محاسبئہ نفس اصلاح حال کا موثر و مفید ذریعہ
محمد قمرالزماں ندوی
استاذ/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد ۔قال اللّٰہ تعالیٰ ،، یاایھا الذین آمنوا اتقوا اللّٰہ و لتنظر نفس ماقدمت لغد اتقوا اللّٰہ ان اللّٰہ خبیر بما تعملون ۔
وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم
الکیس من دان نفسہ و عمل لما بعد الموت و العاجر من اتبع ھواھا و تمنی علی اللہ ۔( ترمذی / ابن ماجہ)
! دوستو بزرگو اور بھائیو
آج کے ماحول میں انسان کے لئے سب سے زیادہ ضروری یہ کہ ایمان کی مضبوطی کے ساتھ عمل صالح پر توجہ اور دھیان دے اور اپنے آپ کا،اپنے نفس کا اور اپنے اعمال و کردار کا محاسبہ کرتا رہے ،اپنے شب وروز اور زندگی کے نقل و حرکات پر خوب اور گہری نظر رکھے ۔
اپنی ذات اور زندگی سے بے خبر ہوکر صرف دوسروں کی فکر دوسروں پر نظر اور دوسروں کی اصلاح کی فکر کرنا یہ کوئی سمجھ داری اور عقلمندی کی بات نہیں ہے، سارے جہاں کی فکر اور اپنی جہاں سے بے خبر، یہ ماحول، زمانہ اور دور ہے، آج کا، اس لئے سب سے زیادہ ضروری ہے، کہ انسان خود اپنا بھی محاسبہ کرتا رہے، اپنی زندگی کا جائزہ لے اور اپنی کوتاہی، کم علمی، بے عملی اور بے راہ روی پر نظر رکھے اور اپنے اندر تبدیلی پیدا کرے۔ اپنی ذات اور اپنے نفس کا محاسبہ یہ ایمان والوں کا طریقہ ہے۔۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو فکر جس کو اپنی حالت کے بدلنے کی
حضرت مولانا محمد علی مونگیری رح کے بارے میں آتا ہے کہ ایک بار جمعہ کے دن جمعہ کی تیاری کرکے اپنے کمرے میں کچھ کاغذات وغیرہ دیکھ رہےتھے اور اس میں اتنا مصروف ہوگئے کہ پتہ نہیں چل سکا کہ کب جمعہ کی اذان ہوگئی، جب کام سے فارغ ہوئے تب تک تاخیر ہوچکی تھی، تیزی سے مسجد قبر مامو بھانجا کی طرف بڑھے، دیکھا جماعت ہوچکی ہے اور لوگ مسجد سے نکل رہے ہیں، مسجد کے دروازے پر گر پڑے اور بے ہوش ہوگئے، پوری زندگی اس کا صدمہ اور ملال رہا اور اپنے نفس کو کوستے رہے، اس طرح کے ہزاروں واقعات تاریخ کے صفحات میں درج ہیں۔
محاسبئہ نفس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے کئے ہوئے اعمال کا بھر پور اور سختی کے ساتھ حساب لے۔ اپنے اعمال و افعال کا جائزہ اور محاسبہ کرے ۔ یہ محاسبہ اور جائزہ و حساب اعمال کی کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے لینا ضروری ہے ۔ کمیت کے معنی یہ ہیں کہ اس پر کتنے کاموں کی ذمہ داری تھی اور اس نے کتنے کام انجام دیئے اور کیفیت کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح ان کاموں کو انجام دینا چاہیے تھا، اسی طرح انجام دئے ہیں یا کوتاہیاں ہوئی ہیں، یہ جائزہ اور محاسبہ ایمان والوں کو روزانہ کرنا چاہتے چاہیے ، قرآن مجید میں متعدد جگہ ایمان والوں کو اعمال و افعال اور اپنی زندگی کے شب و روز کے جائزے اور محاسبئہ نفس کا حکم دیا گیا ہے ۔
ایک موقع پر اللہ تعالٰی نے فرمایا :
یا ایھا اللذین آمنوا اتقوا اللہ و لتنظر نفس ما قدمت لغد و اتقوا اللہ ان اللہ خبیر بما تعملون
اے ایمان والو! اللہ تعالٰی سے ڈرو ہر شخص کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کل (قیامت) کے لئے کیا بھیجتا ہے اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے ۔
اس آیت کریمہ میں یہ دیکھنا اور اس پر غور کرنا کہ انسان نے کل قیامت کے لئے کیا بھیجا ہے اور کیا بھیج رہا ہے محاسبئہ نفس ہے، اس آیت، کریمہ میں محاسبئہ کے ساتھ شروع میں بھی تقویٰ کا حکم دیا گیا ہے اور آخر میں بھی تقویٰ کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا اور یہ پتہ چلا کہ جب تک انسان کے دل میں اللہ تعالٰی کا خوف اور خشیت نہ ہو گی وہ محاسبئہ نفس اور اپنے اعمال و افعال اور کردار و اوصاف کے جائزے کے لئے تیار اور آمادہ ہی نہیں ہوسکتا اور آیت کے اخیر میں دوبارہ تقویٰ اور طہارت نفس کا حکم دیکر اس طرف اشارہ مقصود ہے ،کہ محاسبہ اور اعمال کا جائزہ بھی انسان کو ڈرتے ڈرتے کرنا چاہیے ورنہ انسان کا نفس اتنا عیار اور مکار ہے کہ وہ سو بھیس بدلتا ہے اور طرح طرح کے بہانے اور عذر لنگ تراش کر انسان کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی احادیث میں بھی بے شمار جگہوں پر محاسبئہ نفس کا تذکرہ ملتا ہے ۔ شداد بن اوس رضی اللہ عنہ حدیث کے راوی ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم :صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
الکیس من دان نفسہ و عمل لما بعد الموت و العاجز من اتبع نفسہ ھواھا و تمنی علی اللہ ( ترمذی / ابن ماجہ)
دانا اور عقلمند وہ شخص ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور موت کے بعد کے لئے عمل کرے اور نادان وہ شخص ہے جو اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرے اور اللہ سے غلط آرزوئیں وابستہ رکھے ۔
شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ یہ حد درجہ نادانی اور ناسمجھی کی بات ہے کہ آدمی حق اور راستی کو چھوڑ کر پیروی تو باطل خواہشات کی کرے اور امید اس کی رکھے کہ خدا اسے آخرت میں درجئہ بلند اور رتبئہ عالی عطا فرمائے گا اور اسے طرح طرح کی نعمتوں اور اکرام و انعام سے نوازا جائے گا، حالانکہ آخرت کی کامیابی و کامرانی اور سعادت انہی لوگوں کے لئے ہے، جو ہر حالت میں اور ہر موقع پر اور زندگی کے تمام شعبوں اور گوشوں میں حق کے متبع ہوتے ہیں اور خواہشات نفس کے غلام نہیں ہوتے ۔
دنیا میں کیس اور چالاک و ہوشیار وہ سمجھا جاتا ہے، جو دنیا کمانے میں چست و چالاک ہو، خوب دونوں ہاتھوں سے دنیا سمیٹتا ہو اور جو کرنا چاہے کرسکتا ہو، اور بیوقوف و ناتواں وہ سمجھا جاتا ہے، جو دنیا کمانے میں تیز اور چالاک نہ ہو۔ اور دنیادار جو اس دنیوی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں، اور ان کو ایسا ہی سمجھنا چاہیے، رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں بتلایا کہ چونکہ اصل زندگی یہ چند روزہ زندگی نہیں ہے، بلکہ آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی ہی اصل ہے، اور اس زندگی میں کامیابی ان ہی کے لئے ہے، جو اس دنیا میں اللہ کی اطاعت اور بندگی والی زندگی گزاریں، اس لئے درحقیقت دانشمند اور کامیاب اللہ کے وہ بندے ہیں، جو آخرت کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں، اور جنہوں نے اپنے نفس پر قابو پاکر اس کو اللہ کا مطیع و فرمانبردار بنا رکھا ہے۔ اور اسکے برعکس جن احمقوں اور بیوقوفوں کا حال یہ ہےکہ انہوں نے اپنے نفس کو بندہ بنا لیا ہے اور وہ اس دنیوی زندگی میں اللہ کے احکام و اوامر کی پابندی کے بجائے اپنے نفس کے تقاضوں پر چلتے ہیں اور اس کے باوجود اللہ سے اچھے انجام کی امیدیں باندھتے ہیں، وہ یقینا بڑے نادان اور ہمیشہ ناکام رہنے والے ہیں ، خواہ دنیا کمانے میں وہ کتنے ہی ماہر ،تیز ، چست و چالاک اور پھرتیلے نظر آتے ہوں، لیکن فی الحقیقت وہ بڑے ناعاقبت اندیش، کم عقلے، اور ناکام و نامراد ہیں، کہ جو حقیقی اور واقعی زندگی آنے والی ہے، اس کی تیاری سے غافل ہیں اور نفس پرستی کی زندگی گزارنے کے باوجود اللہ سے خدا پرستی والے انجام کی امید رکھتے ہیں۔۔ (معارف الحدیث حصہ دوم جدید ص، ۳۲…..)
علماء کرام اور اہل علم نے محاسبئہ نفس کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا گیا ہے ،جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ۰۰ اس سے پہلے کہ قیامت میں تمہارا حساب کیا جائے اپنے نفس سے محاسبہ کرو اور اس سے پہلے کے میزان حشر میں تمہارے اعمال تولے جائیں، یہاں دنیا میں اپنے اعمال تولو، اور اللہ تعالی کے سامنے اس بڑی پیشی کے لئے اپنے آپ کو تیار کرو ،جب تم خدا کے سامنے پیش کئے جاو گے اور تمہاری کوئی چیز مخفی نہیں رہے گی ۔ ( ازالة الخفاء جلد دوم بحوالہ ماہنامہ زندگی رام پور اکتوبر ۱۹۷۲ء)
محاسبئہ نفس کا حاصل،خلاصہ ،لب لباب اور اس سے مقصود یہ ہے کہ انسان جس طرح کاروبار اور تجارت و بزنس میں اپنے خادم یا شریک اور پاٹنر کے ساتھ کوئی کام کرتا ہے، تو اس کے لئے کچھ اصول و ضوابط طے کرتا ہے ،پھر ان کی پابندی کرتا ہے اور ہمیشہ اس پر نظر رکھتا ہے اور آخر میں حسابی عمل اور آدیٹ کرتا ہے تاکہ معلوم ہو اور پتہ چلے کیا ابھی تک کیا کھویا اور کیا پایا کیا نفع ہوا اور کیا نقصان،؟ ٹھیک اسی طرح انسان کو اپنے نفس کا حساب لینا چاہیے کہ آج دن میں کتنی نیکیاں اور خیر کے کام ہوئے اور کتنی برائیوں اور خلاف شرع کاموں سے ،جن سے بچنا چاہئے تھا بچے اور اس سے اجتناب کیا ۔
ہم میں سے ہر شخص کو روزانہ یہ جائزہ لے کر اپنی زندگی گزارنی چاہیے ۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی زندگی میں ہم یہ اوصاف و کمالات کما حقہ پاتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اپنی زندگی کا محاسبہ کرتے تھے اور اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہتے تھے ۔ اس سلسلے کے سینکڑوں واقعات احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں ۔ صرف ایک دو واقعات قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔
حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ ایک دن اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے، اتنے میں ایک پرندہ اڑا اور باغ سے نکلنے کی جگہ تلاش کرنے لگا باغ اتنا گھنا تھا کہ اسے نکلنے کی کوئی جگہ نظر نہیں آرہی تھی ۔ ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو یہ منظر بڑا اچھا لگا اور وہ تھوڑی دیر تک پرندے کو ادھر ادھر پرواز کرتے دیکھتے رہے ۔ پھر جب اپنی نماز کی طرف متوجہ ہوئے تو یہ بھول گئے کہ انہوں نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں ۔ اب انہیں احساس ہوا کہ وہ اپنے باغ کی وجہ سے ایک فتنہ میں مبتلا ہوگئے ۔ نماز سے فارغ ہوکر وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ کہہ سنایا اس کے بعد کہا یا رسول اللہ! وہ باغ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے آپ جہاں چاہیں اسے صرف (خرچ) فرمائیں ۔
ایک بار حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی نماز عصر کی جماعت فوت ہو گئی، اس کے کفارے میں انہوں نے اپنی ایک قیمتی زمین صدقہ کردی ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حال یہ تھا کہ جب رات ہوتی تو اپنے قدم کو درے پر رکھتے اور اپنے نفس سے کہتے کہ آج تو نے کیا کیا ہے؟ ۔
اگر کبھی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی نماز عشاء کی جماعت چھوٹ جاتی تو وہ رات بھر عبادت کرتے ۔
ایک بار حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اتنی دیر میں نماز مغرب ادا کرسکے کہ ستارے نکل آئے تھے اس کے کفارے میں انہوں نے دو غلام آزاد کئے ۔
حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک بار ان کی تہجد کی نماز قضا ہوگئی تو وہ سال بھر تک زیادہ جاگ کر اس کی تلافی کرتے رہے ۔ (مستفاد ماہنامہ زندگی رام پور اکتوبر ۱۹۷۲ء)
اللہ تعالٰی ہم سب کو محاسبئہ نفس کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ آج پوری دنیا میں جو فساد اور انارکی پھیلی ہوئی ہے اس کی ایک اہم اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم میں کوئی بھی اپنے دامن کو نہیں دیکھتا، ایک لمحہ بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کے لئے تیار نہیں، ہم میں سے ہر شخص کی نظر دوسروں کی برائی اور خرابی پر رہتی ہے ۔ جب کہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہم خود اپنے آپ کی اصلاح کریں ۔
آج اگر دنیا میں اس پر عمل ہوجائے تو دنیا میں امن و سکون کا ماحول نظر انے لگے اور امیر و غریب چھوٹے اور بڑے طاقتور اور کمزور گورے اور کالے سب کے مسئلے حل ہوجائیں ۔ بس شرط یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے،اپنی زندگی کا جائزہ لیتا رہے،اور اپنے اعمال کا حساب کرتا رہے اور خدائی اصول و ضوابط پر عمل کرنا شروع کر دے ۔
لیکن افسوس کہ آج ہمارے اندر سے اپنی ذاتی زندگی کا محاسبہ اور اپنی زندگی کا جائزہ اور اپنے شب و روز کے عمل پر نظر ،یہ عمل ختم ہوچکا ہے اور ہم صرف دوسروں کی تنقیص اور تحقیر کو اپنا شیوہ بنا چکے ہیں ۔ عام لوگوں کو تو جانے دیجئے بعض بہت ہی پڑھے لکھے قابل اور انتہائی باکمال کہے جانے والے حضرات بھی اپنی ذات اور اپنی زندگی سے بےخبر ہوکر دوسروں کی تنقیص اور تحقیر میں مست ہیں ،بعض تو اپنے منفی علم و تحقیق میں اتنے بے راہ رو ہوگئے ہیں کہ وہ حضرات صحابہ کرام کو (نعوذ باللہ) منافق ٹہرا رہے ہیں اور ان میں سے بعض کو درباری عالم تک کا لقب دے رہے ہیں ۔ جس روشن اور مبارک ہستیوں اور روشن ومنور طبقہ کے ذریعہ اور واسطہ سے ہمیں دین ملا ،شریعت ملی ،جو دین کے اولین مرجع و مصدر کی حیثیت رکھتے ہیں ،جنہیں رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ کا خطاب لقب اور تمغہ ملا ،انہی کو مشکوک ٹہرا رہے ہیں اور انہیں بدنام کررہے ہیں ،ان کی تنقیص کر رہے ہیں ۔۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے لوگوں سے اور ان کی منفی فکر سے محفوظ رکھے اور ان کے سائے سے بھی ہم سب کی حفاظت فرمائے ، وقت بہت نازک ہے ،باطل بہت مضبوط ہورہا ہے اور ہماری صفوں میں حق اور تحقیق کا نام لے کر انتشار پیدا کررہا ہے ۔۔ اس لئے ضرورت ہے کہ اہل اللہ کی صحبت میں رہ کر اور ان سے تعلق بنا کر اپنی زندگی کا جائزہ لیتے رہیں اور صحیح اور غلط کی تمیز کرنا سیکھیں ۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے آمین