مرثیہ فن اور ارتقاء

مرثیہ فن اور ارتقاء

مرثیہ کی لغوی تعریف

مرثیہ عربی زبان کا لفظ ہے یہ  لفظ رثیٰ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں مردے پر اس کے محاسن و خوبی بیان کر کے رونا۔

مرثیہ کی اصطلاحی تعریف

شعری اصطلاح میں مرثیہ اس نظم کو کہتے ہیں جو کسی محبوب شخصیت کی وفات پر  کہی جائے اور اس میں اپنے غم اور مرنے والے کی خوبیوں کا پر سوز  اور پر درد انداز میں تذکرہ کیا جائے۔ عام طور سے مرثیہ ایسے نظموں کو کہتے ہیں جن میں  حضرت امامِ حسن ،حسین اور دیگر شہدائے کربلا کی شہدات ذکر کیا جائے۔

اردو شاعری کی دیگر اصناف کی طرح مرثیہ بھی عربی شاعری سے براہِ فارسی اردو تک پہنچنے والی صنف سخن ہے۔ مرثیہ سب سے پہلے عربی زبان میں لکھی  گیا، متمم بن نویرہ اور خنساء عربی زبان کے اولین مرثیہ نگاروں میں سے ہیں۔(اردو مرثیہ نگاری،ص:۸)لیکن ڈاکٹر فرمان فتح پوری اس نظریہ سے اختلاف کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

” ہمارے اکثر اصنافِ سخن  غزل، قصیدہ، مثنوی وغیرہ عربی ،فارسی ادب سے مستعار لیے گئے ہیں لیکن مرثیہ ایسی صنفِ ادب ہے جسے ہم نے کسی دوسری قوم یا اس کے ادب سے نہیں لیا بلکہ اردو میں ہی اس کی  بنیاد پڑی اور اسی زبان میں نشو ونما پا کر درجہ کمال کو پہونچی”

مرثیہ اردو شاعری کا بیش بہا اور بیش قیمتی خزانہ ہے ، اس میں غزل کی سادگی، قصیدے کی شان و شوکت، مثنوی کا اندازِ بیان سب کچھ موجود ہے۔ آغاز میں مرثیہ کو  اتنی اہمیت نہیں دی جاتی تھی جتنی کی وہ مستحق تھی اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کی اس زمانہ میں شاعری عام طور سے شعراء کے ذاتی مفاد پر مبنی ہوتی تھی ، لوگ  مثنوی اور قصیدہ کی طرف زیادہ توجہ کرتے تھے کیونکہ  یہ اصناف حصول آمدنی  کے ذرائع تھے اور چونکہ مرثیہ کے اندر مردے کے محاسن و خوبی بیان کئے جاتے تھے  اور مردے سے کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچ سکتا، اس لیے اس  صنف کو عربی زبان میں کچھ خاص ترقی و عروج نہیں ملا۔

مرثیہ نگاری دکن میں

اردو زبان میں مرثیہ کی داغ بیل دکن کےعادل شاہی حکومت کے دوران پڑی اور قطب شاہی  ، نظام شاہی حکومتوں میں یہ پروان چڑھی۔ بہمنی دور کے حکمراں نہ صرف شعر و شاعری سے شغف رکھتے تھے بلکہ شعراء کے بڑے قدرداں تھے۔ یہ حکمراں مذہبِ شیعیت کے پیروکار تھے اس لیے مرثیہ سے ان کو خاصی دلچسپی تھی، مزید ایرانی علماء کی آمد  نے اس کی ترقی  میں اہم کردار ادا کیا۔ جگہ جگہ مجلسیں منعقد ہونے لگی ۔ حاکمِ وقت خود ان مجلسوں میں شریک ہوتا تھا، قطب شاہی دور میں اس صنف نے خوب ترقی کی ، قطب شاہی دور کا حکمراں محمد قلی قطب شاہ خود صاحبِ دیوان شاعر تھا اور مجلسوں میں شریک ہور کر مرثیہ خوانی کرتا تھا۔ قطب شاہ کا شمار دکن کے اولین مرثیہ نگاروں میں ہوتا ہے۔

نصیر الدن ہاشمی نوسرہار کے مصنف اشف بیابانی کو  اردو کا پہلا مرثیہ گو قرار دیتے ہیں جسے اشرف نے ۹۰۹ ھ میں تصنیف کیا تھا۔ ہاشمی صاحب کے اس قول پہ تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر مسیح الزماں اپنی کتاب “اردو مرثیہ کا ارتقاء” میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ نوسرہار کو پہلا مرثیہ قرار دینا درست نہیں ہے کیونکہ یہ ایک شہادت نامہ ہے، مرثیہ اور شہادت نامہ دونوں الگ الگ صنف  ہیں یہ اور بات ہے کہ موضوع بہت حد تک متحد ہیں اس لیے نوسرہار کو اردو کا پہلا مرثیہ کہنا درست نہیں۔

ڈاکٹر رشید موسوی کی تحقیق کے مطابق مرثیہ کے اولین نقوش دکن میں ملا وجہی اور محمد قلی قطب شاہ کے یہاں ملتے ہیں ،ان دونوں میں سے پہلے کس نے مرثیہ تحریر کیا اس کی کوئی تاریخی شہادت نہیں جس کے بنا پر کسی ایک کو اولیت کا شرف بخشا جائے۔

مرثیہ شمالی ہند میں

شمالی ہند میں مرثیہ گوئی بارہویں صدی ہجری میں شروع ہوئی۔ شمالی ہند کے اولین مرثیہ نگاروں میں سودا،مسکین،حزیں، غمگین، محمد تقی، نعیم علی قلی،ندیم، گدا، مہربان، عاجز،محب،جعفر علی حسرت، احد،صوفی اور سکندرکا شمار ہوتا ہے۔ شمالی ہند میں مراثی پہلے قصیدہ یا مربع کی ہیئت میں لکھے جاتے تھے، سودا پہلے ایسے شاعر تھے جہنوں نے مرثیہ کو مسدس کا جامہ پہنایا، لیکن شجاعت علی سندیلوی اس سے اختلاف کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں شمالی ہند میں مرثیہ کو  سب سے پہلے مسدس کی ہیئت میں لکھنے والا شاعر سکند ہے۔(اردو مرثیہ نگاری،ص:۱۵)

میر تقی میر نے بھی چند مراثی تحریر کئے لیکن ان کے مرثیوں کو وہ شہرت نہیں ملی جو ان کی غزلوں کو ملی۔ میر ضاحک، خلیق، ضمیر وغیرہ نے اس صنف کو مزید ترقی دی، مسعود حسین رضوی نے ضمیر کو انیس و دبیر کے لیے مرثیہ کی راہ ہموار کرنے والا بتایا لکھتے ہیں “اگر ضمیر نہ ہوتے تو نہ دبیر کا وجود ہوتا اور نہ انیس کا” (اردو مرثیہ نگاری،ص:۱۲)

ضمیر اور خلیق کے لگائے ہوئے شجر کی آب پاشی اور آب یاری مرثیہ کے سب سے بڑے شاعر میر انیس اور دبیر نے کی، ان دونوں حضرات نے فنِ مرثیہ گوئی کو بلندی کی اس انتہاء پر پہنچا دیا جہاں تک دوسری صنفوں کے لیے پہنچنا مشکل ہو گیا۔ لیکن بعد کے زمانہ میں مرثیہ گوئی کا تعلق ایک خاص طبقہ اور فرقے سے ہو گیاجس کی وجہ سے یہ صنف ایک مذہبی چیز سمجھی جانے لگی، شعراء نے اس کی طرف توجہ کرنا بند کر دیا دھیرے دھیرے اس صنف کی قبولیت کم ہونے لگی آج حالت یہ ہے کہ مرثیہ گوئی کے شاعر ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔

 مرثیہ کے اجزائے ترکیبی

مرثیہ کے اجزائے ترکیبی جن کا مرثیہ کے اندر ہونا ضروری ہے، جن کے بغیر کوئی مرثیہ مکمل نہیں ہو سکتا ہے حسبِ ذیل ہیں:

چہرہ

یہ مرثیہ کی تمہید ہوتی ہے، اس میں دنیا کی بے ثباتی ،صبح وشام کی منظر کشی، سفر کی تکالیف کا ذکر ، اپنی شاعری کی تعریف ، حمد، نعت، منقبت اور مناجات وغیرہ بطور تمہید کے بیان کئے جاتے ہیں۔

سراپا

اس میں مرثیے کا اصل کردار یعنی ہیرو کے اوصاف و کردار،خط و خال اور لباس وغیرہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔

رخصت

اس میں ہیرو کے میدانِ جنگ کی طرف روانگی اور اعزاء و اقرباء سے رخصت ہونے کا بیان ہوتا ہے۔

آمد

ہیرو کا عزم و استقلال کے ساتھ رزم گاہ میں آمد کا حال بیان کیا جاتا ہے۔

رجز

ہیرو  اپنے خاندان کی فضیلت و بزرگی بیان کرتا ہے ،فنِ جنگ میں ان کی مہارت کو بتلا کر دشمن کو جنگ سے باز رہنے کا مشورہ دیتا ہے۔

جنگ

ہیرو کا میدانِ جنگ میں بہادری اور دلیری سے لڑنا، گھوڑے، تلواراور دوسرے ہتھیاروں کی تعریف بلکہ پورے جنگ کی منظر کشی کی جاتی ہے۔

شہادت

یہ مرثیے کا نکتہ عروج ہوتا ہے اس میں ہیرو کا دشمنوں کے ہاتھوں زخمی ہو کر شہید ہونا بیان کیا جاتا ہے۔

بین

اس میں ہیرو کی نعش پر اس کے اعزاء کا نوحہ  و  گریہ و زاری کا منظر پیش کیا  جاتا ہے، شاعر اس کی منظر کشی کے لیے ایسے پردرد الفاظ کا انتخاب کرتا ہے کہ سننے اور پڑھنے والے کو بے اختیار رونا آجاتا ہے جو در اصل مرثیے کا مقصد ہے۔

دعاء

مرثیے کے اختتام پر شاعر اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہے۔

ماخذ:

اردو مرثیہ نگاری( ڈاکٹر ام ہانی اشرف)

اردو شاعری کا فنی ارتقاء (ڈاکٹر فرمان فتح پوری)

آئین اردو ( شیریں زادہ خد و خیل، مرتب عبدالصمد دہلوی)

تاریخ ادب اردو ( رام بابو سکسینہ)

اصناف ادب اردو ( ڈاکٹر قمر رئییس، ڈاکٹر خلیق انجم)

اپنی راۓ یہاں لکھیں