پہلے تولو پھر بولو

پہلے تولو پھر بولو

(مولانا صابر حسین ندوی) 

معاشرے میں روز مرہ کی ٹیشن، فکر اور رنج کا ایک بڑا سبب بے قابو زبان ہے، نہ جانے کتنے ایسے لوگ ہیں جو ہر وقت، ہر کہیں اور کبھی بھی کچھ بھی کہہ جاتے ہیں، اچھے پڑھے لکھے، سمجھدار سمجھے جانے والے، انٹلیکچول لوگوں کی زبان پھسلتی ہی رہتی ہے، وہ غصے، مزاح اور جذبات میں ایسا کچھ بول جاتے ہیں؛ جس سے سینہ زخمی ہوجاتا ہے، دل تار تار ہوجاتا ہے، بند زخم بھی کھل جاتے ہیں اور کھلے زخم. پر نمک پاشی کا کام کرتے ہیں، جس کے بعد انسان فکر و خموشی کی دنیا میں چلا جاتا ہے، مزاج کھٹا ہوجاتا ہے، تعلقات استوار نہیں رہتے اور اگر بات بڑھ جائے تو معاملہ سنگینی صورتحال اختیار کر جاتا ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر انسان گنہگار، مشاکل اور مصائب کا مارا ہوا ہے، ذہنی تکالیف، دشواریاں اور دقتیں سبھوں کے ساتھ لگی ہوئی ہیں، یومیہ محنت، ضرورت اور حاجت سر چڑھ کر بولتے ہیں؛ تو انسان کچھ بھی بول جاتا ہے، مگر کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلی بات پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتی۔

انسان اگرچہ کہنے کو کہہ جاتا ہے؛ لیکن ایسا داغ چھوڑ جاتا ہے جو کبھی نہیں بھرتا، بہت سے سمجھدار، اہل دانش معافی مانگ کر اس پر مرہم لگانے کی کوشش کرتے ہیں، بلاشبہ معافی مانگنا عظیم بات ہے، یہ جگر گردے کا کام ہے؛ اور پھر معاف کرنا بھی من عزم الأمور ہے، دل کو چوٹ پہنچانے والے کو دل میں بسانا کوئی کھیل تماشا نہیں یا اسے یادوں میں رکھنا بھی عام بات نہیں، مگر کہیں نہ کہیں وہ زخم ہرا رہتا ہے، سینے میں خلش اور دل میں ایک چبھن باقی رہتی ہے، شیشے ٹوٹ گئے ہوں، پیالہ توڑ دیا گیا ہو، تو دنیا نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ انہیں جوڑا جاسکتا ہے، ہوسکتا ہے کہ ایسا کردیا جائے کہ دوبارہ اس کی شکستہ حالت کا اندازہ بھی نہ ہو؛ مگر اس زخم کو سلنے اور برابر سرابر کرنے والی کوئی مشین، کوئی ترقی یافتہ چیز نہیں بنی ہے، اس دور میں بھی زبان کا زخم کھلا ہی رہتا ہے، اور وقت بہ وقت تکالیف سے دوچار کرتا ہے؛ تاہم ایک طرف جہاں اس پر ضبط اور قابو پانے کی ضرورت ہے تو وہیں معاشرے کی بہتری اور سکون و طمانیت کیلئے معاف کرنا، درگذر کرنا اور ایک دوسرے کو برداشت کرنا بھی ضروری ہے۔

مولانا وحیدالدین خان مرحوم نے  بولنے پر کنٹرول  کے عنوان سے ایک حکیمانہ تحریر لکھی ہے، مناسب ہے کہ اسے پڑھ لیا جائے اور عملی زندگی میں برتا جائے۔ نیز مولانا کی یہ تحریر پڑھ کر آپ کو اس بات کا بھی اندازہ ہوگا کہ مرحوم فکر کی باریکی، علم. کے سمندر سے موتی اور سیپ نکال لینے، اور انہیں معاشرتی زندگی بہتر سے بہتر بنانے کیلئے سٹیک طور اخذ کردہ نتیجہ رکھ دینے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ انسان کے ہاتھ ایک قیمتی وسیلہ لگتا ہے جو اس کی بے چین طبیعت اور الجھنوں کو سلجھاتا جاتا ہے، بلاشبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے علاوہ کسی کی بھی رائے سے صد فیصد موافقت نہیں کی جاسکتی، مگر حکمت و دانائی مومن کا گمشدہ مال ہے، جہاں کہیں بھی وہی اس کا حق دار ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے مولانا کی تحریر پڑھئے:

“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسراء کے سفر میں جزا و سزا کے معاملے کو تمثیل کے روپ میں دکهایا گیا- ان میں سے ایک تمثیلی واقعہ یہ تها : یعنی معراج کے دوران رسول اللہ ایک عظیم الجثہ بیل کے پاس سے گزرے- آپ نے دیکها کہ وه ایک چهوٹے سوراخ سے نکلتا ہے، پهر وه چاہتا ہے کہ وه واپس جائے، مگر وه واپس نہیں جا سکتا- ( رواه الطبرانی والبزار،بحوالہ فتح الباری،جلد: ٧،صفحہ:٦٣،باب حدیث الاسراء( آپ کو بتایا گیا کہ یہ اس انسان کی مثال ہے جو ایک بات کہتا ہے، پهر اس پر شرمنده هوتا ہے۔ وه چاہتا ہے کہ وه اپنی بات کو واپس لے لے، مگر وه اس کو واپس لینے پر قادر نہیں ہوتا یہ اس انسان کی مثال ہے جو غیر ذمہ دارانہ طور پر کسی کے خلاف ایک منفی بات کہہ دیتا ہے، پهر وه دیکهتا ہے کہ اس کی منفی بات سے ایک بڑا فتنہ پیدا هو گیا ہے،اب وه چاہتا ہے کہ وه اپنی بات کو واپس لے، مگر وه اس پر قادر نہیں هوتا- اس کی منفی بات ایک فتنے کو جگا دیتی ہے- وه ایک ایسے فتنے کا باعث بن جاتی ہے جس کو کہنے والے نے کبهی سوچا بهی نہ تها- اس حدیث کا مدعا یہ ہے کہ آدمی کو بولنے کے معاملے میں بہت زیاده محتاط رہنا چاہئے- اگر آدمی کوئی مثبت بات بولے تو اس میں کسی فتنے کا اندیشہ نہیں ہے؛ لیکن منفی بات کا معاملہ اس سے مختلف ہے- منفی بات ہمیشہ بہت تیزی سے پهیلتی ہے اور پهیلنے کے وقت اس میں مزید اضافہ هوتا رہتا ہے- ابتدا میں وه بظاہر ایک چهوٹی بات معلوم هوتی ہے؛ لیکن لوگوں کے درمیان پهیلنے کے بعد وه نہایت سنگین صورت حال اختیار کر لیتی ہے، یہاں تک کہ آخر کار اس کے نتیجہ میں نفرت اور تشدد کا جنگل اگ آتا ہے- ایسی حالت میں آدمی کے اوپر فرض ہے کہ وه نتیجہ سے پہلے سوچے، وه بولنے سے پہلے اس کے نتیجے پر غور کرے.” (الرسالہ، دسمبر 2010) 

والسلام

اپنی راۓ یہاں لکھیں