غزوہ احزاب کی روشنی میں حالات حاضرہ کا مقابلہ

غزوۂ احزاب کی روشنی میں حالات حاضرہ کا مقابلہ

محمد قمر الزماں ندوی
استاد / مدرسہ نور الاسلام کنڈہ
پرتاپگڑھ 6393915491

غزوئہ احزاب صحیح اور راجح قول کے مطابق سن 5/ ہج میں پیش آیا ، عرب قبائل اور یہود کی متحدہ افواج کی طرف سے مدینہ پر مشترک یلغار اور حملہ تھا ،حملہ آوروں کی تعداد تقریباً 12/ ہزار تھی ،مسلمان بظاہر اس عظیم اور متحدہ افواج سے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے تھے ۔مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی خصوصی تدبیروں کے ذریعہ دشمنوں کو اس قدر خوف زدہ کیا کہ تقریباً ایک مہینہ کے محاصرے کے بعد خود مدینہ چھوڑ کر چلے گئے ۔ اس جنگ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا خندق کھودنے کا مشورہ اور اس پر عمل جو ایک انوکھا تجربہ تھا اور ایران و فارس میں جنگی تدبیر کے طور ایسا کیا جاتا تھا ،بڑا کام آیا اور اس جنگی تدبیر سے سے دشمنوں کو اپنے مشن میں ناکامی ہوئی ۔جنگ احزاب کا ایک سبق یہ بھی تھا کہ اسلام کی نشر و اشاعت اور دعوت و تبلیغ میں سخت سے سخت حالات اور آزمائش و امتحان کا مومن بندے کو سامنا کرنا پڑتا ہے، تاکہ مخلصین و غیر مخلصین کا فرق و امتیاز ہو سکے اور دوسرے یہ کہ دشمن طاقتوں کو یہ باور کرایا جائے کہ خدا اپنے دین کا خود حامی ہے، وہ کسی حال میں اس کو مغلوب و مقہور ہونے نہیں دے گا ،دشمن لاکھ تدبیر اور کوشش کرلے ۔ غزوئہ احزاب /خندق میں خطرات و اندیشے کا طوفان دیکھ کر منافق قسم کے لوگ مایوس ہوکر گھبرا اٹھے اور بھاگنے کی راہیں تلاش کرنے لگے ۔ مگر وہ اہل ایمان جو مخلص اور سچے پکے تھے اور جن کا اعتماد اللہ پر قائم تھا وہ جانتے تھے کہ آگے بھی خدا ہے اور پیچھے بھی خدا ہے ،ہر چہار جانب سے خدا کی نصرت کا یقین ہے ۔اسلام دشمنوں کے خطرہ سے بھاگنا اپنے آپ کو خود آزمائش اور خطرہ میں ڈالنا ہے، جو کہ پہلے کے خطرہ سے زیادہ خطرناک ہے ،انہیں یقین تھا کہ اگر ہم دشمنوں کے مقابلے میں جمے رہے، تو اللہ کی مدد و نصرت ہم کو حاصل ہوگی اور اگر ہم اسلام کے محاذ اور شریعت کے حدود ،دین کی سرحد کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کریں گے، تو آخر کار دنیا میں بھی اپنے آپ کو ہلاکت سے نہیں بچا سکتے اور آخرت میں خدا کی ہولناک پکڑ اس کے علاوہ ہے ۔۔
غرض غزوئہ احزاب میں حالات بے سخت اور نازک تھے ،لیکن ایمان والوں نے حوصلہ نہیں ہارا ،عزم کیساتھ کفر وشرک کی متحدہ طاقت کا مقابلہ کرتے رہے، جدید جنگی تدبیر اور حکمت عملی کو استعمال کیا۔ جس کے نتیجہ میں خدا کی نصرت آئی ،باقاعدہ جنگ کی نوبت تو نہیں آسکی ،اللہ تعالیٰ نے طوفان اور فرشتوں کا لشکر بھیج کر دشمنوں کو اس طرح سرا سیمہ اور خوف زدہ کیا کہ خود ہی میدان چھوڑ کر چلے گئے ۔
اس وقت بھی ہمارے سامنے اسی طرح کے حالات و واقعات ہیں، جو حالات غزوئہ احزاب کے موقع پر مسلمانوں پر تھے ،آج بھی متحدہ افواج اور متحدہ طاقت ہمارے اوپر حملہ آور ہے ، اس موقع پر بھی بہت سے کمزور لوگوں کے قدم ڈگمگانے لگے ہیں ۔ لیکن الحمد للّٰہ مجموعی طور پر مسلمان موجودہ کٹھن، نازک ،دشوار اور مشکل حالات سے مایوس نہیں ہیں ۔ ضرورت ہے کہ ہم مسلمان سورئہ احزاب کو پڑھیں اور اس کی تہہ اور گہرائی تک پہنچیں، اس سے عبرت ،نصیحت اور نتیجہ اخذ کریں، نیز اس کی روشنی میں حکمت و دانائی اور صبر و تحمل کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں ۔
غزوئہ خندق کے پس منظر اور اس سے حاصل نتائیج و عبر پر روشنی ڈالتے ہوئے علماء نے لکھا ہے کہ :
یہ غزوہ در اصل عرب کے بہت سے قبائل کا ایک مشترکہ حملہ تھا جو مدینے کی طاقت کو پوری طرح کچل دینے کے لیے کیا گیا تھا ۔اس کی تحریک بنی النظیر کے ان لیڈروں نے کی تھی جو مدینہ سے جلا وطن ہوکر خیبر میں مقیم ہوگئے تھے۔ انہوں نے قریش ،غطفان اور ہذیل اور دوسرے قبائل کو اس بات پر آمادہ کہ سب مل کر بہت بڑی جمعیت کے ساتھ مدینہ پر ٹوٹ پڑیں ۔۔۔۔
” یاد رہے کہ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں شکست فاش کے بعد کفار و مشرکین نے مسلمانوں کو کچلنے کے لیے بڑے پیمانے پر تیاری کی تھی، تاکہ مسلمانوں کی طاقت و قوت مکمل طور پر ختم ہوجائے ۔ وہ اس طرح کہ انہوں نے قرب و جوار کے تمام بڑے قبائل کے ساتھ، یہود و نصارٰی سے بھی اشتراک کیا تھا۔ یہاں تک کہ وہ یہودی جو مدینہ طیبہ میں تھے اور میثاق مدینہ کے تحت مسلمانوں سے ان کا پہلے ہی معاہدۂ امن ہو چکا تھا، وہ بھی خفیہ طور پر مشرکین مکہ کے ساتھ ہو گئے تھے۔ گویا اس زمانے کی سب سے بڑی اور طاقتور فوج مٹھی بھر مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے مدینہ طیبہ پر حملہ آور ہونے والی تھی۔
اس عظیم لشکر جرار سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی حکمت عملی کے طور پر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر خندق کھودی تھی ، جس کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی الگ الگ جگہ کے اعتبار سے ، اس کی تفصیلات سیرت و مغازی کی کتابوں میں موجود ہے ۔ صحیح ترین قول کے مطابق غزوۂ احزاب 5/ شوال سے شروع ہو کر 22/ ذیقعدہ 5/ ہجری میں ختم ہوا تھا. کفار و مشرکین تقریباً ایک ماہ تک مدینہ طیبہ کا محاصرہ کرنے کے بعد خفیہ طور پر مدینہ طیبہ کے یہودی بنو قریظہ سے یہ طۓ کیا کہ ذیقعدہ کے فلاں تاریخ کو ہم لوگ ایک بارگی خندق عبور کر کے مسلمانوں پر حملہ کریں گے۔ آپ لوگ بھی اسی دن پیچھے سے حملہ کریں۔ اس طرح ہم لوگ چند گھنٹوں میں ہی مسلمانوں کا صفایا کر دیں گے۔
کفار و مشرکین اور یہودیوں کے اس منصوبے کو ناکام کرنے کے لیے آقائے کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو غطفان کے ایک نو مسلم حضرت نعیم ابن مسعود غطفانی رضی اللہ عنہ (جن کا مسلمان ہونا کفار و مشرکین کو معلوم نہیں تھا) کو کفار و مشرکین اور یہودیوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی ذمہ داری سپردکی۔ حضرت نعیم رضی اللہ عنہ مسلمان ہونے کے باوجود کافر و مشرک بن کر سب سے پہلے مدینہ طیبہ کے یہودی بنو قریظہ کے پاس پہنچے (ان لوگوں سے ان کی پرانی دوستی تھی) انہوں نے کہا کہ آپ لوگ اپنے بچوں کے ساتھ یہاں رہتے ہیں اور آئندہ بھی یہیں رہیں گے، قریش یا بنو غطفان وغیرہ کا کیا ہے؟ اگر معاملہ ناخوشگوار ہوا تو وہ سب اپنے گھر اور وطن لوٹ جائیں گےاور اس کے بعد مسلمان آپ لوگوں کے ساتھ بہت ہی سختی کا معاملہ کریں گے۔ یہ سن کر بنو قریظہ کے لوگ پریشان ہوئے اور پھر حضرت نعیم رضی اللہ عنہ سے ہی دریافت فرمایا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ لوگ قریش اور بنو غطفان سے کچھ نوجوان کو بطور یرغمال طلب کیجیے اور انہیں بطور ضمانت اپنے پاس رکھیے، اگر وہ لوگ اپنے نوجوانوں کو آپ لوگوں کے حوالے نہیں کرتے تو آپ لوگ بھی ہرگز ہرگز ان کا ساتھ نہ دیں۔ اس طرح قریش اور بنو غطفان کے لوگ آپ لوگوں کو تنہا چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے۔
اس کے بعد حضرت نعیم رضی اللہ عنہ سیدھے قریش کے پاس پہنچے اور کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ بنو قریظہ نے جو مسلمانوں سے عہد شکنی کی ہے اس پر وہ نادم ہیں۔ اور یہ طے ہوا ہے کہ یہودی آپ لوگوں سے کچھ نوجوان طلب کرکے اور پھر ان نوجوانوں کو مسلمانوں کے حوالے کر دیں گے۔ اور اس طرح اپنا معاملہ استوار کر لیں گے۔ اور پھر یہی ساری باتیں حضرت نعیم رضی اللہ عنہ نے بنو غطفان سے بھی جاکرکہی۔
تھوڑی ہی دیر میں یہودیوں کی جانب سے قریش اور غطفان کے پاس نوجوان کا مطالبہ آ گیا۔ اور انہوں نےاپنےنوجوانوں کو دینے سے انکار کر دیا۔
اس طرح تینوں کو حضرت نعیم رضی اللہ عنہ کی باتیں سچی لگی۔ اور نتیجتاً ان کا اتحاد ٹوٹ گیا جس سے وہ حیران و پریشان ہوئے اور ان میں بزدلی بھی پیدا ہو گئی۔ اور پھر اسی درمیان اللہ تعالی نے طوفان آندھی اور سخت بارش کی شکل میں ان پر قہر نازل فرمایا۔ جس کی وجہ سے یہ ساری فوج تتر بتر ہو گئی۔ اور تمام کفار و مشرکین صبح نمودار ہونے سے پہلے ہی میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔
اس طرح اللہ تعالی کی رحمت اور آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور جانثاروں کی حکمت و دانائی سے مسلمانوں نے اس زمانے کی سب سے بڑی فوجی طاقت کو میدان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔ سبحان اللہ العظیم ۔ کیا ہم مسلمان اپنے طاقتور دشمن کو کمزور کرنے کے لیے، انہیں ناکام و نامراد کرنے کے لئے اس طرح کا نسخہ ،تدبیر ،حکمت اور فراست استعمال کرتے ہیں؟ کیا ہمارے منصوبوں میں گہرائی اور حکمت و دانائی ہوتی ہے؟ یا یہ کہ یہ ساری خوبیاں، حکمتیں اور تدبیریں صرف ہمارے دشمنوں کے پاس ہی ہیں؟ اور وہ لوگ یہ حربے ہم پر ہی آزماتے ہیں؟ اور ہمیں ہزاروں ٹکڑوں میں بانٹ کر ہمیں ہی کمزور بناتے جا رہے ہیں؟۔ اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پوری دنیا میں جگہ جگہ ہم پر ہی وحشیانہ حملہ ہوتا ہے۔ ہم کہیں گاجر و مولی کی طرح کاٹے جاتے ہیں، تو ہماری ماؤں اور بہنوں کی عزتوں سے کھلواڑ کیا جاتا ہے۔ ہمیں خوفزدہ کرنے کے لیے ہمارے ہی سامنے ہمارے بچوں اور بچیوں کو قتل کیا جاتا ہے۔ اور پھر ان غیر انسانی اور وحشیانہ عمل کو رد عمل کا نام دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ 2002ء میں اور دوسرے موقعوں پر بعض صوبوں میں ہوا تھا، اور ابھی فلسطین میں ہو رہا ہے۔ فلسطین میں تو صرف مسلمان شہید ہو رہے ہیں ،ان مکانات تباہ ہو رہے ہیں، بیسوں ہزار سے زائد لوگ لقمئہ اجل ہو چکے ہیں ، لوگ دانے دانے کو ترس رہے ہیں، بچے دودھ اور دوا نہ ملنے کی وجہ سے جان توڑ رہے ہیں ، ۔
علامہ اقبال کے ان اشعار کو ہمیں بار بار پڑھنا چاہیے۔

ہو گیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو
مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز

نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

دوستو !!!
بس آخری بات کہہ کر آج کی مجلس ختم کر رہا ہوں کہ آج یہ جو بھی مشکل اور نازک حالات ہیں اور قوم مسلم کا جسم جو زار و نزار ہے، اس کی بنیادی وجہ قرآنی تعلیمات سے دوری اور اس میں تدبر و تفکر کا فقدان اور امت مسلمہ کا باہمی کش مکش و کشاکش ،تفرقہ بازی ،امت میں تفرق اور تخرب کی کھائی ہے ، آپسی انتشار اور قرآن سے دوری نے ہی اس امت کو ذلت و نکبت اور پستی کے آخری دہانے پر پہنچا دیا ہے ۔ اگر مسلمان اس سے نکلنا چاہتے ہیں تو ان تمام منفی چیزوں سے باہر آنا ہوگا اور باہم سیسہ پلائی دیوار بننا ہوگا۔
اس کے علاوہ اس پریشانی کا کوئی حل اور اس مشکل کا کوئی علاج بظاہر نہیں ملتا ،خدا ہم سب کو ان ہدایات پر عمل کی توفیق بخشے آمین

( نوٹ / اس مضمون میں مختلف کتب تفاسیر اور گرامی قدر
مولانا شہادت حسین فیضی کی ایک تحریر سے استفادہ کیا گیا ہے)

اپنی راۓ یہاں لکھیں