ماں باپ کی قدر
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
بوڑھے ماں باپ کی قدر کرو۔ ان سے نرمی سے پیش آئو۔ مجھے خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ اب نہ اولاد کا ذہن و مزاج اسلامی رہ گیا ہے اور نہ ماں باپ کا۔ مگر پھر بھی کہتا ہوں اور بار بار کہتا ہوں کہ ماں باپ کو راضی رکھنے کی کوشش کرو۔ ان کے جائز مطالبات پورے کرتے رہو اور نہ کر پائو تو کھول کھول کر اپنی گھریلو مجبوریاں اور معاشی حالات ان سے بیان کر دو۔ ان سے کیسا پردہ؟ سب سے زیادہ ننگا پنگا انھوں نے ہی تو تمہیں دیکھا تھا اور بغیر کراہت اور ناگواری محسوس کیے تمہارا پیشاب پاخانہ دھلایا تھا، اب ان سے اپنے معاشی حالات اور حقیقی مشکلات کیوں چھپاتے ہو؟
تم بتائو تو سہی، وہ نہ سمجھ جائیں اور نہ مانیں تو کہنا۔ مگر ان کی ضروریات نظر انداز کرکے دوستوں پر اڑانا اور سسرالیوں کی تواضع کرنا بے غیرتی اور بے دینی ہے۔ سسرالیوں اور دیگر رشتے داروں کا حق ہے، مگر ماں باپ کی حق تلفی کرکے یا ان کا دل دکھانے کی قیمت پر نہیں۔
اپنے ماں باپ کو راضی رکھو، چاہے جیسے بھی کرو، برائی کا حکم دیں تو بالکل نہ مانو، مگر جتن کرکے انھیں پھر بھی خوش رکھو۔ وہ شروعات میں شاید تمھاری دین داری اور دین پسندی کی باتوں اور کاموں کو ایک ڈرامہ سمجھیں گے، مگر تم جمے رہے تو تمہارا مستقل رویہ دیکھ کر جلد ہی دل سے قدر کرنے لگیں گے اور پھر عملاً بھی تمہاری تائید اور مدد کریں گے۔ بس تمھیں اپنے موقف پر جم کر دکھانا ہے۔
ماں باپ سے کچھ مت چھپاؤ۔ اپنے جذبات واحساسات تک ان سے شیئر کرو، ان سے زیادہ مخلص اور بے غرض چاہنے والا کوئی دوسرا نہیں ملے گا۔ آخر کو وہ تمہاری جنت ہیں یا جہنم۔ اختیار تمہارے ہاتھ ہے کہ کیا لینا پسند کرتے ہو۔
والدین میں بھی ماں کی محبت کو ہمارے سماج میں بہت زیادہ Idealized اور Idolised کیا گیا ہے، جو ایک حد تک ٹھیک بھی ہے کیونکہ عورت کمزور ہوتی ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ باپ کے حقوق ہی نہیں ہیں۔ افسوس کہ ہمارے ادباء، شعراء، ناول نگاروں اور فلم سازوں نے جتنا زور ماں کی محبت پر دیا ہے اس کا عشرِ عشیر بھی باپ کے حصے میں نہیں آپایا، حالانکہ جی حمل، ولادت اور رضاعت کے بعد بچوں کی پرورش وپرداخت میں جتنا حصہ ماں کا ہوتا ہے، اس سے کم باپ کا بھی نہیں ہوتا، بلکہ شاید اولاد کے لیے باپ زیادہ قربانیاں دیتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ کبھی گنا اور جتا نہیں پاتا۔
اب یہ صورتِ حال بدلنی چاہیے۔ ہم جس دینِ حق کے پیروکار ہیں اس نے غایت درجہ توازن کے ساتھ ماں اور باپ دونوں کے حقوق بیان کیے ہیں۔ ضرورت اپنی ذمے داریوں کو سمجھنے اور انھیں کماحقہ ادا کرنے کی ہے۔
ذیل میں عابد لکھنوی کی ایک نظم ملاحظہ فرمائیں:
بابا جانی کروٹ لے کر
ہلکی سی آواز میں بولے
بیٹا کل کیا منگل ہوگا؟
گردن موڑے بِن ، میں بولا
بابا کل تو بُدھ کا دن ہے
بابا جانی سُن نہ پائے
پھر سے پوچھا، کل کیا دن ہے
تھوڑی گردن موڑ کے میں نے
لہجے میں کچھ زہر مِلا کے
منہ کو کان کی سیدھ میں لا کے
دھاڑ کے بولا: بُدھ ہے بابا، بدھ ہے بابا
آنکھوں میں دو موتی چمکے
سُوکھے سے دو ہونٹ بھی لرزے
لہجے میں کچھ شہد ملا کے
بابا بولے بیٹھو بیٹا
چھوڑو دِن کو، دِن ہیں پورے
تم میں میرا حصّہ سُن لو
بچپن کا اِک قصّہ سُن لو
یہی جگہ تھی، میں تھا تُم تھے
تُم نے پوچھا، رنگ برنگی
پھولوں پر یہ اُڑنے والی
اس کا نام بتاؤ بابا
گال پہ بوسہ دے کر میں نے
پیار سے بولا تتلی بیٹا
تُم نے پوچھا، کیا ہے بابا؟
پھر میں بولا تتلی بیٹا
تتلی تتلی کہتے سُنتے
ایک مہینہ پُورا گزرا
ایک مہینہ پوچھ کے بیٹا
تتلی کہنا سیکھا تُم نے
ہر اِک نام جو سیکھا تم نے
کِتنی بار وہ پوچھا تم نے
تیرے بھی تو دانت نہیں تھے
میرے بھی اب دانت نہیں ہیں
باتیں کرتے کرتے تُو تو
تھک کے گود میں سو جاتا تھا
تیرے پاس تو بابا تھے نا
میرے پاس تو بیٹا ہے نا
بُوڑھے سے اِس بچے کے بھی
بابا ہوتے سُن بھی لیتے
تیرے پاس تو بابا تھے نا
میرے پاس تو بیٹا ہے نا
اپنے والدین سے نہایت ادب سے پیش آئو اور سخت زبان سے پرہیز کرو۔ اللہ تعالی آپ کے والدین کو صحت اور تندرستی والی لمبی زندگی عطاء فرمائے، اوراگر وہ اس دنیائے فانی سے جاچکے ہیں تو اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔
آمین ثم آمین یا رب العالمین!
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین