(رمضان سیریز: 13)
محبطاتِ صوم
(روزے کا ثواب ختم کرنے والے کام)
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
چند کام ایسے ہیں جن کی وجہ سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا، البتہ اس پر مرتب ہونے والے اجروثواب کاوعدہ مخدوش ہوجاتا ہے۔
(۱) روزے کے اجر کو غارت کر دینے والا پہلا کام فرض نمازوں کی عدمِ ادائیگی ہے۔ اس لیے روزے دار کو پنج وقتہ فرض نمازوں کوان کے ارکان وشرائط اور واجبات ومستحبات کے ساتھ عام مساجد میں ادا کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ روزہ کا اہم ترین مقصد تقوی ہے اور اس کا اولین اظہار نمازوں کی پابندی ومحافظت میں پنہاں ہے۔
نمازوں کو ضائع کرنا یا نماز کی ادائیگی میں لاپرواہی برتنا تقویٰ کے منافی اور موجب ِ عقوبت ہے۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے:{فَخَلَفَ مِن بَعْدِہِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوَاتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیّا٭إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً فَأُوْلَئِکَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ وَلَا یُظْلَمُونَ شَیْْئا} (مریم، ۵۹-۶۰) ’’پھر ان کے بعد وہ ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی، پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں۔ البتہ جو توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں اور نیک عملی اختیار کرلیں وہ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرہ برابر حق تلفی نہ ہوگی۔ ‘‘
نمازِ خوف (سورہ نسائ: ۱۰۲) کی مشروعیت اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ سخت سے سخت حالات میں بھی نماز کا اہتمام ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ عہد ِ صحابہؓ میں نماز کے ترک کو منافقت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں: ’’ہماری رائے تھی کہ نماز سے پیچھے وہی منافق ہٹ سکتا ہے جس کا نفاق مشہور ومعروف ہو۔ ‘‘ [ولقد رأیتنا وما یتخلف عنھا الّا منافق معلوم النفاق] (صحیح مسلمؒ:۱۵۲۰)
(۲) جملہ قولی وفعلی محرمات ومنہیات سے کامل اجتناب کرنا بھی ضروری ہے ورنہ آدمی کا روزہ بے سود ہوجاتا ہے۔ روزہ کے تعلق سے بعض حرام کاموں کے بارے میں سخت نکیر وارد ہوئی ہے:
الف) کذب بیانی اور دروغ گوئی۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’جو شخص جھوٹ بولنا، اس پر عمل کرنا اور جہالت کی باتوں کو ترک نہیں کرتا تو (وہ جان لے کہ) اللہ رب العزت کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ (اُس کی خاطر) اپنے کھانے پینے کو ترک کرے۔ ‘‘ [من لم یدع قول الزور والعمل بہ ولاجھل فلیس للہ حاجۃ فی أن یدع طعامہ وشرابہ] (صحیح بخاریؒ:۱۹۰۳)
ب) غیبت کرنا۔ غیبت کا مطلب ہے کسی کی غیر موجودگی میں اس کا اس انداز میں تذکرہ کیا جائے کہ اگر اسے معلوم ہوتو ناگوار گزرے۔ یہ ناپسندیدہ تبصرہ خواہ جسمانی عیوب پر کیا جائے مثلاً اندھا، بہرا، یک چشم وغیرہ کہا جائے یا اخلاقی ومعنوی عیوب پر کیا جائے مثلاً احمق، فاسق، پاگل وغیرہ کہا جائے، غیبت شمار ہوگا۔ بلکہ یہ بھی ضروری نہیں کہ ذکر کردہ عیب زیرِ بحث شخص میں پایا ہی جائے۔
’’اللہ کے رسولﷺ سے غیبت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا:غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کا تذکرہ اس طرح کرو کہ وہ اسے ناپسند کرے، آپﷺ سے کہا گیا کہ اگر وہ بات فی الواقع اس شخص میں موجود ہو؟ آپﷺ نے فرمایا:یہ غیبت تب ہی ہے جب کہ تمہارا قول اس کے بارے میں سچا ہو، بصورتِ دیگر تم نے اس پر بہتان باندھنے کا گناہ کیا ہے۔ ‘‘ [سئل عن الغیبۃ فقال:ذکرک أخاک بما یکرہ، قیل:أفرأیت ان کان فی أخی ما أقول؟ قال:ان کان فیہ ماتقول فقد اغتبتہ وان لم یکن فیہ ماتقول فقد بھتّہ] (صحیح مسلمؒ:۶۷۵۸)
قرآن کریم میں اس گناہ پرجس انداز میں نکیر کی گئی ہے وہ اپنے آپ میں سلیم الفطرت نفوس کے لیے درسِ عبرت وموعظت ہے۔ ارشادِ باری ہے:{وَلَا یَغْتَب بَّعْضُکُم بَعْضاً أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَن یَأْکُلَ لَحْمَ أَخِیْہِ مَیْْتاً فَکَرِہْتُمُوہُ وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ } (حجرات، ۱۲) ’’اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مَرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو تم خوداس سے گھن کھاتے ہو، اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔ ‘‘
ج) نمیمہ یاچغل خوری کرنا۔ نمیمہ کا مطلب ہے شخص ’الف‘ نے شخص ’ب‘ کے بارے میں جو تبصرہ کیا تھا کوئی سُننے والا جا کراُسے شخص ’ب‘ کے گوش گزار کر دے۔ یہ مکروہ عمل کبیرہ گناہوں میں سے ہے کیونکہ یہ چیز افراد اور معاشرے میں فساد پھیلانے کے مرادف اورتفریق بین المسلمین کا سبب بنتی ہے۔
ارشادِ باری ہے: {وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْنٍ٭ہَمَّازٍ مَّشَّاء بِنَمِیْمٍ } (قلم، ۱۰-۱۱) ’’ہرگز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا بے وقعت آدمی ہے، طعنے دیتا ہے، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے۔ ‘‘
اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’چغلیاں لگانے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ‘‘ [لا یدخل الجنۃ نمّام] (صحیح بخاریؒ: ۶۰۵۶۔ صحیح مسلمؒ:۳۰۳)
د) غش یا دھوکہ دھڑی کرنا۔ روزے دار کو چاہیے کہ اپنے جملہ تجارتی واخلاقی معاملات میں اس کبیرہ گناہ سے مکمل طور پر گریز کرے۔ غش کا وجود تجارتی امور مثلاً بیع وشرائ، اجارہ وصناعت اور رہن ومداینت میں بھی ہوتا ہے اور انفرادی واجتماعی امور میں پیش کیے جانے والے مشوروں اور ہدایات ونصائح میں بھی۔ اس کبیرہ گناہ کے عام ہونے سے معاشرہ میں باہمی تعاون واعتماد کی فضا ختم ہوجاتی ہے اور بندگانِ خدا کے رزق سے برکتیں اٹھا لی جاتی ہیں۔ اس مذموم طریقہ سے حاصل کی گئی کوئی بھی کمائی حرام اور رحمت ِ ربانی سے دور کرنے کا سبب ہوتی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’جو شخص بھی غش وفریب دہی کرے، اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ ‘‘ [من غش فلیس منا] (صحیح مسلمؒ:۲۹۵)
ھ) آلاتِ لہوو لعب سے شغل کرنا۔ موسیقی کے جملہ وسائل وآلات بذاتِ خود تو حرام ہیں ہی، لیکن ان کی حرمت اس وقت مزید سنگینی اور نحوست اختیار کر لیتی ہے جب ان کے ساتھ ہیجان انگیز اور خوشنما آوازوں کے نغمے بھی شامل کر لیے جائیں۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے:{وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ بِغَیْْرِ عِلْمٍ وَیَتَّخِذَہَا ہُزُواً أُولَئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ} (لقمان، ۶) ’’اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلامِ دلفریب خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے علم کے بغیر بھٹکادے اور اس راستے کی دعوت کو مذاق میں اُڑادے۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ ‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، حضرت جابرؓ بن عبد اللہ اور عکرمہؒ، سعیدؒ بن جبیر، مجاہدؒ، حسن بصریؒ وغیرہ اعلام صحابہؓ وتابعین نے آیت ِ بالا میں مذکور ’’لہو الحدیث‘‘ سے مراد غنا وموسیقی ہی کو لیا ہے۔ (تفسیر ابنِ کثیرؒ:۶/۳۳۰-۳۳۱)
اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’میری امت میں ایسے لوگ رونما ہوں گے جو زنا، ریشمی لباس، شراب نوشی اور آلاتِ غنا کو حلال کر لیں گے۔ ‘‘ [لیکوننّ أقوام من أمتی یستحلّون الحر والحریر والخمر والمعازف] (صحیح بخاریؒ: ۵۵۹۰)
آج ہمارے معاشرہ کی صورت حال کچھ ایسی ہی ہو گئی ہے۔ غنا وموسیقی کا وہ طوفانِ بدتمیزی ہرآن وہر جہت برپا ہے کہ خاصے اہلِ علم حضرات بھی اس کی حرمت وشناعت سے واقفیت کے باوجود اس سے متأثر نظر آرہے ہیں۔ واللہ المستعان۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔