اخلاق ِ نبوی ﷺ (دوسری قسط)
اسلام میں عورتوں کے حقوق
خواتین کے بارے میں دنیاہمیشہ نہایت عجیب افراط و تفریط کاشکار رہی ہے ، مندروں میں وہ دیوی کی حیثیت سے براجمان رہتی ہے اور لائق پرستش ہے، لیکن گھرمیں اس کی وقعت داسی سے بھی بدترہے، فکروفلسفہ کے اعتبار سے وہ مردکے ہمدوش بلکہ کبھی اس سے برتربھی خیال کی جاتی ہے لیکن عملی دنیامیں اس کی زندگی آج بھی قابل ترس ہے،عیارذہنوں نے اسے گھر کی محفوظ چہاردیواری سے نکال کر بازارمیں سامان تجارت اور متاع ہوس بنارکھاہے اور اس کے نازک کاندھوںپردوہری ذمہ داری کا بوجھ لادرکھاہے۔
اسلام دنیاکاپہلامذہب ہے جس نے عورتوں کو ان کا جائز مقام عطاکیا، ان کی عزت نفس ،شرافت اور خودداری کا لحاظ رکھا اور انھیں صرف وہی ذمہ داری دی جو ان کی فطرت اور طبیعت سے مناسب ترہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
ولھن مثل الذی علیھن
اور ان کے لیے بھی اسی طرح سے کچھ حقوق ہیں جیسے کہ ان پر ہیں۔اوریہ حکم دیاگیاہے کہ:وعاشروھن بالمعروف، عورتوں کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤکرو۔
اور رسول اللہ ﷺ کا ارشادہے:
سب سے کامل مومن وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اور تم میں سب سے بہتروہ ہے جواپنی عورتوں کے ساتھ سب سے اچھابرتاؤکرے۔(ترمذی وقال حسن صحیح ، ریاض الصالحین/۲۳۱)
اور ایک روایت میں ہے کہ” بہتراخلاق رکھنے والا وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھاسلوک کرے اور میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ سب سے بہتربرتاؤکرتاہوں”۔(زادالمعاد۱/۲۵۱)
اورحجةالوداع کے موقع پر آپ نے فرمایاکہ عورتوں کے ساتھ بہترسلوک کرو، وہ تمہارے پاس اللہ کی امانتیں ہیں، تمہارے کچھ حقوق ان پر ہیں اوران کے حقوق تمہارے اوپرہیں۔(ریاض الصالحین /۲۳۱)
اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایاکہ:
“عورتوں کے ساتھ اچھابرتاؤکرو، اس لیے کہ عورت پسلی سے پیداہوئی ہے اور سب سے زیادہ کجی پسلی کے اوپری حصے میں ہوتی ہے، اگرتم اسے سیدھاکرنے چلوگے تو اسے توڑدوگے اور اگر اسی طرح رہنے دوگے تو کجی باقی رہے گی، لہٰذا ان کے ساتھ اچھاسلوک کرو”۔(متفق علیہ، ریاض الصالحین/۱۳۱)
ازواجِ مطہرات کے ساتھ حضور ﷺ کا طرزِ عمل
ازواج مطہرات کے ساتھ اللہ کے رسول کے طرزعمل سے متعلق متعدد واقعات حدیث کی کتابوں میں مذکور ہیں،جن سے اندازہ ہوتاہے کہ کسی بھی درجے میں ان کی تحقیر اور حوصلہ شکنی گوارہ نہ تھی، ایک مرتبہ رمضان میں ازواج مطہرات میں سے کسی نے آپ سے اعتکاف کی اجازت چاہی، اجازت ملنے پران کے لیے مسجدمیں خیمہ لگادیاگیا، ان کو دیکھ کر دوسری بیویوں نے بھی اعتکاف کے لیے اپنا خیمہ لگالیا، پوری مسجد خیموں سے بھرگئی، دو شکل تھی یا تو تمام بیویوں کے خیمے اٹھوادئے جاتے،ایسی صورت میں ان کی دل شکنی ہوتی یا جنھوں نے اجازت لی تھی ان کو باقی رکھاجاتااور دوسروں کو منع کردیاجاتا اس حالت میں انھیں شکایت ہوتی، جس کی وجہ سے آپ نے ایک تیسری راہ اپنائی، خودآپ نے اس سال اعتکاف کا ارادہ ترک کردیا،جس کی وجہ سے تمام ازواج مطہرات نے از خود اپنے خیمہ ہٹالئے۔
خواتین کے تعلق سے اس درجہ حساس وہی ہستی ہوسکتی ہے جو ا ن کے ساتھ بھلے برتاؤ کواسی طرح سے عبادت سمجھتی ہو جیسے کہ نماز اور روزہ کو۔
بیویوں کی دل جوئی
حضرت عائشہؓ نے عید کے موقع پرحبشیوں کے کھیل کو دیکھنے کی خواہش کی،آپ نے انھیں نہ صرف اس کی اجازت دی بلکہ اپنا کندھاپیش کردیا،وہ آپ کے کندھے پر ٹیک لگاکر ان کا کھیل دیکھتی رہیں اورجب تک کہ وہ خود سے نہیں ہٹ گئیں آپ وہاں سے ہلے نہیں۔
حضرت اسودبن یزید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھاکہ اللہ کے رسول گھرجاکرکیاکرتے ہیں، انھیں امیدتھی کہ جواب ملے گا کہ ہمہ وقت ذکروتلاوت کرتے ہیں، نمازمیں مشغول رہتے ہیں وغیرہ، لیکن خلاف توقع انھیں جواب ملاکہ
گھرکے کام کاج میں ہماری مددکیاکرتے تھے اور جب نماز کا وقت ہوتاتو وضوکرتے اور نماز کے لیے چلے جاتے۔
انھیں سے منقول ہے کہ آپ نے کبھی کسی غلام، باندی ، عورت یا جانور کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، آپ جب گھرمیں تشریف لے آتے تو ہنستے اور مسکراتے ہوتے، ازواج مطہرات کے ساتھ انتہائی خوش مزاجی سے پیش آتے ، کسی بات پر ناگواری کا اظہار نہ کرتے۔
زمانہ جاہلیت میں اور آج بھی بچیوں کی پیدائش باعث ننگ و عار اور ان کی کفالت اور پرورش کو بوجھ سمجھاجاتاہے، آپ نے اپنے قول و عمل کے ذریعہ اس تصورکوختم کیا،جس کے نتیجے میں فتح مکہ کے بعدحضرت حمزہ کی صاحب زادی کی پرورش کے لیے تین تین دعویدار نکل آئے، حضرت علیؓ کہنے لگے کہ میں اس کی پرورش کروں گااس لیے کہ میرے چچاکی لڑکی ہے ، حضرت جعفرؓ کاکہناتھاکہ یہ میرے یہاں رہے گی اس لیے کہ اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے، حضرت زیدؓ کاخیال تھاکہ میں اس پر زیادہ حق رکھتاہوں اس لیے کہ میرے اسلامی بھائی کی لڑکی ہے۔ خودآنحضورﷺ نے اپنی بیٹیوں کے ساتھ جس محبت و شفقت کا معاملہ فرمایاہے اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔
آپ نے ماں کی حیثیت سے عورت کو جو عزت ووقار دیا اس سے بڑھ کر کسی عزت و احترام کا تصور نہیں کیاجاسکتا ہے،آپ نے فرمایاکہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے، ایک صحابی نے دریافت کیاکہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ فرمایا:تمہاری ماں، انھوں نے تین مرتبہ اس سوال کو دہرایا اورہر بار آپ کا جواب تھاتمہاری ماں۔
بچوں اور یتیموں پر شفقت
آپ سے پہلے یتیموں کے حق پر دست درازی ایک عام بات تھی، ان کے ساتھ نہایت ناروا اور اہانت آمیز سلوک روارکھاجاتاتھا، خود قرآن میں جگہ جگہ ان کے ساتھ لوگوں کے غلط رویہ کا ذکر ہے ، آپ نے ان تمام زیادتیوں کاسدباب فرمایا، آپ کا ارشاد ہے کہ سب سے بہترین گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم کی کفالت کی جائے اور سب سے بدترین گھر وہ ہے جس میں ان کے ساتھ بدسلوکی کی جائے(رواہ ابن ماجہ، الترغیب۲/۱۶۹)
نیز یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں مجھ سے اس درجہ قریب ہوگاجیسے کہ بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی ہے۔(متفق علیہ، الترغیب۲/۱۶۹)
بچوں کے ساتھ آپ کو اس درجہ انس اور تعلق تھاکہ کسی سفرسے واپسی پر راستے میں جوبھی بچے ملتے ان میں سے کسی ایک کو اپنی سواری پر بٹھالیتے، آپ کا معمول تھاکہ جب نیاپھل آپ کی خدمت میں لایاجاتاتو کسی بچے کو بلاکراسے سب سے پہلے کھلاتے، بچوں کو چومتے اور ان سے پیار کرتے، ایک مرتبہ آپ کو ایساکرتے ہوئے دیکھ کر اقرع بن حابس نے کہاکہ میرے دس بچے ہیں لیکن میں نے ان میں سے کسی کو پیار نہیں کیا، آپ نے فرمایاکہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیاجاتا۔(متفق علیہ، الترغیب ۲/۲۷۸)
حضرت انس کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ لیٹے ہوئے تھے، حضرت حسن و حسین میں سے کوئی آئے اور آپ کے پیٹ پر بیٹھ گئے، آنحضور انھیں گدگدانے لگے جس کی وجہ سے وہ ہنسنے لگے اور ان کے ساتھ آپ بھی ہنستے رہے اور اسی دوران انھوں نے پیشاب کرنا شروع کردیا حضرت انس تیزی سے لپکے تاکہ انھیں آپ کے اوپر سے ہٹادیں، آپ نے فرمایا کہ نہیں رہنے دو میرے بچے کو گھبراہٹ میں مبتلانہ کرو اور جب وہ اس سے فارغ ہوگئے، آپ نے انھیں ایک طرف بٹھادیا اور پیشاب کو دھل دیا۔(رواہ البیہقی)
محبت و شفقت کی یہ پھوار صرف مسلمان بچوں پر نہیں برستی تھی بلکہ غیرمسلم بچے بھی اس سے اسی طرح مستفید ہوتے تھے، ایک جنگ میں آپ کو مشرکین کے بچوں کے مارے جانے کی اطلاع ملی، آپ کو شدید تکلیف ہوئی، کسی نے کہاکہ یہ مشرکین کے بچے تھے، آپ نے فرمایاکہ مشرکین کے بچے بھی تم سے بہترہیں، سن لو بچوں کو ہرگزقتل نہ کرو، سن لو انھیں ہرگز نہ مارو، ہرجان اللہ کی فطرت پر پیداہوتی ہے۔(مسنداحمد۳/۵۳۴)
غلاموں اور خادموں کے ساتھ آپ کا رویہ
دنیامیں اس وقت سب سے زیادہ مظلوم طبقہ غلاموں کا طبقہ تھا، جس کا کوئی حق نہیں تھا روم و ایران کے مہذب قوموں کا یہ حال تھا کہ وہ غلاموں کا درندوں سے مقابلہ کرایاکرتے تھے اور ان کی بے رحمانہ ہلاکت کاتماشا دیکھاکرتے تھے اور اس انسانیت سوزتماشا کے لیے یورپ میں بڑے بڑے اسٹیڈیم بنے ہوئے تھے، آنحضورﷺ نے انھیں سماج میں سراٹھاکرجینے کا حق عطاکیا، انھیں ایسے الفاظ میں پکارنے سے منع فرمایاجس سے ان کی تذلیل ہوتی ہو،جس کا نتیجہ تھاکہ حضرت بلال جیسے حبشی غلام کو اکابرصحابہ ہمارے آقا اور سردارکہہ کر پکارتے تھے اور شرفاءعرب کی لڑکیوں سے ان کا نکاح ہوا۔
فتح مکہ کے بعد ابوسفیان، حضرت سلمان فارسی، صہیب رومی اور حضرت بلال حبشی کے پاس سے گذرے، انھیں دیکھ کر ان لوگوں نے کہاکہ اللہ کے دشمنوں کے سلسلہ میں ابھی اللہ کی تلوار کا حق ادا نہیں ہواہے، یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ نے کہاکہ تم لوگ سردار قریش سے اس طرح کی بات کہہ رہے ہو، پھر انھوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کی اطلاع دی، آپ نے فرمایاکہ شاید تم نے ان لوگوں کو ناراض کردیاہے، اگر وہ لوگ خفاہوگئے تو تم سے تمہارا رب ناراض ہوجائے گا، حضرت ابوبکرؓ بھاگ کر ان کے پاس پہنچے اور کہنے لگے میرے بھائیو! کیا تم ناراض ہوگئے ہو، ان لوگوں نے کہاکہ نہیں، اللہ آپ کو معاف کرے۔(رواہ مسلم ، ریاض الصالحین /۸۲۱)
غلاموں کے بارے میں آپ نے فرمایاکہ یہ بھی تمہارے بھائی ہیں جنھیں اللہ نے تمہارے قبضہ میں دے دیا ہے ، لہٰذاجوتم کھاؤ وہی ان کو کھلاؤاور جو تم پہنو ان کو بھی پہناؤ(متفق علیہ، الترغیب ۲/۸۷۸)
یہاں تک کہ دنیاسے رخصت ہوتے ہوئے آپ کو انھیں کی فکر تھی آپ کی آخری وصیت یہ تھی کہ غلاموں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔(ابوداود۲/۸۱۲، کتاب الادب، الترغیب ۲/۰۸۸)
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے نوسال تک رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی ، لیکن میرے کسی کام پر آپ نے یہ نہیں فرمایاکہ ایساکیوں کیا اور نہ کسی کام میں عیب نکالا اور نہ ہی کبھی اف کہا(متفق علیہ، ریاض الصالحین /۳۴۲)، ایک صحابی نے عرض کیاکہ میرا خادم میرے ساتھ برا برتاؤکرتاہے، مجھ پر ظلم کرتاہے، کیامیں اسے مارسکتاہوں، آپ نے فرمایاکہ ہر روز اسے ستربار معاف کردیاکرو۔(ابویعلیٰ ، الترغیب ۲/۱۸۸)
جانوروںپر رحم اور مہربانی
آپ سراپا رحمت اور پوری کائنات کے لیے رحمت بن کے آئے تھے ، اس لیے اس ابررحمت سے پوری دنیا سیراب ہوئی، آپ بے زبان جانوروں کے لیے بھی رحم و کرم اور لطف و ہمدردی کا پیام لے کر آئے، آپ نے جانوروں کو بھوکارکھنے پر سخت وعیدبیان فرمائی، ایک انصاری کے بھوکے اونٹ کو دیکھ کر فرمایاکہ اس جانور کے معاملہ میں اللہ سے نہیں ڈرتے ہو؟ (حوالہ مذکورکتاب الجہاد ۱/۵۴۳، الترغیب ۲/۴۷۸)
آپ نے فرمایاکہ ایک عورت صرف اس لئے جہنم کا لقمہ بن گئی کہ وہ بلی کو بھوکارکھتی تھی(بخاری وغیرہ، الترغیب۲/۶۷۸) اور ایک بدکردار عورت کے لیے کتے کو پانی پلانا جنت میں جانے کا ذریعہ بن گیا۔
پہلے اور آج بھی لوگ جانوروں کو باہم لڑاکر ان کا تماشا دیکھتے ہیں، آپ نے اس درندگی کی سختی سے ممانعت فرمائی(ابوداود،وترمذی، الترغیب ۲/۷۷۸)، سخت دلی کی انتہاءیہ تھی کہ کسی جانوروکو باندھ کر اس پر تیر اندازی کی مشق کیاکرتے تھے، آپ نے شدت کے ساتھ اس سے منع فرمایا۔(متفق علیہ، الترغیب ۲/۳۷۸)
ایک شخص کو دیکھاکہ وہ جانور کو لٹاکر چھری تیز کررہاہے، آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمایاکہ کیاتم اسے دوبار مارنا چاہتے ہو، لٹانے سے پہلے تم نے چھری تیز کیوں نہیں کرلی؟ (الترغیب۲/۷۷۸)
ایک سفرکے دوران کسی صحابیؓ نے پرندے کے بچوں کو ان کے گھونسلے سے اٹھالیا، ان کی ماں اس کے سرپر منڈلانے لگی ، آپ نے فرمایاکہ اس پرندے کو کس نے پریشان کررکھاہے، اس کے بچے واپس کردو۔(ابوداود، الترغیب ۲/۴۷۸)
حسن معاملہ
عام طور پر چند عبادات کی ظاہری اہتمام سے ادائیگی دین داری سمجھی جاتی ہے، یعنی معاملات کا کھوٹااور بدعنوان بھی پختہ مسلمان ہوسکتاہے بس اتنا کافی ہے کہ اس کی ظاہری ہیئت ٹھیک ہو اور نماز ، روزہ کاپابند ہو، حالانکہ معاملات کی صفائی اور امانت اور سچائی پراس دین کی بنیاد ہے،معاملات میں امانت و دیانت نبی آخرالزماں کا نمایاں وصف ہے، نبوت سے پہلے آپ صادق اورامین کے لقب سے پکارے جاتے تھے، عرب کے مشہور تاجر حضرت سائب کہتے ہیں کہ آپﷺ تجارت میں میرے شریک تھے اور آپ نے ہمیشہ معاملہ صاف رکھا۔ (ابوداود،۲/۰۹۱، کتاب الادب باب کراہیة المراء) حضرت خدیجہؓ نے آپ کے اسی وصف سے متاثر ہوکر آپ سے نکاح کا پیغام بھیجا۔
حضرت خولہ کہتی ہیں کہ بنی ساعدہ کے ایک آدمی سے آپ ﷺنے کچھ کھجوریں قرض لی تھیں،کچھ دنوں کے بعد وہ اسے مانگنے آئے،آپ نے ایک انصاری صحابی کو اس کی ادائیگی کا حکم دیالیکن انھوں نے جو کھجوریں دیں وہ ان کے کھجوروں سے کمترتھیں، انھوں نے اسے لینے سے انکار کردیا، انصاری نے کہاکہ تم اللہ کے رسول کی دی ہوئی کھجوریں واپس کررہے ہو، انھوں نے کہا ہاں،جب اللہ کے رسول کے یہاں انصا ف نہیں ملے گا تو پھر کہاں ملے گا، یہ سن کر آپ کی آنکھوں میں آنسوآگئے اور فرمایاکہ صحیح ہے ، مجھ سے بڑھ کر انصاف کرنے والاکون ہوگا؟ اور اسے عمدہ کھجوریں دینے کا حکم دیا۔(الترغیب ۲/۲۳۷)
محدث ابن ماجہ نے نقل کیا ہے کہ ایک اعرابی آپ کے پاس اپنے قرض کے تقاضے کے لیے آیا اور بڑے سخت لہجے میں آپ سے گفتگو کی ، صحابہ کرام نے اسے ڈانٹا، تیرا ستیاناس ہو، تجھے معلوم ہے کہ تو کس سے بات کررہاہے؟ اس نے کہاکہ میں اپنا حق مانگ رہاہوں، آنحضور نے فرمایاکہ تم لوگوں کو میری طرف داری کے بجائے حق والے کا ساتھ دیناچاہئے، پھر آپ نے اس کا قرضہ واپس کیا اور کھلاپلاکررخصت کیا۔(الترغیب ۲/۳۳۷)
آپ کی امانت و دیانت کا یہ حال تھا کہ آپ کے جانی دشمن بھی اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھاکرتے تھے، جب آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی تو اہل مکہ کی بہت ساری امانتیں آپ کے پاس تھیں جن کی دائیگی کے لیے آپ نے حضرت علیؓ کو مکہ میں رہنے کا حکم فرمایا۔
عہد اور وعدہ کی پابندی
آپ ﷺ نے بعثت سے پہلے عبداللہ بن ابی حمساءسے خریدوفروخت کا کوئی معاملہ کیا تھا، ان کے ذمے کچھ ادائیگی باقی تھی، انھوں نے کہاکہ آپ یہیں رہئے میں ابھی گھر سے لے کر آتاہوں، وہ گھرجاکر اپناوعدہ بھول گئے،تین دن کے بعدانھیں یاد آیا، اس جگہ پہنچے تو دیکھاکہ آپﷺان کے انتظارمیں کھڑے ہیں، انھیں دیکھ آپ نے فرمایا:نوجوان!تم نے مجھے پریشانی میں ڈال دیا، میں تین روز سے تمہارایہاں انتظارکررہاہوں۔(رواہ ابوداود،الترغیب ۳/۰۰۱۱)
غزوہ
بدر میں مسلمانوں کی عددی قوت بہت کم تھی ، کافروں کے مقابلہ میں ان کی تعداد ایک تہائی بھی نہیں تھی ، اس لیے ایک ایک آدمی کی بڑی اہمیت تھی اور مسلمانوں کو افرادی مدد کی بڑی ضرورت تھی لیکن آپ نے میدان جنگ میں بھی وعدہ کی پاسداری اور بلندترین اخلاقی معیار کو برقرار رکھا، حضرت حذیفہ اور ان کے والد یمان آپ کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کیا کہ ہم مکہ سے آرہے تھے، راستے میں مشرکوں نے ہمیں گرفتار کرلیا اور اس شرط کے ساتھ رہاکیا کہ جنگ میں ہم آپ کا ساتھ نہیں دیں گے مگر یہ مجبوری کا عہدتھاہم ان کے خلاف ضرور لڑیں گے مگرہادی عالم ﷺ نے فرمایاکہ نہیں تم دونوں میدان جنگ سے ہٹ جاؤ، ہم ہرحال میں ان سے کیے گئے وعدہ کو پورا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ سے مدد چاہیں گے۔(صحیح مسلم ۳/۹۵۱، ۷۸۷۱)
عہد اور وعدہ کی پابندی آپ کی ایسی نمایاں خصوصیات تھی کہ دشمنوں کو بھی اس کے اعتراف کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ، چنانچہ قیصرنے ابوسفیان سے آپ کے متعلق جوسوالات کیے تھے ان میں ایک سوال یہ تھاکہ وہ بدعہدی کرتے ہیں، ابوسفیان نے جواب دیا کہ نہیں۔
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی کوئی تقریر فرماتے تو یہ ضرورکہتے:
لا ایمان لمن لا امانة لہ ولا دین لمن لا عھد لہ۔
اس کے پاس ایمان نہیں جس میں امانت داری نہیں ہے اور اس شخص کا کوئی دین نہیں ہے جس میں عہد کی پاسداری نہیں ہے ۔(رواہ احمدوالبزار ، الترغیب ۳/۲۰۱۱)
خوش کلامی اور راست گوئی
نضربن حارث مکہ کے سرداروں میں بڑاتجربہ کار اور جہاندیدہ سمجھاجاتاتھا، جب مشرکوں نے آپ کو جادوگراور مجنوں وغیرہ کہناشروع کیاتو اس نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا
قریش کے لوگو! تم پر جو یہ نئی مصیبت آپڑی ہے ، تم اب تک اس کا کوئی حل نہیں ڈھونڈسکے، محمدتمہارے سامنے پیدا ہوا، پلابڑھا اور جوان ہوا، تمہارے درمیان وہ سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب تھا، بات کا سچا اوروعدے کا پکا، سب سے زیادہ امانت دار اور جب اس کی جوانی ڈھلنے لگی اور اس نے تمہارے سامنے یہ باتیں پیش کیں توتم کہتے ہو کہ وہ جادوگرہے، اللہ کی قسم وہ جادوگرنہیں ہے۔ (سیرت ابن ہشام ۲/۸۳)
ابوجہل جیساآپ کا دشمن بھی آپ کی بعثت کے بعد آپ کی مخالفت کرتے ہوئے کہتاہے:
انا لا نکذبک ولکن نکذب بما جئت بہ، میں تمہیں جھوٹانہیں کہتا، البتہ تم جو کچھ لے کے آئے ہو اسے سچ نہیں سمجھتا۔ (ترمذی ۵/۶۴،۵۷۰۳)
خودابوسفیان نے قیصرروم ہرقل کے یہ پوچھنے پر کہ کیا تم نے کبھی ان کو جھوٹ بولتے ہوئے سناہے، تو اس کا جواب تھاکہ نہیں،اور حضرت ابوجعفرنے شاہ حبشہ نجاشی کے دربار میں آپ کی تعلیمات کو بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ وہ ہمیں سچائی اور پاکدامنی کا حکم دیتے ہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ سے دریافت کیاگیاکہ کیا مومن بزدل ہوسکتاہے؟ آپ نے فرمایاکہ ہاں، کہاگیا کہ کیا بخیل ہوسکتاہے؟ فرمایاکہ ہاں، آپ سے پوچھاگیا کہ کیا جھوٹا ہوسکتاہے؟ فرمایا کہ نہیں۔ (موطا امام مالک ،کتاب الکلام باب ما جاءفی الصدق الکذب)
بظاہر سچائی صرف ایک خوبی ہے لیکن درحقیقت یہ بہت سی خوبیوں کا مجموعہ ہے، سچا شخص ایماندار بھی ہوگا اور عہد اور وعدہ کا پابند بھی، اس کی ہمت اور سوچ بلندہوگی اور منافقانہ روش اور ریاکاری سے پاک و صاف ہوگا، وہ بہادر اور نڈرہوگا، اور فکر و عمل کا آزاد۔
سچائی کا یہ مفہوم ہرگزنہیں ہے کہ انسان کسی سے سخت کلامی کرے بلکہ سچائی میں بھی سلیقہ اور حسن مطلوب ہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشادہے کہ:قولوا للناس حسناً
لوگوں سے اچھی گفتگو کرو
اور حضرت موسیٰؑ و ہارون علیہما السلام کو فرعون کے پاس بھیجتے ہوئے حکم دیاگیاکہ” قولا لہ قولا لینا” تم دونوں اس سے نرم لہجے میں بات کرو۔
رسول اللہ ﷺ رحمت عالم بن کر آئے تھے اور اخلاق کی بلند ترین سطح پر فائز تھے ، اس لیے اس صفت میں بھی آپ بے مثال تھے۔ حضرت عبداللہؓ بن عمرو کہتے ہیں:
لم یکن رسول اللہ ﷺ فاحشاً ولا متفحشاً وکان یقول ان من خیارکم احسنکم اخلاقاً (متفق علیہ، ریاض الصالحین/۴۴۲)
اور حضرت ابودرداءسے منقول ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایاکہ:ما من شیءاثقل فی میزان المؤمن یوم القیامة من حسن الخلق وان اللہ یبغض الفاحش البذی۔ (رواہ الترمذی، ریاض الصالحین/۴۴۲)
نہایت سخت اور مشکل اور جذبات کو برانگیختہ کردینے والے حالات اور غصہ کے وقت بھی آپ کے لب ولہجہ کی مٹھاس برقرار رہتی، نرم اور میٹھی گفتگو آپ کی فطرت میں شامل تھی، آپ کبھی سخت اور کڑوی کسیلی بات نہیں کہتے تھے، بلکہ بدگوئی کے جواب میںبھی شیریں گفتگو کیا کرتے تھے، اس لیے کہ خود آپ کا ارشادتھاکہ نرم گفتگو بھی عبادت ہے۔الکلمة الطیبة صدقة۔ (متفق علیہ، ریاض الصالحین/۴۶۲)
ایک مرتبہ مشرکین مکہ نے عقبہ بن ابی معیط کو آپ کے پاس بھیجاکہ وہ آپ کو سمجھائے کہ توحید کی دعوت سے باز آجائیں، اس نے آتے ہی طیش دلانے والی گفتگو شروع کی، کہنے لگاتم نے ہماری جماعت میں انتشار برپاکررکھاہے، ہماری اجتماعیت اور اتحاد کو پارہ پارہ کردیا، پوری قوم بکھرگئی،باپ بیٹے کا دشمن بن گیا، میاں بیوی میں جدائیگی ہوگئی، یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہورہاہے، میں تمہیں چارباتوں میں سے کسی ایک کا اختیار دے رہاہوں، اگرتمہیں مال و دولت کی خواہش ہے تو ہم تمہارے قدموں میں لاکر اس کا ڈھیر لگادیں گے،یہاں تک کہ تم عرب کے امیرترین شخص ہوجاؤگے، اگر حکومت کی چاہت اور لالچ ہے تو ہم تمہیں اپناحکمراں بنالیں گے، خوبصورت ترین عورت سے شادی کے خواہش مندہوتو اس کا انتظام ہوجائے گا اور اگر تمہاری عقل میں کچھ خلل ہے تو ہم اس کے علاج کا بار بھی اٹھانے کوتیار ہیں۔
گفتگو کا طریقہ کس قدر تہذیب و شائستگی سے گراہوا اور گھٹیا ہے ، ایک ایسی ہستی کو پاگل، عورتوں کا رسیا، حکومت ودولت کا حریص کہاجارہاہے، جوروئے زمین پر سب سے زیادہ عقلمند اور باشعورہے،جوسب سے زیادہ پاکدامن اور خواہش نفسانی سے دور ہے، جودولت و ثروت کی ذخیرہ اندوزی سے نفور اور حکومتی نشہ سے کوسوں دور ہے۔
آپ نے نہایت اطمینان اور پرسکون اندازمیں اس کی گفتگو سنی اور جب وہ اپنی بات کہہ چکاتو فرمایا: ابوولید آپ کی بات پوری ہوگئی، عربوں میں کنیت کے ساتھ پکارنا اعزاز اور اکرام کی دلیل ہے اور آنحضورﷺ کی طرف سے اکرام و احترام کا یہ معاملہ ایسے شخص کے ساتھ کیاجارہاہے جو ابھی آپ کو سخت سست کہہ چکا ہے ، آپ پر طرح طرح کے الزامات لگارہاہے۔
طریقہ تنبیہ
حضرت معاویہ بن حکم دیہات کے رہنے والے تھے، ایک دن وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے۔ آنحضورﷺ اور صحابہ کرام اس وقت نماز پڑھ رہے تھے ، یہ بھی اس میں شامل ہوگئے ، دوران نماز کسی کو چھینک آئی اور اس نے الحمد للہ کہا، انھوں نے سن رکھاتھا کہ اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا چاہئے۔ چنانچہ انھوں نے بلند آواز سے یرحمک اللہ کہا، لوگ پریشان ہوگئے اور خشمگیں نگاہوں سے انھیں دیکھنے لگے، وہ نمازہی میں کہنے لگے کہ تم لوگ کیوں مجھے دیکھ رہے ہو ، صحابہ کرام ران پر ہاتھ مار کر انھیں خاموش رہنے کا اشارہ کرنے لگے، وہ چپ ہوگئے۔ نماز ختم ہونے کے بعد آپ نے پوچھاکہ کون بات کررہاتھا، حضرت معاویہ گھبراگئے، سوچا کہ میں نے لوگوں کی نماز خراب کی ہے اس لیے ڈانٹ پڑے گی، ڈرتے ہوئے آپ کے پاس پہنچے لیکن وہاں تو رحمت و شفقت کی بارش ہورہی تھی، چنانچہ وہ خودکہتے ہیں کہ میرے ماںباپ آپ پر قربان ہوں میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ سے بہتر معلم نہیں دیکھا، اللہ کی قسم آپ نے نہ تو اپنا چہرہ بگاڑا ، نہ ڈانٹا، نہ مارا ، نہ برابھلاکہا، صرف یہ فرمایاکہ معاویہ !نمازمیں انسانی کلام کی گنجائش نہیں ہے ۔ (مسلم و ابوداود)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آنحضور سے حاضری کی اجازت مانگی، آپ نے فرمایاکہ یہ شخص اپنے خاندان کا سب سے براآدمی ہے اور پھر اسے اندر آنے کی اجازت دے دی، اس کے آنے پر اس سے نہایت نرمی سے بات چیت کی ، جب وہ چلاگیا تو حضرت عائشہؓ نے عرض کیاکہ آپ نے ابھی اس کے متعلق اس طرح کی بات کی تھی لیکن اس کے حاضر ہونے پر آپ نے بڑی عمدگی سے بات کی ، آپ نے فرمایا: عائشہؓ!وہ لوگوں میں سب سے بدترہے جسے لوگ اس کی بدکلامی کی وجہ سے چھوڑدیں۔(ترمذی۳/۱۰۴،۳۰۰۲)
زندگی میں بارہا اس طرح کے مواقع آتے ہیں کہ ایسے لوگوں سے ملنا پڑتاہے، جنھیں وہ پسند نہیں کرتا اس طرح کے موقع پر لوگ دو طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں، کچھ لوگ کتراکر نکل جاتے ہیں اور بعض لوگ اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں اور سامنے والے کے احساس و جذبات اور عزت نفس کا خیال نہیں رکھتے۔جبکہ اس طرح کے لوگوں سے ملتے ہوئے صحیح طریقہ وہ ہے جورسول اللہ ﷺ نے اپنا یا کہ دوسرے شخص میں جو خامی ہے اس سلسلہ میں اپنے نقطہ نظر پر قائم رہتے ہوئے اس کے احساس و جذبات کا لحاظ رکھاجائے اور اس بات کی ضرور کوشش کی جائے کہ وہ کوئی برا تاثر لے کر نہ جائے اور ایسے شخص کے ساتھ بھی بدکلامی کی گنجائش نہیں ہے۔