ہیں میرے آبلۂ دل کے تماشا گوہر

ہیں میرے آبلۂ دل کے تماشا گوہر

(شیخ محمد ابراہیم ذوق دہلوی کا شامل نصاب ’’نیٹ جے آر ایف‘‘ قصیدہ)

ہیں میرے آبلۂ دل کے تماشا گوہر

اک گہر ٹوٹے تو ہوں کتنے ہی پیدا گوہر

نظرِ خلق سے، چھپ سکتے نہیں اہل صفا

تہِ دریا سے بھی جا ڈھونڈ نکالا گوہر

رزق تو درخورِ خواہش ہے پہنچتا سب کو

مرغ کو دانہ ملا ہنس نے پایا گوہر

پاک دنیا سے ہیں دنیا میں ہیں گو پاک سرشت

غرق ہے آب میں پر تر نہیں اصلاً گوہر

ہے دلِ صاف کو عزلت میں بھی گردوں سے غبار

گرد آلودِ  یتیمی ہوأ تنہا گوہر

کور باطن کو ہو کیا جوہرِ دانش کی شناخت

کہ پرکھتا نہیں جز دیدۂ بینا گوہر

غیر پُر مایہ نہ کم مایہ سے ہو ضبطِ ہوس

بہ گیا ژالہ، ہو الگ کے، نہ پگھلا گوہر

جوہر خوب کی درکار ہے آرائشِ خوب

خوب تو آب کی خوبی سے ہے ٹھرا گوہر

سرکشی کرتے ہیں بے مغز نہ پُر مغز وقار

جز حباب آب سے سر کھینچے نہ بالا گوہر

ربط ناچیز سے کرتے ہیں کوئی پاک نہاد

ہو نہ ہم صحبتِ تارِ رگِ خدارا گوہر

دل خراش اور ہے طاقتِ دہِ دل ہے کچھ اور

کہ نہ گوہر کبھی ہیرا ہو نہ ہیرا گوہر

فیض کو عالم بالا کے ہے شرط استعداد

قطرہ یک جا ہے طبا شیر تو یک جا گوہر

صدق اور کذب پہ ہر نکتے کے ہے شرط نظر

کور کیا جانے یہ سچا ہے کہ جھوٹا گوہر

صاف باطن کی ہو جب قدر کہ ظاہر ہو درست

مول بھی ٹوٹ گیا صاف  جو ٹوٹا گوہر

ہوتی غربت میں اگر قدر نہ خوش جوہر کی

تو کبھی کان سے باہر نہ نکلتا گوہر

خلشِ خار جنوں سے ہے پروتا کیا کیا

ہر قدم پر قدمِ آبلہ فرسا گوہر

دلِ عاشق میں کرے کیوں کہ نہ آنسو سوراخ

اسی الماس سے جاتا ہے یہ بیندھا گوہر

ذوق موقوف کر اندازِ عزل خوانی کو

ڈھونڈ اس بحر میں اب توکوئی اچھا گوہر

غوطہ دریاے سخن میں ہے لگانا بہتر

آگے تقدیر سے خرمہرہ ملے یا گوہر

اثرِ مدح سے اس خسروِ دریا دل کی

کر سخن قابلِ گوشِ دل دانا گوہر

وہ بہادر شہِ غازی کہ بہ رنگ نیساں

روز برسائے ہے ابرِ کرم اس کا گوہر

جشن سے اس کے ہے ایک فیض کا دریا جاری

بہتے پھرتے ہیں برنگ کفِ دریا گوہر

زیور آرا ہوں اگر صحن چمن میں گل و سرو

بیضۂ قمری و بلبل ہوں عجب کیا گوہر

پہنچے گر گوشِ صدف تک نہ نوید عشرت

اتنا بالیدہ بہ خود ہو کہ ہو مینا گوہر

کہتا ہے قطرۂ نیساں بھی کہ اس دور میں کاش

ہوتا میں دانۂ انگور نہ ہوتا گوہر

جدولِ آب نے کثرت سے حبابوں کی بھرے

مانگ میں مثلِ بت خویشتن آرا گوہر

ٹوٹا ہے کشمکشِ عیش سے جو صبح کا ہار

بکھرے شبنم سے ہیں گلزار میں کیا کیا گوہر

گلِ بشگفتہ میں یہ قطرۂ باراں سے بہار

بھر دیے دُرجکِ یاقوت میں گویا گوہر

موجِ گوہر میں بھی ہے طرزِ تبسم پیدا

کوئ دم میں روشِ غنچہ ہنسے گا گوہر

رخِ گل رنگ پہ ساقی کے عرق کا قطرہ

کیا تماشا ہے کہ بن جائے ہے مونگا گوہر

قطرۂ آب  لطافت سے ہے ٹپکا پڑتا

گوشِ خوبانِ سمن بر میں مصفا گوہر

مدحِ حاضر میں کروں، میں کوئی مطلع تحریر

آج ہے خامہ مرا منہ سے اگلتا گوہر

مطلع ثانی

آج وہ دن ہے کہ اے خسروِ والا گوہر

کوہ دے نذر تجھے لعل تو دریا گوہر

بحر و بر میں ہیں شہا تیرے مہیائے نثار

سیم سے زر تلک اور لعل سے لیتا گوہر

ہو ترے فیضِ قدم سے جو زمیں گوہر خیز

ہو نصیبِ صدفِ نقشِ کفِ پا گوہر

مشتری کہتے ہیں جس کو ہو اٹھا لایا چرخ

ٹوٹ کر جو تری سمرن سے گرا تھا گوہر

صبحِ اقبال و سعادت کا ستارہ چمکا

جو ترے طرۂ دستار کا چمکا گوہر

تیرے آوہزۂ سہ پیچ کا اے قبلۂ خلق

صاف قندیلِ در مسجدِ اقصا گوہر

حلبِ خلق میں ہے سینہ ترا آئینہ

عدنِ علم میں ہے قلب مصاف گوہر

پرورش دیوے چمن کو جو ترا ابرِ کرم

موتیا میں عوضِ غنچہ ہو پیدا گوہر

ماہ کہنے کے لیے ہے نہ کہ گہنے کےلیے

تیرے گہنے کا کہوں کیا اسے زیبا گوہر

درفشانی سے تری اتنے گہر ہیں ارزاں

لکھتے ہیں نسخۂ مفلس میں اطبا گوہر

قطعہ

عکس سے نیرِ اقبال کے دریا میں ترے

اے محیطِ کرم و جود کے یکتا گوہر

آبِ گوہر ہو تہِ آب یہ اعجاز نما

کفِ دریا کو بناے یدِ بیضا گوہر

کوہ کا زہرہ کرے آب تری ہیبت عدل

گر یہ سن پاے کہیں سنگ نے توڑا گوہر

طبعِ نازک پہ تری بارِ گہر ہو جو گراں

پوستِ بیضۂ ماہی سے ہو ہلکا گوہر

آبِ دریاے کرم سے ہو جو تیرے سیراب

ابرِ مردہ سے برسنے لگیں کیا کیا گوہر

آج محفل میں تری و گہر افشانی ہے

لگنِ شمع میں ہیں آنسوؤں کی جا گوہر

دستِ فرّاش میں جاروب ہے ریشِ فرعون

فرش پر تیلیوں میں الجھے جو صدہا گوہر

تیرے دورانِ حفاظت میں کہاں  رنج و گزند

حق میں بیمار کے تبخالہ ہے لب کا گوہر

افعیِ زلف کے کاٹے کو ہے جوں مہرۂ مار

گوشِ خوباں میں نہیں زلفِ سمن سا گوہر

سینہ صافی کا ترے ایک ہے نقشہ دریا

دلِ روشن کا ترے ایک نمونا گوہر

نقرۂ خنگ ترا ایسا بہ رنگِ شفّاف

روبرو جس کی صفائی کے ہو میلا گوہر

غرق دریاے جواہر میں ہے وہ کوہ گراں

گل ہیں مہندی ک جھڑاں لعل پسینا گوہر

پیل تیرا ہے بلندی میں فلک سے افزوں

جھول میں جس کی ہیں انجم سے زیادہ گوہر

لے کے خرطوم میں جو آب ہو وہ قطرہ فشاں

دیوے جوں ابرِ بہاراں ابھی برسا گوہر

ہے ترے قطرۂ پیکاں سے دمِ بارشِ تیر

جگر چاکِ عدو میں صدف آسا گوہر

تیرہ نیزہ ہے وہ طائر کہ عوض دانے کے

مہرہ پشت سے دشمن کے ہے چنتا گوہر

شعلۂ برقِ غضب سے ترے شاہا تہِ آب

مثلِ مریخ ہو اک سرخ ستارا گوہر

مُہر داروں میں ترے ایک ہے ناچیز عقیق

آب داروں میں ترے ایک ہے ادنا گوہر

گرجے گردوں کی طرح سے وہ بہ آواز مہیب

جوہری جس کو کہ بتلاے ہے گرجا گوہر

ہو تری کلکِ کرم جب کہ شہا گوہربار

جیمِ محتاج کے دامن مییں ہو نقطہ گوہر

نقطہ قافِ قلم سے جو ہو تیرے ہم سر

قاف تک قاف سے ہو بیضۂ عنقا گوہر

سینہ صافی سے ترے ہووے صفا ایسی عام

دلِ کافر میں بھی ہو خالِ سویدا گوہر

ہوجو روشن گر عالم ترا نور دانش

موے چینی میں پرویا کرے اعما گوہر

خسروا میں جو کہوں سب ترے اوصاف نکو

تو سدا منہ سے مرے پھول جھڑیں یا گوہر

ذوق کرتا ہے دعائیہ پر اب ختم سخن

تاکہ ہو سنگ سے لعل آب سے پیدا گوہر

ار ہے پنجۂ خورشید پہ ہر روز طلا

تا گرہ میں رکھے شب عقدِ ثریا گوہر

دانۂ انجم گردوں سے پروے جب تک

رشتۂ کاہ کشاں میں شبِ یلدا گوہر

جب تلک جوش بہاراں سے ہوا ہے دمِ صبح

ٹانکے شبنم سے سرِ دامنِ صحرا گوہر

ہر برس جشن ترا تجھ کو مبارک ہووے

برسیں یسانِ کرم سے ترے شاہا گوہر

دوستوں کو ہو ترے گنجِ گہر روز نصیب

ہو نہ خدا شک سرِ دامن اعدا گوہر

(کلیات ذوق،صفحہ: ۲۹۷۔ مرتبہ ڈاکٹر تنویر علوی)

نوٹ:۔ یہ مضمون نیٹ جے آر ایف،سیٹ،ٹیٹ وغیرہ امتحان میں پوچھے جانے والے سوالوں کے پیش نظر تیار کیا گیا ہے۔ اس طرح کے مزید مضامیں حاصل کرنے کیلئے لال رنگ کے گھنٹی والے نشان کو دبا کر ہماری ویب سائٹ ’’علم کی دنیا ‘‘ www.ilmkidunya.inکو سبسکرائب کر لیں۔ والسلام

اپنی راۓ یہاں لکھیں