مفتی ارشاد صاحب بھاگلپوری:حیات و خدمات

حضرت مولانا مفتی محمد ارشاد صاحب رحمۃ اللہ علیہ

*حیات و خدمات*
ترتیب: مفتی محمد الیاس قاسمی شیخ الحدیث وصدر مفتی مدرسہ اصلاح المسلمین چمپانگر بھاگلپور

نام: محمد ارشاد بن امیر الحسن
جائے پیدائش:۔ ناتھ نگر،بھاگلپور
تاریخ پیدائش: 27 جولائی 1953ء
والد کا پیشہ: خیاطی
تعلیم: آپ کے والد بزرگوار آپ کو عصری علوم سے آراستہ کرانا چاہتے تھے چنانچہ والد صاحب کی خواہش پر سکھ راج رائے ہائی اسکول ناتھ نگر میں ہائی اسکول (میٹرک) تک کی تعلیم حاصل کی لیکن آپ کی فطرت میں دینی علوم کے حصول کی جانب میلان تھا لہذا والد صاحب کی مرضی کے خلاف دینی تعلیم کے حصول کے لئے اولا آپ پٹنہ چلے گئے،چند ماہ کے بعد گھر آئے تو والد صاحب کو سلام کیا تو نہ انھوں نے سلام کا جواب دیا نہ بات چیت کی،عملا اپنی خفگی کا اظہار کیا لیکن آپ نے اپنے ارادے میں تبدیلی نہیں لائی اور مدرسہ عربیہ احیاء العلوم ناتھ نگر میں داخلہ لے کر میزان ومنشعب تک پڑھا مزید شوق علم آپ کو مغربی اتر پردیش لے گیا اہل اللہ اور اکابر کے مرکز مدرسہ اشرف العلوم گنگوہ میں داخل ہو کر حفظ قرآن پاک شروع کر دیا اور صرف ایک سال میں حفظ قرآن کی تکمیل فرمالی اور دور کئے بغیر عربی درسیات کی تعلیم شروع کر دی اس کے بعد آپ نے مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور میں داخلہ لے لیا اور وہاں آپ نے عربی متوسطات تک تعلیم حاصل کی اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ نے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور 1971ء میں دورہ حدیث شریف کی تکمیل فرمائی اور 1972ء میں تمرین فتویٰ نویسی کر کے دارالعلوم دیوبند سے سند افتاء حاصل فرمائی۔

*اخراجات*
والد صاحب چونکہ دینی تعلیم کے لیے تیار نہیں تھے اس لیے ان کی جانب سے اخراجات نہیں آتے تھے بلکہ آپ کے خالو الحاج محمد اکرام صاحب، مولانا قاری محمود صاحب خطیب جامع مسجد ناتھ نگر اور تلمیذ رشید علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ، مفتی اعظم بھاگلپور مفتی بلال صاحب رحمۃ اللہ علیہ آپ کے ضروری اخراجات کے لیے کچھ روپے ارسال فرمایا کرتے تھے، آپ نے بڑی عسرت وتنگدستی میں اپنے زمانہ طالب علمی کو گزارا لیکن اپنے احباب ورفقاء پر اپنی عسرت وتنگی ظاہر ہونے نہیں دیتے۔
*اکابر سے تعلق*
آپ زمانہ طالب علمی ہی سے اہل اللہ اور اکابر ملت سے بڑا گہرا تعلق رکھتے تھے تعطیل کے زمانے میں طلبہ اپنے گھروں کو آجاتے لیکن آپ علوم باطنہ کے استفادہ کے لئے گنگوہ، تھانہ بھون یا جلال آباد چلے جاتے اور حضرات اکابر سے باطنی فیض کا استفادہ فرماتے۔
*اصلاحی تعلق*
دارالعلوم دیوبند کے زمانہ طالب علمی میں 1392ء سے حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب ناظم اعلیٰ مظاہر علوم سہارنپور ( متوفی جون 1989ء) سے باضابطہ طور پر اصلاحی تعلق قائم فرمایا تھا اور حضرت نے تین سو مرتبہ ذکر نفی و اثبات کی اجازت دی تھی، آپ نے دورہ حدیث شریف کے سال خواب دیکھا تھا کہ حضرت تھانوی قدس سرہ نے مجھے ایک چشمہ کے پاس بیعت فرمایا، حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے آپ نے اس خواب کا تذکرہ فرمایا تو حضرت والا نے فرمایا لاؤ ہاتھ! یوم عرفہ 9ذی الحجہ 1398ھ کو بیعت کیا اور فرمایا اب تم اس سلسلے میں ظاہراً داخل ہو گئے، اللہ کا نام لے کر وعظ و نصیحت کرتے رہا کرو۔ اس کے بعد آپ نے حضرت مولانا شیخ محمد زکریا قدس سرہ کے تربیت یافتہ اور خلیفہ ومجاز حضرت مولانا قاری امیر حسن صاحب ہردوئی سے اصلاحی تعلق قائم فرمایا، آپ حضرت قاری صاحب موصوف کے مجاز بالصحبت تھے۔
*مجلس درود شریف*
آپ کا معمول تھا کہ جمعرات وجمعہ کی درمیان شب میں بعد نماز عشاء درود شریف کی مجلس منعقد فرماتے جس میں منتہی درجات کے طلبہ شریک ہوتے، چہل درودشریف کی خواندگی کے بعد آپ کا مختصر بیان ہوتا اس کے بعد آپ کی رقت آمیز دعاء پر مجلس کا اختتام ہوتا تھا۔
*درس وتدریس*
دورہ حدیث اور افتاء سے فراغت کے بعد آپ نے سروٹ ضلع مظفر نگر سے اپنی تدریس کا آغاز فرمایا، تدریس اور وعظ ہر دو میدان میں آپ کو مقبولیت عامہ حاصل ہوئی، آپ حق گو تھے، افضل الجھاد کلمۃ حق عند سلطان جائر آپ کی زندگی کا امتیازی پہلو تھا چنانچہ قیام سروٹ کے زمانے میں 1977ء میں ایمرجنسی (لازمی نسبندی) کے خلاف بیانات دئے، وعظ فرمائے تو آپ کے خلاف وارنٹ گرفتاری مدرسہ پہنچ گیا تو ذمہ دارن مدرسہ نے آپ کو یہ کہہ کر گھر بھیج دیا کہ کہیں آپ کی وجہ سے مدرسہ پہ کوئی آنچ نہ آجائے چنانچہ آپ گھر آگئے، اس کے بعد آپ کا مدرسہ بیت المعارف الہ آباد میں تقرر ہو گیا، جہاں جلالین شریف،سلم ،میبذی وغیرہ پڑھائی۔
دو سال تک تدریسی خدمت انجام دینے کے بعد مدرسہ کے حالات کشیدہ ہو گئے خود نوشت ڈائری میں آپ نے لکھا ہے مولانا۔۔۔۔ صاحب نے خطرہ محسوس کیا کہ یہ رہے گا تو طلباء سے خدمت کی آزادی ختم ہو جائے گی، مدرسہ میں میری من مانی نہیں چلے گی، وسط رمضان میں خط لکھ دیا کہ آپ اپنا انتظام کر لیں جو 4اگست 1979ء مطابق 10 رمضان 1399ھ بروز ہفتہ ملا۔

*امیر شریعت کی خدمت میں*

29 اگست 1979ء مطابق شوال 1399ھ بدھ کو دفتر امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ سے خط آیا کہ امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی دامت برکاتہم نے مونگیر میں آپ کو ملاقات کے لیے بلایا ہے، آپ مونگیر گئے اور خانقاہ رحمانی میں امیر شریعت سے ملاقات ہوئی حضرت نے کچھ سوالات کئے آپ نے جواب دئے، مجلس میں مولانا محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ بھی موجود تھے، عصر کے بعد استفتاء دئے کہ ان کا جواب لکھ کر لاؤ، دوسرے دن سب کے جوابات پیش کر دئے، ایک استفتاء کا جواب آپ سے سنا اور فرمایا کہ جواب ٹھیک ہے (ماخوذ از خود نوشتہ ڈائری)

*جامعہ رسولی*(بارہ بنکی) میں تقرر

محدث دکن حضرت مولانا محمد انصار صاحب چمپانگری دامت برکاتہم (جو جامعہ مدینۃالعلوم رسولی میں تدریسی خدمات انجام دے چکے تھے) کی خدمت عالیہ میں حضرت مہتمم صاحب کی جانب سے جناب مولانا معراج الحق رحمۃ اللّٰہ علیہ استاد جامعہ ایک لائق و فائق استاد کے سلسلے میں تشریف لائے، حضرت نے آپ کی جانب اشارہ فرمایا چنانچہ آپ مولانا معراج الحق صاحب کی رفاقت ومعیت میں رسولی کے لیے روانہ ہوئے اور حضرت شاہ عبد الحق صاحب ردولوی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اقدس کی زیارت کرتے ہوئے یکم ستمبر 1979ء مطابق 8 شوال 1399ھ بروز ہفتہ رسولی پہنچے اور بوقت عصر حضرت مولانا شاہ عبد الغنی رحمۃ اللہ علیہ مجاز صحبت حضرت تھانوی قدس سرہ بانی و مہتمم جامعہ مدینۃالعلوم رسولی سے ملاقات اور گفت وشنید ہوئی۔ اور 350 روپے پہ آپ کا تقرر عمل میں آیا۔ پھر اسی رات رسولی سے گھر کے لیے روانہ ہو گئے اور ایک عشرہ کے بعد اپنے زیر تربیت رہنے والے بارہ طلبہ کے ساتھ 20 شوال 1399ھ مطابق 13 ستمبر 1979ء جمعرات کو اپر انڈیا ٹرین سے رسولی کے لیے روانہ ہوئے۔
جامعہ مدینۃالعلوم رسولی میں شوال 1399ھ سے شعبان 1404ھ تک پانچ سالہ مدت تدریس میں مختلف علوم و فنون کی اہم کتابیں مختصر المعانی،کافیہ،شرح جامی،سلم العلوم،ہدایہ آخرین، وغیرہ پڑھائی، راقم کو آنمخدوم کے پاس قصص النبیین،معلم الانشاء،اور کافیہ پڑھنے کا شرف حاصل ہے، حضرت والا کی محنت و تربیت سے معلم الانشاء کی تمرین کے ساتھ عربی زبان میں خطوط نویسی کا سلیقہ پیدا ہو گیا تھا۔ رسولی کے اطراف و اکناف میں آپ وعظ کے لیے بھی جایا کرتے تھے۔ جامعہ میں قیام کے دوران آپ حضرت مہتمم صاحب کے بہت قریب تھے اور حضرت مہتمم صاحب کو بھی آپ پہ بڑا اعتماد تھا۔۔

*مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی جونپور میں تقرر*

٣ربیع الاول 1404ھ بروز پیر حضرت مولانا شاہ عبد الغنی رحمۃ اللہ علیہ بانی و مہتمم جامعہ مدینۃالعلوم رسولی کا وصال ہوگیا اس کے بعد آپ نے بھی انتقال مکانی کا ارادہ فرمالیا، آپ فرماتے بڑے مولانا کی موجودگی میں جو لطف تھا وہ اب باقی نہیں رہا، آپ نے عارف باللہ حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندوی رحمۃ اللہ علیہ سے خط و کتابت کی حضرت نے ریاض العلوم گورینی کی جانب اشارہ فرمایا اور حضرت مولانا شاہ عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ بانی و مہتمم مدرسہ عربیہ ریاض العلوم کو حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اپنے یہاں بلا لینے کا ایماء فرمایا حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تحریری دعوت پر شوال 1404ھ میں گورینی پہنچے۔ پہلے سال آپ کو طحاوی شریف،بیضاوی شریف،ہدایہ ثالث،سلم،کافیہ پڑھانے کو ملیں، ریاض العلوم میں سال بہ سال آپ کو ترقی ملتی رہی، دورہ حدیث شریف کی اہم کتابوں کے ساتھ شعبہ تدریب افتاء کی گھنٹی آپ سے متعلق کر دی گئیں، راقم نے آپ سے اصول الکرخی اور ملتقی الابحر کا درس لینے کے ساتھ نکاح،طلاق،اوقاف،اور حظرواباحت کے تقریباً ڈیڑھ سو مسائل کی تمرین کی ہے۔

*تصنیف و تالیف*
ریاض العلوم کی 26 سالہ مدت قیام میں آپ نے وہاں کے ذخائر علمی سے معمور کتب خانہ خوب خوب استفادہ فرمایا، بیشتر تالیفات آپ نے ریاض العلوم ہی میں مرتب فرمایا جو منصئہ شہود پہ آکر عوام وخواص کی نفع رسانی کا باعث بنی ہوئی ہیں، بعض ذمہ دارن کتب خانہ نے اپنے حق میں حق طبع محفوظ کرانے کی کوشش کی لیکن آپ اس کے لیے تیار نہیں ہوئے، تصنیف و تالیف کے سلسلے میں آپ نے اس قدر محنت و جانفشانی فرمائی کہ قابل حیرت تھی، جس کی وجہ سے آپ ذیابیطس (شوگر) کے مریض ہو گئے جسم کے نحیف ولاغر ہو جانے کے باوجود آپ کی محنت و جانفشانی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور تادم واپسیں آپ کا تصنیفی وتالیفی سلسلہ جاری رہا۔

*آپ کی تالیفات*
آپ کی تالیفات میں سے آخر الذکر ایک رسالہ کے علاوہ سبھی زیور طبع سے مرصع ہو کر منصئہ شہود پہ آچکی ہے جن سے خلق کثیر کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اللہ آپ کی تالیفات اور علمی خدمات کو قبول فرماکر صدقۂ جاریہ اور ذخیرۂ آخر بنائے آمین۔

*آپ کی تالیفات حسب ذیل ہیں*
(١) شمائل كبرى ١٤ جلدوں میں
(٢) آداب الاعتكاف
(٣) الدعاء المسنون
(٤) التحليه في تحقيق التسميه
(٥) اللطائف المثمره في تحقيق الكلمات المشكله
(٦) تسهيل الفلسفه
(٧) كشف الظلام في تحقيق الالف واللام
(٨) راه فلاح (چالیس احادیث اور ان کی تشریحات)
(٩) کمیشن پر چندہ
(١٠) الحرز المسنون
(١١) تنوير الشعور
(١٢) علم نافع اور علماء ربانی کے اوصاف
(١٣) حج وعمرہ کی مسنون وماثور دعائیں
(١٤) سگریٹ نوشی، شریعت وعقل کی روشنی میں
(١٥) حسن سلوک کی فضیلت واہمیت
(١٦) سفر مسنون
(١٧) زاد الابرار(درودشریف کے دین ودنیا وی نفع و برکات)
(١٨) فتنہ ٹی وی عقل و شرع کے آئنے میں
(١٩) بهجةالدرر ( شرح نخبة الفكر)
(٢٠) اہل سنت والجماعت کون
(٢١) جنتی عورت
(٢٢) جمعہ کے فضائل و احکام
(٢٣) حفظ قرآن کی فضیلت اور حفاظ کرام کا مقام
(٢٤) تراویح کی رقم اور علماء کرام کا فیصلہ
(٢٥) دین ودنیا کی خوشحالی کیسے حاصل ہو
(٢٦) تاجرو! جنت کیسے جاؤگے
(٢٧) ارشاد اصول الحدیث
(٢٨) نيل الشمعة في فضائل الصلاة يوم الجمعة
(٢٩) احکام تعزیہ
(٣٠) خصائص يوم الجمعة
(٣١) رسالہ جواز الوسیلہ
(٣٢) رسالہ فن قیافہ
(٣٣) سنت کے مطابق نماز پڑھئے
(٣٤) مسجد کے فضائل و احکام
(٣٥) مسواک کے فضائل و احکام
(٣٦) فہرس مشکوۃالمصابیح ( غیر مطبوعہ)
*امتیاز وخصوصیات*
سادگی فضول خرچی سے اجتناب، حق گوئی،احقاق حق وابطال باطل میں لومۃ لائم کا عدم خوف،مشتبہ امور ومال سے اجتناب،معاملات کی صفائی،امور مفوضہ کی انجام دہی میں چابک دستی وتندہی،اوقات کی تنظیم و ترتیب،اصلاح بدعات و رسومات،دینی تعلیم کی نشر و اشاعت کی فکر اور جدوجہد،محنتی وذی استعداد طلبہ سے محبت وشفقت اور ان کی مالی امداد آپ کی خصوصی امتیازات تھیں۔
*اولاد*
آپ کو اپنی منکوحہ بیگم رشیدہ رعنا سے چھ اولاد ہوئیں۔
(١) ابوالمعالی حماد جو 6ستمبر 1980ء مطابق 24 شوال 1400ھ بروز شنبہ تولد ہوا جس کا نام ایک بزرگ ابو المعالی انبیٹھوی اور امام اعظم کے فرزند کے نام پر ابوالمعالی حماد رکھا گیا جو طویل عرصہ تک مریض رہ کر بھاگلپور سے رسولی لاتے ہوئے شہر بارہ بنکی کے سترکھ ناکہ پہ قبل مغرب 19 ذیقعدہ 1402ھ مطابق 8ستمبر 1982ء بدھ دو سال ایک دن شمسی اور دو سال 24دن قمری پورا کر کے مولیٰ حقیقی سے جا ملا اور رات بارہ بجے کے قریب رسولی کے قبرستان میں تدفین ہوئی۔
(٢) ام حبیبہ جس نے اپنے والد مرحوم سے قدوری تک کی تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کا عقد مسنون محمد ارشد ولد محمد اویس صاحب ناتھ نگر سے ہوا ہے جو صاحب اولاد ہے۔
(٣) ام کلثوم جس نے اپنے والد مرحوم سے نور الایضاح تک پڑھی ہے،جس کا عقد مسنون مولانا ضیاء الرحمن حلیمی صاحب ساکن سعادت گنج ضلع بارہ بنکی سے ہوا ہے۔
(٤) مولانا فضل اللہ جس نے تکمیل حفظ قرآن کر کے مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی سے سند فراغت حاصل کی۔
(٥) مولانا مفتی ذکراللہ جس نے تکمیل حفظ قرآن کر کے بعد مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی میں عربی پنجم تک کی تعلیم حاصل کر کے دارالعلوم دیوبند سے دورہ حدیث شریف کی تکمیل کی، اس کے بعد دارالعلوم دیوبند میں افتاء کی تعلیم حاصل کی۔
(٦) ام ہانی جو اپنے والد مرحوم کے پاس منہاج العربیہ، معلم الانشاء وغیرہ پڑھ رہی تھی کہ والد صاحب اپنے رب حقیقی کے جوار رحمت میں چلے گئے۔

*وفات وتدفین*
وفات سے ایک ہفتہ پہلے ذیابیطس کا لیول کافی بڑھ گیا تھا جناب ڈاکٹر محمد اسامہ صاحب کھیتا سرائے جونپور کا علاج چل رہا تھا لیکن طبیعت جاں بر نہ ہو سکی اور کمزوری بڑھتی رہی، ڈاکٹروں کے صلاح و مشورہ سے بہترین علاج کے لیے صدر ہسپتال جونپور لے جانے کا پروگرام بنا تو حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب دامت برکاتہم مہتمم مدرسہ عربیہ ریاض العلوم نے گاڑی کا نظم فرمایا، ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں مورخہ 11/شعبان المعظم 1430ھ مطابق 3/اگست 2009ء بوقت سات بجے صبح روح قفص عنصری سے پرواز کر گئی، جنازہ مدرسہ لایا گیا مدرسہ کے اہم اساتذہ کرام نے غسل کا فریضہ انجام دیا، بعد نماز ظہر مدرسہ کے وسیع صحن میں مہتمم صاحب موصوف نے نماز جنازہ پڑھائی۔ نماز جنازہ میں ہزاروں طلبہ عزیز اور اساتذہ کرام کے علاوہ اطراف و اکناف سے ایک جم غفیر نے شرکت کی۔
مدرسہ کے قبرستان میں حضرت مولانا شاہ عبد الحلیم صاحب قدس سرہ کی قبر اطہر کے قریب تدفین عمل میں آئی۔

*آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے*
*سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے*

اپنی راۓ یہاں لکھیں