگھی اور انتہائی متعصب حکومت کودیا ہے کہ اگر تم نے ہماری آزادی چھیننے کی کوشش کی،ہمارے حقوق پرہاتھ ڈالا،ہماری مذہبی تعلیمات سے چھیڑ چھاڑکی کوشش کی تو ہم آخری دم تک اسکےلئے جدوجہد کرتے رہیں گے۔دوسرا پیغام اس بچی نے مسلم قیادت بھی دیا ہے۔مسلم قیادت اور مسلم تنظیمیں جس طریقے سے تعطل کا شکار ہیں،حساس معاملے میں بھی انکے اندر حرکت پیدا نہیں ہوتی۔ آپ یادر کھئے کہ ہم نوجوانوں کی جماعت اپنی حقوق کی لڑائی لڑنے کےلئے خود تیار ہیں۔ ایک تیسرا پیغام انھوں نے ملک کے دبے کچلے اور مظلوم مسلمانوں کو یہ دیا ہے کہ ابھی مایوس کی ضرورت نہیں ہے ابھی ہم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنا حق چھین کر لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔میں ایک بچی اور عورت ہوکر یہ کام کرسکتی ہوں تو نوجوان مردوں کو بھی اسکےلئے تیاررہناہوگا۔
آج ملک میں مسلمانوں کو چوطرفہ مسائل درپیش ہیں۔اس کے حل کےلئے ہمیں چوطرفہ لڑائی لڑنی ہوگی،اگر ہم اس ملک میں اپنی بقاء چاہتے ہیں،بھارت جمہوریت ہمارا مقدر ہے۔اسلئے ہمیں اپنے روشن مستقبل کی فکرکرنے کی ضرورت ہے۔بھارت میں اسلامی نظام کا نعرہ لگانے والے لوگ جذباتی ہیں اور جذبات نعروں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ہم اپنے اندر خود اسلامی اقدار کو زندہ کریں،اسلامی ہدایت پر عمل آوری کو یقینی بنائیں۔عملی طور پر اپنے گھروں اوراپنے معاشرے میں اسلام کوفروغ دیں۔برادران وطن کو اسلام کی دعوت پیش کریں۔کچھ ایسے محاذ پر ہمیں پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کرناہوگا۔ایک تو جمہوری انداز میں اپنے حقوق کی حصولیابی کے لئے جدوجہد کرناہوگا،دوسرے تعلیمی سطح پر ہمیں کام کرنے اورانقلاب برپا کرنے کی ضرورت ہے۔ہم اپنے علاقوں میں ایسے اسکول وکالجس قائم کریں جہاں دینی ماحول بھی ہو،یاپھر جن کالج اور یونیورسٹیوں میں ہمارے بچے تعلیم حاصل کررہےہیں وہاں انکےلئے مذہبی تعلیم کا بھی انتظام ہوناچاہئے۔خود ہمارے گھروں میں بھی دینی ماحول ہو۔اسی طرح ہمیں عدالتی سطح پر بھی جدوجہد کرنی ہوگی۔عدالتیں ثبوت کے باوجود ہمارے خلاف کیوں فیصلہ سناتی ہے؟اسکی وجوہات پرغور کرناہوگا اور لائحہ عمل تیارکرناہوگا۔ایسے ہی ہمیں سیاسی سطح پر بھی بیدار ہونا ہوگا اور اس تعلق سے کام کرناہوگا،یہ ذہن میں رکھناہوگا کہ مسلم مسلم کی سیاست اور جذباتی باتیں ہمارے لئے فائدہ مند نہیں ہوسکتی۔ہمیں سیاسی محاذپر برادران وطن کو بھی ساتھ لیکر قدم اٹھانا بصورت دیگر ہمیں کامیابی نہیں مل سکتی۔اس لئے جمہوری نظام میں ان سارے محاذکو سنبھالناہوگا۔جمہوری ملک میں سیاسی نہج پر بھی لڑائی لڑی جائےگی۔عدالتی سطح پر بھی ہوگی،تعلیمی محاذ بھی سنبھالناہوگا اور ایسے ہی جمہوری اندازمیں سڑکوں پربھی نکلنا ہوگا،تب کہیں جاکر ہمیں دستوری وجمہوری حقوق حاصل ہونگے۔
کرناٹک کی شیرنی مسکان نے ملک کے کمزور مسلمانوں میں ایک نیا جوش و ولولہ پیداتو کیا ہے اسے ہمیں برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔وقت کا ایک حکمراں حجاج ابن یوسف کو ایک کمزور اور مجبور بیٹی نے مددکرنے پر مجبور کردیاتھا۔حجاج کے حکم پر محمدابن قاسم کو میدان میں بھیجاگیاتھا،اسلامی تاریخ ایسی بہت ساری مسکان خان سے بھری پڑی ہے جس کامطالعہ ہمارے ایمان کوتازگی اورقوت عطاکرتاہے۔مسلمانوں میں جانبازی اورجاں فروشی جذبہ کیسے پیدا ہوتا ہے اوریہ قوت کس سرچشمہ سے ملتی ہے؟اس تعلق سے مولانا مناظراحسن گیلانیؒ ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ” پھر آپ کو خود ہی سوچنا چاہئے کہ اس عہد کے مسلمانوں میں جاں فروشی اور جانبازی کی ایسی بے پناہ قوت کہاں سے آگئی؟کہ بڑے بڑے قلعے جو برسوں میں فتح نہیں ہوسکتے تھے ہفتہ دوہفتہ میں ان کا سقوط ہوجاتاتھا۔حوصلوں کی وہ بلندی کہ آج دلی میں ہیں،کل لکھنؤ میں،پرسوں دیوگڑھی میں،اورچوتھے دن کہیں اور قلعوں کے نیچے انکے گھوڑے ہنہنا رہےہیں۔رعب ودبدبہ کی یہ حالت کہ آنکھ ملانے کی ہمت بھی دشمنوں کو نہیں ہوتی تھی۔ایک طرف یہ حال ہے اور دوسری طرف تاتاریوں کا سیلاب آجاتاہے اورسرحد ہی پر یاجس مقام پر وہ ظاہر ہوتے ہیں وہیں روک دیئے جاتے ہیں۔یہ واقعات ہیں خیالات نہیں پھرانقلاب کی وجہ کیاہوئی؟یہ قوت مسلمانوں میں کس سرچشمے سے بھری گئی۔جہاں تک میرا خیال ہے کہ اس میں سلطان المشائخ کے وجود کو جیساکہ اس زمانے میں محسوس کیاگیاتھا،ہندوستان کی”فوجی قوت”کی اس خاص کیفیت کے پیداکرنے میں ان کو بالکل بے تعلق نہیں کہاجاسکتا اور یہ کوئی ایسی بات بھی نہیں ہے جسے ہم ماورائے عقل قراردیں،بلکہ واقعہ وہی ہے جسکا ایک دفعہ نہیں متعدد بار تجربہ کیاگیاہے اورجس کا جب جی چاہے تجربہ کرلے وہ قرآنی آیات،اوراسکی تعلیمات کا بے پناہ زور ہے۔
آپ سن چکے ہیں کہ سلطان المشائخ جس شعر سے خاص ذوق ومستی کی حالت میں آجاتے تھے اور وہ زیادہ ترقرآن کی یہ آیت”فاعلم انہ لاالہ اللہ“پس جان لے کہ نہیں ہے کوئی الہ مگر اللہ ہی،اسکافارسی ترجمہ ذراشاعرانہ رنگ میں ہوتاتھا،اسی وقت وہ شعر سارے شہر بلکہ پورے ملک میں مشہور ہوجاتاتھا۔گلیوں میں،کوچوں میں،لوگ اسی کو دہراتے پھرتے تھے،سلطان المشائخ کے جن حالات کے ساتھ ان خاص اشعار کی شہرت مسلمانوں میں ہوتی رہتی تھی۔کیایہ ممکن تھاکہ جس دل میں ایمان کا حبہ خردل بھی ہوتا ہوگا اسکا سینہ سلطان المشائخ کی اس بھڑکائی ہوئی آگ سے بھبھک نہ اٹھتا ہوگا۔سلطان المشائخ کے زمانے میں فراخنائے ہند کے قدیم جغرافیہ میں جوعظیم انقلاب برپاہوا یہ ایک مستقل کتاب کا مضمون ہے کاش اس پر کچھ لکھاجاتا”(نظام تعلیم وتربیت)مسکان کے اندربھی یہی روحانی جذبہ تھا جسکی وجہ سے وہ دلیری پر آمادہ ہوئی۔انکے والد نے بھی یہ انکشاف کیاہے کہ مسکان خان نماز،روزہ اور تہجد کی پابند ہے،ایسی لڑکیاں کبھی ارتداد کاشکار نہیں ہوسکتی۔اگر ہم بھی آج سے یہ عہد کرلیں کہ ہم اپنی اولاد کوروحانی غذابھی فراہم کریں گے،انکی روحانی تربیت بھی ہوگی توایسی بیٹاں یقیناً والدین، خاندان اور پورے ملک کےلئے باعثِ فخر ہوں گی۔اور یہ ہرجگہ نام روشن کرنے کاذریعہ بنیں گی،ایسی بیٹیاں درحقیقت حضرت عائشہ،حضرت فاطمہ،حضرت سمیہ، حضرت اسماء،حضرت آسیہ،حضرت سارہ اورحضرت مریم علیہماالسلام کی حقیقی جانشین ہونگی۔شاعر نے شاید یہی بتانے کی کوشش کی ہے کہ
ہم جرأت و شجاعت و اہل وفا کی بیٹیاں
جوجھک سکا نہ بک سکا اس رہنماکی بیٹیاں
ہم ظالموں کی راہ میں دیواربن کے آئیں گے
ہم انقلابی،انقلابی،انقلابی، انقلابی بیٹیاں
(مضون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)