پٹرول سے پاکی حاصل کرنا
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی
جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا،مؤ
پٹرول بذاتِ خود پاک ہے اور اس میں پاک کرنے کی صلاحیت بھی ہے، اس لیے اگر اس میں کسی ناپاک چیزکی ملاوٹ نہ ہوتو اس کے ذریعہ جسم یا کپڑے وغیرہ پر لگی ہوئی گندگی اور ناپاکی دور کی جاسکتی ہے، کیونکہ نجاست زائل کرنے کے لیے پانی ضروری نہیں ہے بلکہ کسی بھی پاک اور سیال چیز سے پاکی حاصل کی جاسکتی ہے، اس لئے کہ مقصدمحض اس ناپاک چیز سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو جس چیز سے بھی اس کا اثر زائل ہوجائے اسے استعمال کرلینا کافی ہے خواہ سرکہ، پٹرول، دوا یاکوئی اور چیز ہو، چنانچہ بعض احادیث میں تھوک کے ذریعے خون کے اثر کو زائل کرنے کا ذکر ہے۔ (۱)
البتہ وضو اور غسل کے لیے پانی ضروری ہے، اس کے علاوہ کسی دوسرے سیال مادے سے وضو یا غسل درست نہیں ہے، چنانچہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ:
فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا ( النساء: 43)۔
اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرلو۔
(۱) عن عائشۃ قالت ماکان لاحدانا الاثوب واحد تحیض فیہ فاذا اصابہ شییٔ من دم قالت بریقھا فقصعتہ بظفرھا (صحیح بخاری:3012، کتاب الصلاۃ باب ھل تصلی المرء ۃ فی ثوب حاضت فیہ)
کانت احدانا تغسل دم الحیضۃ بریقھا جعلت رضی اللہ عنھا ذلک غسلا۔ (مصنف عبد الرزاق:1227)
ڈرائی کلیننگ
اونی، ریشمی یا اس کے علاوہ بعض دوسرے کپڑے پانی سے دھونے کی وجہ سے خراب ہوجاتے ہیں، اس لیے ایسے کپڑوں کے میل، کچیل، گندگی اور نجاست کو بھاپ کے ذریعے زائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں پانی کا استعمال بہت کم یا بالکل نہیں ہوتا ہے، اور اس کی جگہ بعض کیمیاوی مادے استعمال کیے جاتے ہیں۔
اور یہ بات گزر چکی ہے کہ نجاست کو زائل کرنے کے لیے پانی کا استعمال ضروری نہیں ہے بلکہ ہر اس ذریعے سے نجاست ختم کی جاسکتی ہے جس سے اس کا رنگ و بو وغیرہ زائل ہوجائے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے :
كَانَتِ الْكِلَابُ تَبُولُ، وَتُقْبِلُ وَتُدْبِرُ فِي الْمَسْجِدِ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَكُونُوا يَرُشُّونَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ.(صحیح بخاری:174.سنن ابوداؤد:382)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مسجد نبوی میں کتے آتے جاتے اور پیشاب کردیتے تھے مگر اس پر پانی نہیں بہایا جاتا تھا ۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منی کے بارے میں منقول ہے:
كنت افركه من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم (صحيح مسلم:288)
میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے کھرچ دیتی تھی۔
اور حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ:
ان رسول اللہﷺ سئل عن المرأۃ یکون ثوبھا طویلا و تمشی علی المکان القذر فقال یطھرہ مابعدہ۔(ابوداؤد:383.ترمذی:144.صحیح لغیرہ ۔شعیب ارناؤط)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کے بارے میں پوچھا گیا جس کا کپڑا لمبا ہو اور وہ کسی گندی جگہ سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے بعد والی پاک جگہ اسے پاک کر دیگی۔
اور حضرت ابو سعید خدریؓ سے منقول ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
إذا دخل احدکم المسجد فلینظر فاذا رأی فی نعلیہ قذرا فلیمسحھما بالارض ثم یصلی فیھا.
( ابوداؤد:650 ۔اسنادہ صحیح ،شعیب ارناؤط ۔وابن خزیمہ:786)۔
جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو اپنے چپل کو دیکھ لے اور اگر اس میں کوئی گندگی نظر آئے تو اسے زمین پر رگڑ دے اور پھر اسے پہن کر نماز پڑھ لے۔
اور حضرت ابوہریر نقل کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
اذا وطیٔ احدکم بنعلہ الاذی فان التراب لہ طھور(ابوداؤد:388.ابن خزیمہ:292)
جب تم گندی جگہ پر چپل پہن کے چلے جاو تو مٹی اسے پاک کردینے والی ہے ۔
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نجاست ختم کرنے کاذریعہ صرف پانی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بہت سے طریقے ہیں جس کے ذریعے نجاست زائل کی جاسکتی ہے، کیونکہ مقصود نجاست کے اثر کوزائل کرنا ہے نہ کہ اس کے لیے کوئی خاص طریقہ، بلکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ بعض چیزیں نجاست کے اثرکو زائل کرنے میں پانی سے بھی زیادہ موثر ہوں، مذکورہ اور اس کے علاوہ بعض دوسری احادیث کے پیش نظر فقہاء نے لکھا ہے کہ شیشہ اور چھری پوچھ دینے سے اور منی کھرچ دینے سے اورجوتا رگڑ دینے سے اور زمین خشک ہوجانے سے اور روئی دھنائی کے ذریعے پاک ہوجاتی ہے۔ (الہندیہ44/1)
لہٰذا ڈرائی کلین کے ذریعے کپڑے پاک ہوجاتے ہیں بشرطیکہ اس میں نجاست کا کوئی اثر نہ ہو۔
پٹرول سے پاکی حاصل کرنا
پٹرول بذاتِ خود پاک ہے اور اس میں پاک کرنے کی صلاحیت بھی ہے، اس لیے اگر اس میں کسی ناپاک چیزکی ملاوٹ نہ ہوتو اس کے ذریعہ جسم یا کپڑے وغیرہ پر لگی ہوئی گندگی اور ناپاکی دور کی جاسکتی ہے، کیونکہ نجاست زائل کرنے کے لیے پانی ضروری نہیں ہے بلکہ کسی بھی پاک اور سیال چیز سے پاکی حاصل کی جاسکتی ہے، اس لئے کہ مقصدمحض ناپاک چیز سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو جس چیز سے بھی اس کا اثر زائل ہوجائے اسے استعمال کرلینا کافی ہے خواہ سرکہ، پٹرول، دوا یاکوئی اور چیز ہو، چنانچہ بعض احادیث میں تھوک کے ذریعے خون کے اثر کو زائل کرنے کا ذکر ہے۔ (۱)
البتہ وضو اور غسل کے لیے پانی ضروری ہے، اس کے علاوہ کسی دوسرے سیال مادے سے وضو یا غسل درست نہیں ہے، چنانچہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ:
فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا ( النساء: 43)۔
اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرلو۔
(۱) عن عائشۃ قالت ماکان لاحدانا الاثوب واحد تحیض فیہ فاذا اصابہ شییٔ من دم قالت بریقھا فقصعتہ بظفرھا (صحیح بخاری:3012، کتاب الصلاۃ باب ھل تصلی المرء ۃ فی ثوب حاضت فیہ)
کانت احدانا تغسل دم الحیضۃ بریقھا جعلت رضی اللہ عنھا ذلک غسلا۔ (مصنف عبد الرزاق:1227)
سولر ہیٹر کے ذریعے گرم کیے ہوئے پانی سے وضو کرنا
سولر ہیٹر (Soler Heaters) سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرکے پانی وغیرہ کو گرم کردیتا ہے، کیا اس طرح کے گرم پانی سے وضو، غسل وغیر ہ درست ہے یا نہیں ؟
سورج کی حرارت کے ذریعے گرم کیے گئے پانی کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے، شافعیہ اور مالکیہ کے نزدیک ایسے پانی کااستعمال مکروہ تنزیہی ہے اور بعض حنفی فقہا ء نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، شافعیہ کے نزدیک اس کی کراہت کے لیے شرط ہے کہ علاقہ گرم ہو، برتن کا میٹریل ایسا ہو کہ اسے پگھلایاجاسکے، جیسے کہ دھات، وغیرہ کا برتن، اسے وضو یا غسل میں استعمال کیاجائے، کپڑا وغیر ہ کے دھونے میں کوئی کراہت نہیں،گرم ہونے کی حالت میں استعمال کیاجائے، ٹھنڈا ہونے کے بعد مکروہ نہیں، ان حضرات کی دلیل وہ احادیث و آثار ہیں جن میں سورج کی تپش سے گرم کیے ہوئے پانی کے استعمال سے منع کیا گیا ہے، اور کہا گیا ہے کہ اس سے برص کی بیماری پیداہوتی ہے۔
اس کے برخلاف حنابلہ، جمہور حنفیہ، بعض مالکیہ اور بعض شافعیہ جیسے کہ امام نووی وغیرہ کے نزدیک اس میں کوئی کراہت نہیں ہے، (دیکھئے الموسوعہ الفقہیہ363/39)کیونکہ اس سلسلے میں وارد حدیث یا کسی صحابی کا قول صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، جیسے کہ حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ:
قالت اسخنت لرسول اللہ ماء فی الشمس لیغتسل بہ فقال لی یا حمیراء لاتفعلی فانہ یورث البرص۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے لئے میں نے دھوپ کے ذریعے پانی گرم کیا تو آپ نے فرمایا: حمیرا ! ایسا مت کیا کرو،اس سے برص کی بیماری ہوتی ہے ۔
اس روایت کو ابن عدی نے موضوع قرار دیا ہے۔ (الکامل فی الضعفاء 675/3)
اور حضرت عمرؓ سے منقول ہے کہ:
’’لا تغتسلوا بالماء الشمس فانہ یورث البرص‘‘
سورج کے ذریعے گرم پانی سے غسل نہ کرو کیونکہ اس سے برص کی بیماری پیدا ہوتی ہے ۔
امام نووی کہتے ہیں کہ یہ اثر ضعیف ہے، (الخلاصۃ 69/1) اورعقیلی کہتے ہیں کہ دھوپ سے گرم پانی کے متعلق کچھ بھی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، (الضعفاء 176/2)اور اما م شافعی فرماتے ہیں کہ ’’ولااکرہ الماء الشمس الامن جہۃ الطب‘‘(۵)یعنی ان کے نزدیک بھی اس سلسلے کی روایتیں صحیح نہیں ہیں، البتہ طبی اعتبار سے مرض کا سبب ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے، حاصل یہ ہے کہ اگر جدید سائنس کے ذریعہ اس کا نقصان دہ ہونا ثابت ہوجائے تو بچنا چاہیے ورنہ توشرعی اعتبار سے اس میں کوئی کراہت نہیں۔
کاغذ کے ذریعے استنجاء
پانی کے ذریعے استنجاکرنا بہتر اور پسندیدہ ہے کہ اس سے اچھی طرح سے پاکی اور صفائی حاصل ہوجاتی ہے، چنانچہ آنحضرت ﷺ عام طور پر اس کے لیے پانی ہی استعمال کرتے تھے، حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ:
مرن ازواجکن ان یستطیبوا بالماء فانی استحییھم منہ فان رسول اللہﷺکان یفعلہ (ترمذی:19.نسائی:44)
اپنے شوہروں کو حکم دو کہ وہ پانی سے استنجاء کیا کریں ۔براہ راست ان سے کہتے ہوئے میں شرم محسوس کرتی ہوں۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔
نیز وہ بیان کرتی ہیں کہ:
مارأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج من غائط قط الا مس ماء(1)(ابن ماجة:354.مسند احمد:25561)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی میں نے قضاء حاجت سے واپس ہوتے ہوئے دیکھا ہے تو آپ نے پانی ضرور استعمال کیا ہے ۔
اور حضرت انس کہتے ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ لِحَاجَتِهِ أَجِيءُ أَنَا وَغُلَامٌ مَعَنَا إِدَاوَةٌ مِنْ مَاءٍ يَعْنِي يَسْتَنْجِي بِهِ.(صحیح بخاری:150)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضاء حاجت کے لئے تشریف لے جاتے تو میں اور ایک دوسرا بچہ وہاں پانی کا برتن رکھ دیتے تاکہ آپ اس سے استنجاء کرسکیں۔
اور قرآن پاک میں طہارت کے معاملے میں اہل قبا کی تعریف کی گئی ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا:
…ونستنجی بالماء قال فھوا ذاک فعلیکموہ(ابن ماجہ: 357,355.ابوداؤد:44.ترمذی:3100)
اور ہم پانی سے استنجاء کرتے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسی وجہ سے تمہاری تعریف کی گئی ہے تو اسے اپنے اوپر لازم کرلو ۔
تاہم پتھر اور ڈھیلے وغیرہ سے استنجا کرلینے سے بھی طہارت حاصل ہوجائے گی، جیسا کہ حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ:
ان رسول اللہﷺ قال اذا ذھب احدکم الغائط فلیذھب معہ بثلاثۃ احجار یستطیب بھن فانھا تجزی عنہ(ابوداؤد:40.نسائی:44)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی قضاء حاجت کے لئے جائے تو اپنے ساتھ تین پتھر لے لے اور اس سے پاکی حاصل کرے کیونکہ یہی تین پتھر اس کے لئے کافی ہوجائیں گے ۔
اورجب پتھر اور ڈھیلے وغیر ہ سے استنجا ء درست ہے تو کاغذ سے ا س سے بہتر درجے میں استنجاء جائز ہے، البتہ دوباتوں کا خیال رکھنا چاہیے، ایک یہ کہ وہ چکنا نہ ہو کیونکہ اس کی وجہ سے نجاست جذب نہیں ہوگی بلکہ اورپھیل جائے گی، دوسرے یہ کہ وہ اس لائق نہ ہو کہ اس پر لکھا جائے بلکہ اسی کام کے لیے اسے بنا یا گیا ہو، کیونکہ دوسرے کاغذ علم کاایک ذریعہ ہوتے ہیں، اس لیے اس کا احترام کیاجانا چاہیے اور عام حالات میں اسے اس طرح کے گندے اور اہانت آمیز کاموں میں استعمال نہیں کرنا چاہیے، اسی لیے فقہا ء نے کاغذ سے استنجاء کو مکروہ لکھا ہے۔ (2)
(1)و( إلا مس ماء ) أي استنجى به أو توضأ والثاني بعيد والأول قد جاء مصرحا به (حاشیہ ابن ماجہ)
(2)لصقالتہ وتقومہ ولہ احترام ایضا لکونہ آلۃ لکتابۃ العلم۔ (ردالمحتار:227/1، فصل فی الاستنجاء،)