تنہائی کے گناہ سے اللہ کی پناہ!
محمد شاکر عمیر معروفی قاسمی مظاہری
استاذ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور، اعظم گڑھ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بالیقین آپ لوگوں میں نیک شمار ہوتے ہوں گے، معاشرہ میں آپ کو دیندار جانا جاتا ہوگا، امانت داری میں آپ ضرب المثل ہوں گے، لوگوں کے ساتھ برتاؤ میں آپ کی مثال نہ ہوگی، اور بھی بہت سی خوبیوں کے لئے آپ کا نام روشن ہوگا؛ لیکن کیا آپ تنہائی کے گناہ سے بھی بچتے ہیں جب کہ آپ کے ساتھ کوئی اور نہیں ہوتا ہے؟ یا آپ کے ساتھ صرف آپ کی شریک حیات ہوتی ہے؟ ذرا اس پہلو سے اپنا جائزہ لیجئے، کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ بھی اس گناہ میں مبتلاء ہوں؟ کیوں کہ عموما ایسا ہوتا ہے کہ انسان کھلم کھلا اور مجمع میں لوگوں سے حیاء کی وجہ سے گناہ کے کاموں سے دور رہتا ہے؛ لیکن جب وہ تنہائی میں ہوتا ہے تو اسے گناہ سے روکنے والی کوئی چیز نہیں ہوتی، بالآخر وہ گناہ کا مرتکب ہوجاتا ہے۔
کیا بنوآدم کو ڈر نہیں لگتا کہ تنہائی میں ا ﷲ تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کرنے اور بے خوف و خطرا ﷲ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے قیامت کے دن اس کی تمام نیکیاں بے وقعت و بے حیثیت اور رائیگاں ہوسکتی ہیں!!!
اس سلسلہ میں ایک حدیث پاک نقل کی جاتی ہے جس سے اندازہ ہوگا کہ تنہائی کے گناہ سے بچنا کس قدر لازم وضروری ہے۔
عَنْ ثَوْبَانَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِي يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالِ جِبَالِ تِهَامَةَ، بِيضًا، فَيَجْعَلُهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَبَاءً مَنْثُورًا ، قَالَ ثَوْبَانُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا، جَلِّهِمْ لَنَا أَنْ لَا نَكُونَ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَا نَعْلَمُ، قَالَ: أَمَا إِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ وَمِنْ جِلْدَتِكُمْ، وَيَأْخُذُونَ مِنَ اللَّيْلِ كَمَا تَأْخُذُونَ، وَلَكِنَّهُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللَّهِ انْتَهَكُوهَا۔ (سنن ابن ماجه، كتاب الزهد، باب ذكر الذنوب، رقم: 4245، مسند الشاميين، رقم: 680 – المعجم الأوسط، رقم: 4632)
ترجمہ:
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اپنی امت میں سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے، اللہ تعالیٰ ان کو فضا میں اڑتے ہوئے ذرے کی طرح بنا دے گا، حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! ان لوگوں کا حال ہم سے بیان فرمائیے اور کھول کر بیان فرمایئے تاکہ لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے ہم ان میں سے نہ ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جان لو کہ وہ تمہارے بھائیوں میں سے ہی ہیں، اور تمہاری قوم میں سے ہیں، وہ بھی راتوں کو اسی طرح عبادت کریں گے، جیسے تم عبادت کرتے ہو، لیکن وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب تنہائی میں ( لوگوں کی نگاہوں سے دور ) ہوں گے تو حرام کاموں کا ارتکاب کریں گے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑوں کے مثل بے شمار نیکیاں اور راتوں کی عبادتیں بھی نامۂ اعمال میں ہوں؛ لیکن ساتھ ہی بندہ تنہائی میں اﷲ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کا مرتکب ہو تو ایسی عبادت وشب بیداری اور نیکیوں کا اسے کوئی فائدہ نہ پہنچ سکے گا، بلکہ ان نیکیوں کی حفاظت کے لئے یہ بھی ضروری ہے بندہ تنہائی کے گناہوں سے بھی دور رہے، ورنہ اس کی یہ نیکیاں ضائع و برباد ہوسکتی ہیں۔
اور اگر کبھی اس طرح کا گناہ سرزد ہوجائے تو فورا توبہ واستغفار کرنا چاہئیے اور اس کی جگہ کچھ نیکیاں کرلینی چاہئیے اور آئندہ نہ کرنے کا عزم مصمم کرنا چاہئیے، سنن ترمذی وغیرہ میں ہے:
عَنْ أَبِيْ ذَرٍّ جُنْدُبِ بنِ جُنَادَةَ وَأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ مُعَاذِ بِنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عَنْ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: اتَّقِ اللهَ حَيْثُمَا كُنْتَ، وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الحَسَنَةَ تَمْحُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ۔ (سنن الترمذي: كتاب البر والصلة، باب ما جاء في معاشرة الناس 1987)
ترجمہ:
حضرت ابوذر جندب بن جنادہ الغفاریؓ اور ابوعبدالرحمٰن معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: توجہاں بھی ہو اللہ تعالیٰ سے ڈر، اور گناہ کے بعد فوراً نیکی کر، وہ نیکی اس گناہ کو مٹاڈالے گی، اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتاؤ کر۔
اللہ رب العزت ہم سب کے ظاہر وباطن کو سنواردے، اور جلوت وخلوت کے گناہوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائے، آمین۔