مثنوی کا فن اور ارتقاء
(پہلی قسط)
تحریر : احمد
لغوی معنی
مثنوی عربی زبان کے لفظ مثنٰی سے نکلا ہے جس کے معنی دو دو کے ہیں۔
اصطلاحی معنی
اصطلاح میں مثنوی ایسے طویل نظم کو کہتے ہیں جس میں کوئی قصہ یا کوئی واقعہ تسلسل کے ساتھ بیان کیا گیا ہو اور جس کے ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوں۔ دو دو ہم قافیہ مصرعوں کی رعایت کی وجہ سے اس صنف کا نام مثنوی رکھا گیا۔ یہ ایک بیانیہ صنف ہے۔ اس میں ہر شعر کے بعد قافیہ بدلتا رہتا ہے۔
موضوع
موضوع کے لحاظ سے مثنوی کا دامن بہت وسیع اور کشادہ ہے۔ ڈاکٹر گیان چند جین احسن مارہروی کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’جذباتِ انسانی، مناظرِ قدرت، تاریخی واقعات جس خوش اسلوبی اور روانی سے مثنوی میں سما سکتے ہیں ان کی اتنی گنجائش کسی صنفِ سخن میں نہیں۔ زندگی کے تمام شعبے سوانح رزمیہ ہوں یا تاریخی، عشقیہ ہوں یا اخلاقی، فلسفیانہ ہوں یا افسانہ غرض کے تخلیل کی کھپت مثنوی میں ہوتی ہے‘‘۔(اردو مثنوی شمالی ہند میں:ص.۵۶) شاعری کے دوسرے اصناف اس تقاضے کو پورا نہیں کر سکتے۔
مثنوی کے مضامین
مثنوی اپنی خوبی اور خصوصیات کے لحاظ دیگر اصنافِ شعری کے مقابلے میں ایک انفرادی مقام رکھتی ہے، کیونکہ اس میں ایک طویل مضمون اور مربوط خیال کو بآسانی ضبطِ تحریر میں لایا جا سکتا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی مرحوم لکھتے ہیں ’’اردو شاعری کی تمام اصناف میں سب سے زیادہ بکار آمد صنف مثنوی ہے۔ اس میں ظاہری اور معنوی ہر اعتبار سے بلند پایہ شاعری کے تمام لوازم موجود ہیں‘‘۔
مثنوی کے مضامین
مثنوی کیلئے، مضامین کی کوئی تخصیص اور تحدید نہیں۔ اس میں ہر طرح کے مضامین سما سکتے ہیں۔ مثنوی کا اصل مقصد واقعہ نگاری ہے۔ اور واقعات تاریخی بھی ہوتے ہیں اور افسانے بھی۔ تاریخی مثنویوں کو عموماً رزمیہ مثنوی کہتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود مثنوی نگار شعراء نے مثنوی کو موضوع کے قید و بند سے آزاد رکھا۔
مولانا شبلی کی تقسیم مثنوی
مولانا شبلی نے شعر العجم میں مثنوی کی تقسیم درج ذیل طریقے پر کی ہے:
رزمیہ، عشقیہ، اخلاقی قصہ و افسانہ، تصوف و فلسفہ۔ مولانا شبلی کی یہ تقسیم فارسی مثنویوں کے پیش نظر کی گئی ہیں۔ (اردو مثنوی شمالی ہند میں:ص.۸۹)
امداد امام اثر نے کاشف الحقائق میں مثنویوں کو موضوع کے لحاظ سے رزمیہ، بزم، حکمت، تصوف اور دیگر متفرقات میں تقسیم کیا ہے۔
مثنوی فارسی زبان میں
فارسی زبان میں اس صنف سے بڑا کام لیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جتنی مقبولیت فارسی مثنویوں کو ملی اردو مثنویوں کو نہ مل سکی۔ شاہ نامہ فردوس، بوستان سعدی، سکندر نامہ جیسی مثنویاں آج بھی فارسی مثنویوں کی مقبولیت کی شہادت دیتی ہیں۔ فارسی اور اردو کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی مثنویاں لکھی گئی لیکن ان مثنویوں کو فارسی اور اردو جیسی مقبولیت حاصل نہ ہو سکی۔
مثنوی کے اوزان
سب سے پہلے مثنوی کے اوزان متعین اور مقرر کرنے کا سہرا سعادت یار خاں رنگین کے سر بندھا۔
مثنوی کیلئے سات اوزان مقرر ہیں:
(۱) بحر سریع مسدس مطوی موقوف:مفتعلن مفتعلن فاعلات(نشاطِ امید، الطاف حسین حالی)
(۲) بحر ہزج مسدس مقصور یا محذوف:مفاعیلن مفاعیلن مفاعیل(بکٹ کہانی، افضل)
(٣)بحر ہزج مسدس مقبوض مقصور یا محذوف:مفعول مفاعلن فعولن(گلزار نسیم، دیا شنکر نسیم)
(٤) خفیف مسدس مخبون مقطوع:فاعلاتن مفاعلن فعلن(زہر عشق، شوق لکھنوی)
(٥) بحر متقارب مثمن مقصور یا محذوف :فعولن فعولن فعولن فعول(سحر البیان،میر حسن)
(٦) رمل مسدس مقصور یا محذوف:فاعلاتن فاعلاتن فاعلات (رموز العارفین، میر حسن)
(٧) رمل مسدس مخبون مقطوع:فاعلاتن فعلاتن فعلن(قول غمیں، مومن)
مثنوی کے اجزائے ترکیبی
وہ عنصر جن سے مل کر ایک مثنوی تکمیل کو پہنچتی ہے، ایک مثنوی کے اندر جن کا ہونا ناگزیر ہو، مثنوی کے قواعد نویسوں کے نزدیک پانچ چیزیں ہیں جو حسب ذیل ہیں:
(١) توحید و مناجات (٢)مدحِ حاکم(٣) تعریف شعر و سخن (٤) سببِ تالیف (٥) اصل قصہ
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ:۔ یہ مضمون نیٹ جے آر ایف،سیٹ،ٹیٹ وغیرہ امتحان میں پوچھے جانے والے سوالوں کے پیش نظر تیار کیا گیا ہے۔ اس طرح کے مزید مضامیں حاصل کرنے کیلئے لال رنگ کے گھنٹی والے نشان کو دبا کر ہماری ویب سائٹ ’’علم کی دنیا ‘‘ ilmkidunya.in کو سبسکرائب کر لیں تاکہ ہماری ہر اپڈیٹ آپ تک بذریعہ Notification پہنچ جائے۔ والسلام
بہت ہی عمدہ مضمون ہے
جزاک اللہ خیرا کزا