عالمی یوم اردو اور اردو زبان کی حفاظت کی ذمہ داری
محمد قمر الزماں ندوی
استاد: مدرسہ نور الاسلام کنڈہ
کل 9/ نومبر تھا ،جو شاعر مشرق علامہ اقبال مرحوم کا یوم پیدائش ہے ،علامہ اقبال اپنے دینی و مذھبی اقدار و روایات اور فلسفیانہ افکار و خیالات کی وجہ سے دنیا کہ عظیم شاعروں میں شمار ہوتے ہیں ۔علامہ اقبال ایک عظیم شاعر ہی نہیں تھے، بلکہ ایک عظیم ماہر تعلیم اور نامور فلسفی بھی تھے اور اس کے ساتھ قوم و ملت کے لئے درد مند دل رکھتے تھے ،ملت کی تنزلی اور زبوں حالی پر آہ و فغاں کرتے تھے اور ملت کی کشتی ساحل سے ہم کنار ہو جائے،اس کے لئے سوچتے رہتے تھے اور خصوصاً نوجوانان ملت کو مہمیز لگاتے رہتے تھے ۔
اور ہمیشہ یہ پیغام دیتے تھے کہ
سبق پڑھ پھر صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
علامہ اقبال کی یوم پیدائش کو کچھ عرصہ سے عالمی یوم اردو کے طور پر منایا جارہا ہے ۔جس کی بنیاد اب سے 26/ سال پہلے اردو کے ایک عاشق صادق اور خادم مخلص ڈاکٹر سید احمد خان نے ڈالی تھی ۔
گزشتہ کل 9/ نومبر یوم پیدائش علامہ اقبال کی مناسبت سے پوری دنیا میں اردو داں طبقہ میں ،،عالمی یوم اردو،، منایا گیا اور اس مناسبت سے رنگا رنگ تقریبات اور پروگرام منعقد ہوئے ،جس میں اس زبان کی اہمیت ضرورت اور اس کی تاریخ نیز اس زبان کی خدمت کیسے اور کیوں کر ہو؟ اس پر چرچہ کیا گیا ۔ ارادہ تھا کہ اس موضوع پر کل ہی کچھ تحریر کروں،احباب کا بھی اصرار اور تقاضہ تھا ۔اسی تقاضا کی بنیاد پر اس زبان کی اہمیت اور خدمت کے حوالے سے کچھ رقم کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں ۔۔
یاد رہے کہ اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ‘لشکر’ فوج، جھتہ،اور ‘خیمہ’ وغیرہ کے آتے ہیں اور اس زبان کے آغاز و ارتقاء کو لے کر کوئی فیصلہ کن نظریہ نہیں پایا جاتا ہے، مگر ایک مشہور اور مشترک بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہند میں آمد پر اس زبان کی بنیاد رکھی گئی ایک زمانے میں افغانستان، عراق، ایران اور وسط ایشیاء سے ارباب کمال علماء و ادباء ہجرت کر کے ہندوستان آرہے تھے اور مختلف قوموں کے اختلاط سے ایک نئی زبان کی تشکیل ہو رہی تھی جس کو پہلے پہل ہندی کا نام دیا گیا اور چلتے چلتے یہ پنجابی، سندھی، دکنی،دہلوی ریختہ وغیرہ کہلائی اور پھر مستقل طور پر اردو کے نام سے مقبول خاص و عام ہوئی یہ وہ زبان ہے جس کو خسرو کی پہیلی میر کی ہمراز اور غالب کی سہیلی کہا جاتا ہے ،جس کو ‘دکن’ کے ولی نے گودی میں کھلایا ہے ‘سودا’ کے قصیدوں نے جس کا حسن بڑھایا ہے اور جو ‘داغ’ کے آنگن میں چنبیلی بن کر کھلی ہے یہ وہ زبان ہے جس کی تقدیر میں ‘غالب’ نے بلندی کو لکھا ‘حالی’ نے جسکی مروت کو حیات جاوداں بخشی ‘اقبال’ نے آئینۂ حق سے جسکو رو بہ رو کرایا جسکے خابوں کی ہویلی کو ‘مومن’ نے مزین کیا اور ‘ذوق’ نے اسکی عظمت کو سہارا دیکر آگے بڑھایا ‘چکبست’ کی الفت اسکے لیے مثال بنی ‘فانی’ نے اسکی پلکوں پے جہاں ستارے سجاۓ وہیں ‘اکبر’ نے اسکی بے رنگ ہتھیلی رچاکر اسکو نیا روپ دیا اردو زبان بر صغیر میں بولی جانے والی اہم ترین زبانوں میں سے ایک ہے جو ہر مذہب و ملت کی زبان ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی چاشنی سے ہر کوئی شرابور ہوتا ہے یہ زبان سماج کا وہ روشن آئینہ ہے ،جس میں خلوص و محبت، شرافت، وضع داری، احترام اور اعلیٰ انسانی قدروں کے عکس صاف صاف نظر آتے ہیں اردو محبت کرنا سکھاتی ہے اردو دلوں کو جوڑتی ہے اردو فکر کے راستے کشادہ کرکے عالی ظرف بناتی ہے ایک مردم شماری کے مطابق اردو کو بطور مادری زبان ہندوستان میں تقریبا ٦ فیصد لوگ بولتے ہیں اور اس کے مجموعی متکلمین کی کل تعداد ١١ کروڑ کے آس پاس ہے اردو صرف ایک زبان کا نام نہیں بلکہ اپنے آپ میں تمدن کی حیثیت رکھتی ہے اردو ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی علامت ہے یہ آزادی اور جمہوریت کی زبان ہے اردو نے سماجی و تہذیبی اداروں کو جنم دیا ہے جن میں مشاعرہ، قوالی، بیت بازیاں، مرثیہ خوانی، غزل گائیکی، داستان گوئی اور مختلف موضوعات پر شائع ہونے والے اردو اخبارات، رسالے، جرائد وغیرہ قابل ذکر ہیں جن کے سبب اردو نے ساری دنیا میں شہرت حاصل کی،، ۔
✍️ ایم آر ایف ولی اللہی
(مستغیث الرحمن فاروقی، کھتولوی کی تحریر سے مستفاد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوستو! کسی بھی قوم کے لیے زبان کا مسئلہ بہت اہم ہوتا ہے، اس کو سرسری انداز میں نہیں لینا چاہیے، بلکہ اس کی حفاظت اور فروغ کے لیے ہمہ جہت جہد و جہد اور کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ ، زبان کسی بھی قوم کے وجود و بقا کی ضمانت ہے، اور یہ اس کے تشخص اور تعارف کا بہترین ذریعہ ہے، جس قوم نے اپنی زبان کی حفاظت کرلی، اس نے گویا اپنے وجود و بقا کی گارنٹی اور ضمانت فراہم کرلیا۔۔ اسرائیلی (لوگ) برسہا برس دنیا میں ذلیل و خوار بھٹکتے رہے، ایک طویل مدت تک اس کا نہ کوئی علاقہ رہا اور نہ خطہ اور نہ حکومت، لیکن اس قوم نے اپنی زبان کا کبھی سودا نہیں کیا اور نہ ہی کسی زبان سے یہ متاثر ہوئے، اس نے ہیبرو (عبرانی) زبان اور اس کے رسم الخط کو باقی رکھا اور وہ اس کو مادری اور قومی زبان سمجھتے رہے، جس کا نتیجہ ہے کہ اس قوم کا آج وجود باقی ہے اور اس نے اپنا لوہا منوا لیا ہے ۔ وہ قوم جس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر نہیں ہے، پوری دنیا کا ہیرو بنا ہوا ہے۔
کہا جاتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اگر کسی قوم کے وجود کو مٹانا ہو اور اس کی ملی اور تہذیبی شناخت کو ختم کرنا ہو،تو اس کی زبان اور اس کے رسم الخط کو مٹا دو، وہ قوم خود بخود مٹ جائے گی اور اس کی شناخت ختم ہوجائے گی۔۔
آج مسلمانوں کے خلاف بھی یہ سازش ہورہی ہے کہ ان کا رشتہ اردو سے کاٹ دیا جائے یا کم ازکم اردو کا رسم الخط بدل دیا جائے، تاکہ یہ زبان اپنی موت آپ مرجائے۔۔ اس کے لیے حکومت کے پاس جتنے حربے ہیں وہ سب استعمال کر رہی ہے۔ موجودہ قومی تعلیمی پالیسی جو کئی سو صفحات پر مشتمل ہے، اس میں اردو کا تذکرہ تک نہیں ہے اور اگر ہے بھی تواشارہ و کنایہ میں ہے۔ اسی طرح نظامیہ مدارس کے حوالے سے بھی کوئی گفتگو نہیں آئی ہے، جو آج اردو کی بقا ، حفاظت اور فروغ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔
اس لیے اردو زبان کی بقا و حفاظت کی کوشش، آج ہم سب کو خود حل کرنا ہے، کیونکہ اس کی حفاظت سے ہمارا ایمان و عقیدہ محفوظ رہے گا ہماری ملی قومی اور دینی شناخت کی حافظت ہوگی، اس کے لیے ہم سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور اس کے لیے فکر مند ہونا ہوگا۔۔
ہندوستان بلکہ پورے بر صغیر میں ہماری علمی وراثت فارسی کے بعد بہت حد تک اردو زبان میں محفوظ ہے، اس زبان کے ذریعہ اسلام کی اشاعت بھی ہوئی ہے اور اس ملک کی تعمیر و ترقی اور آزادی میں بھی اردو زبان کا بڑا دخل رہا ہے، اس زبان نے دلوں کو جوڑنے اور سماج کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ زبان کسی ایک علاقہ اور خطہ کی نہیں ہے یا ایک مذھب والوں کی زبان نہیں ہے، بلکہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں یہ زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ہندوستان کے بہت سے صوبوں میں اس کو دوسری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی بین الاقوامی زبان کی حیثیت سے اس کو تسلیم کیا ہے۔۔
اس زبان میں جو مٹھاس ہے اور چاشنی ہے، وہ عربی اور فارسی کے علاوہ کسی اور زبان میں نہیں پائی جاتی ہے۔ اردو کئی زبانوں کی زبان ہے اس اعتبار سے بھی اس کی ایک الگ پہچان اور شناخت ہے۔۔
اردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی یہیں پلی بڑھی اور پروان چڑھی ۔ایک زمانہ تھا کہ اس زبان کے چاہنے والے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تھے اس کی شہادت اس سے دی جاسکتی ہے کہ فرانس جیسے ملک میں گارساں د تاسی جیسا اسکالر پیدا ہوا جس نے فرانسیسی زبان میں تین جلدوں پر مشتمل اردو زبان کی تاریخ لکھی ۔ یہ اس دور کی بات ہے جب کوئی تاریخی مواد اردو زبان میں باقاعدہ موجود بھی نہیں تھی ۔اردو زبان کی خوشبو پوری دنیا میں پھیلی اور پھر یہ رابطے کی زبانوں میں شامل ہوگئی۔
لیکن افسوس کہ آج اردو زبان رو بزوال ہے، اس میں بہت زیادہ گراوٹ آگئی ہے، اردو کی روٹی کھانے والے خود اس سے بے اعتنائی برت رہے ہیں اور اس کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ جو بہت افسوس کی بات ہے۔۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ زبان اپنی تمام تر شیرینی و لطافت کے باوجود اپنوں کی عدم توجہی اور غیروں کے تعصب کا شکار ہوتی رہی ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ یہ زبان ملک میں اجنبی بن کر رہ گئی ہے۔۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ زبان زندہ رہے اور اس کے ذریعہ سے ہماری تہذیب، شناخت باقی رہے اور ہمارے علمی ورثہ کی حفاظت ہو، تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اردو کے تحفظ کے لیے اور اس کی حفاظت کے لیے تن من دھن کوشش کریں اور اس زبان کو زندگی اور تابندگی بخشنے کے لیے وہ سب کچھ کریں ، جو اس کے لیے ضروری ہے۔۔۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر کیا کوششیں ہوسکتی ہیں ان میں سے چند باتیں ہم یہاں بیان کرتے ہیں۔
اردو کتابوں کے مطالعہ کا ہم سب اہتمام کریں، گھر والوں کو بھی اس کا پابند اور مکلف بنائیں۔
گھر میں یا ہم جہاں کہیں رہیں اردو بولنے کا اہتمام کریں، بلکہ اردو زبان میں ہی گفتگو کریں۔ اور گھر کے تمام افراد کو بھی اس کی تاکید کریں۔
گھر میں اردو کتابوں کا بڑا ذخیرہ رکھیں جس کے مطالعہ سے دینی اور ادبی معلومات میں اضافہ ہو۔
ہر گھر میں اردو کی کئی کئی لغتیں اور ڈکشنریاں ہوں۔ خاص طور پر فیروز اللغات، لغات کشوری، فرہنگ آصفیہ اور قومی لغات وغیرہ
کم از ایک اردو روزنامہ اخبار ایک ہفتہ واری اخبار اور ایک ماہنامہ مجلہ ضرور جاری کروائیں اور اہتمام سے اس کا سارے لوگ مطالعہ کریں۔
ادبی اور شعری نشستوں کا اہتمام بھی اردو، کے فروغ میں بہت موثر ہے اس لیے اس کا بھی اہتمام ہم سب کریں۔ اور وقفہ وقفہ سے ادبی پروگرام ضرور منعقد کریں۔
اپنی دکانوں کے بورڈ اردو میں بھی لکھوائیں۔ اور اس کی تشہیر کے لیے جو پمپلٹ شائع کریں اس کو اردو میں بھی لکھوائیں۔
ہر بڑی آبادی میں اردو لائبریری کے قیام کی فکر کریں، کیونکہ اس سے پڑھنے لکھنے اور مطالعہ کا ماحول بنے گا۔
اردو کے نام پر بحال ملازمین اور حضرات اساتذہ اردو زبان کی ترقی کے لیے ضرور کوشش کریں۔ کیونکہ وہ ان کی روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔
جن محکموں میں اردو میں درخواست دی جاسکتی ہے اور وہاں اردو مترجمین بحال ہیں وہاں ضرور ہم اردو میں درخواست پیش کریں۔
جن اسکولوں میں اردو یونٹ نہیں ہے وہاں اس کے لیے بااثر لوگ کوشش کریں اور جہاں پہلے سے یونٹ موجود ہے لیکن اساتذہ نہیں ہیں، جگہ خالی ہے، اس جگہوں کے پر کرنے کے لیے جد و جہد کریں۔
اردو کی ترقی کے لیے جو کمیٹیاں اور انجمنیں ہیں وہ اردو کے فروغ کے لیے جی جان لگا کر کوشش کریں۔
جو لوگ اردو کی خدمت کر رہے ہیں، مصنف ہوں یا مولف ادیب ہوں یا شاعر مترجم ہوں یا صحافی ہم ان کی مالی اعانت بھی کریں اور ان کو اسناد اور طمغے سے بھی نوازیں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ جی جان لگا کر اس کی خدمت میں مصروف رہیں۔۔
ہر گھر میں بچوں کے لیے بھی لائبریری قائم کریں جہاں ادب اطفال یعنی بچوں کے ادب پر جتنی کتابیں ہیں ان کو ضرور اکھٹا کرین۔ مائل خیر آبادی ، طالب ہاشمی عقیدت اللہ قاسمی شفیع نیر حکیم سعید دھلوی اور ابو المجاہد زاہد بچوں کے مشہور ادیب ہیں۔ ان کی کتابوں کو خریدیں اور بچوں کو انہیں پڑھنے کا مکلف بنائیں۔
اپنے بچوں کو حفظ اس وقت کرائیں جب ناظرہ کے ساتھ اردو ٹھوس ہوجائے۔ اس سے پہلے حفظ میں داخلہ نہ کرائیں۔ نیز اپنے بچوں اگر کونونٹ میں پڑھا رہے ہیں تو اس کے الگ سے ان کی اردو کی تعلیم کا بھرپور انتظام کریں اس کے لیے اتالیق رکھیں۔
امید کہ ان گزارشات پر عمل کرنے کی ہم سب بھر پور کوشش کریں اور اس زبان کو زندہ و تابندہ رکھنے کی کوشش کریں۔
ناشر / مولانا علاؤ الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ
6393915491/واٹس ایپ نمبر
9506600725/