مرز محمد رفیع سودا کی حالات زندگی اور ادبی خدمات
تحریر: احمد
قصیدے کا نقّاشِ اوّل مرزا محمد رفیع سودا
مرزا محمد رفیع سودا کا شمار اردو زبان کے باکمال اور قابل قدر شعراء میں ہوتا ہے۔ سودا کا پورا نام مرزا محمد رفیع سودا تھا۔ آپ سودا تخلص اختیار کرتے تھے۔ سودا کی پیدائش ۱۱۲۵ھ مطابق ۱۷۱۲ء دہلی میں ہوئی۔
سودا کے آباء و اجداد
سودا کے آباء و اجداد کا تعلق خطۂ کابل سے تھا۔ ان کا آبائی پیشہ سپہ گری اور سوداگری تھا۔ اسی وجہ سے مرزا رفیع’’ سودا‘‘ تخلص کرتے تھے۔ سودا کے آباء بغرضِ تجارت ہندوستان آئے۔ سب سے پہلے دلّی میں وارد ہوئے، یہاں کی آب و ہوا ان کو اتنی راس آئی کہ یہی کے ہوکے رہ گئے۔
سودا کا آغاز شاعری
سودا نے ولی، شاہ مبارک آبرو، شرف الدین مضمون، مرزا جانِ جانا مظہر، شاکر ناجی جیسے بڑے شعراء کے دور میں آنکھیں کھولی۔ اپنے گرد و نواح علمی اور شعری فضا کر سودا کو بچپن سے ہی شعر و شاعری کا ذوق ہوگیا۔ سودا نے شاعری کی ابتداء فارسی زبان سے کی۔ لیکن خان آرزو کے یہ کہنے پر کہ ’’ مرزا فارسی زبان اب تمہاری مادری زبان نہیں رہی۔ تمہارا کلام اہل زبان کے مقابلے میں قابل تعریف نہ ہوگا۔ طبیعت میں موزونیت ہے۔ شاعری سے مناسبت رکھتے ہو۔ اردو میں شاعری کہا کرو تو یکتائے زمانہ ہوگے‘‘ اردو شاعری کی طرف متوجہ ہوئے۔ اور زمانے نے دیکھا کہ ایسا کمال پیدا کیا کہ اپنے ہم عصر تمام شعراء پر سبقت لے گئے۔
سودا کی قصیدہ گوئی
سودا کو زیادہ شہرت ان کی قصیدہ گوئی کی وجہ سے ملی۔ قصیدہ گوئی کا باقاعدہ آغاز مرزا سودا سے ہی ہوتا ہے۔ سودا نے زبان اردو میں فارسی تشبیہیں، استعارے، ترکیبیں اور محاوروں کا استعمال اس خوش اسلوبی کے ساتھ کیا کہ اردو زبان ایک دلکش اور شیریں زبان بن گئی۔ سودا نے اپنی عمر کا اکثر حصہ دلی میں گزارا۔
سودا فطرۃً بڑے خوددار شخصیت کے مالک تھے۔ جب آپ کے کلام کا شہرہ چہاردانگ پھیلا تو بادشاہ شاہ عالم بھی آپ سے اصلاح لینے لگے اور غزل کی فرمائش کرنے لگے۔ ایک دن کسی غزل کا تقاضا کیا۔ مرزا نے معذرت کردی۔ شاہ عالم نے کہا بھئی دوسروں کیلئے غزلیں روز کہ لیا کرتے ہو۔ مرزا سودا نے کہا پیر و مرشد جب طبیعت لگ جاتی ہے دو چار شعر کہ لیتا ہوں۔ شاہ عالم نے کہا بھئی ہم تو پاخانے میں بیٹھے بیٹھے چار غزلیں کہ لیتے ہیں۔ سودا نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا حضور ویسی بو بھی آتی ہے۔ یہ کہ کر چلے آئے پھر دوبارہ کبھی نہیں گئے۔ بادشاہ نے بارہا بلاوا بھیجا اور کہا ہماری غزلیں بناؤ ہم تمہیں ملک الشعراء بنا دیں گے۔ لیکن سودا نہیں گئے اور کہا حضور کی ملک الشعرائی سے کیا ہوتا ،کرے گا تو میرا مالک۔(آب حیات)
مرزا سودا کے کلام کا شہرہ جب لکھنؤ پہنچا، تو نواب شجاع الدولہ نے برادرِ من، مشفقِ من، مہربانِ من وغیرہ لکھ کرخط مع سفر خرچ روانہ کیا۔ اور لکھنؤ آنے کی درخواست کی۔ لیکن مرزا کی دلّی چھوڑنا گوارا نہ ہوا۔ جواب میں ایک رباعی لکھ کر معذرت کی:
سودا بے دنیا توبہر سو کب تک
آوارہ ازیں کوچہ بہ آں کو کب تک
حاصل یہی اس دنیا سے نہ کہ دنیا ہوے
بالفرض ہوا یوں بھی توپھر کب تک
ترک وطنِ دلّی
زمانے نے کروٹ لی وہ قدرداں نہیں رہے۔ سودا کوآخر کار دلّی کو خیرآباد کہنا پڑا۔ تقریباً ۶۰ یا ۶۶ سال کی عمر میں سودا دلّی چھوڑ کرفرّخ آباد میں نواب بنگشن کے پاس کچھ دن قیام کیا۔ پھر وہاں سے ۱۱۸۵ھ میں لکھنؤ کیلئے رخت سفر باندھا اور نواب شجاع الدولہ کی ملازمت اخیتار کر لی۔ شجاع الدولہ نے سودا کا بہت اعزاز و اکرام کیا۔ ایک دفعہ نواب نے بے تکلفی یا طنز میں سودا سے اتنا کہا کہ مرزا وہ تمہاری رباعی اب تک میرے دل پر نقش ہے۔ اور اسی کومکرر پڑھا۔ انہیں اپنے حال پر بڑا رنج ہوا۔ پھر دوبارہ نہیں گئے۔ یہاں تک کہ شجاع الدولہ انتقال کر گیا اور اسکی جگہ آصف الدولہ مسند پر بیٹھا۔(آب حیات،ص:۱۳۶)
آصف الدولہ سودا کی بہت عزت کرتا تھا۔ اس نے سودا کیلئے چھ ہزار روپیہ سالانہ وظیفہ مقرر کر رکھا تھا۔ جب تک سودا زندہ رہے ان کے ساتھ حسن سلوک کا یہ معاملہ چلتا رہا۔
کتے سے لگاؤ
سودا کو کتّے پالنے کا بہت شوق تھا۔ یہ شوق سودا کے ساتھ آخری عمر تک باقی رہا۔ میر تقی میر کی کلیات ’’کلیاتِ میر‘‘ میں ایک ہجو ’’ہجوعاقل نام ناکسے کہ بہ سگان انسے تمام داشت‘‘ نام سے ہے۔میر لکھتے ہیں’’سودا کتوں کے پیچھے دیوانہ رہتے تھے۔ سودا کو کتے اتنے محبوب تھے کہ اگر کوئی ان کے کتے کو برا بھلا کہتا تو ان کو سخت رنج ہوتا۔ وہ کتوں کی تلاش میں اس طرح در بدر بھٹکتے کہ دین و دنیا سے بے خبر ہو گئے تھے۔ زمانہ دہلی میں ان کی تین کتیاں تھی۔ جن سے ان کو بے انتہا لگاؤ تھا۔ ان کتیوں کی خاطر سودا کو اپنے ہمسایوں کی گالیاں بھی سننی پڑتی۔ ان کی موت پر سودا کو بہت افسوس ہوا‘‘۔
ممکن ہے یہ ہجو سودا کے متعلق کہی گئی ہو۔ کیونکہ کلیات سودا میں اس کا جواب موجود ہے۔
سودا کےادبی کارنامے
سودا نے تقریباً ۴۳ قصیدے کہے۔ جن میں چار ہجویہ قصیدے ہیں بقیہ تمام کے تمام امراء، رؤسا،ائمۂ اہل بیت اور بزرگان دین کی شان میں کہے گئے ہیں۔سودا کا داخل نصاب قصیدہ ’’ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغائے مسلمانی‘‘ کے چند اشعار دیکھے:
ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغائے مسلمانی
نہ ٹوٹی شیخ سے زنّار تسبیح سلیمانی
ہنر پیدا کر اوّل ترک کیجو لباس اپنا
لہو جوں تیغ بی جوہر دگر نہ ننگ عریانی
اس کے علاوہ قصیدہ ’’تضحیک روزگار‘‘ بھی جو ایک ہجویہ قصیدہ ہے، سودا کا نادر کارنامہ ہے۔( ان شاء اللہ دونوں قصیدے اگلے مضمون میں شائع کئے جائیں گے۔
قصیدوں کے عالاوہ سودا کے قلم سے اعلیٰ درجے کے مراثی، مثنویاں، رباعیات،قطعات، واسوخت، شہر آشوب وغیرہ بھی وجود میں آئے۔ سودا کے مثنیوں کی تعداد ۲۴ کے قریب بتائی جاتی ہیں۔ سودا پہلے ایسے شاعر ہیں جنہوں نے باقاعدہ ہجو گوئی کی بنیاد ڈالی۔
سودا کے متعلق آراء و خیالات
کلیم الدین احمد لکھتے ہیں ’’سودا میں وہ تمام خصوصیات موجود تھیں۔ جو ایک بلند پایہ ہجو گو کے لئے ضروری ہے۔ وہ زندہ دل اور شگفتہ طبیعت واقع ہوئے تھے۔ وہ خود ہنستے اور دوسروں کو ہنساتے۔ لیکن جب برہم ہوتے تو پھر اس کی کوئی انتہا نہ ہوتی۔ ان کے معاصرین اس سے آشنا تھے۔ اور اس سے ہمیشہ خائف رہتے تھے۔
محمد حسین آزاد لکھتے ہیں کہ ’’ ان کی طبیعت میں ایک طرح کی شگفتگی اور زندہ دلی تھی، جو کسی طرح کے تردد کو پاس نہ آنے دیتی تھی۔ لیکن گرمی اور مزاج کی تیزی بجلی کا حکم رکھتی تھی۔ اور اس شدت کو نہ کوئی انعام بجھا سکتا تھا نہ کوئی خوف دبا سکتا تھا۔
غنچہ نامی ان کا ایک غلام تھا۔ ہر وقت خدمت میں حاضر رہتا تھا اور ساتھ قلم دان لئے پھرتا تھا۔ جب کسی سے بگڑتے تو فوراً پکارتے’’ ارے غنچہ لا تو قلم دان میں اس کی خبر تو لوں۔ یہ مجھے سمجھا کیا ہے۔ پھر شرم کی آنکھیں بند اور بے حیائی کا منہ کھول کر وہ بے نقطہ سناتے تھے کہ شیطان بھی امان مانگے‘‘۔(آب حیات۔ص:۱۲۸)
شوکت سبزواری لکھتے ہیں سودا اردو کے پہلے طنزنگار شاعر ہیں۔ لیکن ان کے یہا تمسخر زیادہ اور طنز کم ہے۔
مصحفی نے سودا کو قصیدے کا نقّاش اوّل کہا ہے۔
نوٹ:۔ یہ مضمون نیٹ جے آر ایف،سیٹ،ٹیٹ وغیرہ امتحان میں پوچھے جانے والے سوالوں کے پیش نظر تیار کیا گیا ہے۔ اس طرح کے مزید مضامیں حاصل کرنے کیلئے لال رنگ کے گھنٹی والے نشان کو دبا کر ہماری ویب سائٹ علم کی دنیا ڈاٹ ان ilmkidunya.inکو سبسکرائب کر لیں۔ والسلام