You are currently viewing اس سال یوم جمہوریہ کا جشن مختلف تھا۔

اس سال یوم جمہوریہ کا جشن مختلف تھا۔

اس سال یوم جمہوریہ کا جشن مختلف تھا۔ 

صابر حسین ندوی

اس دفعہ یوم جمہوریہ کا جشن بہت مختلف تھا۔ ماہرین و دانشوروں نے اسے الگ الگ نظریے سے دیکھا ہے۔ لیکن جو بھی دیکھا اور پایا ہے اس میں زعفرانی سوچ اور جمہوری نظام کی بیخ کنی لگتی ہے۔ جس جمہوریت کو عوام کی فتح اور قانون کی بالاتری کا جشن بنانا چاہیے تھا، جس کو لوگوں کے درمیان ملک سے محبت اور دستور سے لگاؤ کا دن قرار دینا چاہیے تھا، جس کو انصافا و مساوات کا زیور ماننا چاہیے تھا، اسے فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ بہار میں ریولے بھرتی کے متعلق کالج و یونیورسٹیز کے طلباء کا احتجاج اور پھر ان کے ساتھ پولس کی بدسلوکی نے اس جمہوریت اور جشن کو داغدار کیا۔ معصوم بچوں کی چیخیں سنی جا سکتی ہیں، ان کی لجاجت، منت و سماجت اور قانون کے رکھ والوں کی غنڈہ گردی دیکھی جاسکتی ہے۔ قانون اور امن کے نام پر برستے ڈنڈوں اور بے گناہوں کی بے بسی کا درد دیکھا جاسکتا ہے۔ بے روزگاری اور عوام کی بے کسی کا شاہد یہ یوم جمہوریہ کچھ انوکھا ثابت ہوا۔

دنیا نے دیکھا کہ کس طرح جمہوریت کے نام پر تاناشی، نازی ازم اور فاشزم کا بول بالا کیا جارہا ہے۔ پورے ملک میں صرف ایک پارٹی اور فکر کو کس طرح تھوپنے اور ان کے خلاف جانے والوں کو لاٹھیوں سے سیدھا کیا جارہا ہے۔ صرف یہی نہیں، ملک میں سرکاری سطح پر منائے گئے جشن میں محبت و اتحاد اور قانون کی بالادستی نظر نہیں آئی۔ ایسا لگا کہ جشن کے نام پر کوئی تماشا ہورہا ہے۔ میڈیا نے جس طرح کوریج دی اور لال قلعہ کی پریڈ کو جس طرح دکھایا وہ مضحکہ خیز تھا۔ بعض اینکروں نے صرف فوجی رنگ اور ڈھنگ پر بات کرتے ہوئے گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ اصل مباحث سے دور رکھا، انہوں نے کئی بدلاؤ اور سالہا سال سے چلی آرہی روایات کا تذکرہ نہیں کیا۔ سرکار پر سوالات نہیں اٹھائے، پچھلے 73سالوں سے جو چیزیں جشن کا حصہ تھیں انہیں کس طرح نکال باہر کیا گیا اور ایک الگ طریقے پر جمہوریت  کا جشن منایا گیا۔ اس پر کوئی بحث نہیں ہوئی، اپوزیشن لیڈران نے بھی خموشی برتی، شاذ و نادر آوازیں گم ہوگئیں اور جمہوریت کا جشن ایک خاص رنگ میں بدل گیا۔
سبھی جانتے ہیں کہ راشٹر بھون سے جھانکیاں نکلتی ہیں اور پھر لال قلعہ پہنچتی ہیں۔ اس دوران سفر میں عوام دو رویہ کھڑے ہو کر الگ الگ جھانکیاں اور تہذیب و ثقافت کا لطف لیتے ہیں۔ مگر اس دفعہ اسے صرف ڈیڑھ / دو کلومیٹر کے داروانیہ تک ہی رکھا گیا،۔یعنی انڈیا گیٹ تک ہی محدود کردیا گیا۔ اسی طرح ہر سال کم وبیش پورے بھارتی صوبوں کی جھانکیاں دکھائی جاتی تھیں۔ وہاں کی تہذیب کو ایک خاص انداز میں پرویا جاتا تھا۔ تصاویر اور مجسمے میں اس صوبے کی نمائندگی کی جاتی تھی۔  مگر اس مرتبہ کیرلا، تمل ناڈو، بنگال اور اڑیسہ کی جھانکیاں باہر کردی گئی ہیں۔ غور کرنے کی بات ہے کہ یہ سب وہ صوبے ہیں جہاں ہندی نہیں بولی جاتی، نیز جہاں بی جے پی کی سرکار نہیں ہے۔ اس کے پیچھے کیا مقصد ہے ان کا بتلانا مشکل ہے۔ لیکن اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح جمہوریت کے جشن کو بھی ایک خاص رنگ دی ینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک اور بہت بڑی تبدیلی کی گئی ہے، اس پروگرام کے اختتام پر عام طور سے ایک دھن بجائی جاتی ہے، Beatin retreat جس کو کہتے ہیں۔ اس میں گاندھی جی کی پسندیدہ سنگیت – abide with me – کو ہمیشہ جگہ دی جاتی ہے، 2020ء میں اسے ہٹا دیا گیا تھا۔ لیکن چو طرفہ اعتراضات کے بعد اسے شامل کیا گیا، مگر اس سال پھر اسے ہٹا دیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس دفعہ فوجی بالی وڈ کی موسیقی پر تھرکتے نظر آئے۔ عام طور پر فوج کو دیکھ کر جو سنجیدگی اور متانت نظر آتی ہے وہ غائب رہی۔ فوج اس طرح پریڈ کر رہی تھی گویا وہ بالی وڈ کے ایکٹر ہوں،۔غور کرنے کی بات ہے کہ اگر فوج ایکٹرز کی نقل کرنے لگے تو کیا ہوگا؟ مزید ایک حیرانی کی بات یہ رہی کہ مودی جی نے پگڑی نہیں باندھی۔ بلکہ ٹوپی پہنی، اگر یہ کوئی عام ٹوپی ہوتی تب اسے قابل اعتراض نہیں سمجھا جاتا۔لیکن یہ ٹوپی نارتھ ایسٹ کی پہچان تھی، سبھی جانتے ہیں کہ اس سال اتراکھنڈ اور منی پور میں انتخابات ہونے والے ہیں، واقعی اس دفعہ کی جمہوریت کا رنگ کچھ اور ہی تھا، جس سے ملک کی سیاست اور رخ کا کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

جواب دیں