ماہِ شعبان کے روزے
ذکی الرحمٰن غازی مدنی جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
شعبان کے مہینہ کو اللہ کے رسول ﷺ نے روزہ جیسی مقدس ومبارک عبادت کے ساتھ مخصوص قرار دیا ہے۔ آپﷺ کا تعامل تھا کہ آپﷺ شعبان کے مہینے میں جس کثرت اور پابندی سے روزوں کا اہتمام فرماتے تھے وہ رمضان المبارک کے علاوہ کسی ماہ میں دیکھنے کو نہ ملتا تھا۔ مومنوں کی ماں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ’’میرے مشاہدہ میں یہ بات نہیں ہے کہ اللہ کے رسولﷺ رمضان المبارک کے سوا کسی ماہ کے پورے دنوں میں روزے کا التزام فرماتے تھے، اور میرے مشاہدہ میں یہ بھی نہیں ہے کہ آپﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھا کرتے تھے۔ ‘‘ [ما رأیت رسول اللہﷺ استکمل صیام شھر قط الا رمضان، وما رأیتہ فی شھر أکثر صیاما منہ فی شعبان] (صحیح بخاریؒ:۱۹۷۰۔ صحیح مسلمؒ:۱۱۵۶) صحیح مسلمؒ کی روایت میں اتنا اضافہ اور ہے کہ: ’’آپﷺ معدودے چند ایام کے سوا، پورے ماہِ شعبان میں روزے رکھتے تھے۔ ‘‘ [کان یصوم شعبان الا قلیلاً]
ہم سب جانتے ہیں کہ روزہ ایک عظیم الشان عبادت ہے، جس کی فضیلت کے لیے اتنا کافی ہے کہ اللہ رب العزت نے اس کی مشروعیت اور اس پرمنتج ہونے والے اجر وثواب کو بہ طور خاص اپنی ذاتِ اقدس سے منسوب ومربوط فرمایا ہے۔ حدیثِ قدسی میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’آدم زاد کا ہر عمل اس کی اپنی مد میں لکھا جاتا ہے، سوائے روزہ کے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دینے کا ذمے دار ہوں۔ ‘‘ [کل عمل ابن آدم لہ الا الصوم فانّہ لی وأنا اجزي بہ] (صحیح بخاریؒ:۱۹۰۴۔ صحیح مسلمؒ:۲۷۶۰)
شعبان کے مہینہ میں بکثرت روزے رکھنے کے نبوی طرزِ عمل کی حکمت بھی اللہ کے رسولﷺ نے ایک حدیث میں اپنی امت کے سامنے بیان فرما دی ہے۔ حضرت اسامہ بن زید ؓفرماتے ہیں:اللہ کے رسولﷺ کا عمل یہ تھا کہ آپﷺ روزہ رکھتے تھے تو اتنے دن تک لگاتار رکھتے جاتے تھے کہ ہم کہنے لگتے کہ اب آپﷺ کبھی روزہ نہ چھوڑیں گے، اور جب آپﷺ روزہ نہ رکھنا شروع کرتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپﷺ بالکل روزہ نہیں رکھتے ہیں۔ البتہ ہفتہ میں دو دن آپﷺ روزہ ضرور رکھتے تھے۔ اگر یہ ایام آپﷺ کے روزوں کے بیچ واقع ہوتے تو دیگر روزوں کے ساتھ آپﷺ ان میں روزہ رکھتے، بصورتِ دیگر آپﷺ اہتمام کے ساتھ خاص ان دو دنوں میں روزوں کی پابندی فرماتے تھے۔ لیکن آپﷺ کسی مہینے میں اس کثرت سے روزوں کی پابندی نہیں کرتے تھے جس طرح سے شعبان کے مہینہ میں کیا کرتے تھے۔ ایک موقع پر میں نے کہا تھا:اے اللہ کے رسولﷺ!آپﷺ روزے رکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ کبھی نہیں چھوڑیں گے اور ترک فرماتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روزے نہیں رکھیں گے، البتہ ہفتہ میں دو دن آپﷺ ہر حالت میں روزوں کا التزام فرماتے ہیں۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا:کون سے دو دن؟ میں نے عرض کیا:پیر اور جمعرات کے دن۔ آپﷺ نے فرمایا:یہ دو دن ایسے ہیں کہ اس میں تمام اعمال اللہ رب العالمین کے حضور پیش ہوتے ہیں، اور میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس حالت میں پیش کیا جائے کہ میں روزہ دار رہوں۔ میں نے پھر عرض کیا:میرا مشاہدہ ہے کہ آپﷺ شعبان میں دیگر مہینوں کے مقابلہ زیادہ روزے رکھتے ہیں؟ آپﷺ نے جواباً ارشاد فرمایا:شعبان -جو کہ رجب اور رمضان کے بیچ کا مہینہ ہے- بیشتر لوگ اس (کی عظمت) سے غافل ہیں، حالانکہ اسی مہینہ میں (بندگانِ خدا کے) اعمال وتصرفات کا رکارڈ اللہ رب العالمین کی طرف اٹھایا جاتا ہے اور مجھے یہ بات محبوب ہے کہ میرے اعمال کو اس حالت میں اٹھایا جائے کہ میں روزہ سے ہوؤں۔ ‘‘ [۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذانک یومان تُعرض فیھما الأعمال علی رب العالمین وأحب أن یعرض عملی وأنا صائم، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قال: ذاک شھر یغفل الناس عنہ بین رجب ورمضان المبارک، وھو شھر تُرفع الأعمال فیہ الی رب العالمین عز وجل، فأحب أن یرفع عملی وأنا صائم] (مسند احمدؒ:۲۱۸۰۱۔ سنن نسائیؒ:۲۳۵۷ مع تحسینِ البانیؒ)
علامہ ابنِ رجبؒ رقم طراز ہیں:اس حدیث میں دو باتیں قابلِ توجہ ہیں:پہلی یہ کہ چونکہ شعبان کے اس عظیم المرتبت مہینے کے آگے پیچھے ماہِ حرام (رجب المرجب) اور ماہِ صیام (رمضان المبارک) جیسے جلالت ورفعت کے حامل دو مہینے لگے ہوئے ہیں اس لیے بیشتر لوگ اُن میں مشغول ہوکر اِس ماہ کی افادیت واہمیت سے غافل رہتے ہیں۔ بلکہ بعض افراد خیال کرتے ہیں کہ چونکہ رجب کا مہینہ حرام مہینوں میں سے ہے، اس لیے اس میں روزہ رکھنا شعبان کی نسبت زیادہ افضل واولیٰ ہے۔ اس سے ایک تلخ حقیقت یہ بھی واضح ہوتی ہے کہ رائج الوقت تصورات کے مطابق بعض اوقات، بعد جگہوں اور بعض اشخاص کی فضیلت کے مشہور ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے علاوہ کوئی چیز افضل نہیں ہوسکتی۔ ایسا بالکل ممکن ہے کہ بعض دیگر اوقات، اماکن واشخاص مشہورِ عوام نہ ہوں، لیکن ان کی فضیلت کئی گنا زیادہ ہو۔ انسان کی بد نصیبی یہ ہے کہ وہ مشہورومعروف چیزکے پیچھے دوڑتاہے اورغیر مشہورحقائق -اگرچہ وہ کتنے ہی عظیم وجلیل کیوں نہ ہوں- اسے اپیل نہیں کرتے ہیں۔ (لطائف المعارف، ابنِ رجب حنبلیؒ: ۱/۱۳۷)
دوسری بات جس کے تذکرہ سے علامہ ابنِ رجبؒ نے سرِ دست تعرض نہیں کیا ہے وہ یہی بیانِ نبوی ہے کہ اس ماہ میں بندگانِ خدا کے اعمال اللہ رب العزت کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ مذکورہ بالااحادیث کی روشنی میں یہ بات تو پایۂ ثبوت کو پہونچ جاتی ہے کہ ماہِ شعبان کی اپنی مخصوص فضیلت وعظمت ہے اور یہ کہ اس ماہ میں روزوں کا اہتمام کرنا مسنون ومستحسن ہے۔ البتہ اس ماہ کے کچھ مخصوص ایام کی بابت اہلِ علم میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ذیل میں سلسلہ وار ان پرگفتگو کی جائے گی:
(۱) پندرہ شعبان کا روزہ
شعبان کے پندرہویں دن کاروزہ رکھنا ہرگز ممنوع نہیں ہے۔ اس کے دو سبب ہیں:
اول:وہ سنتِ رسولﷺ سے ثابت اورفضیلت کے حامل ایامِ بیض کے ضمن میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں:میرے خلیلﷺ (سچے دوست) نے مجھے تین چیزوں کی وصیت کی ہے، ہرماہ تین دن کے روزوں کی، اور چاشت کی دورکعت نمازکی، اور رات سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی۔ ‘‘ [أوصانی خلیلیﷺ بثلاث:بصیام ثلاثۃ ایام من کل شھر ورکعتی الضحیٰ وأن أوترقبل أن أرقد] (صحیح مسلمؒ:۷۲۱)
دوم:نصف ماہ پر رکھا جانے والا یہ روزہ ماہِ شعبان کے سلسلے میں وارد عمومی استحبابِ صیام کے ضمن میں آتا ہے۔ اس بارے میں حدیث کا تذکرہ پیچھے آچکا ہے۔
البتہ اس بارے میں جو مشہورِ عام حدیث روایت کی جاتی ہے اس پر اعتماد کرکے خاص اس دن کی کوئی فضیلت یاخصوصیت مستنبط کرناٹھیک نہیں۔ مثلاََ حضرت علیؓ سے روایت کیا جاتاہے کہ اللہ کے رسولﷺنے ارشاد فرمایاتھا کہ:جب شعبان کے نصف (پندرہویں دن) کی رات ہو تو اس رات عبادت کرو اور دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اللہ رب العزت اس دن غروبِ آفتاب کے ساتھ ہی سمائے دنیا پر نزول فرماتا یے اور کہتا ہے کہ کیا نہیں ہے کوئی مغفرت کا طلب گار تاکہ میں اس کی مغفرت فرما دوں؟ کیا نہیں ہے کوئی رزق کاطلب گار تاکہ میں اسے رزق عطا کروں؟ کیا نہیں ہے کوئی ابتلا کا مارا تاکہ میں اس کو عافیت بخش دوں؟ اللہ تعالیٰ ایسے ہی فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ صبح نمودار ہوجاتی ہے۔ ‘‘ [اذا کان لیلۃ نصف شعبان فقوموا لیلھا وصوموا نھارھا، فان اللہ تعالیٰ ینزل فیھا لغروب الشمس الیٰ السماء الدنیا فیقول:ألا مستغفر فأغفر لہ، ألا مسترزق فأرزقہ، ألا مبتلی فأعافیہ، ألاکذا ألاکذا حتی یطلع الفجر] (سنن ابن ماجہؒ:۳۸۸۔ قال الألبانیؒ:ضعیف جدا أو موضوع)
اس حدیث کے ضعف پر محدثینؒ میں تقریباً اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے، مثلاً علامہ البانی ؒ نے اس روایت کو نہایت درجہ ضعیف یا موضوع مانا ہے۔ علمائے محققینؒ کے بیان کردہ اصولِ شریعت کی روشنی میں اس قسم کی کسی حد درجہ ضعیف روایت سے کسی تعبدی امر مثلاً صوم کا اثبات کرنا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا شعبان کے پندرہویں دن کے روزے کا خصوصی التزام کرنا اور صرف اسی دن کو پورے ماہ میں منفرد فضیلت کا حامل ماننا ٹھیک نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
(۲) آخری پندرہ دن میں روزے رکھنا
ائمہ شوافعؒ کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ ماہِ رمضان المبارک سے چند ایام قبل روزہ رکھنے کی جو ممانعت صحیح احادیث میں وارد ہوئی ہے، اس کا آغاز شعبان کے سولہویں دن سے ہوجاتا ہے، بالفاظِ دیگر شعبان کے نصف ثانی میں روزہ رکھنا یک گونہ کراہت یا عدمِ جواز کا پہلو رکھتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’جب شعبان کا نصف ہو جائے تو روزے نہ رکھو۔ ‘‘ [اذا انتصف شعبان فلا تصوموا] (سنن ابو داؤدؒ:۲۳۳۷ مع تصحیحِ البانیؒ)
اس کے برعکس دیگرائمۂ کرامؒ واہلِ علمؒ حضرات کی رائے ہے کہ ممانعت کے دائرہ میں ماہِ شعبان کے آخری دو یا تین دن ہی آتے ہیں۔ ان حضرات نے مذکورہ بالا حدیث کو مرجوح قرار دیتے ہوئے صحیح مسلمؒ کی روایت کو راجح قرار دیا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشادہے: ’’رمضان سے ایک یا دو دن پہلے سے روزہ رکھنا چھوڑ دو، الا یہ کہ کوئی شخص کسی خاص دن روزہ رکھتا تھا تو اسے روزہ رکھنا چاہیے۔ ‘‘ [لا تقدموا رمضان بصوم یوم أو یومین الا أن یکون رجل کان یصوم صوماً فلیصمہ] (صحیح مسلمؒ:۱۸۰۲)
ان کا کہنا ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک آنے سے تین دن پہلے تک روزہ رکھا جاسکتاہے، مزید برآں (جیسا کہ اس مضمون کی ابتدا میں گزر چکا ہے) خود آپﷺ کا معمول بھی یہی ہوا کرتا تھا (نیل الأوطار، شوکانیؒ:۴/۴۴۹)
امام قرطبیؒ فرماتے ہیں:دونوں حدیثوں میں تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے کہ نصف شعبان سے روزوں کی ممانعت خاص اُن افراد کے بارے میں مانی جائے جن کی عادت نفل روزے رکھنے کی نہیں ہوتی، جبکہ رمضان المبارک سے دوتین روزقبل روزہ رکھنے کی اجازت اُن لوگوں کے ساتھ خاص مانی جائے جو- بشمول شعبان- پورے سال نفلی روزوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس کی توضیح فرمانِ رسولﷺ میں وارد استثناء کے قرینہ سے بھی ہوتی ہے۔
امام طحاویؒ کے نزدیک تطبیق کی صورت یہ ہے کہ ممانعت کی حدیث میں مخاطب وہ لوگ ہیں جن کو روزوں کے باعث ضعف وناتوانی لاحق ہوجاتی ہے، جبکہ ثانی الذکر حدیث کے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کو کثرتِ صیام کے باوجود کمزوری یا ناتوانی کا احساس نہیں ہوتا۔ (نیل الأوطار، شوکانیؒ:۴/۲۴۹)
علامہ شنقیطیؒ نے اس مسئلہ میں مختلف ائمۂ اعلام کی آراء میں مطابقت پیدا کرتے ہوئے لکھا ہے:ممانعت کی روایت زیادہ سے زیادہ حسن حدیث کے درجے میں آتی ہے جبکہ اس کے بر خلاف ثانی الذکرحدیث صحیح مسلمؒ میں وارد ہے۔ تطبیق کی خاطر کہا جاسکتا ہے کہ رمضان المبارک سے قبل ایک دو دن پہلے روزہ چھوڑ دینے کے حکم میں ازروئے احتیاط پورے ماہ شعبان کے آخری نصف کو شامل کیا جاسکتا ہے، اس طرح نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کی اجازت انہی لوگوں کے ساتھ خاص مانی جائے گی جوبآسانی روزہ رکھنے پر قادر ہوتے ہیں اور جنہیں روزوں پر مداومت کی وجہ سے کمزوری لاحق نہیں ہوتی۔ (زاد المستنقع، شنقیطیؒ:۱۹/۲۷۳)
(۳) یوم شک کا روزہ
یومِ شک سے مراد شعبان کا تیسواں دن ہے جبکہ اس بات میں تردد پیدا ہوجائے کہ وہ رمضان المبارک کا پہلا دن تو نہیں ہے۔ فقہائے کرامؒ نے اس دن کی اور بھی تعریفات ذکر کی ہیں، لیکن سب کا فحویٰ ومفہوم تقریبا یہی ہے۔ اس دن روزہ رکھنے کے حکم میں اختلافِ رائے کے باوجود تمام اہلِ علم حضرات کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ اگر کسی شخص کا کسی مخصوص دن روزہ رکھنے کا معمول ہو اور وہ خاص دن اس تاریخ کو آجائے تو اس کے لیے اس دن روزہ رکھنا جائز ہے۔ (الفقہ الاسلامی وأدلتہ، وہبہ الزحیلیؒ:۳/۱۶)
جمہور اہلِ علم (بشمول حنفیہؒ ومالکیہؒ) کے نزدیک اس دن کا روزہ رکھنا مکروہِ تحریمی ہے، شوافع کے نزدیک قطعی حرام ہے۔ (الفقہ الاسلامی وأدلتہ، وہبہ الزحیلیؒ:۳/۱۷)
حنابلہؒ کے ظاہر مسلک کے مطابق اس دن کا روزہ رکھنا واجب ہے، بعد میں اگر ثابت ہوجائے کہ یہ رمضان المبارک ہی کا دن تھا تو رمضان المبارک کا روزہ مان لیا جائے گا وگرنہ من باب الاحتیاط نفلی روزہ شمار ہوگا۔ (شرح زاد المستنقع، شیخ الحمدؒ:۵/۱) ان کے نزدیک فرمانِ رسولﷺ ’’فان غمّ علیکم فاقدروالہ‘‘ (اگر مطلع صاف نہ ہو تو اس ماہ کا اندازہ لگاؤ یعنی شعبان کے تیس دن پورے کرو) کا مفہوم یہ ہے کہ مطلع صاف نہ ہونے کی صورت میں شعبان کے مہینہ کو تنگ کر دیا جائے (فاقدروالہ) یعنی اس کو انتیس دن پر محدود کر دیا جائے۔ (تیسیر العلام شرح عمدۃ الأحکام:۱/۲۸۲)
علامہ ابن عبد البرؒ فرماتے ہیں:حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی حدیث (فان غم علیکم فأکملوا العدد ثلاثین) میں صراحت ملتی ہے کہ مطلع ابرآلود ہونے کی صورت میں شعبان کے تیس دن مکمل کیے جائیں گے۔ اس لیے جمہور اہلِ علمؒ کا مسلک یہی ہے کہ رمضان المبارک کے روزے تبھی رکھے جائیں گے جبکہ شعبان کے اختتام کا یقین ہوجائے۔ اس کے دو طریقے ہیں: رؤیت ِ ہلالِ رمضان یا شعبان کے تیس دن گزرجانا۔ رمضان المبارک کے اختتام اور شوال کی آمد کے موقع پر بھی یہی معیار قابلِ قبول ہوگا۔ (الاستذکار:۳/۲۷۵)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ وغیرہ صحابہ کرامؓ سے منقول ہے کہ یہ حضرات رمضان المبارک وغیرِ رمضان المبارک میں فصل وامتیاز کی خاطر رمضان المبارک سے قبل دوتین دن کا روزہ نہ رکھنے کو مستحب خیال کرتے تھے، اسی طرح ان حضرات کے نزدیک فرض اور نفل سنتوں کے مابین بھی فاصلہ وامتیاز کیا جانا چاہیے، اب چاہے یہ فصل بات کرکے کیا جائے یا کھڑے ہوکر یا چل کر، یا پھر اپنی جگہ سے آگے پیچھے ہٹ کر۔ (الاستذکار الجامع لمذاہب فقھاء الامصار: ۳/۳۳۳)
علامہ ابن القیمؒ اورامام شوکانیؒ نے بھی طویل گفتگوکے بعدجمہور اہلِ علم کی تائید کی ہے۔ (زاد المعاد:۵/۲۔ السیل الجرار:۲/۱۱۵)
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین