ولاء اور براء
(محبت اور نفرت کا اسلامی فلسفہ)
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
ہمارے جدید فکری حلقوں میں زور وشور سے یہ موضوع چھیڑا جاتا ہے کہ آج ازسرِ نو ولاء اور براء کے تصورات کی تشریح وتفہیم کی ضرورت ہے۔کفار سے نفرت اور کتابیہ خاتون سے نکاح کو گری نظروں سے دیکھنے کا رجحان بدلنا چاہیے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ باتیں لبرل ازم کی علم بردار مغربی تہذیب کے دبائو میں کہی جارہی ہیں،ورنہ ایسا نہیں ہے کہ کہنے والے نے بحث وتحقیق اور دلائل کی تنقیح وتمحیص کے بعد یہ خیالات اختیار کیے ہیں۔
ان حضرات نے ولاء اور براء کے تعلق سے جو کچھ فرمودات پیش کی ہیں ان سب کا مجموعی تقاضایا تاثر بس یہ ہے کہ کسی طرح اسے کھینچ تان کر لبرل ازم یا شتر بے مہار آزادی کے قریب لا دیا جائے۔
قرآنِ کریم نے ولاء اور براء کے جو تصورات دیے ہیں ان کی روشنی میں عقیدے کی بنیاد پر انسانی تعلقات اور رشتوں کا ایک پورا نظام قائم ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف مغرب کے لبرل ازم کے فلسفے کے تحت مادہ پرستی کی بنیادوں پر انسانی تعلقات کا نظام قائم ہوتا ہے۔
یہاں قابلِ لحاظ نکتہ یہ ہے کہ جدید مفکرین کو جس قدر میں پڑھ سکا ہوں،مجھے لگتا ہے کہ یہ لوگ ولاء اور براء کے قرآنی تصور سے ذرہ برابر نہیں ہٹے ہیں،اور اپنے عمل وسلوک میں ولاء اور براء کے وجود کے تعلق سے ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ تبدیلی جو کچھ آئی ہے وہ ولاء اور براء کے محلِ انطباق اور وجوہِ انطباق کے بارے میں آئی ہے، یعنی وہ موجبات ولوازمات جو کسی انسان کو ولاء یا براء کا مستحق بنادیتے ہیں ان لوگوں کی فکر میں ان کا قلبِ ماہیت اور ٹرانس فورمیشن ہوگیا ہے اور جن اشخاص اور گروہوں کے ساتھ یہ تعلق استوار کیا جانا چاہیے ان کا جغرافیہ بھی تبدیل ہوگیا ہے۔
ماضی میں لوگ کہتے تھے کہ اللہ کے ساتھ کفر کی روش پر چلنے والے ہر شخص سے انسان کو دین کی بنیاد پر بغض وعناد رکھنا چاہیے۔ مگر ہمارے جدید فکری حلقوں میں یہ بات بڑی ناپاک اور مبغوض ہے، اس حد تک کہ اسے کہنے والے کی زبان کالی سمجھی جاتی ہے۔لیکن اگر انہی لوگوں سے آپ کہیں کہ میں اپنے دیش کے دشمنوں سے قلبی محبت رکھتا ہوں تو یہ تم پر بڑی لعنتیں بھیجیں گے۔ اگر آپ کہیں کہ میں اپنے وطن کے دشمنوں کے ساتھ وفاداری کا تعلق رکھتا ہوں تو یہ اس کو جہالت، وطن سے غداری یا فکری پسماندگی یا انتہاپسندانہ سوچ وغیرہ کچھ ایسا کہیں گے جو ایک مہذب گالی ہوگی۔
اس لیے ہمارے نزدیک مسئلہ یہ نہیں ہے کہ یہ لوگ شریعت کے بیان کردہ ولاء وبراء کے احکام کے منکر ہوگئے ہیں۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے ولاء اور براء کے مستحقین کی فہرست ازسرِ نو تیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلے سے علمائے اسلام کہتے آئے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ہی وہ اساس اور بنیاد ہے جس سے دوری یا نزدیکی کی بنیاد پر کسی کے ساتھ ولاء اور براء کا تعلق استوار کیا جاسکتا ہے۔ مگر ہمارے جدید مفکرین اب کہتے ہیں کہ وطن یا قوم یا رشتۂ انسانیت یا زبان وغیرہ بھی وہ مشترکہ بنیادیں ہیں جن پر انسان کو تعلقِ ولاء یا براء کی عمارت تعمیر کرنی چاہیے۔
یہ ہمارے مطالعے کے مطابق اس مسئلے کا خلاصہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کے اندر سے چشم زدن میں (Instantly)ولاء اور براء کا تصور مٹ گیا۔ فرق بس یہ پڑا ہے کہ اچھے خاصے مسلم ملکوں کے عوام کے ذہنوں میں ولاء اور براء کی بنیاد ذاتِ خداوندی کے بجائے وطن یا زمینی ٹکڑا بن گیا ہے۔ قرآن نے شاید ایسی ہی فکری تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:
{وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاہُ بِہَا وَلَـکِنَّہُ أَخْلَدَ إِلَی الأَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوَاہ} (اعراف، ۱۷۶) ’’اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں کے ذریعے اُسے بلندی عطا کرتے،مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہشِ نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا۔‘‘
{ مَا لَکُمْ إِذَا قِیْلَ لَکُمُ انفِرُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَی الأَرْضِ} (توبہ، ۳۸) ’’تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟‘‘
عہدِ رسالتؐ میں بھی ایک گروہ ایسا تھا جو جہاد کو علاقائی اور وطنی بنیادوں پر کرنے کا قائل تھا، نہ کہ اعتقادی اور دینی بنیادوں پر۔ اس گروہ کے افراد نے گویا جہادِ اسلامی کا انکار نہیں کیا تھا،وہ جہاد کو وطن کے دفاع میں جائز سمجھتے تھے، محض عقیدے کی توسیع وتحفظ کے لیے نہیں۔ چنانچہ نبیِ کریمﷺ اور ان کے اصحاب کے جہاد کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر یہ تھا:
{وَإِذْ قَالَت طَّائِفَۃٌ مِّنْہُمْ یَا أَہْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَکُمْ فَارْجِعُوا وَیَسْتَأْذِنُ فَرِیْقٌ مِّنْہُمُ النَّبِیَّ یَقُولُونَ إِنَّ بُیُوتَنَا عَوْرَۃٌ وَمَا ہِیَ بِعَوْرَۃٍ إِن یُرِیْدُونَ إِلَّا فِرَاراً} (احزاب،۱۳)
’’جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا کہ اے یثرب کے لوگو،تمہارے لیے اب ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں ہے،پلٹ چلو۔ جب ان کا ایک فریق یہ کہہ کر نبیؐ سے رخصت طلب کر رہا تھا کہ ہمارے گھر خطرے میں ہیں،حالانکہ وہ خطرے میں نہ تھے،دراصل وہ (محاذِ جنگ سے) بھاگنا چاہتے تھے۔‘‘
یہی منظر ہے جو آج بار بار دکھائی پڑتا ہے۔ قلبِ مومن کے لیے یہ بڑا المناک لمحہ ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک زمین کا رابطہ ایمان کے رابطے سے بڑھ گیا ہے اور اب مٹی کی بنیاد پر دوستی دشمنی اور ولاء وبراء کو رواج مل رہا ہے،بلکہ اسے فکری ترقی کی معراج بتایا جارہا ہے۔ اس کے برعکس اللہ اور دین وایمان سے قربت اور دوری کی بنیادوں پر ولاء وبراء یا بغض وعداوت رکھنا پس ماندگی کی علامت اور نصوصِ شریعت کو محدود زاویۂ نگاہ سے پڑھنے کے مرادف سمجھ لیا گیا ہے۔
معاملے کی تفہیم کے لیے یہ پسِ منظر بتانے اور سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ دراصل دلوں سے عقیدے اور ایمان کی ہیبت ختم ہوگئی ہے اور ذہنوں میں دنیاوی زندگی کی معیاریت رچ بس گئی ہے۔ امریکہ اور یورپ میں بیٹھے مسلم مفکرین کی تحریروں اور خاص کر وہ جن کی بیویاں کتابی ہیں، ان کے یہاں ولاء اور براء کا یہ صریح انحراف زیادہ شدت اوراصرار کے ساتھ پڑھنے اور دیکھنے کو ملتا ہے۔
ولاء اور براء کے بارے میں اگر یہ اربابِ فکر ودانش شرعی موقف جاننا چاہتے ہیں تو سمجھ لیں کہ ہر کافر ومشرک اپنے کفر وشرک کی وجہ سے اللہ کا دشمن ہے۔
ارشاد باری ہے:{فَإِنَّ اللّہَ عَدُوٌّ لِّلْکَافِرِیْنَ}(بقرہ،۹۸)’’تو کہہ دو کہ اللہ کافروں کا دشمن ہے۔‘‘
اس نے بتایا ہے کہ وہ اہلِ کفر سے محبت نہیں رکھتا:{فَإِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبُّ الْکَافِرِیْن}(آلِ عمران، ۳۲)’’تو یقینا یہ ممکن نہیں کہ اللہ کافروں سے محبت کرنے لگے۔‘‘بلکہ اسے کفر اور کافروں سے شدید نفرت ہے:
{فَمَن کَفَرَ فَعَلَیْْہِ کُفْرُہُ وَلَا یَزِیْدُ الْکَافِرِیْنَ کُفْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ إِلَّا مَقْتاً وَلَا یَزِیْدُ الْکَافِرِیْنَ کُفْرُہُمْ إِلَّا خَسَاراً }(فاطر،۳۹)’’اب جوکوئی کفر کرتا ہے اس کے کفر کا وبال اسی پر ہے اور کافروں کو ان کا کفر اس کے سوا کوئی ترقی نہیں دیتا کہ ان کے رب کا غضب ان پر زیادہ سے زیادہ بھڑکتا چلا جاتا ہے،کافروں کے لیے خسارے میں اضافے کے سوا کوئی ترقی نہیں۔‘‘
چنانچہ اللہ پر ایمان رکھنے والوں کی دوستی اور دشمنی بھی اُس کی دوستی اور دشمنی کے ماتحت اور تابع ہونی چاہیے:{إِنَّ الْکَافِرِیْنَ کَانُواْ لَکُمْ عَدُوّاً مُّبِیْنا} (نسائ،۱۰۱)’’بے شک کفار کھلم کھلا تمہاری دشمنی پر تلے ہوئے ہیں۔‘‘
مومن کے ایمان کا تقاضا ہے کہ اس کے دل میں خالقِ حقیقی سے عداوت رکھنے والے ہر شخص کے تئیں نفرت اور عداوت کا جذبہ موجزن ہو۔ اگر کوئی ایمان کا دعوے دار اپنے دل میں کفر اور اہلِ کفر کے تئیں یہ نفرت وکراہیت نہیں پاتا تو اسے اپنے ایمان کا جنازہ پڑھ لینا چاہیے کیونکہ اگر اس کے دل میں اللہ سے محبت ہوتی جو کہ ایمان کا لازمی حصہ ہے،تو ناممکن تھا کہ وہ بیک وقت اپنے خالق سے بھی محبت رکھے اور اس کے دشمنوں سے بھی محبت رکھے یا علی الاقل انہیں اپنا دشمن نہ سمجھے۔ البتہ اگر کوئی صاحبِ ایمان اس قدر جرأت مند ہے کہ وہ کہنے کی ہمت رکھتا کہ اللہ کے دشمن میرے دوست ہیں تو معاملہ دوسرا ہے۔
اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ کافر نے چونکہ ہمارے ساتھ محاربہ نہیں کیا ہے اس لیے وہ اللہ کا دشمن بھی نہیں ہے،جس روز وہ ہمارے خلاف برسرِ پیکار ہوجائے گا اسی روز سے وہ اللہ کا دشمن بن جائے گا۔اگر کوئی یہ کہتا ہے تو شاید اس کی نگاہ میں اپنی عزت اور حیثیت اسے اللہ کی عزت وکرامت سے زیادہ عزیز،معتبر اور بھاری لگتی ہے۔ کیا عقل رکھتے ہوئے کوئی ایمان والا ایسی بات کہہ سکتا ہے؟
اللہ کے تعلق سے اس سے بڑھ کر جی داری کیا ہوسکتی ہے کہ ایک طرف ہم بہ موجبِ قرآن یہ اقرار بھی کریں کہ اللہ تمام کفار کا دشمن ہے اور وہ تمام کفار کو پسند نہیں کرتا،مگر عملاً یہ بھی کہیں کہ ہم اپنے رب سے بڑھ کر ہیں،اس لیے ہم بعض کفار سے محبت کا تعلق رکھتے ہیں اور رکھیں گے۔اس آیتِ کریمہ پر تدبر کی نگاہ ڈالیے:
{ہَاأَنتُمْ أُوْلاء تُحِبُّونَہُمْ وَلاَ یُحِبُّونَکُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْکِتَابِ کُلِّہِ وَإِذَا لَقُوکُمْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ عَضُّواْ عَلَیْْکُمُ الأَنَامِلَ مِنَ الْغَیْْظِ}(آلِ عمران، ۱۱۹) ’’تم ان سے محبت رکھتے ہو مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے حالانکہ تم تمام کتبِ آسمانی کو مانتے ہو۔ جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے بھی(تمہارے رسولؐ اور تمہاری کتاب کی عظمت کو) مان لیا ہے،مگر جب جدا ہوتے ہیں تو تمہارے خلاف ان کے غیظ وغضب کا یہ حال ہوتا ہے کہ اپنی انگلیاں چبانے لگتے ہیں۔‘‘
اس آیت میں جن کفار کا ذکر ہوا ہے وہ بہ ظاہر مسلمانوں کے ساتھ صلح وآشتی کے رویے پر قائم تھے،بلکہ پُر امن بقائے باہمی میں انتہائی حد تک مبالغہ بھی کررہے تھے جس کا ایک مظہر یہ ہے کہ جب ایمان والوں سے ملتے تو خود بھی کہتے کہ ہم ایمان والے ہیں۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ان کے ساتھ محبت رکھنے پر سرزنش فرمائی اور ان کے ظاہری رویے کی بنیاد پر ان سے محبت کی پینگیں بڑھانے کو جائز نہیں قرار دیا۔
دین کی بنیاد پر براء وولاء کے شرعی اصولوں نے قرنِ اول کے مسلمانوں کے دلوں پر کیا اثر ڈالا تھا اور کفر وشرک ان کے لیے کس درجہ مبغوض ہوگیا تھا اس کا تھوڑاسا اندازہ حضرت اسمائؓ بنت عمیس کے قول سے کیجئے۔ یہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل تھیں اور صحیح بخاریؓ کی روایت کے مطابق ارضِ حبشہ کے بارے میں کہتی ہیں کہ ہم حبشہ میں اجنبیوں اور مبغوضوں کے علاقے میں رہتے تھے۔ [کنا فی أرض البعداء البغضاء بالحبشۃ] (صحیح بخاریؒ: ۴۲۳۰ عن ابی موسیٰ الاشعریؓ) حالانکہ دیکھا جائے تواہلِ حبشہ کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ امن وآشتی اور مصالحت کا تھا۔بلکہ ان سے مہاجرین صحابۂ کرامؓ کو بڑا نفع پہنچا۔قریش کے ظلم وستم سے بچ کر جب یہ لوگ حبشہ پہنچے تو حبشہ والوں نے انہیں سیاسی پناہ دی اور مطالبے کے باوجود انہیں واپس نہیں لوٹایا۔ اس کے باوجود یہ جلیل القدر صحابیہؓ اس علاقے کو دشمنوں اور دُور والوں کی زمین قرار دے رہی ہیں۔اس کی وجہ بس یہ ہے کہ اس زمانے میں دیگر صحابۂ کرامؓ کی طرح انہیں بھی ولاء اور براء کا قرآنی درس ازبر تھا اور وہ یقین کے ساتھ جانتی تھیں کہ کفر میں ملوث شخص اگرچہ بہ ظاہر مصالحت پر عمل کر رہا ہو،مگر حقیقتاً وہ اللہ کا دشمن ہے اور اس کی نظروں میں مبغوض ہے۔
ایک موقعے پر آنحضورﷺ نے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو خیبر کے یہودیوں کے پاس اس مقصد سے بھیجا کہ باغاتی پیداوار کا اندازہ لگا کر محصول تقسیم کردیں۔ یہودیوں نے یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ مذہبی بے گانگی کی وجہ سے وہ ان لوگوں کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کریں گے۔ اس وقت حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے ان سے جو الفاظ کہے تھے انہیں امام احمدؒ نے سندِ صحیح کے ساتھ اپنی مسند میں محفوظ کر دیا ہے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ ’’اے یہودیو،تم خلقِ خدا میں مجھے سب سے زیادہ مبغوض ہو۔۔۔اس کے باوجود تم سے میری نفرت مجھ سے یہ نہیں کراپائے گی کہ میں تم پر ظلم کروں۔‘‘ [یا معشر الیہود أنتم أبغض الخلق إلی۔۔۔ولیس یحملنی بغضی إیاکم علی أن أحیف علیکم] (مسند احمدؒ:۳/۳۶۷/۱۴۹۴۳ بہ روایت جابرؓ)
خیبر کے یہودی معاہد کفار تھے،محاربین کے زمرے میں نہیں آتے تھے،اس کے باوجود حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے علانیہ ان سے اپنی برأت اور عداوت کا اظہار کیا۔صحابۂ کرامؓ کی سیرت میں کفار سے -چاہے وہ معاہد کیوں نہ ہوں-بغض ونفرت کی بہت ساری مثالیں بہ آسانی مل جائیں گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے بعض مفکرین اس شرعی اصول سے یہ کہہ کر پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں کہ ولاء اور براء کا یہ پورا فلسفہ وہابیوں کا گھڑا ہوا ہے۔ وہابی تحریک سے متاثر بنیاد پرست مولویوں نے اپنے من سے یہ احکام تراش لیے ہیں اور دنیا بھر میں کفر اور کفار سے نفرت کا بیج انہی وہابی تنگ نظروں کا بویا ہوا ہے۔
دراصل یہ ایک آزمودۂ کار بہانہ ہے جس کے ذریعے کسی بھی دینی یا شرعی اصول کو بہ آسانی رد کیا جاسکتا ہے۔حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ عقیدے کی بنیاد پر کفر اور اہلِ کفر سے تنفر کا یہ قاعدہ یا اصول اہلِ سنت والجماعت کے چاروں فقہی مسالک میں بالاتفاق موجود ہے۔ یہ مسئلہ ’’وہابڑوں‘‘ کے گھر کی ایجاد واختراع نہیں ہے۔
امام سرخسیؒ حنفی نے لکھا ہے:’’ہر مسلمان کے شایانِ شان ہے کہ یہودیوں سے نفرت میں اس درجے تک پہنچ جائے۔‘‘ [وہکذا ینبغی لکل مسلم أن یکون فی بغض الیہود بہذہ الصفۃ] (المبسوط،سرخسیؒ:۲۳/۷)
امام قرافیؒ مالکی نے بعض اوامرِ شرعیہ کے ضمن میں لکھا ہے: ’’مومنوں سے محبت اور کافروں سے بغض اور رب العالمین کی تعظیم وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔‘‘ [حب المؤمنین وبغض الکافرین وتعظیم رب العالمین وغیر ذالک من المأمورات] (الفروق، قرافی، تحقیق: عبد القیام:۱/۴۱۹)
ابن الحاج مالکی فقیہ لکھتے ہیں:’’ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اللہ کی خاطر اس کے ساتھ کفر کرنے والوں سے بغض رکھے۔‘‘ [واجب علی کل مسلم أن یبغض فی اللہ من یکفر بہ] (المدخل، ابن الحاجؒ: ۲/۴۷)
شیخ علیشؒ مالکی لکھتے ہیں:’’مسلمانوں کے دلوں میں کافروں سے بغض ہوناایک فطری امرہے۔‘‘[نفوس المسلمین مجبولۃ علی بغض الکافرین] (منح الجلیل شرح مختصر خلیل، علیش، تحقیق:عبدالجلیل عبدالسلام:۳/۹۸)
فقہائے شوافع کے یہاں سب سے معتبر کتاب ’’الاقناع‘‘ میں لکھا ہے:’’کافر سے مودت حرام ہے۔‘‘[وتحرم مودۃ الکافر] (الاقناع فی حل الفاظ ابی شجاع، شربینی،تحقیق:علی معوض:۲/۵۴۲)
امام عز بن عبدالسلامؒ شافعی فرماتے ہیں:’’کفر کے ذریعے کافر نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے جس کی وجہ سے وہ پیچھے ہوگیا اور اس سے بغض رکھنا واجب ہوگیا۔‘‘ [جنایتہ علی أمر نفسہ بالکفر أخرتہ وأوجبت بغضہ] (قواعد الاحکام، عز بن عبدالسلام، تحقیق: نزیہ حماد وعثمان ضمیریہ:۱/۱۰۳)
علامہ عبدالرحمن سعدیؒ جن کی تصویر بعض لوگ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ یہ بڑے روشن خیال فقیہ تھے اور ان کے فتووں میں عصری آگہی اور فکری شعور بہ درجۂ اتم ملتا ہے،دوسرے لفظوں میں یہ مغربی ذوق ومزاج کے کافی قریب ہیں، انہوں نے بھی اللہ پر ایمان رکھنے اور کافر سے نفرت کرنے کے تلازم کو ثابت کیا ہے۔ لکھتے ہیں:’’ایمان کا تقاضا ہے کہ مومنوں سے محبت کی جائے اور ان کے ساتھ موالات قائم رکھی جائے اور کافروں سے بغض وعداوت کا رویہ اختیار کیا جائے۔‘‘ [الایمان یقتضی محبۃ المؤمنین وموالاتہم وبغض الکافرین وعداوتہم] (تیسیر الکریم الرحمن، عبدالرحمن سعدی، تحقیق: عبدالرحمن اللویحق:ص۲۲۸)
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اہلِ سنت والجماعت کے چاروں متداول فقہی مسالک کے یہاں کافر سے قلبی محبت کی ممانعت پر مشتمل تصریحات اور حوالے بہ کثرت مل جاتے ہیں۔ ایسے میں کسی کا یہ دعویٰ کہاں تک درست ہو سکتا ہے کہ کفار سے نفرت اور بغض کا خیال سب سے پہلے وہابیوں نے پھیلایا ہے اور اب ’’انٹر فیتھ ڈائیلاگ‘‘(بین المذاہب مکالمے) کے دور کا آغاز ہوتے ہی اس فکر کا زمانہ ختم ہوگیاہے۔اب کیا یہ مانا جائے گا کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمان سب کے سب وہابی تھے؟ یا یہ مانا جائے گا کہ یہ ایک شرعی اصل ہے جسے وہابیت کا لیبل چسپاں کرکے بدنام کیا جارہا ہے؟
ولاء وبراء کے شرعی تصور کو مغربی لبرل ازم کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے ہمارے مفکرین کی تحریروں میں بہت سی شرعی نصوص وتصورات کی آڑھی ترچھی تاویلیں بھی کی گئی ہیں۔یہاں بعض تاویلوں پر گفتگو انشاء اللہ مفید اور نتیجہ خیز رہے گی۔
ان حضرات کی طرف سے بارہا کہا گیا ہے کہ ہمیں اس کا اعتراف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اعدائے دین سے دشمنی رکھنے کا حکم دیا ہے۔مثلاً سورۂ ممتحنہ کی آیت میں کہا گیا ہے:{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَائَ تُلْقُونَ إِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَاء کُم مِّنَ الْحَقّ}(ممتحنہ،۱)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بنائو۔ تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو،حالانکہ جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس کو ماننے سے وہ انکار کر چکے ہیں۔‘‘مگر یہ اور اس قسم کی آیات اور ان سے ثابت ہونے والا اللہ کے دشمنوں سے دشمنی رکھنے کا حکم، یہ سب کچھ اُن کفار کی بابت ہے جو مسلمانوں پر ظلم وزیادتی کریں۔ اُن کے علاوہ دیگر کفار اللہ کے دشمن نہیں ہوتے ۔مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کی کتاب کو سمجھ کر پڑھنے والا کوئی شخص ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہے؟قرآن تو ہر کافر کو اللہ کا دشمن قرار دیتا ہے: {فَإِنَّ اللّہَ عَدُوٌّ لِّلْکَافِرِیْنَ}(بقرہ،۹۸)’’تو کہہ دو کہ اللہ کافروں کا دشمن ہے۔‘‘{إِنَّ الْکَافِرِیْنَ کَانُواْ لَکُمْ عَدُوّاً مُّبِیْنا} (نسائ،۱۰۱)’’بے شک کفار کھلم کھلا تمہاری دشمنی پر تلے ہوئے ہیں۔‘‘ اور آپ کہہ رہے ہیں کہ اللہ کچھ کا دشمن ہے اور کچھ کا نہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمیں اس کا اعتراف ہے کہ اللہ نے کفار کی موالات سے روکا ہے۔ مگر ایسی تمام آیات جن میں موالاتِ کفار کی نہی وارد ہوئی ہے،ان سے یہ لازم نہیں آتا کہ جملہ کفار سے محبت نہیں کی جائے گی اور ان سے دشمنی رکھی جائے گی۔ موالات میں مجرد محبت یا دشمنی سے آگے بڑھ کر ایک چیز ملتی ہے،وہ ہے ان کی مدد اور نصرت۔ یہ منع ہے۔ تواس تاویل کے بارے میں عرض کرنا ہے کہ موالات ایک عمومی لفظ ہے جس میں محبت اور نصرت دونوں عناصر شامل ہیں۔ محبت بھی موالات ہے اور نصرت بھی موالات ہے اور موالات کی ممانعت ان دونوں کی ممانعت بھی ہے۔جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ موالات تبھی ہوگی جب کہ کسی کے لیے محبت اور نصرت دونوں کے جذبات رکھے جائیں،انہیں یہ قرآنی آیت دیکھنی چاہیے جس میں ملتِ کفر سے محبت سے خاص طور پر روکا گیا ہے۔{ہَاأَنتُمْ أُوْلاء تُحِبُّونَہُمْ وَلاَ یُحِبُّونَکُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْکِتَابِ کُلِّہِ وَإِذَا لَقُوکُمْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ عَضُّواْ عَلَیْْکُمُ الأَنَامِلَ مِنَ الْغَیْْظِ} (آلِ عمران،۱۱۹)’’تم ان سے محبت رکھتے ہو مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے حالانکہ تم تمام کتبِ آسمانی کو مانتے ہو۔ جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے بھی(تمہارے رسول اور تمہاری کتاب کی عظمت کو) مان لیا ہے،مگر جب جدا ہوتے ہیں تو تمہارے خلاف ان کے غیظ وغضب کا یہ حال ہوتا ہے کہ اپنی انگلیاں چبانے لگتے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ یہ آیت معاہد کفار کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں ایسی بات کہنے والا فقہاء کے اجماع کے خلاف بھی جاتا ہے جس کے بہ موجب کافر کی محبت ومودت بھی موالات کے ضمن میں آتی ہے اور شرعاً ممنوع ہے۔علمائے محققین نے بھی یہی بات تحریر فرمائی ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہؒ نے لکھا ہے کہ ’’موالات کی اصل محبت ہے،ٹھیک ویسے ہی جیسے عداوت کی اصل نفرت ہے۔‘‘ [أصل الموالاۃ ہی المحبۃ کما أن أصل المعاداۃ البغض] (جامع الرسائل، ابن تیمیہ، تحقیق:محمد رشاد سالم:۲/۳۸۴)
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمیں اقرار ہے کہ اللہ نے اپنے اور رسولِ پاکؐ کے دشمنوں سے محبت رکھنے سے منع فرمایا ہے،مگر اللہ اور رسولؐ کا دشمن وہ کافر ہے جو محارب ہو۔ اس پر ہمیں عرض کرنا ہے کہ یہ کتاب اللہ کی تحریف کرنے جیساہے۔اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے:{ یَحْلِفُونَ بِاللّہِ لَکُمْ لِیُرْضُوکُمْ وَاللّہُ وَرَسُولُہُ أَحَقُّ أَن یُرْضُوہُ إِن کَانُواْ مُؤْمِنِیْن٭أَلَمْ یَعْلَمُواْ أَنَّہُ مَن یُحَادِدِ اللّہَ وَرَسُولَہُ فَأَنَّ لَہُ نَارَ جَہَنَّمَ خَالِداً فِیْہَا ذَلِکَ الْخِزْیُ الْعَظِیْم} (توبہ، ۶۲-۶۳) ’’یہ لوگ تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کریں،حالانکہ اگر یہ مومن ہیں تو اللہ اور رسول اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ یہ ان کو راضی کرنے کی فکر کریں۔ کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرتا ہے اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔‘‘
یہاں جھوٹی قسمیں کھانے والے محاربین کفار نہیں تھے،اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں اللہ اور رسولؐ سے پیکار لینے والا بتایا۔سورۂ مجادلہ میں جہاں اللہ تعالیٰ نے حدود کا تذکرہ فرمایا، وہیں یہ بھی فرمایاہے:{إِنَّ الَّذِیْنَ یُحَادُّونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ کُبِتُوا کَمَا کُبِتَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ }(مجادلہ،۵)’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کرتے ہیں وہ اسی طرح ذلیل وخوار کر دیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل وخوار کیے جاچکے ہیں۔‘‘
ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ کی حدود کو پامال کرنا محاربہ نہیں ہوتا،اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو اللہ اور رسولؐ کے ساتھ محادّہ کے ہم معنی قرار دیا۔اگر ہمارے مفکرین کہتے ہیں کہ محادّہ ہی محاربہ ہے تو یہ بالکل غلط بات ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے محاربہ سے کم درجے کی مخالفت کو محادّہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ اور اگر یہ لوگ محادّہ کے اندر ہر وہ قول وفعل شامل مانتے ہیں جس سے اللہ،اس کی کتاب،اس کے نبیؐ یا اس کی اتاری شریعت کی بے حرمتی ہوتی ہو،تو شاید اِس وقت روئے زمین پر کوئی کافر ایسا نہ ملے گاجو تعددِ ازواج،مرد کی قوامیت، حجاب، گھروں میں مستورات کے محصور رہنے اور قتال وجہاد وغیرہ کے احکام کے تعلق سے دینِ حق کی بے حرمتی کا مرتکب نہ ہورہا ہو۔
یہ صلح پسندلوگ ہم سے کہتے ہیں کہ کفار کے ساتھ جس موادّت سے روکا گیا ہے وہ ان کافروں کے تعلق سے ہے جو محادّہ کر رہے ہوں۔اگر ہم ان سے کہیں کہ آج یہ مستشرقین، سیاست داں، مفکرین اور کافر معاشروں کے سربرآوردہ افراد جس طرح احکامِ شریعت کی اہانت وبے حرمتی کر رہے ہیں،حالانکہ وہ محارب نہیں ہیں، مسلمانوں کے ساتھ انہوں نے جنگ نہیں چھیڑی ہے،کیا اُن سے مودت ومحبت رکھنا جائز ہے؟ تب یہی لوگ اپنی بات کی تردید کرتے ہوئے کہیں گے:’’ہاں،کیونکہ وہ غیر محاربین ہیں،اس لیے ان کے ساتھ مودت رکھنا جائز ہے۔ اب وہ پیچھے اپنی بیان کردہ علت یعنی محادّت بہ معنی اہانت واسائت کا تذکرہ نہیں کریں گے۔
ہمارا مقصد یہ بتانا نہیں ہے کہ کفر اور محادّت ایک دوسرے کے مرادف الفاظ ہیں۔ بے شک محادّت مجرد کفر سے زائد ایک چیز ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہ نے ’’الصارم المسلول‘‘ میں بڑے اچھے انداز میں لکھا ہے۔ہمارے کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ محادّت بہرحال مجرد جنگ وقتال سے زیادہ وسیع تر مفہوم کا حامل ایک قرآنی لفظ ہے۔
ان حضرات کی طرف سے ولاء وبراء کے تعلق سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دیکھیے شارعِ حکیم نے کتابیہ خاتون سے نکاح کی اجازت مسلمان مرد کو دی ہے اور زوجین میں مودت کے بغیر رشتۂ ازدواج قائم نہیں ہوسکتا۔اس سے معلوم ہوا ہے کہ کافروں سے یک گونہ مودت ومحبت رکھنا جائز ہے،کیونکہ اگر یہ ناجائز ہوتا تو اللہ کبھی کتابیہ خاتون کا نکاح مسلمان کے ساتھ جائز نہ کرتے۔ مگر ان لوگوں کا یہ استدلال قرآنی آیات،احادیثِ نبویہ،آثارِ صحابہؓ اور مذاہبِ اربعہ کے متفقہ فقہی فیصلے کے خلاف ہے۔یہ بات کہنے والا صرف ایک فروعی مسئلے کا انکار نہیں کرتا،بلکہ وہ پورے ایک منہج اور طرزِ استدلال کا انکار کرتا ہے۔ وہ بدیہی اصولوں کو چھوڑتا ہے،اوراستثناء اور احتمال کو ایک بنیادی اور عمومی قاعدے کی شکل دے دیتا ہے۔
کفار سے محبت کے جواز کے لیے یہ استدلال کہ اللہ نے نکاحِ کتابیہ کو جائز رکھا ہے اور نکاح کا لازمہ مودت ہے،اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ کتابیہ خاتون سے شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی محبت فطری اور تکوینی ہے جب کہ اللہ کا یہ حکم کہ ہر کافر سے بغض رکھا جائے یہ ایک شرعی ودینی حکم ہے،اور قاعدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوامرِ شرعیہ کو اس کی اجازت سے وقوع پذیر ہونے والے امورِ کونیہ کی بنیاد پر قابلِ اعتراض نہیں گردانا جائے گا۔
اسی طریقے سے استدلال کرنے والا وہ شخص بھی ہے جو کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مختلف الطبائع بنا کر پیدا کیا ہے اور ہمیشہ یہ اختلاف باقی رہے گا،اس لیے اتحاد واتفاق کی بات کرنا یا مسلمانوں کو ایک ملت قرار دینا فضول ہے۔ایسا کہنے والا ایک تکوینی امر کی بنیاد پر ایک شرعی حکم ٹھکرا رہا ہے جوکہ غلط ہے۔ اسی طرح کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ بندگانِ خدا غلطیوں اور خطائوں کے مرتکب ہوں۔ اس کے نبیﷺ نے بتایا ہے کہ آدم کا ہر بچہ خطاکار ہے۔ اس لیے اب کسی کو گناہوں سے روکنے اور معاصی سے باز رہنے کی تلقین کرنا عبث ہے۔یہ بھی مندرجہ بالا استدلال کی طرح غلط ہے۔ٹھیک اسی طرح یہ استدلال بھی غلط ہے کہ تکوینی وفطری طور پر زوجین کے درمیان جو محبت وانسیت پیدا ہوتی ہے اسے بنیاد بنا کر کفار سے کراہیت اور نفرت رکھنے کے شرعی حکم کو باطل کر دیا جائے۔
پھر یہ کس نے کہہ دیا کہ زوجین کے درمیان دین کی بنیاد پر بے گانگی اور اجنبیت نہیں ہو سکتی۔ ارشادِ باری ہے:{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِکُمْ وَأَوْلَادِکُمْ عَدُوّاً لَّکُمْ فَاحْذَرُوہُمْ} (تغابن،۱۴)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو،تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں،ان سے ہوشیار رہو۔‘‘یہاں اللہ تعالیٰ نے زوجین کے مابین دینی عداوت ہونے کے امکان کو ثابت کیا ہے۔ہمیں نہیں معلوم یہ لوگ کیوں اس آیت کو چھوڑ دیتے ہیں اور وہ آیت پکڑتے ہیں جس میں تکوینی اور جبلّی محبت کی بات کہی گئی ہے:{وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْکُنُوا إِلَیْْہَا وَجَعَلَ بَیْْنَکُم مَّوَدَّۃً وَرَحْمَۃً} (روم، ۲۱) ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔‘‘
ہونا یہ چاہیے کہ دونوں آیتوں کو سامنے رکھ کر تدبر کیا جائے۔ اس طرح صاف پتہ چل جائے گا کہ ایک جگہ تکوینی محبت مراد ہے اور دوسری جگہ دین کی بنیاد پر بے گانگی کے امکان کو ثابت کیا گیا ہے۔پھر زوجین کے درمیان جس مودت کا ذکر رب ذو الجلال نے فرمایا ہے وہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ محبت کے مفہوم میں ہی ہو۔ اس سے مراد صلہ رحمی اور احسان وکرم کا رویہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس معنی میں مودت کا لفظ قرآن میں بھی استعمال ہوا ہے:{ِ قُل لَّا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْْہِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِیْ الْقُرْبَی }(شوریٰ،۲۳)’’اے نبی ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں،البتہ قرابت کے حقوق کی ادائیگی اور محبت ضرور چاہتا ہوں۔‘‘اس آیتِ کریمہ میں نبیﷺ کو یہ حکم نہیں دیا گیا کہ کفارِ قریش سے محبت کریں،بلکہ آیت کا منشا وہ ہے جو صحیح بخاریؒ کی روایت میں صحابیِ جلیل حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے واضح کیا ہے کہ قریش کا کوئی بطن اور گھرانہ ایسا نہ تھا جس میں آپﷺ کی رشتے داری نہ تھی۔اس لیے آپﷺ نے فرمایا: ’’میرا تم سے مطالبہ بس یہ ہے کہ تم میرے اور تمہارے درمیان پائے جانے والے قرابت کے رشتے کو نبھائو۔‘‘ [إن النبیﷺ لم یکن بطن من قریش إلا کان لہ فیہم قرابۃ فقال إلا أن تصلوا ما بینی وبینکم من القرابۃ](صحیح بخاریؒ:۴۸۱۸)
پھر اس لحاظ سے بھی غور کرنا چاہیے کہ انسان کو جس قدر محبت اور موالات اپنے حقیقی والد اور بھائیوں سے ہوتی ہے اتنی منکوحہ بیوی سے نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود ہم پاتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے معاہد کافر باپ اور بھائی کے ساتھ موالات کا رشتہ منقطع فرمادیا ہے۔ ارشادِ باری ہے: {یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ آبَاء کُمْ وَإِخْوَانَکُمْ أَوْلِیَاء إَنِ اسْتَحَبُّواْ الْکُفْرَ عَلَی الإِیْمَانِ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الظَّالِمُون}(توبہ،۲۳)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق اور ولی نہ بنائو اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ جوتم میں سے ان کو اپنا ولی بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔‘‘
پھر اہلِ علم نے بتا دیا ہے کہ دونوں شرعی حکموں کا محلِ انطباق الگ الگ ہے۔معاہد ومحارب کفار سے قلبی عداوت بر بنائے دین وایمان ہوتی ہے جب کہ زوجین کے درمیان پیدا ہونے والی مودت فطری اور جبلی ہوتی ہے اور دونوں کا اجتماع کسی ایک شخص کے اندر ہونا محالات میں سے نہیں ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ بات ناممکن ہے کہ کسی انسان کے اندر محبت اور بغض دونوں یکجا ہوجائیں،اسی لیے جب تک اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی کتابیہ بیوی سے محبت کرے اس وقت تک اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اس سے دینی عداوت نہ رکھے۔یہ بات انتہائی درجے کی غیر عملی اور سطحی بات ہے۔ تجربہ اس کے خلاف شاہد ہے۔ کڑوی دوا پینے کو ہم ناپسند بھی کرتے ہیں اور پسند بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے ذائقے کے لحاظ سے ہمیں بری لگتی ہے اور اپنی افادیت کے لحاظ سے اچھی لگتی ہے۔علمائے کرام نے ایک شخص کے اندر محبت اور نفرت کے اجتماع کو اسی مثال کے ذریعے بار بار اپنی کتابوں میں سمجھایا ہے۔شرعی امور میں اس کی نظیر یہ ہے کہ فی سبیل اللہ قتال کے اندر دل کو طبعی انقباض اور ناپسندیدگی ہوتی ہے کیونکہ اس سے انسان بے آرامی اور جانی خطرات سے دوچار ہوتا ہے، مگر اس کے اندر جو عظیم الشان ثواب رکھا گیا ہے اس کی بنیاد پر اس سے شرعی محبت بھی ہوتی ہے۔ قتال سے انسان کی طبعی کراہیت خود قرآن سے ثابت ہے:{کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِتَالُ وَہُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ وَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَہُوَ خَیْْرٌ لَّکُمْ} (بقرہ، ۲۱۶) ’’تمہیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے حالانکہ وہ تمہیں ناگوار ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو۔‘‘مگر قتال سے بربنائے شرع محبت بھی قرآن سے ہی ثابت ہے:{وَلاَ عَلَی الَّذِیْنَ إِذَا مَا أَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لاَ أَجِدُ مَا أَحْمِلُکُمْ عَلَیْْہِ تَوَلَّواْ وَّأَعْیُنُہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَناً أَلاَّ یَجِدُواْ مَا یُنفِقُون}(توبہ،۹۲)’’اسی طرح ان لوگوں پر بھی کوئی اعتراض کا موقع نہیں ہے جنہوں نے خود آکر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں اور جب تم نے کہا کہ میں تمہارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کر سکتا تو وہ مجبوراً واپس گئے اور حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور انہیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ وہ اپنے خرچ پر شریکِ جہاد ہونے کی مقدرت نہیں رکھتے۔‘‘
پہلی آیت میں بتایا گیا ہے کہ مومنین بہ تقاضائے طبیعت قتال سے بچتے ہیں اور اسے ناپسند کرتے ہیں۔ لیکن پھر انہی اہلِ ایمان کے بارے میں دوسری آیت میں بتایا گیاکہ انہیں شریکِ جہاد نہ ہونے کی حسرت ایسی ہوتی ہے کہ زاروقطار روتے ہیں۔ یہ جہاد وقتال سے ان کی محبت بہ تقاضائے شرع ودین ہے۔ اب اگر کوئی اس بات کا انکار کرتا ہے کہ جنگ وقتال میں کوئی طبعی کراہت نہیں پائی جاتی تو وہ بر خود غلط ہے، اور اگر کوئی یہ انکار کرتا ہے کہ قتال سے شرعی محبت نہیں ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے ابھی تک ایمان کا مطلب ہی نہیں معلوم ہو سکا۔ جب محبت اور نفرت کا اجتماع ایک محل پر ممکن ہے تو آخر ان کی یکجائی ایک ایسے مسلمان شخص کے اندر کیوں ناممکن ہوسکتی ہے جو کسی کتابیہ خاتون کا شوہر ہو۔
ٹھیک اسی طرح ہر انسان کے دل میں قید خانے سے فطری بے زاری اور تنفر پایا جاتا ہے۔ مگر حضرت یوسفؑ کے معاملے میں ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے ایک شرعی مصلحت کی خاطر قید خانے کے تئیں اپنی پسندیدگی اور ترجیحی رویے کا اظہار کیا حالانکہ یقین ہے کہ طبعی طور سے وہ اسے ناپسند ہی کرتے رہے تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ قول نقل فرمایا ہے:{قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا یَدْعُونَنِیْ إِلَیْْہِ }(یوسف،۳۳)’’یوسف نے کہا:اے میرے رب،قید مجھے محبوب ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ عورتیں مجھ سے چاہتی ہیں۔‘‘
اسی طرح جب کوئی انسان اپنی سب سے قیمتی متاع اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہے تو اس کے اس عمل میں محبت اور کراہت دونوں مجتمع ہوجاتی ہیں۔ وہ فطرت اور طبیعت کے تقاضے سے مال کو روکناچاہتا ہے اور شریعت کے تقاضے سے اسے خرچ کرنا چاہتا ہے۔قرآن نے اس فطری پہلو کو کئی جگہ ابھارا ہے:{ لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّی تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَیْْء ٍ فَإِنَّ اللّہَ بِہِ عَلِیْم}(آلِ عمران،۹۲)’’تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو،اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بے خبر نہیں ہوگا۔‘‘ { وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِ}(بقرہ،۱۷۷)’’اور اُس نے اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر،مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کیا۔‘‘ {وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِیْناً وَیَتِیْماً وَأَسِیْراً}(دہر،۸)’’اور مال کی محبت کے باوجود مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔‘‘
بعض حضرات نے یہ نکتہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ محبت ہو کہ نفرت،یہ دل کا کھیل ہے۔ دل اپنے آپ کسی سے محبت کرتا ہے اور کسی سے نفرت کرنے لگتا ہے،اس میں انسان کا حیلہ یا تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔اس لیے کافروں سے محبت اگر کسی کو ہوجائے تو وہ معذور اور قابلِ معافی ہے۔ اس بات کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ نکلے گا کہ محبت اور نفرت کے معاملے کو شرعی تکالیف کے دائرے سے باہر کر دیا جائے اور نتیجتاً اللہ اور اس کے رسولﷺ نے ایمان کی بنیاد پر کسی سے نفرت یا محبت کرنے کے جو احکام دیے ہیں ان سب کو لغو مان لیا جائے۔چنانچہ وہ تمام شرعی نصوص جن میں کبھی اللہ سے محبت،کبھی رسولﷺ سے محبت،کبھی انصارؓ سے محبت، کبھی اہلِ بیتؓ سے محبت اور کبھی اولیاء اللہ سے محبت کا حکم دیا گیا ہے وہ سب عبث اور لاحاصل ہیں جن کی کوئی قدر وقیمت نہیں کیونکہ محبت یا نفرت تو دل کا تصرف ہے جو خود بہ خود ہوجاتا ہے،انسان کا اس بارے میں کوئی اختیار نہیں چلتا۔حالانکہ مشہور یہ ہے ایمان کا اعلیٰ درجہ وہی ہے جسے محبوبِ کبریا حضرت محمدﷺ نے یوں بیان فرمایا تھا کہ ’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والد اور اولاد اور دیگر تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔‘‘ [لا یؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین](صحیح بخاریؒ:۱۴)
اب اگر کوئی شخص آکر کہے کہ جناب محبت دل کا معاملہ ہے جس پر انسان کا بس نہیں چلتا، میں کیا کروں کہ میرے دل میں اللہ کے نبیﷺ کی محبت پیدا نہیں ہوتی،یا اتنی نہیں ہے جتنی کہ مجھے اپنی اولاد اور والدین سے ہے۔ کیا ازروئے شرع اس کی یہ بات قابلِ قبول ہوگی؟ حضرت عمرؓ نے دربارِ رسالتﷺ میں ایک مرتبہ اس سے کافی ہلکے درجے کی بات فرمائی تھی،مگر اللہ کے رسولﷺ نے ان کی بات تسلیم نہیں کی، بلکہ محبت اور نفرت کے تعلق سے انہیں اپنا فہم ٹھیک کرلینے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ اس کے بعد حضرت عمرؓ کا ایمان ترقی کر گیا۔ صحیح بخاریؒ میں ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسولﷺ سے فرمایا تھا:اللہ کے رسولؐ،آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں،سوائے میری اپنی ذات کے۔ نبیﷺ نے فرمایا:’’یہ ناقابلِ قبول ہے،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،اس وقت تک تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوگا جب تک کہ میں تمہیں تمہاری جان سے زیادہ عزیز نہ ہوجائوں۔‘‘ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا:’’اگر یہ بات ہے تو اب اللہ کی قسم، آپﷺ کی ذات مجھے اپنی جان سے زیادہ محبوب ہوگئی ہے۔” یہ سننے کے بعد آپﷺ کی زبان سے نکلا تھا:ہاں اب،اے عمرؓ۔‘‘ [یا رسول اللہ لأنت أحب إلی من کل شییٔ إلا من نفسی فقال النبیﷺ لا والذی نفسی بیدہ حتی أکون أحب إلیک من نفسک فقال لہ عمر فإنہ الآن واللہ لأنت أحب إلی من نفسی فقال النبیﷺ الآن یا عمر] (صحیح بخاریؒ:۶۶۲۳ عن عبداللہ بن ہشامؓ)
حضرت عمرؓ کو جب معلوم ہوا کہ مومن کے دل میں رسولِ کریمﷺ کی محبت اپنی جان کی محبت سے زیادہ ہونی چاہیے کیونکہ یہی ایمان کا تقاضا ہے،تو انہوں نے مجاہدہ کیا اور اس محبت کے درجے کو حاصل کر لیا۔ اس سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ محبت ہو یا نفرت،یہ مجاہدے اور ریاضت سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ تو ہے کہ جب کچھ لوگوں نے اسلام کے بعض احکام وتشریعات کو دینی عناد اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس رویے کو ارتداد اور خروج عن الاسلام کے ہم معنی قرار دیا اور یہ نہیں فرمایا کہ ان بے چاروں کو عام معافی ہے کیونکہ محبت اور نفرت دلوں کا معاملہ ہے اور اس پر انسان کا زور نہیں چلتا۔ارشاد ہوا تھا:{ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ کَرِہُوا مَا أَنزَلَ اللَّہُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَہُمْ}(محمد،۹)’’کیونکہ انہوں نے اس چیز کو ناپسند کیا جسے اللہ نے نازل کیا ہے،لہٰذا اللہ نے ان کے اعمال ضائع کردیے۔‘‘
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ کفار ومشرکین میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہمارے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرتے ہیں،ایسے میں جب کہ وہ ہمارے محسنین ہیں ہم کیسے ان سے نفرت کر سکتے ہیں،کوئی بھی سلیم الفطرت ایسا نہیں کرتا کہ اپنے محسن کو نہ چاہے۔ محسن سے محبت کرنا ایک فطری داعیہ ہے جس سے انسان بہ مشکل انحراف کرپاتا ہے۔ اس قسم کا اعتراض کرنے والے دراصل یہ بھول جاتے ہیں کہ محبت اصلاً محبوب کے اعمال کا ردِ عمل ہے اور نفرت مبغوض کے اعمال کا ردِ عمل ہے۔ کسی کافر نے آپ کو مال دیا،ہدیہ دیا اور مسکرا کر ملاقات کی تو احسان کیا ،مگر اس نے خالقِ حقیقی کے تئیں کفر والحاد کی روش اختیار کرکے بڑی برائی کا ارتکاب کر رکھا ہے۔ اللہ رب العالمین ہمیں ہماری اپنی ذات سے زیادہ عزیز اور مکرم ہونا چاہیے۔ اس لیے اس شخص کی برائی (شرک وکفر)جو ربِ حقیقی کے تئیں وہ کر رہا ہے اس کے اس مادی احسان وکرم سے ہزار گنا زیادہ ہے جو وہ ہمارے ساتھ کر رہا ہے۔اس سے پہلوتہی کی صورت یہی ہے کہ ہم اپنی ذات کو اللہ کی ذات سے بڑھا ہوا اور قیمتی جانیں اور یہ سمجھنے لگیں کہ جو شخص ہمارے ساتھ برا کرے وہ تو نفرت کا مستحق ہے اور جو شخص ہمارے ساتھ احسان کرتے ہوئے ہمارے رب کے ساتھ برا کرے وہ محبت کا مستحق ہے۔ اگر کوئی شخص ایسا سوچتا بھی ہے تو وہ گویا اپنے آپ کو اللہ پر فوقیت دے رہا ہے اور یہ ایسی شنیع وقبیح بات ہے جس کا تذکرہ بھی قلم پر بھاری ہے۔
امام تاج الدین سبکیؒ نے اپنے فتاویٰ میں اس مفہوم کی طرف بڑا بلیغ اشارہ کیا ہے۔لکھا ہے:’’بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ پاکیزہ اور سلیم الفطرت نفوس کسی سے نفرت یا عداوت کسی وجہ سے کرتے ہیں؛یا تو کسی ایسے عمل کی بنیاد پر جس کا نقصان براہِ راست انہیں پہنچا ہو،یا کسی ایسی ذات کو پہنچا ہو جسے یہ بے حدچاہتے ہیں یا جو انہیں بے حد چاہتا ہے۔ اسی باب سے کفار سے ہماری عداوت ہے کیونکہ یہ لوگ اُس ذاتِ عالی کی بے حرمتی کی جسارت کررہے ہوتے ہیں جو ہمیں ہماری جانوں سے زیادہ عزیز اور محبوب ہے۔‘‘ [والذی یظہر أن النفوس الطاہرۃ السلیمۃ لا تبغض أحدا ولا تعادیہ إلا بسبب إا واصل إلیہا أو إلی من تحبہ أو یحبہا ومن ہذا الباب عداوتنا للکفار بسبب تعرضہم إلی من ہو أحب إلینا من أنفسنا] (فتاوی تاج الدین السبکی:۲/۴۷۶)
اب اگر کوئی صاحب یہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے محسنین کفار سے نفرت کروں یہ مجھے زیب نہیں دیتا۔تو اس سے ہم کہیں گے کہ جناب اصلاً آپ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ آپ کسی ایسے کافر سے محبت کا دم بھریں جس نے آپ کے معبودِ حقیقی کے ساتھ برا کیا ہے،صرف اس بنیاد پر کہ اس نے آپ کی طرف دنیا کے چند ٹکڑے پھینک دیے ہیں۔آپ کے خالقِ حقیقی کے احسانات وانعامات کے مقابلے میں اس کافر کے احسان کی حیثیت پرِ کاہ کیے برابر بھی نہیں ہے۔بلکہ سرے سے رب کی نعمتوں میں جو اس نے آپ کو بخشی ہیں اور کافر کے پھینکے چند ٹکڑوں اور ٹکوں میں کوئی نسبتِ تقابل ہی نہیں پائی جاتی۔
بہرحال ایمان والا کوئی بھی شخص اگر اپنے ذہن میں یہ استحضار کر لے کہ کافر نے اللہ کو معبود نہ مان کر اور محمدﷺ کو اپنا رہنما اور نبی نہ مان کر میرے رب کی بے عزتی اور بے حرمتی کی ہے،پھر بھی اس کے دل میں دینی غیرت کی بنیاد پر اس سے تنفر کا جذبہ پیدا نہ ہو تو سمجھ لیناچاہیے کہ اس کا دل مردہ ہوچکا ہے اور اب اسے اپنے دل کا ماتم کرنا چاہیے، کیونکہ دل اگر زندہ ہو تووہ کبھی اس پر راضی نہیں ہو سکتا کہ اس کے خالق ومالکِ حقیقی کے ساتھ کوئی برا کرے۔ اس پر کوئی اگر راضی ہو سکتا ہے تو صرف وہ شخص جو کفر واسلام کے فرق کو محض نقطۂ نظر کا اختلاف قرار دیتا ہے اورمانتا ہے کہ اس پر اللہ کی رضا یا ناراضی موقوف نہیں ہے۔
کچھ خوش اندیش یہ بھی کہتے ہیں کہ دین کی بنیاد پرہم بھلا کسی سے نفرت یا محبت کیسے رکھ سکتے ہیں کیونکہ بہت ممکن ہے کہ وہ اندرونی طور سے ویسا نہ ہو جیسا کہ وہ باہر سے نظر آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کسی کو کافر کیسے مان لیا جائے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ درونِ خانہ مسلمان ہو۔ ان صاحب سے کہا جائے گا کہ دیکھیے محبت ہو یا نفرت،یہ ہمارے گھر کی چیز نہیں ہے،بلکہ شریعت نے ہمیں ان جذبوں کے استعمال کا حکم دیا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ شریعت کے احکام ظاہری حالت سے متعلق ہوتے ہیں۔اس لیے محبت یا نفرت کا یہ شرعی حکم جب کوئی شخص نافذ کرے گا تو جن پر بھی وہ نافذ کرے گا ان کے بارے میں کچھ اور ہونے کا امکان باقی رہے گا۔ ایسے میں گویا اس حکم کی عملی تطبیق انسان کے اجتہاد پر چھوڑدی گئی ہے جس میں انسان درست بھی ہو سکتا ہے اور غیرصحیح بھی۔تاہم اس کی نادرستی یا غلطی معاف ہوگی۔
اسی لیے امام ابن تیمیہؒ نے لکھا ہے: ’’نفرت ومحبت میں اور موالات ومعادات میں لوگ اپنی صواب دید سے اجتہاد کرتے ہیں،کبھی درست ثابت ہوتے ہیں اور کبھی غلطی کر جاتے ہیں۔‘‘ [ثم الناس فی الحب والبغض والموالاۃ والمعاداۃ ہم أیضا مجتہدون یصیبون تارۃ ویخطئون تارۃ](مجموع الفتاوی:۱۱/۱۵) امام لالکائیؒ کی روایت کے مطابق اس نکتے کی طرف امام محمدؒ بن حنفیہ نے کافی پہلے متوجہ کر دیا تھا۔ ان کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سے اس لیے نفرت کرتا ہے کیونکہ اس نے اس کے ہاتھوں کسی پر ظلم ہوتے دیکھا تھا،حالانکہ اللہ کے علم کے مطابق وہ شخص بہ باطن جنتی تھا،تب بھی اس سے نفرت کرنے والے کو اللہ اجر سے نوازے گا، یہ مان کر کہ گویا اس نے ایک دوزخی ظالم انسان سے نفرت کی تھی۔‘‘ [من أبغض رجلا علی جور ظہر منہ وہو فی علم اللہ من أہل الجنۃ أجرہ اللہ کما لو کان من أہل النار] (شرح اعتقاد اہل السنۃ، لالکائی،تحقیق:احمد سعد حمدان:۴/۶۹۰)
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کفارسب ایک درجے پر تھوڑے ہی ہیں،پھر کیسے انہیں قلبی نفرت میں یکساں مان لیا جائے؟ یہ بھی غلط بات ہے۔ اہلِ سنت والجماعت کے ائمہ میں سے کسی امام نے کبھی یہ فتویٰ نہیں دیا کہ دشمنی میں تمام کفار یکساں ہیں۔ کفر فی نفسہ متنوع الدرجات ہے ٹھیک ویسے ہی جیسے کہ ایمان کے مختلف مراتب ہیں۔اسی لیے جیسے بعض اہلِ خیر بندے ایمان میں امامت کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں،اسی طرح کچھ اہلِ شر بندے کفر میں بھی امامت کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ {وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ إِمَاماً}(فرقان،۷۴)’’اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا دے۔‘‘ {فَقَاتِلُواْ أَئِمَّۃَ الْکُفْرِ }(توبہ،۱۲)’’تو کفر کے اماموں سے جنگ کرو۔‘‘
چنانچہ اسی طرح اہلِ ایمان کے دین میں رسوخ اور تشرّع میں کمی بیشی کی وجہ سے ان ساتھ محبت میں بھی کمی بیشی ہو سکتی ہے اور اہلِ کفر کے الحاد وشرک میں تفاوت کی وجہ سے ان کے تئیں دینی نفرت وکراہت میں بھی تفاوت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ ممتحنہ میں اسی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔ یاد رہنا چاہیے کہ سورہ ممتحنہ خالصتاً غیر مسلموں کے ساتھ معاملہ کرنے کے آداب واحکام پرمشتمل ایک مدنی سورت ہے۔ اس میں ارشاد ہوا ہے:{َلا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ} (ممتحنہ، ۸) ’’اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اورتمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
دوسری بات یہ کہ عام مسلمانوں کی جانب سے غیر مسلم حضرات کے ساتھ تاریخ میں، یاہمارے زمانے میں جس طرح کے طریق ہائے تعامل برتے گئے ہیں، ضروری نہیں کہ انہیں اس سلسلے میں اسلامی منہج کا کامل نمائندہ وترجمان سمجھنا فی نفسہ درست ہی ہو۔ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ غیر مسلموں کے بارے میں مسلمانوں کے مختلف طبقوں کے نقطہ ہائے نظر اور دینی تصورات بڑے متفاوت ومتباین واقع ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ وہ ہیں جو غیر مسلموں میں کلّی اندماج اور کھلے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں جب کہ دوسری کچھ مسلم جماعتیں ایسی ہیں جو مکمل علاحدگی اور پہلو تہی پر زور دیتی ہیں۔ کچھ لوگ اس سلسلے میں انقباض وتنگی محسوس کرتے ہیں جبکہ کچھ اور لوگ غیر مسلموں سے تعلق بنانے میں یک گونہ انبساط وفرحت محسوس کرتے ہیں۔ مسلمانوں میں ایسی شدت پسند جماعتیں بھی پائی گئی ہیں جو حالتِ جنگ میں حربی کافر اور ذمی ومستامن کافر کے مابین فرق وامتیاز کی روادار نہ تھیں اور سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنے پر عمل پیرا تھیں۔ ان کے نزدیک دنیا بھر کے غیر مسلموں کے ساتھ ہمیں تشدد اورسخت گیری برتنے اور ہر معاملہ میں ان سے قطع تعلق کرنے کا حکم دیا گیا ہے، پھر چاہے وہ عام مالی وتجارتی معاملات ہی کیوں نہ ہوں۔
ایسے متشدد گروہ اس سلسلے میں بعض قرآنی آیتوں اور احادیث کو سیاق وسباق سے کاٹ کراپنا مستدل بناتے ہیں۔ مثلاً یہ آیتِ کریمہ:{مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ أَشِدَّاء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء بَیْْنَہُم} (فتح، ۲۹) ’’محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔‘‘ اور اللہ کے رسولﷺ کا یہ ارشاد کہ ’’یہود ونصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو، اگر تم ان میں سے کسی کو راستے میں پائو تو مجبور کردو کہ وہ راستے کے تنگ حصہ سے ہوکر گزرے۔‘‘ [لا تبدئو الیھودولا النصاریٰ بالسلام فإذا لقیتم أحدھم فی طریق فاضطروہ إلیٰ أضیقہ](صحیح مسلمؒ:۲۱۶۷) حالانکہ عمومی حالات وتعلقات کے ضمن میں اس طرح کی آیات واحادیث سے استدلال کرنا غلط ہے۔ مسلمانوں میں جس طبقہ کی رائے یہ ہے کہ مطلقاً سختی ودرشتی کے ساتھ غیر مسلموں کے ساتھ پیش آنا چاہیے، انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی یہ رائے دینِ اسلام کی رواداری وسماحت، عالمیت وجہاں گیری اور اخلاقی بلندی ورفعت سے میل نہیں کھاتی ہے، نیز یہ اللہ کے رسولﷺ اور صحابۂ کرامؓ کی سیرت وسنت کے معارض ومنافی بھی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ اور صحابۂ کرام نے غیر مسلموں یہود ونصاریٰ اور مشرکین کے ساتھ جس طرح کا معاملہ برتا ہے وہ سیرت وحدیث کی کتابوں میں محفوظ ہے اور اس کی روشنی میں اس طرح کی انتہاپسندانہ رائے کا خلافِ اسلام ہونا یقینی بن جاتا ہے۔ مگر اسی کے ساتھ یہ بھی ایک دینی حقیقت ہے کہ غیر مسلم کفار ومشرکین سے قلبی محبت رکھنا حرام ہے۔ ہر مسلمان کو شرک وکفر کی غلاظت سے نفرت ہونی چاہیے اور جو لوگ اس گندگی میں ملوث ہیں ان کے تئیں اُس کے اندر انشراح وانبساط کی کیفیت پیدا ہوجائے تو یہ اپنے آپ میں اس کے ایمانی جذبے پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
آج کل دعوتِ دین کے نام پر ایک نئی شریعت گھڑنے کا فیشن چل نکلا ہے۔ ایسے ہی کچھ حضرات یہ کہتے ہیں کہ کفار سے نفرت وعداوت کے حکمِ شرعی کو اگر بدل دیا جائے تو اسلام کی نشر واشاعت میں بڑی آسانیاں پیدا ہوجائیں گی اور بڑا دعوتی فائدہ ہوگا۔اس طرح کی بات کہنے والے نتیجہ اُلٹا بیان کرتے ہیں۔ کفار سے نفرت وکراہت پر مشتمل نصوص میں اگر تحریف وتلبیس کی جائے گی تو اس سے علمائے اسلام اور داعیانِ دین کی سیرت وکردار پر داغ لگے گا،لوگ کہیں گے کہ دیکھو یہ مسلمان جھوٹے اور دھوکے باز ہیں جو تحریکی اور دعوتی مصالح کی خاطر دین میں تحریف کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے،ان کا دین ان کے لیے بازیچۂ اطفال ہے،وغیرہ وغیرہ۔
ہر زمانے میں اسلام کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے کہ اس کو سچائی کے ساتھ پورا پورا پیش کر دیا جائے۔ یقینا اس کی گنجائش ہے کہ کوئی داعی یا عالم شرعی احکام کے نفاذ میں تدریج اور نرمی سے کام لے۔ مگر اس کی گنجائش بالکل نہیں ہے کہ وہ احکامِ شرعیہ میں تحریف شروع کر دے۔ کسی بھی موہوم یا متحقق مصلحت کی خاطر اللہ کے دین کو جاننے والا ایسی جسارت نہیں کر سکتا۔ شریعت کے تدریجی نفاذ وتعلیم میں اور شریعت کے دجل وتحریف میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
بعض غرض مند مفکرین اس سلسلے میں اللہ کے نبیﷺ کے بعض افعال کا سہارا لیتے ہیں اور خلیفہ عمرؒ بن عبدالعزیز کے سیاسی فیصلوں سے استدلال کرتے ہیں تاکہ اس طرح تدریج کو تحریف بنا ڈالیں۔ اس طرح کے مفکرین اصلاً خلطِ مبحث کا شکار ہیں۔ انہیں خود نہیں پتہ کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ چلیے کچھ دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ ہم نے ولاء وبراء کے شرعی احکام کا میک اپ کرکے انہیں نئے زمانے کے لیے قابلِ قبول بنا دیا اور کفار سے نفرت کا درس دینے والی شرعی نصوص میں تحریف کر ڈالی۔ مگر ہم ان قرآنی آیتوں کا کیا کریں گے:{ أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُونَ أَوْ یَعْقِلُونَ إِنْ ہُمْ إِلَّا کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ سَبِیْلاً}(فرقان،۴۴)’’کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں،یہ تو جانوروں کی طرح ہیں،بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔‘‘{وَأَنَّ اللّہَ مُخْزِیْ الْکَافِرِیْن}(توبہ،۲)’’اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔‘‘ {إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ}(توبہ،۲۸)’’بے شک مشرکین ناپاک ہیں۔‘‘
{وَیُرِیْدُ اللّہُ أَن یُحِقَّ الحَقَّ بِکَلِمَاتِہِ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِیْن} (انفال، ۷)’’مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔‘‘ { أَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ أَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ}(مائدہ،۵۴)’’جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے۔‘‘{ فَإِنْ عَلِمْتُمُوہُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوہُنَّ إِلَی الْکُفَّارِ لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلُّونَ لَہُنَّ}(ممتحنہ،۱۰)’’پھر جب تمہیں معلوم ہوجائے کہ وہ عورتیں مومن ہیں تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ کرو۔ نہ وہ کفار کے لیے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لیے حلال۔‘‘{وَالَّذِیْنَ کَفَرُوا یَتَمَتَّعُونَ وَیَأْکُلُونَ کَمَا تَأْکُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًی لَّہُمْ}(محمد،۱۲)’’اور کفر کرنے والے بس دنیا کی چند روزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں، جانوروں کی طرح کھاپی رہے ہیں اور ان کا آخری ٹھکانا جہنم ہے۔‘‘ {مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرَاۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَاراً بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوا بِآیَاتِ اللَّہِ وَاللَّہُ لَا یَہْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ}(جمعہ،۵)’’جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا۔ ان کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ اس سے بھی زیادہ بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے۔ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔‘‘ {إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللّہِ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ فَہُمْ لاَ یُؤْمِنُون}(انفال،۵۵)’’یقینا اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والے جانوروں میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا،پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔‘‘{فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ الْکَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَیْْہِ یَلْہَثْ أَوْ تَتْرُکْہُ یَلْہَث ذَّلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا}(اعراف،۱۷۶)’’لہٰذا اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔ یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں۔‘‘
یہ اور اس طرح کی درجنوں آیات کا ہم کیا کریں گے؟کیا ہم اسلام کی دعوت وتبلیغ کے نام پر انہیں غائب کر دیں یا ان میں بھی تحریف کا ارتکاب کریں؟غالب مغربی تہذیب وثقافت کے اسیر ہمارے مفکرین کے حلقے میں بہت سارے دینی موضوعات کے ساتھ کھلواڑ ہوتا ہے،مگر آخری چیز جس میں وہ تحریف کرنا چاہتے ہیں وہ یہی قرآن کا کافروں کے تئیں کڑا موقف ہے۔ قرآنِ کریم نے کفار کو عقلِ انسانی جس رذالت،اہانت،حقارت اور انحطاط کا تصور کر سکتی ہے، اس کے آخری درجے پر رکھا ہے اور کفر وشرک کی غلاظت اور اس میں ملوث انسانوں کی نجاست کے بارے میں قرآن نے جو تعبیریں اختیار کی ہیں وہ اپنے آپ میں کافی معنی خیز اور نقشہ کھینچ دینے والی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان تمام قرآنی آیات کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا جائے گا؟
یہ ہمارے جدید مفکرین جو اسلامی عقیدے کو مغربی سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں اور ولاء وبراء کے شرعی تصور کو لبرل فلسفے کے تابع بنانا چاہتے ہیں،ان کی باتوں کا حتمی نتیجہ کیا نکلے گا؟ یہ کہ ایمان والے اپنے سب سے مضبوط ایمانی سہارے سے محروم ہوجائیں۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’ایمان کی رسی کی سب سے مضبوط گانٹھ یہ ہے کہ اللہ کی خاطر محبت رکھی جائے اور اسی کی خاطر بغض رکھا جائے۔‘‘ [إن أوثق عری الإیمان أن تحب فی اللہ وتبغض فی اللہ] (مسند احمدؒ:۴/۲۸۶/۱۸۵۲۴ عن براء بن عازب)
ہمارے ان لبرل مفکرین نے ولاء وبراء کے مسئلے میں جس کارکردگی اور سرگرمی کا مظاہرہ کیا ہے یہ نہایت واضح نمونہ اور شاہ کار اس بات کا ہے کہ یہ لوگ متشابہ کو محکم پر ترجیح دیتے ہیں۔ استثنائی صورتوں کو اصولی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اصولوں کو استثناء بنانا چاہتے ہیں۔اللہ نے اصولی طور پر کفار سے بغض رکھنے کا حکم دیا اور استثنائی طور پر نکاحِ کتابیہ کی اجازت دی،مگر ان مجتہدین نے یہ کیا کہ استثناء کو لے لیا اور اصل کو منہدم کردیا۔ یہ کام خواہشاتِ نفس کے غلاموں کے علاوہ بھی کوئی کر سکتا ہے؟
اللہ کے واسطے اسلام کو اپنی فکری خدمات سے معاف رکھو، اس کے حصے بخرے کرنے اور اس کی صورت مسخ کرنے سے باز آجائو،صرف اس لیے کہ اپنے ہی جیسوں کی کسی مجلس میں تمہاری نادر تحقیقات سے کچھ ہونٹوں پر بناوٹی مسکان کھیل جائے۔ دوسروں کو دھوکا دینے سے پہلے خود اپنی فریب خوردگی سے انسان کو بچنا چاہیے۔
والسلام علی من اتبع الھدی
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین