اللہ سے محبت کی نشانیاں

اللہ سے محبت کی نشانیاں

محمد عبدالظاہر عبیدو

ترجمہ: ذکی الرحمن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

اللہ سے محبت ایک قلبی عمل ہے جو اُن عظیم الشان اعمال وعبادات میں شامل ہے جن کی بہ دولت بندے کو اللہ کی قربت ومعیت نصیب ہوتی ہے۔یہ روح کی غذا اور دل کی توانائی ہے۔ یہی ایمان کا اصل جوہر اور مغز ہے، بلکہ وجودِ ایمان کے لیے بنیادی اور کلیدی شرط ہے۔

اللہ کی محبت کا تقاضا ہے کہ اس کے احکام واوامر کی تعمیل کی جائے اور اس کے منہیات ومحارم سے بچا جائے اور ہر لمحہ اس کی قربت پانے کے لیے سعی وجہد کی جائے۔ چنانچہ اس غرض سے طاعات وعبادات کی پابندی کی جانی چاہیے اور آسمان وزمین کی ساخت اور بناوٹ میں تفکر وتدبر کیا جائے۔

اسی طرح نفل عبادات وطاعات کے ذریعے تقرب پانے کی بھرپور کوشش ہونی چاہیے۔ دل میں اور زبان سے بہ کثرت رب العالمین کا ذکر کیا جائے اور اس کے بھیجے ہوئے آخری رسول حضرت محمدﷺ کی سنت وسیرت کی اتباع کوزندگی کا وطیرہ اور شعار بنالیا جائے۔

اللہ رب العزت فرماتا ہے

{قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِیْم}(آلِ عمران،۳۱)

’’اے نبیؐ، لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔‘‘

اللہ کی محبت کا درجہ بڑی عظمت ورفعت کا حامل ہے۔بندہ اس تک پہنچ جائے تو وہ مستقل طور سے اللہ کی حفاظت اورنگہ داشت میں آجاتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ ’’یقینا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے گا تو میرا اس کے ساتھ اعلانِ جنگ ہے، اور بندہ جن چیزوں سے بھی میری قربت پانے کی سعی کرتا ہے ان میں مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ فرائض ہیں جو میں نے اس پر عائد کیے ہیں،اور مسلسل میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میری قربت پانے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں، اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ کچھ پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اس وقت حال یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ مجھ سے کچھ مانگے تو ممیں اسےضرور عطا کرتا ہوں، اگر وہ میری پناہ چاہے تو ضرور اسے اپنی پناہ میں لے لیتا ہوں۔

[إن اللّٰہ تعالیٰ قال من عادی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب وما تقرب إلی عبدی بشییٔ أحب إلی مما افترضتہ ولا یزال عبدی یتقرب إلی بالنوافل حتی أحبہ فإذا أحببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ وبصرہ الذی یبصربہ ویدہ التی یبطش بہا ورجلہ التی یمشی بہا ولئن سألنی لأعطینہ ولئن استعاذنی لأعیذنہ](صحیح بخاریؒ:۶۵۰۲)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بندے کے کاموں میں اللہ کو وہ کام سب سے زیادہ پسند ہیں جو اس کے واجب کردہ فرائض کی تعمیل میں انجام دیے جاتے ہیں۔تاہم نفل عبادات کا مقام بھی بہت اونچا ہے بہ ایں طورکہ ان سے بھی بندہ اللہ کی محبت کا سزاوار اور مستحق بن جاتا ہے۔ اور جب اللہ کسی سے محبت کرنے لگتا ہے تو اس سے برائی کا صدور تقریباً محال ہوجاتا ہے۔اس کی ہرنقل وحرکت مرضیاتِ الٰہی کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔وہ اپنے جملہ اعمال وافعال میں اللہ کی معیت ورفاقت سے بہرہ مند ہونے لگتا ہے۔

ارشادِ باری ہے:{إِنَّ اللّہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَواْ وَّالَّذِیْنَ ہُم مُّحْسِنُونَ}(نحل، ۱۲۸)

’’بے شک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ سے کام لیتے ہیں اور احسان پر عمل کرتے ہیں۔‘‘

ربِ ذوالجلال جب کسی بندے کو اپنا محبوب اور منظورِ نظربنالیتا ہے تو اس کی زندگی میں کچھ نمایاں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جنھیں دیکھ کر بڑی حد تک اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فلاں بندہ اللہ کے اولیاء واصفیاء کے زمرے میں شامل ہے یا نہیں۔ایسی بعض علامات ہیں جن کی روشنی میں ہم اپنا جائزہ بھی لے سکتے ہیں اور بہ آسانی جان سکتے ہیں کہ آیا ہم اپنی موجودہ ایمانی ودینی حالت کے ساتھ اپنے رب کی محبت ورحمت کے مستحق ہیں بھی یا نہیں۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ جب کسی بندے کو اپنا محبوب بناتا ہے تو اس کے لیے نیک کاموں کی انجام دہی اور عبادات وطاعات کی ادائیگی آسان ہوجاتی ہے۔ اس کی زبان اور دل مستقل طور سے اللہ کی یاد میں منہمک ہوجاتے ہیں اور اسے یادِ الٰہی میں ایک گونہ لذت، سرشاری اور بے خودی کی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔گناہوں اور برائیوں سے اس کی طبیعت بالکل متنفر ہوجاتی ہے۔

علامہ ابن القیمؒ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اس کے دل میں سب سے پہلے اپنی محبت ڈال دیتا ہے۔ ایمان کی پختگی اور صلابت بھی اللہ کا انعام ہے جو وہ اپنے چیدہ بندوں کو بخشتا ہے، بالخصوص ایسے دور میں جب کہ فتنوں کی ریل پیل ہے، دھوکہ دہی اور فریب کاری وقت کا فیشن اورچلن بنی ہوئی ہے۔ایسے دور میں اگر کسی بندے کو پختہ ایمان کی توفیق مل جائے تو یہ نوازش خود اس بات کی بڑی دلیل ہے کہ یہ بندہ اللہ کا محبوب ہے۔

کیونکہ اللہ تعالیٰ ہرگز ایسے لوگوں کو ہدایت واستقامت کی توفیق نہیں دیتا جن سے اسے نفرت ہے یا جو کسی درجے میں اس کے منظورِ نظر اور محلِ عنایت نہیں ہیں۔ وہ مختارِ مطلق ہے، فعالٌ لمایرید ہے، وہ جسے چاہتا ہے منزلِ ہدایت تک پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور قعرِ مذلت میں ڈال دیتا ہے۔

رب کی نگاہ میں بندے کی محبوبیت کی ایک پہچان یہ ہے کہ بارگاہِ ایزدی سے اس کے حق میں اخلاقِ حسنہ کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔ اسے جملہ صفاتِ حمیدہ اور خصائلِ جمیلہ سے آراستہ ہونے کی توفیق ملتی ہے۔اس کی پوری زندگی محمد ﷺ کی سیرت وسنت کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔اس کے روز مرہ معمولات ومعاملات میں اتباعِ شریعت کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔قدرتی اور غیبی طور سے عامۃ الناس کے دلوں میں اس کی عظمت وعقیدت ڈال دی جاتی ہے اور لوگ ازخوداسے چاہنے لگتے ہیں۔

اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ اللہ کے بندوں میں اسے سب سے زیادہ محبوب وہ بندے ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں۔[أحب عباد اللّٰہ إلی اللّٰہ أحسنھم خلقا](صحیح ابن حبانؒ:۴۸۲۔المعجم الکبیر،طبرانیؒ:۴۷۳۔مستدرک حاکمؒ:۸۲۱۴)

علامہ تویجریؒ نے اپنی مایۂ ناز کتاب ’’موسوعۃ فقہ القلوب‘‘ میں لکھا ہے:’’مالکِ حقیقی جب اپنے کسی غلام سے محبت کرتا ہے تو اسے اپنا قرب بخشتا ہے اور اپنی عبادت وطاعت اور خلوت ومناجات اس کے لیے مرغوب ومطلوب بنادیتا ہے۔ ایمان کی مٹھاس اس کے احساس وشعور پر حاوی ہوجاتی ہے۔

معاصی وآثام سے اسے سخت نفرت ہوجاتی ہے۔ فضول مشغولیات،لایعنی تفریحات اور غفلت آمیز سرگرمیاں اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہیں۔ غیر اللہ کی تعظیم وتوقیرسے اسے وحشت اور اکتاہٹ ہوتی ہے۔ہر وہ شے جو اسے ربِ کریم کے چوکھٹ سے دور کردے،وہ اس کی نگاہ میں مبغوض ومکروہ بن جاتی ہے۔

وہ قرآنِ کریم میں اس ارشادِ باری کی عملی تصویر بن جاتا ہے:{وَلَکِنَّ اللَّہَ حَبَّبَ إِلَیْْکُمُ الْإِیْمَانَ وَزَیَّنَہُ فِیْ قُلُوبِکُمْ وَکَرَّہَ إِلَیْْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ أُوْلَئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُونَ٭فَضْلاً مِّنَ اللَّہِ وَنِعْمَۃً وَاللَّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ}(حجرات،۷-۸)

’’مگر اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمہارے لیے دل پسند بنادیا اور کفر وفسق اور نافرمانی سے تم کو متنفر کر دیا۔ ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل واحسان سے راست رو ہیں اور اللہ علیم وحکیم ہے۔‘‘

درگاہِ قدس میں بندے کی محبوبیت ومقبولیت کا پتہ آزمائشوں سے بھی چلتا ہے۔محبوبِ حقیقی جس بندے کی طرف نگاہِ التفات ڈالتا ہے اسے ٹھوک بجا کر اور اچھی طرح آزماکر بھی دیکھتا ہے کہ وہ اس نعمت کا واقعتاً اہل ہے یا نہیں۔ اس وقت اگر بندہ صبر وشکیبائی کا دامن پکڑے اور ضبط وتحمل کا مظاہرہ کرے تو اسے چن لیا جاتا ہے، اور اگر وہ ایک قدم آگے بڑھ کر شکر ورضا کا رویہ اختیار کرے تو زمرۂ اولیاء واصفیاء میں اس کی شمولیت کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔

شیخ محمد عویضہ اپنی کتاب ’’فصل الخطاب فی الزہد والرقائق والآداب‘‘ میں رقم طراز ہیں:’’کچھ نشانیاں اگر بندے میں ظاہرہوجائیں اور وہ انھیں شدت سے محسوس کرنے لگے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ کی محبت وعنایت کا مہبط بن گیا ہے جس پر اسے سجدۂ شکر بجالانا چاہیے۔

اس میں پہلی نشانی یہ ہے کہ درگاہِ اقدس سے اس کے حق میں حسنِ تدبیر اور عمدہ انتظام وانصرام کا فیصلہ ہوتا ہے۔اوائلِ عمری سے ہی اسے دینی ماحول میسر آتاہے اور اسلامی طریقے پر اس کی پرورش وپرداخت کا نظم کیا جاتا ہے۔شروع سے اس کے دل میں ایمانی حس طاقتور وتوانا ہوجاتی ہے۔اس کی عقل نورِ ایمانی سے مستنیر ہوتی ہے۔اس بندے کو اللہ اپنی محبت کے لیے خاص کر لیتا ہے اور خالصتاً اپنی عبادت وطاعت کے لیے یکسو کر دیتا ہے۔

سانسوں کے تسلسل کی طرح اس کی زبان پر ذکرِ الٰہی جاری ہو جاتا ہے اور اعضاء وجوارح خدائی احکام کی تعمیل میں مصروف ہوتے ہیں۔وہ محبوبِ حقیقی کے قریب پہنچانے والا ہر وسیلہ اختیار کرتا ہے۔ عبد اور معبود کے درمیان حائل ہر رکاوٹ اسے دوبھر معلوم ہوتی ہے۔پھر باری تعالیٰ اس بندے کا ذمہ اپنے اوپر لے لیتا ہے۔ زندگی کے تمام معاملات وامور اس کے حق میں آسان ہو جاتے ہیں اور مخلوق کی منت کیشی اور کاسہ لیسی کی ذلت سے وہ محفوظ کر دیا جاتا ہے۔پستی اور دریوزہ گری کا سہارا لیے بغیر اس کے جملہ مسائل حل ہوتے جاتے ہیں۔اس کا ظاہر وباطن یکسانیت سے متصف اور جادۂ اعتدال پر قائم رہتا ہے۔اس کے جملہ تفکرات صرف ایک فکر میں سمٹ جاتے ہیں اور وہ ہے اللہ کی محبت، جو اسے ہر دوسری نسبت اور تعلق اور وابستگی سے بے نیاز وبے پرواہ بنا دیتی ہے۔

دوسری نشانی یہ ہے کہ بندے کے ساتھ لطف وکرم کا معاملہ کیا جاتا ہے۔اس کے تئیں لطف ومراحمت اور اپنائیت کا اظہار ہوتا ہے۔فتنوں سے بچا کرآسان ترین حالات میں رکھا جاتا ہے اور بار بار غیبی مداخلت اور ملکوتی کارفرمائی کا نظارہ اس کی زندگی میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

تیسری نشانی یہ ہے کہ انسانوں کے دل اس کے لیے کھول دیے جاتے ہیں۔ اسے قبولِ عام نصیب ہوتا ہے۔وہ بندہ جو اللہ کا محبوب ہے، عام لوگوں کے دل اس کی طرف کھنچتے اور جھکتے ہیں۔اس کے تئیں اپنائیت اور لگاوٹ محسوس کرتے ہیں۔ زبانِ خلق سے اس کے بارے میں تعریفی اور دعائیہ کلمات نکلتے ہیں۔ حدیثِ پاک میں اللہ کے نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل علیہ السلام سے پکار کر کہتا کہ میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں، اس لیے تم بھی اس سے محبت کرو۔یہ سن کر حضرت جبریل اسے اپنا محبوب بنالیتے ہیں۔ پھر وہ آسمان والوں میں پکار کر کہتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے، اس لیے تم بھی اسے اپنا محبوب بنالو۔چنانچہ اہلِ سماء بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں۔

بعد ازاں دنیا میں اسے کے لیے قبولیت ومحبت اتار دی جاتی ہے۔‘‘

[إذا أحب اللّٰہ عبدا نادیٰ جبریل إن اللّٰہ یحب فلانا فأحبہ فیحبہ جبریل فینادی جبریل فی أہل السماء إن اللّٰہ یحب فلانا فأحبوہ فیحبہ أہل السماء ثم یوضع لہ القبول فی الأرض](صحیح بخاریؒ:۳۲۰۹۔صحیح مسلمؒ: ۲۶۳۷۔ سنن ترمذیؒ:۳۱۶۱۔ مؤطا مالکؒ:۲۷۴۳۔ مسند احمدؒ:۷۶۲۵)

بندے کی بارگاہِ رب میں محبوبیت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اسے طرح طرح سے آزمایا جاتا ہے اور مختلف کسوٹیوں پر اس کے ایمان ویقین کی جانچ ہوتی ہے۔

حدیثِ پاک میں اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:’’بڑا بدلہ بڑی آزمائش کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے آزماتا ہے،اب آزمائشوں کے باوجود ان میں سے جو اللہ سے راضی رہا تو اس کے حق میں رضائے الٰہی کا فیصلہ ہوتا ہے، اور جس نے ناراضی کا شیوہ اختیار کیا اس کے حق میں پھر یہی فیصلہ ہوتا ہے۔‘‘

[إن عظم الجزاء مع عظم البلاء وإن اللّٰہ تعالیٰ إذا أحب قوما ابتلاھم فمن رضی فلہ الرضا ومن سخط فلہ السخط] (سنن ترمذیؒ:۲۳۹۶۔ سنن ابن ماجہؒ:۴۰۳۱)

یہ ابتلاء وآزمائش اسی قدر شدید یا خفیف ہوتی ہے جس قدر بندے کا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور جتنا وہ اللہ کا محبوب ومقرب ہوتا ہے۔یہ بات سنتِ نبوی سے مبرہن ہے۔ اللہ کے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:’’سب سے زیادہ انبیاء کو آزمایا جاتا ہے، پھر جو جس قدر ان کے جیسا بنے۔

دینداری کے بہ قدر ہربندے کی آزمائش ہوتی ہے۔ اگر اس کی دین پسندی پختہ ہوتی ہے تو اس کی آزمائش بھی سخت ہوتی ہے اور اگر اس کی دینی وابستگی میں لچک اور مداہنت ہوتی ہے تو اسی کے مطابق اسے آزمایا جاتا ہے۔ابتلاء وآزمائش کا یہ سلسلہ لگا رہتا ہے یہاں تک کہ معاملہ یہ ہوجاتا ہے کہ ایک بندہ روئے زمین پر چلتا پھرتا ہے مگر اس کے نامۂ عمل میں کوئی گناہ درج نہیں ہوتا۔‘‘

[أشد الناس بلاء الأنبیاء ثم الأمثل فی الأمثل یبتی لارجل علی حسب دینہ فإن کان فی دینہ صلبا اشتد بلاؤہ وإن کان فی دینہ رقۃ ابتلی علی قدر دینہ فما یبرح البلاء بالعبد حتی یترکہ یمشی علی الارض وما علیہ خطیئۃ](سنن ترمذیؒ:۲۳۹۸۔سنن ابن ماجہؒ:۴۰۲۳۔ سنن دارمیؒ:۲۸۲۵۔ مسند احمدؒ: ۱۴۸۱)

معلوم ہوا کہ ابتلاء وآزمائش بندے کی جانچ کا طریقہ ہے۔یہ اللہ کی طرف سے محبت کی نشانی بھی ہے۔ بہ ظاہر بندے کو جو تکلیف پہنچتی ہے اس کا معاملہ کڑوی کسیلی دوا نوش کرنے جیسا ہے۔اگر ہمارے جگر گوشے بیمار ہوجائیں تو ہم انھیں کڑوی دوا پلاتے ہیں کیونکہ زیادہ بڑی خرابی -یعنی مرض- سے نجات پانے کی یہی سبیل ہے۔ مومن کا اس دنیا میں آزمائش کا شکار ہوجانا بہتر ہے بہ مقابلہ اس کے کہ اسے آخرت میں جرائم ومعاصی کی بھرپورسزا ملے۔

اگر مومن صبر وشکر کا دامن تھامے رہے تو آزمائشیں بھی اس کے حق میں رحمت وسعادت کا پیش خیمہ بنتی ہیں۔ مصیبتیں آکر اس کے درجات بلند کرتی ہیں اور اس کے گناہوں کا ازالہ ہوجاتا ہے۔اللہ کے نبیﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کے بارے میں خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو دنیا میں ہی اسے فوری سزا دے دیتا ہے۔

اور جب کسی بندے کے لیے شر کا ارادہ ہوتا ہے تو اس کے گناہوں کی سزا روک لی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ روزِ قیامت اپنا پورا بدلہ پاجائے۔

[إذا أراد اللّٰہ بعبدہ الخیر عجل لہ العقوبۃ فی الدنیا وإذا أراد بعبدہ الشر أمسک عنہ بذنبہ حتی یوافیہ بہ یوم القیامۃ](سنن ترمذیؒ:۲۳۹۶)

علمائے کرام فرماتے ہیں کہ دنیا میں منافقین کو ان کی کرتوتوں کا مزہ نہیں چکھایا جاتا۔وہ آخرت میں اپنے گناہوں کی پوری مار جھیلیں گے۔اس لیے جس بندۂ مومن سے اللہ محبت کرنے لگے اسے اپنے انجام اور اجر وثواب کے بارے میں زیادہ نہیں سوچنا چاہیے۔ اللہ کی محبت سے بڑھ کر اعزاز واکرام کسی بندۂ خاکی نہاد کے لیے کیاہو سکتا ہے؟

درگاہِ قدس میں محبوبیت کی ایک نشانی یہ ہے کہ موت سے پہلے بندے کو کسی نیک کام کی توفیق مل جاتی ہے، چاہے وہ توبہ وانابت ہی ہو۔یہ بات بھی سنتِ پاک سے ثابت شدہ ہے۔اللہ کے نبیﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ ’’بے شک اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اس سے عمل کراتا ہے۔‘‘لوگوں نے کہا:’’اللہ کے رسولﷺ،اس سے کیسے عمل کرایا جاتا ہے؟‘‘ تو فرمایا: ’’اللہ اسے مرنے سے پہلے نیک کام کی توفیق دیتا ہے۔‘‘

[إن اللّٰہ إذا أحب العبد استعملہ قالوا کیف یستعملہ یا رسول اللّٰہ قال یوفقہ لعمل صالح قبل الموت](سنن ترمذیؒ:۲۱۴۲۔ مسند احمدؒ:۱۲۰۳۶،۱۲۲۱۴،۱۳۴۰۸)

عرضِ مدعا یہ ہے کہ اللہ محبت ہی وہ منزلِ مقصود ہے جس تک پہنچنے کے لیے طالبینِ صادقین نے رختِ سفر جٹایا ہے اور جسے پانے کے لیے حوصلہ مندوں نے محنت کی ہے اور جس کی حصول یابی کے لیے سرفروشوں نے کمرِ ہمت باندھی ہے۔ سچے چاہنے والوں نے اس کی خاطر اپنی انا کو ختم کر دیا اور عبادت گزاروں نے اس لازوال خوشبو سے مشامِ جاں کو معطر کرنے کے لیے جملہ خلائق وموجودات سے منھ پھیر لیا۔

یہی دلوں کی روزی، روحوں کی غذا اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔یہی تو وہ زندگی ہے جس سے کوئی محروم ہے تو وہ چلتی پھرتی لاش ہے جسے دنیا والے غلطی سے زندہ سمجھ رہے ہیں۔یہی وہ روشنی ہے کہ اگر کوئی اسے نہ پا سکا تو ہمیشہ تاریکی اور تیرہ بختی کے دریا میں غوطے کھاتا رہے گا۔یہی وہ داروئے شفا ہے کہ جسے یہ میسر نہ ہوئی وہ نوع بہ نوع امراض واسقام کی آماج گاہ بنبنا رہے گا۔

یہی وہ لذتِ جاوداں ہے جسے اگر کوئی نہ پاسکا تو اس کی پوری زندگی اذیت وکرب اور تفکرات ومشکلات میں گھری رہے گی۔یہی ایمان واعمال اور مقامات واحوال کی روح ہے جو اگر ناپید ہوجائے تو یہ سب کام لاشۂ بے جان سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔

اللہ جب کسی بندے کو محبوب بناتا ہے تو اس کی زندگی میں چند تغیرات پیدا ہوجاتے ہیں جن کی حیثیت پہچان اور علامت جیسی ہے۔اس میں پہلی علامت یہ ہے کہ بندے کو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ کے نقشِ قدم پر چلنے اور ان کی سیرت وسنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق ملتی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے{قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِیْم}(آلِ عمران،۳۱)

’’اے نبیؐ، لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔‘‘

دوسری علامت یہ ہے کہ اس کے اندر یہ مزاج تشکیل پاتا ہے کہ اپنے ابنائے نوع سے صرف اللہ کے لیے محبت رکھے اور اللہ کے لیے عداوت کرے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عام اہلِ ایمان کے لیے وہ ریشم کی طرح نرم ہوتاہے اور رزمِ حق وباطل میں فولاد بن جاتا ہے۔ دین کے معاندین ومخالفین سے اسے بے زاری وبے گانگی ہوتی ہے۔اللہ کے راستے میں جدوجہد کرنا -جس کی حتمی شکل جہاد اور قتال ہے- اسے پسند راس آتا ہے۔وہ اللہ کے سوا کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ دنیا کیا کہے گی اور کیا سمجھے گی، اس سے اسے کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔اللہ کی خاطر وہ کسی کی ملامت پر کان نہیں دھرتا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کی یہ صفات ایک آیتِ کریمہ میں بیان فرمائی ہیں۔

ارشادِ باری ہے:{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ مَن یَرْتَدَّ مِنکُمْ عَن دِیْنِہِ فَسَوْفَ یَأْتِیْ اللّہُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہُ أَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ أَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ یُجَاہِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَلاَ یَخَافُونَ لَوْمَۃَ لآئِمٍ ذَلِکَ فَضْلُ اللّہِ یُؤْتِیْہِ مَن یَشَاء ُ وَاللّہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ} (مائدہ،۵۴)

’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے(تو پھر جائے)، اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے سے نہ ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔‘‘

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے اوصاف ذکر فرمائے ہیں جن سے اسے محبت ہے۔چنانچہ پہلی صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ ان کے اندر کسرِ نفسی، خاکساری اور تواضع ہوتی ہے۔ وہ ایمانی بھائیوں کے بالمقابل غرور اور تکبر کا اظہار نہیں کرتے۔اور کفار ومشرکین کے سامنے ہرگز اپنی لاچاری اور بے کسی کا رونا نہیں روتے۔دراصل دشمنانِ حق کے آگے عجز ونیاز اور فروتنی کا رویہ اختیار کرنا حق کی توہین ہے۔

اللہ کے محبوب بندے ایسا کبھی نہیں کرتے۔ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔جہاد کی بے شمار شکلیں اور جگہیں ہیں۔ جہاد شیطان سے بھی ہوتا ہے۔ جہاد کفار ومشرکین سے بھی ہوتا ہے۔ جہاد فساق وفجار اور منافقین سے بھی ہوتا ہے اور جہاد خود اپنے نفسِ امارہ سے بھی ہوتا ہے۔اللہ کے محبوب بندے ہر محاذ پر جہاد کرتے ہیں۔ دین کے سلسلے میں وہ کسی ملامت کرنے والے کی لاف گزاف اور دشنام گوئی کو بارِ خاطر نہیں لاتے۔ وہ بس اپنے دین پر عمل کرتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ کون اس دینداری کی وجہ سے ان کا مذاق اڑا رہا ہے اور کون برابھلا کہہ رہا ہے۔

اللہ جب کسی بندے کو اپنا محبوب بناتا ہے تو ایک تیسری علامت بھی اس کی زندگی میں نمایاں ہوجاتی ہے اور وہ ہے فرائض اور نوافل کا اہتمام والتزام۔حدیثِ قدسی میں اللہ فرماتا ہے کہ ’’جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے تو میرا اس کے ساتھ اعلانِ جنگ ہے، اور بندہ جن چیزوں سے بھی میری قربت پانے کی سعی کرتا ہے ان میں مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ فرائض ہیں جو میں نے اس پر عائد کیے ہیں،اور مسلسل میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میری قربت پانے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں، اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ کچھ پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اس وقت حال یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ مجھ سے کچھ مانگے تو میں ضرور دیتا ہوں، اگر وہ پناہ چاہتا ہے تو ضرور اپنی پناہ میں لے لیتا لوں۔

[إن اللّٰہ تعالیٰ قال من عادی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب وما تقرب إلی عبدی بشییٔ أحب إلی مما افترضتہ ولا یزال عبدی یتقرب إلی بالنوافل حتی أحبہ فإذا أحببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ وبصرہ الذی یبصربہ ویدہ التی یبطش بہا ورجلہ التی یمشی بہا ولئن سألنی لأعطینہ ولئن استعاذنی لأعیذنہ](صحیح بخاریؒ:۶۵۰۲)

نوافل میں نفل نماز، روزہ، حج، عمرہ اور صدقات وخیرات سب آتے ہیں۔

اللہ کی محبت ان بندوں کے لیے بھی یقینی ہے جو خالصتاً اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں،ملتے ملاتے ہیں، مدارات کرتے ہیں اور باہم خیرخواہی کا ثبوت دیتے ہیں۔حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میری خاطر آپس میں محبت رکھتے ہیں، میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میری خاطر ایک دوسرے سے ملنے جاتے ہیں، میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میری خاطر ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں اور میری محبت ان لوگوں کے لیے بھی طے ہے جو میری خاطر آپسی رشتے نبھاتے ہیں۔‘‘

[حقت محبتی للمتحابین فی وحقت محبتی للمتزاورین فی وحقت محبتی للمتباذلین فی وحقت محبتی للمتواصلین فی](مسند احمدؒ:۱۹۴۳۸، ۲۲۰۰۲، ۲۲۰۶۴، ۲۲۰۸۰،۲۲۷۸۲ ،۲۲۷۸۳)

یعنی اللہ کی رضاجوئی میں ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں۔اس حدیثِ پاک میں تباذل کا لفظ استعمال ہوا ہے جس میں انفاق فی سبیل اللہ بھی شامل ہے اور ضرورت پڑجائے تو جان کا نذرانہ پیش کرنا بھی اس کے دائرے میں آتا ہے۔

اللہ کی محبت کسی بندے کو نصیب ہوجائے تو دنیا میں صلحاء واتقیاء کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دی جاتی ہے جیسا کہ اوپر حدیث میں گزرا ہے۔ اسی طرح وہ بندہ اللہ کا ولی بن جاتا ہے۔ اس سے برائی کا صدور نہیں ہوتا۔ اس کی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔اس کے کان وہی سنتے ہیں جو اللہ پسند کرتا ہے۔ اس کی آنکھیں وہی دیکھتی ہیں جو اللہ چاہتا ہے۔اس کے ہاتھ وہی پکڑتے ہیں جو اللہ کی رضا سے متصف ہوتا ہے۔ اس کے پیر اسی طرف اٹھتے ہیں جہاں جانا اللہ کو مرغوب ہے۔وہ مستجاب الدعوات بن جاتا ہے۔وہ احکم الحاکمین کی پناہ میں آجاتا ہے اور اب دنیا کی کوئی طاقت اسے گزند نہیں پہنچا سکتی۔ یہ سب وہ فوائد وبرکات ہیں جو اللہ کی محبت کے نتیجے میں حاصل ہوتے ہیں جیسا کہ متذکرہ بالا حدیثِ قدسی سے مترشح ہے۔

اللہ ہم سب کو اپنی محبت کی توفیق دے اور ہمیں اپنا محبوب بنالے۔آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں