آمد رمضان کی تحقیق

آمد رمضان کی تحقیق

(رمضان سیریز: 2)

آمدِ رمضان کی تحقیق

ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

رمضان المبارک کی آمد کی تحقیق دو طرح سے کی جاسکتی ہے:

(۱)رمضان المبارک کا چاند دیکھ کر۔

اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے: ’’جب تم ہلالِ (رمضان المبارک) دیکھ لو تو روزہ رکھو‘‘ ۔ [اذا رأیتم الھلال فصوموا] (صحیح مسلمؒ: ۲۵۶۶)

یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر شخص بذاتِ خود چاند کا مشاہدہ کرے۔ رؤیتِ ہلال کے اثبات کے لیے اتنا کافی ہے کہ ایساکوئی ایک شخص اس کو دیکھ لے جس کی شہادت قابلِ اعتبار ہوتی ہے۔ قبولِ شہادت کے لیے ناگزیر ہے کہ گواہی دینے والا عاقل، بالغ، مسلمان اور ایسا ہوکہ اس کی امانت داری اور صحت ِ بصارت کی بنیاد پر اس کی اطلاع کو قابلِ اعتماد اور لائقِ اعتبار قرار دیا جا سکے۔

ان شرائط میں سے کسی ایک شرط کا نہ ہونا قبولِ شہادت سے مانع ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں: ’’لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی تو میں نے اللہ کے رسولﷺ کو خبر دی کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے، آپﷺ نے یہ سن کر روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ ‘‘ [تراء ی الناس الھلال فأخبرت النبیﷺ أنّي رأیتہ فصام وأمر الناس بصیامہ] (سنن ابوداؤدؒ:۲۳۴۴۔ مستدرک حاکمؒ:۱۵۴۱)

اس حدیث سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اگر اسلامی حکومت کا سربراہ رمضان المبارک کی آمد کا اعلان کر دے تو اس اعلان کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔

اسی طرح اگر مذکورہ بالا شرعی طریقے سے رمضان المبارک کا آنا ثابت ہوجاتا ہے تو علمِ فلکیات یامنازلِ شمس وقمر سے متعلق معلومات کو بنیاد بناکر اسے مشکوک یا مردود نہیں ماناجائے گا۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے: ’’جب تم (رمضان المبارک کا) نیا چاند دیکھ لو تو روزے رکھو اور جب تم اسے (دوبارہ شوال کے لیے) دیکھو تو روزہ رکھنا چھوڑ دو۔ ‘‘ [اذا رأیتم الھلال فصوموا واذا رأیتموہ فأفطروا] (صحیح بخاریؒ: ۱۹۰۶۔ صحیح مسلمؒ:۲۵۵۵)

(۲) ماہِ رمضان المبارک کی آمد کا اثبات اس طور سے بھی ہوتا ہے کہ ماہِ شعبان کے تیس دن مکمل ہوجائیں۔ اماں جان حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ’’آپﷺ ماہِ شعبان میں دنوں کو یاد رکھنے کا ایسا اہتمام فرماتے تھے کہ کسی اور ماہ میں نہیں فرماتے تھے، پھر آپﷺ رمضان المبارک (کا چاند) دیکھ کر روزہ رکھتے تھے، اگر مطلع صاف نہ ہوتا تو آپﷺ شعبان کے تیس دن پورے فرمایا کرتے تھے۔ ‘‘ [کان النبیﷺ یتحفظ من شعبان مالا یتحفظ من غیرہ ثمّ یصوم لرؤیۃ رمضان، فان غمّ أتمّ علیہ ثلاثین یوماً ثمّ صام] (سنن ابوداؤدؒ:۲۳۲۷۔ مستدرک حاکمؒ:۱۵۴۰)

یہاں واضح رہے کہ شعبان کا تیسواں دن اگر مشکوک ہو تو اس دن کا روز ہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ حضرت عمار بن یاسرؓ فرماتے ہیں: ’’جس نے بھی مشکوک دن کا روزہ رکھا اس نے ابو القاسم محمدﷺ کی نافرمانی کی۔ ‘‘ [من صام الیوم الذی یشکّ فیہ فقد عصیٰ أبا القاسمﷺ] (سنن ابوداؤدؒ:۲۳۳۶۔ مستدرک حاکمؒ:۱۵۴۲۔ سنن نسائیؒ:۲۱۸۸)

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

اپنی راۓ یہاں لکھیں