(ایمانیات سیریز:3)
اللہ پر ایمان
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
اللہ پر ایمان کا مطلب ہے پورے یقین کے ساتھ اس کے وجود کا اقرار کیا جائے اور اس کی ربوبیت، الوہیت اور تمام اسماء وصفات کا اعتراف کیا جائے۔
اللہ کے وجود پر ایمان رکھنا انسانی فطرت کا داعیہ اور تقاضا ہے۔ انسانی شعور کے تناظر میں یہ ایک فطری امر ہے جس پر خارج سے دلیل لانا محض تکلف اور تصنع ہے۔اسی لیے دنیا کے تمام سلیم الفطرت انسان ادیان ومذاہب کے اختلاف کے باوجود اللہ کے وجود کا اعتراف کرتے ہیں۔
ہم اپنے دل کی گہرائی سے محسوس کرتے ہیں کہ ذاتِ باری تعالیٰ موجود ہے۔ جب ہم پریشانیوں اور مصیبتوں میں گھر جاتے ہیں تو اسی کی پناہ پکڑتے ہیں کیونکہ یہی ہماری مومنانہ فطرت کا تقاضا ہوتا ہے۔ دین پسندی اور غیب پر ایمان کا جو جذبہ باری تعالیٰ نے انسان کی سرشت میں رکھا ہے اس کی تکمیل کی ابتداء وجودِ باری تعالیٰ کے اعتراف سے ہوتی ہے۔
جدید دور میں بعض لوگوں نے اپنی فطرتیں مسخ کر ڈالی ہیں اور فطرت کے اس تقاضے سے غافل ہوگئے ہیں۔حالانکہ ہمارے محسوس ومشاہد تجربات بتاتے ہیں کہ سچے دل سے دعا مانگنے والوں نے دعا مانگی، پکارنے والوں نے مصیبت کی گھڑی میں ربِ حقیقی کو پکارا اور پریشان حالوں نے اپنی پریشانی سے نجات کی التجا کی تو غیب سے ان کی دست گیری کی گئی اور ان کے مسائل حل کر دیے گئے۔ ان واقعات سے بھی قطعی طور پر ثابت ہوجاتا ہے کہ اس کائنات کا ایک احکم الحاکمین رب اور منتظم (قیوم)ہے۔
باری تعالیٰ کے وجود کے دلائل اتنے زیادہ ہیں کہ ان سب کو بیان کرنا ناممکن ہے۔ سامنے کی چندباتیں یہاں بیان کی جاتی ہیں۔
ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ ہر شے کا کوئی بنانے والا ہے۔ کوئی شے اس قاعدے سے مستثنیٰ نہیں۔ یہ لاتعداد مخلوقات جنھیں ہم ہر وقت دیکھتے ہیں، ضرور ان کا بھی کوئی خالق ہے جس نے انھیں وجود بخشا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔
یہ بات محال ہے کہ کسی شے کو مخلوق بھی مانا جائے اور اس کے کسی خالق کا اعتراف نہ کیا جائے۔ ٹھیک اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ کوئی مخلوق خود اپنے آپ کو پیدا کرپائے۔اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے: {أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَیْْرِ شَیْْء ٍ أَمْ ہُمُ الْخَالِقُونَ }(طور،۳۵)’’کیا یہ کسی خالق کے بغیر پیدا ہوگئے ہیں؟یا یہ خود اپنے خالق ہیں؟‘‘آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ بغیر خالق کے پیدا نہیں ہوئے ہیں اور نہ انھوں نے خود اپنے آپ کو وجود بخشا ہے۔ جب دونوں صورتیں ممکن نہیں ہیں تو اپنے آپ طے ہوجاتا ہے کہ تمام مخلوقات کا خالق اللہ تبارک وتعالیٰ ہی ہے۔
دوسری چیز اس کائنات کا حیرت انگیز سسٹم ہے۔ یہاں آسمان وزمین، شجر وحجر اور افلاک وکواکب سب چیخ چیخ کر بتارہے ہیں کہ اس کائنات کا بنانے والا ایک ہے اور وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات ہے۔{صُنْعَ اللَّہِ الَّذِیْ أَتْقَنَ کُلَّ شَیْْئ}(نمل،۸۸)’’یہ اللہ کی قدرت ہے جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا ہے۔‘‘
مثال کے طور پر سورج اور چاند اور دیگر ستارے ایک متعین نظام کے تحت حرکت پذیر ہیں۔ اس نظام میں کبھی ایک لمحے کا فرق نہیں آتا۔ ہر سیارہ اپنے مدار میں باقاعدگی سے گھوم رہا ہے، نہ اس سے تجاوز کرتا ہے اور نہ پیچھے ہٹتا ہے۔ {لَا الشَّمْسُ یَنبَغِیْ لَہَا أَن تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُونَ}(یس،۴۰)’’نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔‘‘
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین