چند اصلاح طلب تصورات
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی
عورت کے بارے میں دنیا ہمیشہ نہایت اور عجیب وغریب افراط وتفریط کا شکار رہی ہے ، قدیم و جدید دونوں طرح کی جاہلیت میں وہ بعض مذاہب کی عبادت گاہوں میں دیوی کی حیثیت سے براجما ن رہتی ہے اور لائق پرستش ہے ، لیکن عملی زندگی میں اس کی حیثیت داسی سے بھی بدتر ہے ، فکر و فلسفہ کے اعتبار سے وہ آج مردوں کے ہمدوش خیال کی جاتی ہے ، لیکن حقیقت کی دنیا میں اس کی زندگی آج بھی قابل ترس ہے ، بحیثیت عورت اور بحیثیت ماں ،بہن ، بیوی ، بیٹی ، ا س کی کوئی عزت نہیں ہے ، اگر اسے کوئی مقام حاصل ہے تو وہ ’’مرد ‘‘بن جانے کے بعد وہ مردوں کی طرح لباس پہننے لگے ، ان جیسے کام کرنے لگے ، گھریلو زندگی سے فرار اختیار کرلے تو باعزت اور لائق فخر ہے ، گو یا کہ اس عورت کی عزت ہے جو جسمانی اعتبار سے عورت ہو لیکن ذہنی اور فکری اعتبار سے مر د ۔
لیکن کیا مرد کا روپ دھارلینے کی وجہ سے وہ واقعی مرد بن گئی ؟ اس میں مردوںکی صلاحیت پیداہوگئی ؟ حقیقت صرف یہ ہے کہ جس طرح سے کسی مرد کو عورت کے سانچے میں نہیں ڈھالا جاسکتا ہے اسی طرح سے کسی عورت میں مرد کی صلاحیت پیدا نہیں ہوسکتی ہے ، کیونکہ دونوں کی صلاحیتیں بالکل جداگانہ ہیں، ایک ہی ماحول اور مقام میں پر ورش پانے والے دو مرد و عورت کے طبعی اور نفسیاتی رجحان میں نمایاں فرق پایاجاتا ہے ، ایک نوبل پرائز یافتہ فرانسیسی مصنف الیکس کیرل لکھتا ہے :
’’مردوں اور عورتوں کے درمیان جو اختلافات پائے جاتے ہیںوہ بنیادی نوعیت کے ہیں ،یہ اختلافات ان کے جسم کی رگوں اور ریشوں کی ساخت کے مختلف ہونے سے پیدا ہوتے ہیں ، عورت کے بیضہ دان سے جو کیمیاوی مادے خارج ہوتے ہیں ان کا اثرصنف نازک کے ہرحصے پر پڑتا ہے ، مردوں اور عورتوںکے طبعی اور نفسیاتی اختلافات کا سبب یہی ہے ‘‘۔(۱)
اور ڈاکٹر لیمبروس گنا اپنی کتاب روح نسوانیت میںلکھتی ہیں :
’’عورتیں اور مرد صرف طول و قامت ، ہڈیوںکی ساخت اور عضلاتی بناوٹ کے اعتبار ہی سے مختلف نہیں بلکہ اس اعتبار سے بھی مختلف ہیں کہ وہ ہوا اور غذا کی ایک ہی مقدار جذب نہیںکرتے ، ان کے امراض کی نوعیت مختلف ہوتی ہے ، ان کے ذہن اوراخلاقی رجحانات میں بھی فرق پایاجاتا ہے ‘‘۔(۲)
اور اس فرق کو تعلیم و تربیت او رماحول کے ذریعہ ختم نہیں کیاجاسکتا ہے کیونکہ کسی انسان کی اسی صلاحیت کو کسب و محنت اور تعلیم و تربیت کے ذریعہ ترقی دی جاسکتی ہے جو اس میں موجود ہو اور جس صلاحیت کا سر ے سے اس میں وجو د ہی نہ ہووہ تعلیم وتربیت یا کسی اور ذریعے سے پیدا نہیں کی جاسکتی ہے ، ڈاکٹر الگزس کیرل لکھتا ہے :
’’مرد و عورت کافرق محض جنسی اعضا ء کی خاص شکل ، رحم کی موجودگی ، حمل یا طریقہ تعلیم کے سبب نہیں ہے بلکہ یہ اختلافات بنیادی قسم کے ہیں … صنف نازک کے ترقی کے حامی ان بنیادی حقیقتوں سے ناواقف ہونے کی بناپر سمجھتے ہیں کہ دونوں جنسوں کو ایک ہی قسم کی تعلیم ، ایک ہی قسم کے اختیارات اور ایک ہی قسم کی ذمہ داریاں ملنی چاہئیں ، حقیقت یہ ہے کہ عورت مرد سے بالکل مختلف ہے …
(۱) عورت اسلامی معاشرے میں ،ص۲۷،از سید جلال الدین عمری۔(۲)حوالہ مذکور۔
عورتوںکو چاہیے کہ و ہ اپنی فطرت کے مطابق اپنی صلاحیتوں کو ترقی دیں اور مردوںکی نقالی کی کوشش نہ کریں ، تہذیب کے ارتقا ء میں عورتوں کا بہ نسبت مردو ںکے زیادہ حصہ ہے ، اس لیے انہیں اپنے خصوصی فرائض سے پہلوتہی نہیں کرنا چاہیے ۔(۱)
اور ڈاکٹر لیمبروس گنا تحریر کرتی ہیں کہ :
’’ترقی اور ارتقا اسی طرح ممکن ہے کہ مردوں اور عورتوں کے معاشرتی حقوق و فرائض تعین کرنے میں ان کے فروق واختلافات کو مد نظر رکھاجائے ‘‘۔(۲)
عورت کی نفسیات ، طبعی رجحانات اور فکری و عملی قوتوں کے حقیقت پسندانہ جائزہ سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ اس کا دائرۂ کار اندرونِ خانہ ہے، او ر گھر سنبھالنا کوئی معمولی درجے کا کا م نہیں بلکہ یہیں سے تہذیب و تمدن کی بنیاد پڑتی ہے ، یہیں پر انسانیت کے کل پر زے ڈھالے جاتے ہیں اور یہیں پر سب سے زیادہ قیمتی سرمائے کی حفاظت کی جاتی ہے اور نسلِ انسانی کے نمائندے تیار ہوتے ہیں ، اس لیے اسلام کی نگاہ میں امورِ خانہ داری کی وہی اہمیت ہے جو مرد کے لیے کسب ِمعاش کی ذمہ داری کی ہے ، دونوںکی یکساں اہمیت ہے اس لیے کسی کوحق نہیں کہ وہ احساسِ برتری میں مبتلاہو اور نہ کسی کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ احساسِ کمتری کا شکار ہو ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ‘‘(جس طرح سے عورتوںکی کچھ ذمہ داریاں ہیں اسی طرح سے ان کے حقوق بھی ہیں ) علومِ عمران اور فلسفہ و نفسیات کے ماہر کانٹ کی رائے ہے کہ :
’’فطری قانون یہ ہے کہ عورتیں گھریلو زندگی کے لیے ہیں ، اس قانون فطرت میں کبھی کوئی اہم تغیر نہیںہوا ہے اور یہی قانون صحیح ہے ، ضروری ہے کہ عورتوں کی زندگی گھریلو ہو اور اسے خارجی کاموں سے آزاد رکھاجائے تاکہ وہ اپنے فرائضِ زندگی کو انجا م دے سکے ‘‘۔(۳)
(۱) علم جدید کا چیلنج، ص۱۹۹، وحید الدین خاں وعورت اسلامی معاشرے میں ،ص ۲۹۔(۲) عورت اسلامی معاشرے میں ،ص ۲۹۔(۳) عورت اسلام کے سائے میں ،ص ۳۶،از مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ۔
اور سماجیات کی نبض شناس ایڈالین کہتی ہیں کہ :
’’ تجربات نے ثابت کر دیا ہے کہ گھر کے لیے اور بچوںکی تربیت پر نگہداشت کے لیے ماں کا ہونا ضروری ہے ، موجودہ اور زمانہ گزشتہ کے معاشرہ کی اخلاقی سطح کے درمیان یہ بڑا اور غیر معمولی فرق اسی بنیاد پر ہے کہ ماں نے اپنا گھر چھوڑ دیا ہے ، اپنے بچوں سے غافل ہوگئی ہے ‘‘۔(۱)
ٹیڑھی پسلی:
گھریلو ذمہ داریوں کو نبھانے اور نسل انسانی کو پروان چڑھانے کے لیے تیز وتند جذبات کی ضرورت ہے ، کیونکہ نسل انسانی کوپروان چڑھانا کوئی وقتی اور ہنگامی مشغلہ نہیں ہے بلکہ ایک طویل اور دشوار طلب کام ہے جسے محض عقل کے سہارے انجام نہیں دیا جاسکتا ہے بلکہ اس کے لیے مخصوص جذباتی صلاحیت ناگزیر ہے جس کے ذریعہ عورت ان مشکل ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوتی ہے ، عورت کی اسی مخصوص صلاحیت کو بعض حدیثوں میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :
’’المرأۃ کالضلع ان اقمتھا کسرتھا وان استمتعت بھا استمعت وبھا عوج‘‘(۲)
’’عورت پسلی کی طرح ہے ، اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو ٹوٹ جائے گی اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہوگے تو اسی کیفیت کے ساتھ اٹھا سکتے ہو‘‘۔
دوسری روایت میں ہے :
’’استوصوا بالنساء خیرًا فانھن خلقن من ضلع‘‘(۳)
’’عورتوںکے ساتھ خیر خواہی اور بھلائی کا معاملہ کرو کیونکہ وہ پسلی سے پیداکی گئی ہیں ‘‘
اور صحیح مسلم میں حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
(۱) عورت اسلام کے سائے میں ،ص ۳۱،از مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ۔(۲) بخاری :۵۱۸۴، صحیح مسلم :۱۴۶۸۔ (۳) بخاری :۵۱۸۶۔
’’ان المرأۃ خلقت من ضلع لن تستقیم لک علی طریقۃ‘‘(۱)
علامہ عینی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
’’اس حدیث میں محض تمثیل کے طریقے پر کہا گیا کہ عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے ‘‘۔(۲)
اور مولانامحمد تقی عثمانی لکھتے ہیں کہ :
’’اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوںکے اخلاق میں کچھ کجی ، عیب نہیں ہے ، جیسا کہ پسلی کا ٹیڑھا ہونا کوئی عیب نہیں ہے ،لہٰذا مرد کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ عورتوں میں مردوں جیسے اخلاق تلاش کرے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک میں کچھ ایسی مخصوص صلاحیت رکھی ہے جو دوسرے میں نہیں پائی جاتی ہے ‘‘۔ (۳)
غرضیکہ یہ ’’عورت پن‘‘ کے لیے ایک ضروری وصف ہے ، اسی سے نسوانیت کی تکمیل ہوتی ہے اور مہرو الفت کے سوتے پھوٹتے ہیں اور محبت و چاہت کے دیپ جلتے ہیں اور جس طرح سے دل و جگر کی حفاظت کے لیے پسلی میں کجی ضروری ہے ، اسی طرح سے نسوانیت کی حفاظت کے لیے ایک طرح کی کجی ناگزیر ہے ، اسے ختم کرنے کی کوشش کرنا نسوانیت کے آبگینے کو ٹھیس پہنچانا ہے ، اس لیے مرد کو اس کی فطرت کا لحاظ کرتے ہوئے شدت وسختی کے بجائے لطف و محبت اور ہمدردی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے ، مذکورہ حدیث کا یہی پیغام اور مقصد ہے اور اس میں ایک فطری حقیقت کا بیان ہے جس کو دوسرے لوگوں نے بھی دوسرے الفاظ میں اد ا کیا ہے ، چنانچہ میتھو آرنلڈ اس بات کو ان الفاظ میں کہتا ہے ’’عورت پر دل کی دلیل کام کرتی ہے نہ کہ دماغ کی ‘‘۔(عورت ، اسلام اور جدید سائنس ، ص ۱۱۲)
بعض لوگوں نے اس طرح کی حدیثوں کو دیکھ کر یہ خیال کیا کہ عورت کی پیدائش پسلی سے ہوئی ہے ، حالانکہ صحیح حدیثوں میں اس طرح کی کوئی صراحت نہیں ہے بلکہ پہلی حدیث میں تو
(۱)صحیح مسلم :۱۴۶۸۔(۲) عمدۃالقاری:۱۵/۲۱۳۔(۳) تکملہ فتح الملہم :۷/۱۳۶۔
صاف طور پر کہا گیا ہے کہ عورت پسلی کی طرح ہے اور دوسری حدیث میں بھی تشبیہ کا مفہوم زیادہ واضح ہے اور مطلب صرف یہ ہے کہ عورت کی فطر ت اوربناوٹ میں پسلی جیسی کجی ہے ، جیسے کہ قرآن میں تمام انسانوں کے بارے میں کہاگیاہے کہ ’’خلق الانسان من عجل ‘‘۔
بعض لوگوں نے اس خیال کی تائید میں درج ذیل آیتیں بھی ذکر کی ہیں :
’’یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَآئً‘‘(۱)
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیداکیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں کے ذریعہ بہت سے مردو عورت دنیا میں پھیلادیے‘‘۔
’’ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا لِیَسْکُنَ اِلَیْھَا‘‘(۲)
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیداکیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے‘‘۔
ان آیتوں کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ وغیرہ کے حوالے سے یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ حضرت حوا کو حضرت آدمؑ کی پسلی سے پیدا کیا گیا لیکن اس طرح کی روایتوں کے بارے میں زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یہ اسرائیلیات سے ماخوذ ہیں ، اس لیے کہ بائبل میں ہے کہ :
’’اللہ تعالیٰ نے آدم پر گہری نیند طاری کر دی او ر وہ (آدم ) سوگیا ، تب اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک پسلی نکالی اور اس کی جگہ پر گوشت بھر دیا اور اللہ تعالیٰ نے آدم سے جو پسلی لی تھی اس نے ایک عورت بنایا اور اس کو آدم کے پاس لایا ‘‘۔
(کتاب پیدائش : باب۲، آیت :۲۴-۲۲)
یہ تمام تر تفصیلات روایتوں میں موجود ہیں ، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہودیوں کے
(۱)سورۃ النساء:۱۔(۲) سورۃ الاعراف :۱۸۹۔
ذریعہ یہ بات مسلمانوں تک پہنچی ہے او ر پھر اسی کے ذریعہ مذکورہ آیتوں اور روایتوں کی تفسیر و تشریح کردی گئی ہے ،حالانکہ اس کے بر عکس روایتیں بھی موجود ہیں ، چنانچہ حضرت ربیع بن انسؓ کہتے ہیں کہ جس مٹی سے حضرت آدمؑ بنائے گئے اسی سے حضرت حواؑ پیدا کی گئیں ، اس لیے کہ قرآن میں ہے کہ :’’ھُوَالَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ‘‘(الانعام:۲)،(۱)’’وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا‘‘۔
اور علامہ آلوسی نے لکھا ہے کہ امام باقربھی اسی کے قائل ہیں ۔(۲)
اور مذکورہ آیتوں کا مفہوم یہ ہے کہ اسی جنس سے اس کا جوڑا بنایا گیا اور اس مفہوم کی تائید متعدد آیتوں سے ہوتی ہے ، چنانچہ قرآن میں ہے کہ :
’’وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًالِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا‘‘(۳)
’’اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو ‘‘۔
’’جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا‘‘(۴)
’’جس نے تمہاری جنس سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے‘‘۔
’’وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا‘‘(۵)
’’اور اللہ تعالیٰ نے تمہاری جنس سے تمہارے لیے جوڑا پیداکیا ‘‘۔
ان تینوں آیتوں میں ’’نفس ‘‘ سے مراد جنس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ، اس لیے مذکورہ دونوں آیتوں میں بھی نفس سے یہی مرا د ہے یعنی ان تمام آیتوں میں تمام مردوں کی بیویوں کے سلسلے میں وہی لفظ استعمال ہوا ہے جو سورۂ نساء میں حضرت حوا کے لیے استعمال کیاگیا ہے اور اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوسکتا ہے کہ ہرمرد کی بیوی اس کے جسم سے نکالی گئی ہے ، لہٰذا جس طرح سے دیگر عورتیں
(۱) عمدۃ القاری :۱۵/۲۱۲۔(۲) روح المعانی :۴/۱۸۱۔(۳)سورۃ الروم :۲۱۔(۴)سورۃ الشوریٰ :۱۱۔ (۵) سورۃ النحل :۷۲۔
مردوںکی ہم جنس ہیں ، اسی طرح سے حضرت حوا بھی ان کی ہم جنس تھیں کہ اگر دونوں کومثلاً آگ اور پانی جیسے الگ الگ جنس سے بنایا جاتا تو پھر موافقت نہ ہوتی اور پر سکون زندگی گزارنا مشکل ہوتا اور یہ ناممکن ہوتا کہ دونوں مشترکہ جد و جہد سے نسل انسانی کو پروان چڑھائیں ، اس معاملہ میں جو غلط فہمی پیدا ہوتی ہے وہ حدیث کو بائبل کے بیان سے جوڑ دینے اور پھر اسی کی روشنی میں قرآنی آیتوں کی تفسیر کرنے کی وجہ سے ہے ، حالانکہ مذکورہ حدیث کا بائبل کے بیان سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
عقل میں کمی:
عورت کے احساس میں نزاکت و ذکاوت ، وجدان میں لطافت اور جذبات میں شدت ہوتی ہے اور یہ چیزیں اس کے خمیر میں شامل ہیں اور اس کے لیے نقص نہیں بلکہ باعث کمال ہیں ، یہ اس کے لیے سرمایہ حیات ہے اور حیات انسانی کی بقاکے لیے ضامن ہے ، اگر اس میں جذبات کی فراوانی نہ ہوتو نسل انسانی اور جا ن ناتواں کا وجود بر قرار نہیں رہ پائے گا ،اس کی یہی صفت ممتا کی زندہ اور دائمی صفات کا سر چشمہ ہے ، اس لیے فریضہ نسوانیت کی ادائیگی کے لیے عورت کے اندر اس صفت کا ہوناناگزیر ہے ۔
جذبات کی فراوانی اور ایثارو محبت کاپیکر ہونے کی وجہ سے عورتوں میں مردوںکی طرح یکسوئی اور بیدار مغزی کی کچھ کمی ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جذبات میں جتنی شدت ہوگی ، قوت فہم اور قوت یاد داشت میں اسی درجہ کمی ہوگی ، چنانچہ یہ عام مشاہدہ ہے کہ غصہ ، انتہائی خوشی اور شدت غم کے جذبات میں سوچنے ، سمجھنے کی صلاحیت کم بلکہ بسا اوقات ختم ہوجاتی ہے ۔
عورت کی اس صفت کو بعض حدیثوں میں’’نقص عقل‘‘ کہاگیا ہے ، جس کا مقصد مردو ں کو ان کی اس کیفیت کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہمدردی کا رویہ اختیار کریں اور جذبا ت سے مغلوب ہوکر ان کے خلا ف کوئی بات کہہ دیں تو در گزر سے کام لیں نیز ان کے جذباتی فیصلے کو اپنے اوپر مسلط نہ کریں بلکہ اپنی عقل بھی استعمال کریں ۔
علامہ اکمل الدین بابرتی نے مذکورہ حدیث کی روشنی میں عورتوںکی ذہنی صلاحیتوں کا تجزیہ ان الفاظ میںکیاہے :
’’انسانی قوتوں کو چار درجوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے ، پہلا درجہ یہ ہے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہو ، اسے عقل ہیولانی کہاجاتا ہے ، یہ استعداد فطری طور پر ہر شخص میں پائی جاتی ہے ، دوسرا درجہ یہ ہے کہ جزئیات میں حواس کے استعمال سے بدیہی باتیں معلوم ہوجائیں اور جس کے نتیجے میں غو رو فکر کے ذریعہ خالص فکری حقائق کا ادراک کر سکے ، اس کو ’’عقل بالملکہ ‘‘ کہاجاتا ہے او ر اسی استعداد کی وجہ سے انسان شرعی احکام کا مکلف ہوتا ہے ، تیسرا درجہ یہ ہے کہ بدیہی حقیقتوں سے جو نظریات مستنبط ہوتے ہیں ، ان کے حصول کے لیے کسی کسب و محنت کی ضرورت نہ ہو بلکہ بے تکلف حاصل ہوجائے ، اسے ’’عقل فعلی‘‘ کہاجاتا ہے ، چوتھا درجہ یہ ہے کہ یہ نظریات اس طرح مستحضر ہوں کہ ہمیشہ نگاہوں کے سامنے رہیں ، اسے عقل مستفا د کہا جاتا ہے ۔
او رشریعت کا پابندہونے کے لیے جس صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ’’عقل بالملکہ‘‘ ہے اور اس درجہ کی عقل میں عورتوں کے اندر کسی طرح کی کوئی کمی نہیںہوتی ہے ، کیونکہ ہم مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ یہ جزئیات میں حواس کو استعمال کرکے بدیہیات کو پالیتی ہیں اور اگر کسی بات کو بھول جائیں تو یاد دلانے پر فوراً یاد کرلیتی ہیں ، اگر اس صلاحیت میںکوئی کمی ہوتی تو اسلامی احکام کے سلسلے میں انہیں مردوں سے کمتر درجے کے احکام کا پابند بنایاجاتا ، حالانکہ ایسا نہیں ہے ، اس لیے نبی ﷺ نے ان کے بارے میں جو یہ کہا ہے کہ وہ عقل کے اعتبار سے ناقص ہوتی ہیں تو اس سے مراد عقل کا تیسرا درجہ یعنی عقل فعلی ہے ‘‘۔(۱)
عورتوںکے سلسلے میں ماہرینِ نفسیات کا اتفاق ہے کہ وہ مردوں کی بہ نسبت زیادہ ذکی الحس
(۱) العنایۃ: ۷/۳۷۲۔
اور جذباتی ہوتی ہیں ، الفت و محبت ، نفرت و عداوت ، خوشی او ر غمی ہر موقع پر وہ جذبات کا مظاہرہ کر تی ہیں اور یہ جذبات اُن کے دل و دماغ پر گہرے، دور رس اور دیرپا اثرات چھوڑتے ہیں اور جہاں جذبات کی فراوانی ہو وہاں کسی غیر معمولی رجحان کا پایاجانا کوئی بعید نہیں ہے ، چنانچہ مشہور اشتراکی مصنف بروڈن لکھتا ہے :
’’عورت کاوجدا ن ہمارے وجدان سے کمزور ، اس کی عقل ہماری عقل سے کمتر اور اس کے طبعی اخلاق ہمارے اخلاق سے مختلف ہیں ……تم عورتوں پر اچھی طرح سے غور کر کے دیکھوگے کہ اس میںافراط ہو گی یا تفریط ‘‘۔(۱)
او ر ڈاکٹر آگسٹ کانٹ کے بقول عورتوں اور مردوں کی جسمانی قوتوں میں ایک تہائی کا فرق ہوتا ہے ، عورتوںکا دل مردوں کے مقابلے میں ۶۰ گرام چھوٹا ہوتاہے اور مردوں کا مغز عورتوں کی بہ نسبت سو گرام بڑا ہوتا ہے ، مردوں کے دماغی حجم کا تناسب اس کے جسم سے ایک اور چالیس اور عورتوںکا ایک اور چوالیس کا ہوتا ہے ۔(۲)
واقعہ یہ ہے کہ فطرت کی تخلیقی اسکیم میں جذبات کا عنصر بلند پایہ مصلحتوں کی تکمیل کا ذریعہ ہے ، عورت کو اس خیر کثیر سے اس لیے نوازا گیا ہے کہ اس کے بغیر خصوصی نوعیت کے حیاتی وظیفے کی ادائیگی ناممکن ہے ، کیونکہ بچے کی پرورش کے لیے عقل کی نہیں بلکہ تیز و تند جذبات کی ضرورت ہے ، جو عورت کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے ہی نہیں دیتے اور بچے کی ضرورت کی تکمیل کے لیے کسی سستی اور کوتاہی کے بغیر آگے بڑھنے پر آمادہ کرتے ہیں اور ایک ماں اپنے راحت و آرام کو قربان کرکے بچے کو سکون و اطمینا ن پہنچا نے کی کوشش کرتی ہے بلکہ اپنے وجود کو دائو پر لگاکر بچے کو بچانے کے لیے کوشاں رہتی ہے ۔
اس طرح کی حدیثوں کامقصد عورتوںکی حقارت نہیں بلکہ ان کی فطر ت کا اظہار اور مردوں کو ان کے ساتھ حسن سلوک اور نرم روی کی تلقین و تاکیدکرنا ہے کہ ان کے ساتھ سختی اور درشتی کا
(۱) عورت اسلام کے سائے میں ،ص ۳۶۔(۲)حوالہ مذکور۔
معاملہ ان کی فطرت کے خلاف ہے ، اگر ایسا کیاگیا تو اُن کی شخصیت ٹوٹ کر بکھر جائے گی جس کا نتیجہ بے سکونی ، اضطراب اور سماج ومعاشرہ میں فساد کی شکل میں بر آمد ہوگا ۔
عورتوںکی گواہی :
عورت کی نفسیاتی ساخت ، دائرہ کار ، زندگی کا محور اور معاشرتی ذمہ داریوں اورجذباتی عوامل کی وجہ سے عورتوں کے مخصوص مسائل کے علاوہ دیگر معاملات میں صرف ایک عورت کی گواہی کافی نہیں سمجھی گئی ہے بلکہ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ دوسری عورت بھی شریک رہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’وَاسْتَشْہِدُوْا شَھِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ ج فَاِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُل’‘ وَّامْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدَآئِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰھُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰھُمَا الْاُخْرٰی‘‘(۱)
’’اور اپنے دومردوںکو اس پر گواہ بنالو اور اگر دو مرد نہ ملیں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنائو ، گواہ ایسے ہوںکہ وہ تمہاری نگاہ میں پسندیدہ ہوں ، دوعورتیں اس لیے ہیں کہ اگر ایک بھٹک جائے تو دوسری اسے یاد دلادے ‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں سید قطب نے جو کچھ لکھا ہے اس کاحاصل یہ ہے کہ شریعت نے گواہی کے لیے مردوںکو اس لیے رکھا ہے کہ ایک صحیح مسلم سماج میں کاموں کی ذمہ داری عموماً مردو ں کی ہوتی ہے ، عورت کو مسلم معاشرہ میں معاش فراہم کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ، وہ معاش کے میدان میں آکراپنی ممتا ، نسوانیت اور سب سے بیش بہا انسانی سرمایہ کی حفاظت و تربیت کے اہم کام پر ظلم نہیں ڈھاتی ، یہ ظلم چند لقموں یا چند روپیوں کی خاطر ہوتا ہے ، لیکن جب دو مرد گواہی کے لیے نہ ملیں تو ایک مرد اور دو عورتوںکو گواہ بنایا جائے گا ، اس کی وجہ خود قرآن میں مذکور ہے کہ ایک سے غلطی ہوجائے تو دوسری اسے یاد دلادے گی ۔
(۱) سورۃ البقرہ:۲۸۲۔
غلطی ہونے کے اسباب مختلف ہوسکتے ہیں ، کبھی اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ عورت معاملے کی تمام باریکیوں اور تقاضوںکا احاطہ نہیں کرپاتی اور اس کے ذہن میں وہ بات پوری طرح واضح نہیںہوتی ، اس موقع پر دوسری عورت اسے یاد دلادے گی ، غلطی ہونے کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عورت کی فطرت میں انفعالیت او ر جذباتیت ہے اور یہ عورت اور بچے پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم ہے اور عورت کی اس فطرت کو تقسیم نہیں کیاجاسکتا ہے کہ ایک معاملے میں اس کی فطرت کچھ ہو اور دوسری میں کچھ ، اور گواہی کے معاملے میں انفعالیت سے پاک اور جذباتیت کے بغیر واقعات سے واقف ہونے اور بیان کرنے کی ضرورت ہے اور اگر وہ جذبات کے رو میں بھٹکنے لگے تو دوسری عورت اسے سنبھال سکے۔(۱)
غرضیکہ صرف ایک عورت کی گواہی ناکافی ہونے کی دو وجہ ہے ، ایک یہ اس کا دائرہ کار گھر ہے ، اس سے اندرون خانہ کی ذمہ داریاں متعلق ہوتی ہیں ، تجارتی او ر کاروباری دنیا سے اس کا تعلق بہت کم ہوتا ہے ، اس لیے باہر کی دنیا کے معاملات میںاس کے اندر دقیقہ رسی کی کمی ہوتی ہے ، اس لیے اس کے مغالطہ میں پڑجانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے ، البتہ گھریلو اورنسوانی معاملات میںان کا ذہن بہت تیزاور یاد داشت بڑی اچھی ہوتی ہے اس لیے اس طرح کے معاملات میں اس کی گواہی کی بڑی اہمیت ہے اور تنہا اس کی گواہی کافی ہے ۔
دوسرے یہ کہ جذبات کی فراوانی معاملہ فہمی پر اثر انداز ہوتی ہے جس کی وجہ سے واقعات کو اچھی طرح سے سمجھنا اور یاد رکھنا اور جذبات سے مغلو ب ہو ئے بغیر اسے بیان کرنا ان کے لیے مشکل ہوتاہے ،چنانچہ ماہرینِ نفسیات کا اس پر اتفاق ہے کہ خواتین میں کسی ایسی ذمہ داری کی صلاحیت قدرے کم پائی جاتی ہے جس میں ذہـنی محنت ، توازن و اعتدال اور غیر جانب دارانہ فیصلے کی ضرورت ہو ، ان کے اندر حقائق کے برعکس جذباتی فیصلے کا زیادہ رجحان پایاجاتا ہے ، ان میںقوت فیصلہ کی کمی ہوتی ہے اور واقعات کے بیان میں ان میں مبالغہ آرائی اور رنگ آمیزی کی صفت غالب
(۱) فی ظلال القرآن،ص ۷۸۲۔
ہوتی ہے ، حالانکہ کسی معاملے میں گواہی کے لیے ضروری ہے کہ واقعات کا بے لاگ تجزیہ کیا جا ئے اور جذبات وتعصبات سے بالا ہوکر مطالعہ اور مشاہدہ کیاجائے ۔
ڈاکٹر ہارڈنگ اپنی کتاب “The way of all women” میں رقم طراز ہے کہ :
’’عورتوںکے لیے مشکل مقام وہ ہوتا ہے جہاں ان سے کہاجائے کہ وہ کسی مسئلے کی جزئیات کو پوری صحت کے ساتھ بیان کریں‘‘۔(۱)
یہی وجہ ہے کہ عورتیں تعلیمی زندگی میں حساب وغیرہ میں بہت کم دلچسپی لیتی ہیں ، بعض لوگوں نے دونوں صنفوں کے تعلیمی رجحانات پر ریسرچ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ عام طورپر لڑکے حساب ، سیاسیات ، معاشیات ، سائنس اور تکنیکی علوم میں بہترین استعداد کا مظاہر ہ کرتے ہیں ، اس کے بر عکس لڑکیاں آرٹ ، معاشرتی علوم ،مذہب اور لسانیات سے زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں ، ہائی اسکول کے متعد د گروپس پر نفسیاتی ٹیسٹ کرنے کے بعد سی سی ماٹلیز نے لکھا ہے کہ :
’’لڑکوں میں تحقیق و جستجو ، تخلیق و ایجاد ، اشیا ء کی ماہیت کا ادراک ، مہم جوئی ، ذہانت ، جرأت اظہار اور حقوق کے لیے جد و جہد کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے ، جب کہ لڑکیاں قدرے کمزور دل ، لگے بندھے کام کاج ،روایت پسندی ، جذبہ ہمدردی اور جمالیاتی حس میں لڑکوں سے آگے ہیں ‘‘۔(۲)
اور ٹائمز آف انڈیا (۱۸؍جنوری۱۹۸۵ء)میں یو، پی ، آئی کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :
’’عورتوں کے مقابلے میں مردوں کے اندر اس بات کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ریاضیاتی معلومات کو یاد رکھیں اور اسے ترتیب دے سکیں اور عورتیں الفاظ میں زیادہ بہتر ہوتی ہیں ، یہ بات ایک رومی سائنس داں نے کہی ، ڈاکٹر ولادیمیر کو نودگوف نے تاس نیوز ایجنسی کو بتایا کہ مرد ریاضیاتی موضوعات پر چھائے
(۱)دیکھیے عورت ، اسلام اور جدید سائنس ،ص ۳۶۶، حکیم محمد طارق محمودچغتائی ۔(۲) حوالہ مذکور۔
ہوئے ہیں ، اس کی وجہ سے ان کے اندرحافظہ کی خصوصیت ہے اور صنف قوی لسانی مواد کو ترکیب دینے اور استعمال کرنے میں زیادہ مشکل محسوس کرتا ہے ‘‘۔(۱)
اور جب حیاتی طور پر عورت کی یاد داشت میں کمی ہے تو ایک مرد کی جگہ پر دو عورتوں کی گواہی ضرورت کی بنیاد پر ہے ، فضیلت کی بنیاد پر نہیں ، اسی کے ساتھ یہ ذہن نشین رہے کہ مرد میں یادداشت اور قوت فیصلہ کی صلاحیت ایک اضافی صفت ہے ، اس کی وجہ سے اسے کلی فضیلت حاصل نہیں ہے ، دوسری نوعیت کی اضافی صفت خود عورت میں موجود ہے ، اللہ عزو جل نے ہرایک کو بعض ایسی صلاحیتوں سے نوازا ہے جو دوسرے میں نہیں ہے ، اسی لیے کسی کو حقیر اور کمتر اور دوسرے کو برتر سمجھنا درست نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
’’وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍط لِلرِّجَالِ نَصِیْب’‘ مِّمَّا اکْتَسَبُوْاط وَلِلنِّسَآئِ نَصِیْب’‘ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ ط وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا‘‘(۲)
’’اور جوکچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسرے کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو ، جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کاحصہ ہے اور جوکچھ عورتوںنے کمایا ہے اس کے مطابق ان کاحصہ ہے اور اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو ، یقینا اللہ تعالیٰ ہرچیز کا علم رکھتا ہے ‘‘۔
لہٰذا جسے جو ملا ہے اسے صحیح طریقے پراستعمال کرکے اللہ کی بندگی کرتارہے اور انسانیت اور تمدن کی تعمیر میں اپنا مطلوبہ کردار ادا کرے اور اللہ عزو جل نے جس خاص کام کے لیے اسے پیدا کیا ہے اس میں اپنے آپ کو لگادے کہ اسلام کی نگاہ میں رنگ و نسل اور جنس کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ کامیا بی و ناکامی ، فضیلت و بزرگی او رحقارت و پستی ، فکر کی سلامتی اور عمل کی درستگی سے وابستہ ہے ، اس لیے ایک عورت بھی مادی اور روحانی اعتبار سے ان تمام بلندیوں کوحاصل کرسکتی ہے
(۱)دیکھیے عورت ، اسلام اور جدید سائنس ،ص ۳۶۶، حکیم محمد طارق محمودچغتائی ۔(۲) سورۃ النساء :۳۲۔
جہاں تک مرد کی رسائی ممکن ہے اور مردو عورت کی ذمہ داریوں میں اور دائرۂ کار میں جو فرق رکھا گیا ہے اس کی وجہ تقسیمِ کار اور انتظام ہے نہ کہ اعزاز اور امتیاز ، اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْاُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِن’‘ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘(۱)
’’جس نے بھی ایمان کی حالت میں اچھا کام کیا خواہ وہ مردہو یا عورت تو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریںگے اور ان کے بہتر کاموںکا ضروراجر وثواب عنایت کریں گے ‘‘۔
تعلیمِ کتابت:
اسلام میں مرد وعورت کی تفریق کے بغیر ہرایک کے لیے حصول علم کو ایک دینی فریضہ قرار دیاگیاہے اور عورتوںکے لیے خصوصی طورپر تعلیم کی ترغیب دی گئی اور اس کی اہمیت بیان کی گئی ہے تاکہ علم کے زیور سے آراستہ ہوکر وہ ایک بہتر ماں، بیوی ، بہن اور بیٹی ثابت ہوںاور ایک اچھے خاندان کی تشکیل کرسکیں جس کے ذریعہ ایک صالح معاشرہ وجود میں آئے ۔
تعلیم کے سلسلے میںان پر کسی طرح کی کوئی پابندی نہیں بلکہ مردوں کی طرح تمام مفید علوم کے دروازے ان کے لیے بھی کھلے ہوئے ہیں ، حضرت شفا ء بنت عبداللہ کہتی ہیں وہ ایک روزحضرت حفصہ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ :’’ الاتعلمین ھذہ رقیۃ النملۃ کما علمیتھا الکتابۃ‘‘ (۲)’’جس طرح سے تم نے ان کو کتابت سکھائی ہے کیوں نہ تم ان کو مرض نملہ کی دعا سکھادیتیں‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں تمام علوم میں مردوںکی طرح بہت سی عورتوںکانام بھی نمایاںطور پر نظر آتا ہے اور متعدد خواتین نے کتابت و خطاطی میں بھی نام پیداکیا ہے ۔(۳)
(۱) سورۃ النحل :۹۷۔(۲) ابودائود :۳۸۸۷، مسند احمد :۲۷۰۹۵۔(۳) دیکھیے خواتین اسلام کی دینی وعلمی خدمات ،از قاضی اطہرمبارک پوری ، سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ:۲۰۱۷۔
اور جن روایتوںمیں عورتوں کو فنِ کتابت سکھانے سے منع کیاگیاہے وہ بے اصل اور من گھڑت ہیں ۔(۱)
شیخ البانی نے مذکورہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
’’حق یہ ہے کہ پڑھنا اور لکھنا اللہ کی نعمتوں میں سے ایک اہم نعمت ہے او ر دوسری نعمتوںکی طرح اس نعمت کا مقصد بھی یہ ہے کہ اسے اللہ کی اطاعت میں استعمال کیاجائے ………لہٰذا والدین کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو اس سے محروم رکھیں ، بشرطیکہ اسی کے ساتھ انہیں اسلامی اخلاق و آداب سے بھی آراستہ کریں ، جیسا کہ یہی حکم بچوں کے سلسلے میں ہے اور اس معاملے میں لڑکے اور لڑکی کے درمیان کوئی فرق نہیں اور اصل ضابطہ یہ ہے کہ جو مردوں کے لیے واجب ہے ، وہ عورتوںکے لیے بھی ضروری ہے اور جو مردوں کے لیے جائزہے وہ عورتوںکے لیے بھی جائز ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ انماالنساء شقائق الرجال،عورتیں مردوں کے برابر ہیں ‘‘،لہٰذا مردو عورت کے درمیان کسی معاملے میں تفریق کرنا جائز نہیں ہے الایہ کہ اس کے لیے کتاب و سنت میں کوئی صراحت نہ ہو اور مذکورہ مسئلے میں اس طرح کی کوئی صراحت نہیں بلکہ صراحت اس کے برخلاف ہے ‘‘۔