مثنوی” گلزارِنسیم” (قصہ گلِ بکاؤلی)

مثنوی گلزارِ نسیم(قصہ گلِ بکاؤلی)

پنڈت دیاشنکر نسیم

اردو ادب میں جن دو مثنیوں نے سب سے زیادہ مقبلویت حاصل کی ان میں سحرالبیان اور گلزارِ نسیم کا شمار ہوتا ہے۔گلزارِ نسیم “جسے قصۂ گل بکاولی “کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس مثنوی کے تخلیق کار نسیم ہیں۔ آپ کا پورا نام پنڈت دیاشنکر نسیم تھا۔ آپ نسیم تخلص کرتے تھے۔ آپ پنڈت گنگاپرساد کنول کے لڑکے تھے۔آپ کی پیدائش 1227ھ مطابق 1811ء میں لکھنؤ میں ہوئی۔ آپ کے اجداد کا تعلق کشمیر کے پنڈت گھرانے سے تھا۔آپ نسلاً کشمیری پنڈت تھے۔آپ کے آباء کشمیر سے ہجرت کر کے لکھنؤ آگئےاور یہیں سکونت اختیار کر لی۔نسیم نے اس وقت کے مروجہ تعلیم کے مطابق اردو فارسی کی تعلیم حاصل کی اور کم عمری میں ہی ان دونوں زبانوں پہ اچھی پکڑ حاصل کر لی۔شعر گوئی کا ذوق عہدِ طفلی سے ہی تھا۔اس زمانے میں لکھنؤ میں ناسخ اور آتش کی شاعری کا ڈنکا بج رہاتھا،نسیم نے آتش کی شاگردی اختیار کر لی اور اپنی خدا داد صلاحیتوں کی بناء پر کم عمری میں ہی شعر و شاعری میں کمال پیدا کیا۔ محض اٹھائیس سال کی عمر میں 1254ھ  مطابق 1839ء میں” گلزارِ نسیم” جیسی شاہکار مثنوی تحریر کر دی۔ نسیم نے یہ مثنوی سحرالبیان کے جواب میں تحریر کی تھی۔نسیم نے بہت کم عمر پائی محض 34 سال کی عمر میں 1260ھ مطابق1845ء میں لکھنؤ میں آخری سانسیں لی۔

ماخذ گلزارِ نسیم

قصۂ گلزارِ نسیم(قصۂ گلِ بکاولی) کو سب سے پہلے عزت اللہ بنگالی نے 1134ھ مطابق 1721-22 ء میں فارسی نثر میں تحریر کیا تھا۔1217ھ مطابق 1803ء میں منشی نہال چند لاہوری نے ڈاکر گلکرسٹ کی فرمائش پراسے مذہبِ عشق کے نام سے اردو نثر میں منتقل کیا۔ نسیم نے مذہبِ عشق کے قصے کو بنیاد بنا کر کچھ حذف و اضافے کے ساتھ گلزارِ نسیم کے نام سے تحریر کی۔ یہ مثنوی پہلی مرتبہ 1260ھ مطابق 45-1844ء میں طبع ہو کر شائع ہوئی۔ 1905ء میں پنڈت برج نرائن چکبست کے گلزارِ نسیم کا ایک ایڈیشن مرتب کر کے اپنے مقدمے کے ساتھ شائع کیا۔ چکبست کے اس ایڈیشن پر بے شمار اعتراضات کیے گئے ۔ متعرضین میں مولانا عبد الحلیم شرر بھی تھے۔ چکبست نے تمام اعتراضات کے جواب دیے ۔ شرر اور چکبست کے ان مباحثوں نے بہت طول کھینچااور یہ تنقیدی مضامین ایک عرصے تک اودھ پنچ اخبار میں معرکۂ چکبست و شرر کے نام سے شائع ہوتا رہا۔

گلزارِ نسیم کی نمایاں خصوصیات

ڈاکٹر فرمان فتح پوری تحریر کرتے ہیں” گلزارِ نسیم طبع ہوتے ہی اس کا نام سحر البیان کے مقابلے میں اور نسم کا نام میر حسن کے نام کے ساتھ لیا  جانے لگا۔ حقیقت یہ ہے کہ لکھنؤی دبستانِ شعر کی یہ پہلی طویل نظم ہے جو مثنوی اور قصہ دونوں کے فن پر بڑی حد تک پوری اترتی ہے۔ اس میں کردار نگاری، جذبات کی مصوری اور تسلسلِ بیان کی کم و بیش وہ تمام خوبیاںموجود ہیں جو ایک افسانوی مثنوی کیلئے ضروری خیال کی جاتی ہے۔ لیکن اس کی دلکشی کا راز دراصل اس کی رنگینیِ بیان معنی آفرینی،کنایاتی اسلوب، لفظی صناعی اور ایجاز نویسی میں مضمر ہے”۔(اردو شاعری کا فنی ارتقاء،ص:193)

سحرالبیان اور گلزارِ نسیم ان دونوں مثنیوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ ان کا آپسی تقابل نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ بعض چیزوں میں سحرالبیان کو فوقیت حاصل ہے تو بعض میں گلزارِ نسیم سبقت لے جاتی ہے۔ مثلاً سحرالبیان کی زبان صاف اور سلیس ہے۔ اس میں فصیح اور عام محاورے استعمال کیے گیے ہیں جسے ہر خاص و عام بآسانی سمجھ لیتا ہے۔ جبکہ گلزارِ نسیم کی راہ بالکل مختلف ہے۔ اس میں ہر مضمون کو تشبیہ اور استعارے کا لباس پہنا کر قاری کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ اس کی اصل خوبی اس کا ایجاز و اختصار ہے۔ مثنوی میں جا بجا اشاروں و کنایوں  گفتگو کی گئی ہے۔ باوجودیکہ اس کی زبان فصیح اور کلام ششتہ  و پاک ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایجاز و اختصار کی وجہ سے کہیں کہیں اغلاق و پیچیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ لیکن ایسی جزوی خامیوں سے سحرالبیان بھی پاک نہیں۔

ڈاکٹر عبد القادر سروری تحریر کرتے ہیں” اس مثنوی کی سب سے نمایان خوبی اس کا صنعت گرانہ اندازِ بیان ہے، جس میں چھوٹی سے چھوٹی بات بغیر کسی لطف کے التزام کے نہیں کہی جاتی۔ اس کے استعاروں اور تشبیہوں کی ندرت، محاوروں اور صنعتوں کا لطف، ایجاز اور شعریت اسی کے ساتھ مخصوص ہو گئے ہیں۔ اس اسلوب کی مثنوی دوسری نہیں ملتی۔ یہ حقیقت میں حسن کاری کا ایک خاص انداز ہے”۔(اردو مثنوی کا ارتقاء، ص:117) یہ  مثنوی پہلے کافی طویل تھی۔ استاذ آتش کے کہنے  پر نسیم نے اس کی بے جا طوالت کو دور کیا۔ا ور ایسا دور کیا کہ گلاب سے عرق نچوڑ لیا۔ یہ مثنوی بحر ہزج مسدس اخرب مقبوض یا محذوف یعنی مفعولن مفاعلن فعولن میں تحریر کی گئی ہے۔ دیگر مثنویوں کی طرح اس میں بھی مافوق الفطرت عناصر کی بھرمار ہے۔

خلاصہ قصۂ گلزارِ نسیم(گلِ بکاولی)

مشرق میں سلطان زین الملوک نامی ایک بادشاہ تھا۔ اس کے چار بیٹے تھے۔ پانچواں بیٹا تاج الملوک پیدا ہوا تو جنومیوں نے پیشن گوئی کہ اگر سلطان کی نظر اس پہ پڑی تو اس کی بینائی جاتی رہے گی۔تاج الملوک کی سلطان کی نظروں سے چھپا کر  پرورش کی جانے لگی۔ایک دن اتفاقاً باپ بیٹے کا سامنا ہو گیا۔ نجومیوں کی پیشن گوئی کے مطابق سلطان کی آنکھیں بے نور ہو گئیں۔ایک طبیب نے بتایا کہ گلزارِ ارم میں بکاولی نامی ایک پھول ہے اگر وہ آنکھوں سے مس کرایا جائے تو امید ہے کہ روشنی لوٹ آئے۔چاروں بیٹے گلِ بکاولی کی جستجو میں نکلے اور پہلی ہی منزل پہ دلبر بیسوا نے انہیں چوسر میں ہراکر قید کر ڈالا۔ پھر تاج الملوک گل کی تلاش میں نکلا اور دلبر بیسوا کو ہر اکر آگے بڑھا پھر ایک دیو سے مقابلہ ہوا اسے شکست دی۔ دیو کی بہن حمالہ دیونی نے اس کی مدد کی اس کی بنائی ہوئ سرنگ کے ذریعہ تاج الملوک گلزارِ ارم پہنچااور گلِ بکاولی توڑ لایا۔واپسی میں تاج الملوک کی ملاقات اس کے بھائیوں سے ہوئی ۔ بھائیوں نے دھوکے سے پھول تاج الملوک سے چھین لیا اور پھول لیکے سلطان کے پاس آئے۔ پھول سلطان کی آنکھوں سے لگایا گیاسلطان کی بینائی واپس لوٹ آئی۔

ادھر جب بکاولی نے گلزارِ ارم سے پھول کو غائب پایا تو بہت گھبرائی ۔ چور کا پتہ لگاتے لگاتے وہ سلطان کے دربار تک پہنچی اور مرد کی صورت اختیار کر کے اس کی وزیر بن گئی۔دوسری طرف تاج الملوک شہر کے جوار میں ہی طلسم کی زور سے گلشن نگاریں بنا کر رہنے لگا۔ لیکن یہ راز زیادہ دنوں تک راز نہ رہ سکا۔بکاولی بھی یہ جان گئی اصل پھول کو چرانے والا تاج الملوک ہے۔ وہ اس کی بہادری سے متاثر ہو کر اس پہ دل ہار بیٹھی۔دونوں گلزارِ ارم میں عیش و عشرت سے رہنے لگے۔ بکاولی کی ماں جمیلہ پری جب ان سارے معاملات باخبر ہوئی تو اس نے بکاولی کو قید کر دیا اور تاج الملوک کو  طلسمی صحراء میں دور کہیں پھینکوا دیا۔ تاج الملوک نے تمام مصائب و آلام کا دلیری اور بہادری سے مقابلہ کیا اور طلسم سے رہائی حاصل کی۔بالآخر دونوں کی شادی ہو گئی اور دونوں ساتھ گلشن نگاریں میں آکر رہنے لگے۔

بعد میں اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہےکہ بکاولی اندر لوک کی پری ہے۔ وہ ہر رات اندر لوک پہنچتی اورتاج الملوک کے بیدار ہونے سے پہلے واپس آجاتی۔تاج الملوک نے یہ محسوس کیا اور ایک رات پکھاجی بن کے بکاولی کے ساتھ اندر لوک پہنچ گیا۔ بکاولی نے اس رات بہت ہی عمدہ رقص کیا جس سے خوش ہو کر راجا اندر  اسے منہ مانگا  انعام دینے  کا وعدہ  کر بیٹھا۔ بکاولی نے تاج الملوک کے ساتھ زندگی گزارنے کی اجازت مانگی۔ یہ سن کر راجہ غصہ ہو گیا اور بکاولی کو نصف پتھر کا بنا کر ایک مٹھ میں قید کر دیا۔

کچھ عرصہ کے بعد راجہ  چترسین کی بیٹی چتراوت بھی تاج الملوک پر عاشق ہو گئی۔  تاج الملوک کا روز روز مٹھ جانا اور بکاولی سے باتیں کرنا چتراوت کو ناگوار گزرا اور اس نے مٹھ کو منہدم کروا دیا۔ انہدام کے بعد اس زمیں میں سرسو کا پودا نکلا جس کے تیل سے ایک کسان کی بیوی حاملہ ہوئی۔ اور بکاولی نے نیا جنم لیا دہقان کے گھر بڑی ہوکر دوبارہ تاج الملوک سے ملی۔ اس طرح دونوں دوبارہ ایک دوسرے سے ملے۔

مثنوی کے اہم کردار

زین الملوک: شاہِ مشرق جس کے پانچ رہتے ہیں۔

تاج الملوک: زین الملوک کا پانچواں اور اس مثنوی کا ہیرو۔

بکاؤلی: تاج الملوک کی معشوقہ اور اس مثنوی کی ہیروئن۔

فرخ: بکاؤلی ہی کا دوسرا کردار ہے، جو شکل بدل کر زین الملوک کے دربار میں وزیر کے عہدے پر فائز ہوتی ہے۔

جمیلہ پری: بکاؤلی کی ماں۔

فیروز: بکاؤلی کا باپ۔

سمن پری،روح افزا:بکاؤلی کی سہیلیاں۔

بہرام: تاج الملوک کے وزیر کا لڑکا جو روح افزا پری پر عاشق ہو جاتا ہے۔

حسن آرا: روح افزا کی ماں۔

محمودہ: حمالہ(دیونی) کی منہ بولی بیٹی۔

راجا اندر: اس مثنوی کا ویلین، جو اپنی بدعاء سے بکاؤلی کا نصف جسم پتھر کا بنا دیتا ہے، بکاؤلی اسی کے دربار کی رقاصہ رہتی ہے۔

حمالہ: جس کی مدد سے تاج الملوک براستہ سرنگ گلزارِ ارم تک پہنچتا ہے،جہاں سے گلِ بکاؤلی توڑنے میں کامیاب ہوتا ہے۔

راجہ چترسین:چتراوت(جو تاج الملوک پر عاشق ہو جاتی ہے)کا باپ۔

دلبر بیسوا: جو تاج الملوک کے چاروں بھائیوں کو جُوے میں ہرا کر اپنا غلام بنا لیتی ہے۔

ساعد: دلبر بیسوا کا غلام۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں