(ایمانیات سیریز:5)
توحیدِ الوہیت
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
عقیدۂ توحید دین کی اصل ہے۔ توحیدِ باری تعالیٰ کی تین بڑی شکلیں یا قسمیں ہیں اور تینوں مطلوب ہیں۔
۱- توحیدِ ربوبیت
۲-توحیدِ الوہیت
۳-توحیدِ اسماء وصفات
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی الوہیت پرایمان رکھنے کا مطلب ہے سچے دل سے یہ تصدیق کرنا کہ اللہ تعالیٰ ہی تنہا ہماری جملہ ظاہری وباطنی عبادتوں کا مستحق اور مرکز ہے۔ گویا ہر نوع کی عبادت اسی کے لیے انجام دی جائے گی۔ مثال کے طور پر اسی سے دعا مانگی جائے، اسی سے خوف کھایا جائے، اسی پر بھروسہ کیا جائے، اسی سے مدد طلب کی جائے، اسی کی خاطر نماز پڑھی جائے، زکوٰۃ دی جائے اور روزہ رکھا جائے۔ حقیقی معبود اس کے سوا کوئی نہیں ہے:
{وَإِلَـہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ لاَّ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیْمُ}(بقرہ،۱۶۳)’’تمہارا معبود ایک ہی ہے، اس رحمن ورحیم کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے خود ہی بتادیا ہے کہ سچا معبود صرف وہی ہے، اس کے سوا کسی کو معبود نہ بنایا جائے اور کسی بھی انداز میں کسی اور کی پرستش نہ کی جائے۔
اللہ کی الوہیت پر ایمان لانا اللہ پر ایمان کی سب سے اہم کڑی ہے۔کئی پہلوئوں سے اس کی اہمیت مترشح ہے۔ مثلاً یہ کہ جن وانس کی تخلیق کا مقصد یہی ہے۔ انھیں صرف اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے:
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُون} (ذاریات،۵۶) ’’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدانہیں کیا کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘
اللہ کے پیغمبروں کی بعثت اور آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ نوعِ انسانی اپنے معبودِ حقیقی کو پہچان لے اور اسی کی عبادت کرے اور اس کے ماسوا ہر شے کی پرستش اور بندگی سے بچ جائے:
{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّہَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ} (نحل،۳۶)’’ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔‘‘
ہر عاقل وبالغ انسان کی یہ پہلی ذمے داری ہے جیسا کہ حضرت معاذؓ بن جبل کو یمن بھیجتے ہوئے اللہ کے آخری نبیﷺ نے وصیت فرمائی تھی اور اس حقیقت کو واضح کیا تھا۔ آپ ﷺ نے ان سے کہا تھا:’’تم ایسے لوگوں کے پاس جارہے ہو جو کتابی رہ چکے ہیں،تم سب سے پہلے انھیں یہ دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے۔‘‘[إنک تأتی قوما من أہل الکتاب فلیکن أول ما تدعوہم إلیہ شہادۃ أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ] (صحیح بخاریؒ:۱۳۸۹۔ صحیح مسلمؒ:۱۹) یعنی ہر انسان کو سب سے پہلے جس چیز کی دعوت دی جائے گی وہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں عبادت کی ہر شکل کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص کر دے۔
پھر اس لحاظ سے بھی غور کریں کہ ہم کلمۂ طیبہ پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں۔ ’لاإلٰہ إلا اللہ‘ کا مطلب یہی تو ہے کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔ اس کلمے کے اعتراف واقرار کا تقاضا ہے کہ پرستش کی تمام شکلوں کو صرف باری تعالیٰ کے لیے مخصوص مان لیا جائے۔جب ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ رب العزت ہی اس کائنات کا خالق ومالک اور اس میں تصرف واختیار رکھنے والا ہے، تو اس ایمان کا لازمی تقاضا اور نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ اسی کے آگے سر جھکائیں اور اسی کی عبادت بجالائیں۔{إِنَّمَا إِلَہُکُمُ اللَّہُ الَّذِیْ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ وَسِعَ کُلَّ شَیْْء ٍ عِلْما}(طہ،۹۸) ’’لوگو، تمہارا معبود تو بس ایک ہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے، ہر چیز پر اس کا علم حاوی ہے۔‘‘
ایک جگہ بندگی کی حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ارشادِ باری ہے:
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ٭مَا أُرِیْدُ مِنْہُم مِّن رِّزْقٍ وَمَا أُرِیْدُ أَن یُطْعِمُونِ٭إِنَّ اللَّہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ} (ذاریات، ۵۶-۵۸)’’میں نے جنوں اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں، میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ اللہ تو خود ہی رزاق ہے، بڑی قوت والااو ر زبردست۔‘‘
بندگی انسانی تخلیق کی غایت ہے۔ بندگی یا عبادت کا مطلب ہے پوری محبت، تعظیم اور سپراندازی سے بلا شرط وقیداللہ کی اطاعت کرنا۔ یہ بندوں پر اللہ کا حق ہے۔ عبادت صرف اس کے لیے خاص ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے۔
عبادت کے دائرے میں وہ تمام اقوال وافعال آتے ہیں جنھیں اللہ پسند کرتا ہے اور جن سے راضی ہوتا ہے اور جن کا اس نے انسانوں کو حکم دیا ہے، چاہے ان کا تعلق ظاہری اعمال سے ہو جیسے نماز، حج اور زکوٰۃ وغیرہ، یا باطنی اعمال سے ہو جیسے دل میں اللہ کا ذکر کرنا، اس سے ڈرنا، اس پر توکل کرنا، اس سے مدد مانگنا وغیرہ۔
یہ بندوں پر اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے عبادت کی متعدد قسمیں بیان فرمادی ہیں۔ بعض عبادتوں کا تعلق دل سے ہے۔ اس زمرے میں اللہ سے محبت رکھنا، اس سے خوف کھانا، اس پر اعتماد کرنا وغیرہ شامل ہے۔ قلبی عبادتوں کا مقام زمرۂ عبادات میں سب سے اونچا اور افضل ہے۔
دوسری کچھ عبادتوں کا تعلق خارجی اعضاء وجوارح سے ہے۔ان میں کچھ زبان کے ساتھ مخصوص ہوتی ہیں جیسے ذکرِ جہری، تلاوتِ قرآن، خوش گفتاری وغیرہ، اور کچھ باقی اعضاء وجوارح سے متعلق ہوتی ہیں جیسے وضو کرنا، روزہ رکھنا، نماز پڑھنا، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا وغیرہ۔
عبادتوں کی تیسری قسم کا تعلق مالی انفاق سے ہے۔ اس میں زکوٰۃ، صدقہ اور نیکی کے راستوں میں خرچ کرنا آتا ہے۔ یہ عبادتوں کی تین بڑی قسمیں یا زمرہ بندیاں ہیں۔
کچھ عبادتیں وہ بھی ہیں جن کا کچھ نہ کچھ تعلق ان تینوں قسموں سے ہوتاہے جیسے حج اور عمرہ۔
جس طرح عبادتوں میں تنوع ہے، اسی طرح انسانی میلانات اور صلاحیتوں میں بھی تنوع ہے۔ کچھ لوگ کسی مخصوص عبادت میں لذت اور سکون پاتے ہیں اور کچھ لوگ کسی دوسری عبادت کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔کسی کو لوگوں کی مدد کرنا اور تنگ دستوں کی امداد وراحت رسانی پسند ہوتی ہے اور کسی کو نفل روزوں کی پابندی میں مزہ آتا ہے اور کسی کا دل قرآن کے فہم ومطالعے اور حفظ وتلاوت میں لگا رہتا ہے۔ شریعت نے اس انسانی جبلت کا پاس ولحاظ کیا ہے۔ اللہ کے نبیﷺ کا ارشاد ہے: ’’جو نماز والوں میں ہوگا تو اسے ’باب الصلوٰۃ‘ سے جنت میں داخلے کے لیے پکارا جائے گا، اور جو مجاہدین میں سے ہوگا اسے ’باب الجہاد‘ کی طرف بلایا جائے گا، اور جو اہلِ صدقہ میں شامل ہوگا اسے ’باب الصدقہ‘ سے داخلے کی اجازت ہوگی اور جو روزے داروں میں ہوگا اسے ’باب الریان‘ سے بلایا جائے گا۔” حضرت ابوبکرؓ نے یہ سن کر فرمایا: ’’اے اللہ کے رسول ﷺ، کیا کوئی خوش نصیب بندہ ایسا بھی ہوگا جسے ان تمام دروازوں سے پکارا جائے؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں، اور امید ہے کہ تم ان میں شامل ہوگے۔‘‘[فمن کان من أہل الصلاۃ دعی من باب الصلاۃ ومن کان من أہل الجہاد دیع من باب الجہاد ومن کان من أہل الصدقۃ دعی من باب الصدقۃ ومن کان من أہل الصیام دعی من باب الریان قال ابو بکر یا رسول اللّٰہ ہل یدعیٰ أحد من تلک الأبواب کلہا قال رسول اللّٰہ نعم وأرجو أن تکون منہم](صحیح بخاریؒ:۱۷۹۸۔ صحیح مسلمؒ: ۱۰۲۷)
بندۂ مومن کی ہر کارگزاری اور سرگرمی پرعبادت کی چھاپ نمایاں ہوتی ہے۔ وہ مباح کاموں میں اللہ کے تقرب کی نیت کر لیتا ہے تو یہ بھی عبادت ہے۔ اسلام میں عبادت کا مفہوم بے حد وسیع ہے۔یہ صرف معروف شعائرِ دین جیسے روزہ اور نماز وغیرہ تک محدود نہیں، بلکہ جملہ مفید کام اگر نیک نیت اور صحیح ارادے سے انجام دیے جائیں تو وہ باعثِ اجر وثواب کار ہائے عبادت بن جاتے ہیں۔
اگر مسلمان کھانا کھاتا ہے، پانی پیتا ہے، سوتا ہے اور نیت یہ ہوتی کہ اس سے حاصل ہونے والی قوت اور توانائی کو اللہ کی اطاعت میں خرچ کرے گا تو یہ کھانا، پینا اور سونا بھی عبادت ہے جس پر وہ بارگاہِ ایزدی میں اجر وثواب کا مستحق ہوگا۔اس لیے مسلمان کی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی بندگی اور غلامی میں بسر ہوتی ہے۔ وہ کھاتا ہے تو اس لیے تاکہ اللہ کی اطاعت کے لیے توانائی حاصل کرے اور اس نیت کی وجہ سے اس کی خوردونوش کا عمل عبادت بن جاتا ہے۔ وہ شادی کرتا ہے تاکہ اخلاقی برائیوں اور خرابیوں سے خود کو دور رکھ سکے، چنانچہ اس کا نکاح بھی اس کے حق میں عبادت ہوجاتا ہے۔اسی طرح نیک نیتی کی وجہ سے اس کا تجارت کرنا، نوکری کرنا، روزی کمانا بھی عبادت بن جاتا ہے۔ اس کا تعلیم حاصل کرنا، ڈگری لینا، بحث وتحقیق کرنا، ایجاد واختراع کرنا بھی عبادت ہوجاتا ہے۔ خاتون اپنے شوہر کا خیال رکھتی ہے، اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہے اور اپنا گھر سنوارتی ہے تو یہ بھی عبادت ہے۔ اسی طرح زندگی کے دوسرے میدانوں میں مفید کام اور معاملے سب کے سب نیک نیت اور اچھے ارادے کی وجہ سے عبادت بن جاتے ہیں۔
اوپر سورۂ ذاریات کی آیت ہم پڑھ چکے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنات اور انسانوں کو پیدا کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ ہماری عبادت کا محتاج اور ضرورت مند ہے۔ ایسا ہرگزنہیں ہے۔ وہ تو غنی اور بے نیاز ہے۔ دراصل ہم ہی اس کی بندگی کے محتاج ہیں اور اس کے رحم وکرم کے خواست گار ہیں۔
اگر انسان اپنے مقصدِ تخلیق سے غافل ہوکر زندگی گزارے، دنیا کی لذتوں اور دل فریبیوں میں الجھا رہے اور اپنی غایتِ تخلیق کو نظرانداز کردے تو اس میں اور اس کرۂ خاکی میں پائے جانے والے دیگر جانداروں میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا ہے۔
حیوانات بھی تو آخر کھاتے پیتے ہیں اور مگن رہتے ہیں، اگرانسان بھی انہی چیزوں کو اپنی زندگی کا مقصد بناکر جیا تو اس میں اور ان جانوروں میں فرق کیا رہا؟اگرچہ ہم کہیں گے کہ جانور پھر بھی اس سے بہتر ہوئے کیونکہ ان سے بہرحال آخرت میں بازپرس نہیں ہوگی۔ جب کہ انسان سے اس کا رب اس زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب لے گا:{وَالَّذِیْنَ کَفَرُوا یَتَمَتَّعُونَ وَیَأْکُلُونَ کَمَا تَأْکُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًی لَّہُمْ} (محمد،۱۲)’’اور کفر کرنے والے بس دنیا کی چند روزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں، جانوروں کی طرح کھاپی رہے ہیں اور ان کا آخری ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘
اپنے معبود سے غافل ہوکر زندگی گزارنے والے لوگ اپنے کاموں اور مقصدوں میں جانوروں کے مشابہہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی غفلت شعاری کا مزہ آخرت میں چکھیں گے۔ ان میں اور جانوروں میں دانش وبینش کا فرق ہے۔ یہ لوگ قوتِ فہم وادراک رکھتے ہیں،جب کہ ان کے برعکس عام حیوانات یہ صلاحیت اورخاصیت نہیں رکھتے۔ جانور جو کچھ کرتے ہیں اپنی جبلت کے تقاضوں کے تحت اور ایک قسم کی اضطراری کیفیت میں کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس شیوۂ عبادت کا حکم دیا ہے اس کے تین بنیادی ستون ہیں جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ بہت اہم ہے اور دوسرے دو ستونوں کی تکمیل کرتا ہے۔عبادت کا پہلا رکن یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے غایت درجہ محبت رکھی جائے۔
دوسرا رکن یہ ہے کہ تنہا اسی سے ڈرا جائے اور اس کے مقابلے میں انتہاء درجے کی عاجزی وانکساری کا ثبوت دیا جائے۔
تیسرا رکن یہ ہے کہ اس سے آخری حد تک امید باندھی جائے اور حسنِ ظن رکھا جائے۔
گویا اللہ تعالیٰ نے جو عبادت اپنے بندوں پر فرض کی ہے اس میں کمال درجہ عجز ونیاز، خشوع وخضوع اور پاس ولحاظ ہونا چاہیے، اور اسی معیار پر اللہ سے محبت اور اس سے نیک امید بھی رکھی جائے۔
لہٰذا اللہ سے ایسی محبت رکھناجس کی وجہ سے اس کی سزا، ناراضی اور انتقام کا ڈر ختم ہوجائے یا اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو بے مایہ اور ذلیل نہ سمجھا جائے، ایسی محبت ہرگز وہ عبادت نہیں ہے جو اللہ کو ہم سے مطلوب ومقصودہے۔مثلاً انسان اچھا کھانا پسند کرتا ہے،مگر وہ اس سے ڈرتا نہیں ہے۔ چنانچہ ایسی محبت عبادت نہیں ہے۔
اسی طرح اگر صرف خوفِ الٰہی طاری رہے، اس کے ساتھ محبتِ الٰہی نہ ہو، جیسے انسان کسی خوں خوار درندے یا ظالم وجابر حکمراں سے ڈرتا ہے،تو اللہ سے اس نوعیت کا خوف بھی عبادت شمار نہیں ہوگا۔
جب خوف، محبت اور پُر امیدی کے جذبات کسی عمل میں یکجا ہوجائیں تو وہ عبادت بن جاتا ہے اور عبادت صرف اللہ وحدہ لاشریک کے لیے روا ہے۔
جب مسلمان نماز پڑھتا ہے، یا روزہ رکھتا ہے اور اس کا محرک اللہ کی محبت، اس کے ثواب کی امید اور اس کی سزا کا خوف ہوتاہے تو یہی وہ عبادت ہے جو اللہ کے یہاں مقبول اورمحبوب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے:{ إِنَّہُمْ کَانُوا یُسَارِعُونَ فِیْ الْخَیْْرَاتِ وَیَدْعُونَنَا رَغَباً وَرَہَباً وَکَانُوا لَنَا خَاشِعِیْنَ}(انبیائ،۹۰)’’یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے اور ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے۔‘‘
عبادتوں کو دو بڑے خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
[۱]خالص عبادات۔یہ وہ عبادتیں ہیں جن کا حکم اللہ اور اس کے رسولؐ نے دیا ہے اور انھیں مخصوص شرعی طریقوں سے ادا کیا جاتا ہے۔ یہ وہ اعمال ہیں جو عبادت ہی ہوسکتے ہیں، کچھ اور نہیں،جیسے نماز، روزہ، حج، دعا، طواف وغیرہ۔ اللہ کے علاوہ کسی کے لیے یہ کام انجام دینا جائز نہیں۔
شریعت کی نگاہ میں ان کے صحیح ہونے اور اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہونے کی دو شرطیں ہیں۔ نمبر ایک انھیں انجام دینے والا خالصتاً اللہ کے لیے انجام دے۔ نمبر دو انھیں اللہ کے نبیﷺ کی سنت اور شریعت کے مطابق انجام دیا جائے:{فَمَن کَانَ یَرْجُو لِقَاء رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہِ أَحَداً}(کہف،۱۱۰)’’تو جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امید وار ہو،اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص بھی اللہ اور دارِ آخرت کا طالب ہو، اسے آیت میں مذکور دونوں شرطوں کی پابندی کرتے ہوئے اللہ کی عبادت کرنی چاہیے۔ ان میں پہلی شرط یہ ہے کہ کسی کو شریک نہ کرے،یعنی جو عبادت بھی کرے وہ صرف اللہ کی رضاجوئی کے لیے ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ عمل فی نفسہ نیک ہو،اورکسی عمل کے صالح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کی کتاب اورنبیﷺ کی سنت کے مطابق ہو۔ اسی کا نام شریعت کی موافقت ہے۔
[۲]اخلاقِ فاضلہ۔ یہ وہ کام ہیں جن کا اللہ نے حکم دیا ہے اور لوگوں کو ان کی تعمیل پر ابھارا ہے۔ مثال کے طور پر والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا، عام لوگوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آنا، مظلوموں کی مدد کرنا وغیرہ۔ یہ سب ایسے کام ہیں جنھیں اچھے اخلاق اور فضائل وآداب سمجھا جاتا ہے اور عمومی انداز میں اللہ تعالیٰ نے انھیں کرنے کا حکم دیا ہے اور اگر کوئی مسلمان ان سے جی چراتا ہے تو وہ گناہ گار ہے۔
البتہ عبادت کی اس قسم میں یہ شرط لازم نہیں کہ یہ نبیﷺ کی سنت اور سیرت کے عین مطابق ہی ہو۔ یہاں بس اتنا کافی ہے کہ ان کاموں کو انجام دیتے ہوئے اصولی طور پر شریعت کی مخالفت نہ کی جائے اور کسی حرام کام کا ارتکاب نہ کیا جائے۔
ان کاموں کو کرنے والا اگر اچھی نیت رکھے اور اللہ سے قربت کومقصد بنائے تو وہ اجر وثواب کا مستحق ہے۔ اگر وہ ان کاموں کو کرے،مگر نیت خوشنودیِ رب کی نہ ہو تو وہ اجر کا مستحق نہیں ہوگا، البتہ گناہ گار بھی نہ ہوگا۔ اسی زمرے میں روزمرہ کے معمولات وافعال آجاتے ہیں جیسے سونا،جاگنا، تجارت کرنا، ورزش کرنا وغیرہ۔حتی کہ اہلِ خانہ کے ساتھ ہنسی دل لگی اور چھوٹے بچوں کے ساتھ کھیل اور تفریح بھی نیکی اور کارِ خیر بن جاتی ہے۔
بہرحال ہر مفید عمل اگر اللہ کی خوشنودی کے لیے انجام دیا جائے تو اسے انجام دینے والا اجر کا مستحق ہوتاہے:{ إِنَّا لَا نُضِیْعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلاًً} (کہف:۳۰)
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین