مثنوی کدم راو پدم راو
(فخرالدین نظامی بیدری)
از قلم: احمد
نام و نسب
تاریخ کے اوراق فخرالدین نظامی کی حالاتِ زندگی سے کورے ہیں۔ چند مخطوطوں کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ان کا نام فخرالدین اور نظامی تخلص تھا۔ نظامی نے اپنی مثنوی میں کئی جگہ نام اور تخلص ساتھ ساتھ استعمال کیا ہے مثلاً:
سنو فخرِدیں اب کسی سنور سے
کہ بن دوِس دھن پر ہری دکھ لاو
نظامی دھرم دُکھ کیوں راو دے
کہ پت درت گن بات دھن سو گئے
مثنوی کدم راو پدم راو
مثنوی کدم راو پدم راو کو اردو زبان کی پہلی مثنوی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہ مثنوی احمد شاہ بہمنی کے عہد حکومت میں لکھی گئی۔ نظامی نے اسے ۸۲۵ھ مطابق ۱۴۲۱ء سے ۸۳۹ھ مطابق ۱۴۳۵ء کے درمیانی مدت میں تصنیف کی۔ سب سے پہلے جمیل جالبی نے اسے ایک طویل مقدمے کے ساتھ ۱۹۷۳ء میں ترتیب دیا،جسے انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی کی طرف سے شائع کیا گیا۔
مثنوی کی ہیئت اور اسلوب
یہ مثنوی فعولن فعولن فعولن فعل کی ہیئت میں لکھی گئی ہے۔ جمیل جالبی کی تحقیق کے مطابق اس میں اشعار کی تعداد ۱۰۳۲ ہے اور ۱۰۳۳ واں شعر نا مکمل ہے۔ دیگر مثنویوں کی طرح اس میں بھی حسب قاعدہ پہلے حمد پھر نعتِ نبی ﷺ اور اخیر میں بہمنی سلطنت کی مدح میں اشعار ہیں، اس کے بعد قصے کا آغاز ہوتا ہے۔
خلاصہ قصہ مثنوی کدم راو پدم راو
قصے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ:
ایک دن راجا کدم راو ایک اعلیٰ ذات کی ناگن کو دیکھتا ہے کہ وہ ایک ادنیٰ سے سانپ سے جوڑ کھا رہی ہے۔ یہ دیکھ کر راجا کدم راو غصے سے آگ بگولا ہو جاتا ہے کہ ایک اعلیٰ ذات کی ناگن ایک معمولی سانپ سے کیسے جوڑ کھا سکتی ہے۔ راجا تلوار سے سانپ کو قتل کر دیتا ہے، اس ضرب میں ناگن کی دم بھی کٹ جاتی ہے لیکن وہ زندہ بچ کر بھاگ جاتی ہے۔
کدم راو اس واقعے سے غمزدہ اور پژمردہ محل آکر چپ چاپ سو جاتا ہے۔ رانی کے بہت اصرار پر سارا ماجرا سناتا ہے اور کہتا ہے کہ عورت ذات سے وفا کی امید نہیں کی جا سکتی۔ رانی اسے بہت سمجھانے کی کوشش کرتے ہے کہ ساری عورتیں ایک جیسی نہیں ہوتی۔ لیکن راجا پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
کدم راو دنیا سے متنفر ہوکر جوگیوں کی صحبت اختیار کرنا چاہتا ہے۔ پدم راو سے کسی باکمال جوگی کو ڈھونڈنے کا حکم دیتا ہے۔ اسکے بعد اگھورناتھ نامی جوگی سے راجا کی ملاقات ہوتی ہے، جو لوہے کو سونا بنانے کا ہنر جانتا ہے۔ راجا اسے بیش قیمتی انعام و اکرام سے نوازتا ہے اور یہ فن سکھانے کی درخواست کرتا ہے۔ اگھورناتھ راجا کو دھنوربید اور امر بید( نقل روح کا منتر) کی تعلیم دیتا ہے۔ جوگی اگھورناتھ راجا سے یہ عہد لیتا ہے کہ وہ یہ ہنر کسی دوسرے کو نہیں سکھائےگا۔
اگھورناتھ راجا سے ایک جانور لانے کو کہتا ہے۔ راجا ایک طوطا لاتا ہے جسے رانی نے بڑے ناز و پیار سے پالا رہتا ہے۔ اگھورناتھ طوطے کو مار ڈالتا ہے اور اپنی روح اس کے جسم میں منتقل کر لیتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد پھر اپنی اصلی ہیئت میں واپس آجاتا ہے۔ یہ دیکھ کر راجا حیران و ششدر رہ جاتا ہے اور پہلے سے زیادہ جوگی کا معتقد ہو جاتا ہے۔
راجا سے عہد لینے کے بعد جوگی امر بید(نقل روح) کا منتر راجا کو سکھا دیتا ہے۔راجا اس منتر کو آزمانے کیلئے جیسے ہی اپنی روح طوطے کے جسم میں منتقل کرتا ہے جوگی اپنی روح راجا کے جسم میں منتقل کر لیتا ہے اور راجا بن کر حکومت کرنے لگتا ہے۔ بے چارہ راجا طوطا بن کر در بدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ ایک دن اڑتے اڑتے اپنے محل آتا ہے اور پدم راو کے پاس آکر اپنے بارے میں بتانے کی کوشش کرتا ہے۔ پدم راو کو یقین دلانے کیلئے راجا(بشکل طوطا) ایسی ایسی راز کی باتیں بتاتا ہے جو کدم راو اور پدم راو کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جانتا۔ جب پدم راو کو یقین ہو جاتا ہے تو راجا سارا واقہ سناتا ہے۔
ایک رات جب اگھورناتھ سو رہا ہوتا ہے تبھی پدم راو آکر اس کے انگوٹھے میں ڈس لیتا ہے، جس سے اس کی موت ہو جاتی ہے۔ راجا کدم راو امر بید کی مدد سے اپنی روح طوطے سے اپنے اصلی جسم میں منتقل کر لیتا ہے اور حکومت کی باگ ڈور دوبارہ سنبھال لیتا ہے۔ اس خوشی میں چھ مہینے تک جشن و سرور کی مجلسیں منعقد کی جاتی ہے۔
کردار
اس مثنوی کے کردارحسب ذیل ہیں:
پدم راو: اس مثنوی کا سب سے جاندار کردار جو کدم راو کا وزیر رہتا ہے۔ جس کے سر پر پدم بھی موجود ہے۔
کدم راو: ہیرا نگر کا راجہ جسے اگھورناتھ دھوکے سے طوطا بنا دیتا ہے۔
اگھورناتھ: جوگی جو راجا کے جسم میں اپنی روح منتقل کر کے حکومت کرنے لگتا ہے۔
رانی:راجا کدم راو کی بیوی جو باوفا اور شوہر پرست خاتون رہتی ہے۔
نوٹ:۔ یہ مضمون نیٹ جے آر ایف،سیٹ،ٹیٹ وغیرہ امتحان میں پوچھے جانے والے سوالوں کے پیش نظر تیار کیا گیا ہے۔ اس طرح کے مزید مضامیں حاصل کرنے کیلئے لال رنگ کے گھنٹی والے نشان کو دبا کر ہماری ویب سائٹ ’’علم کی دنیا ‘‘ ilmkidunya.in کو سبسکرائب کر لیں تاکہ ہماری ہر اپڈیٹ آپ تک بذریعہ Notification پہنچ جائے۔ والسلام