لفظ ،،فرقان،، کا مفہوم اور اس کی جامعیت
محمد قمر الزماں ندوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725
قرآن مجید کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے : یا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرقاناً (8:29 ) ۔ یعنی اے ایمان والو، اگر تم اللہ سے ڈرو گے، تو وہ تمھیں،،فرقان،، عطا کرے گا۔( یعنی تمہارے دلوں میں نور بصیرت اور زبان پر قول حق اور قول سدید عطا فرمائے گا)
فرقان کا لفظی مفہوم اور مطلب ہے، فرق کرنے والا۔ ابن عاشور التونسی رح ( وفات 1393ھ) نے لفظ ،،فرقان،، کا مطلب اور مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا ہے : وَهُوَ مَا يُفَرِقُ أَيْ يُمَيِّز بَيْنَ شَيْئَيْنِ مُتَشَابِهَيْن ( التحرير والتنوير، جلد 9 ، صفحہ 326) ۔ یعنی وہ صلاحیت جو دو مشابہ چیزوں کے درمیان فرق کرتا ہے۔ قاضی ثناء اللہ (وفات 1810ء) نے
،،فرقان،، کا مطلب ان الفاظ میں بیان کیا ہے : بَصِيرَةٌ فِي قُلُوبِكُمْ تُفَرِقُونَ بِهَا بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ ( تفسیر مظہری ، جلد 4 ، صفحہ 54) یعنی اللہ تمھارے دلوں میں بصیرت عطا کرے گا، جس سے تم حق اور باطل میں تمیز اور فرق و امتیاز کر لو گے۔
آج کے الفاظ اور تعبیر میں اس کو قوت تمییز (the art of differentiation) یا معیار (criterion) کہا جاسکتا ہے۔ یعنی وہ صلاحیت جس کی روشنی میں انسان ظاہری پہلوؤں سے دھوکا کھائے بغیر ہر بات کو اس کے اصل روپ اور اصل شکل میں دیکھ سکے۔ وہ ادھر اُدھر کے مغالطوں میں الجھے بغیر اور تذبذب اور شکوک و شبہات میں پڑے بغیر اصل حقیقت اور سچائی تک پہنچ جائے۔ ،،فرقان،، کے معاملے کو دو اصحاب رسول کے واقعہ سے سمجھا جاسکتا ہے ۔ وہ واقعہ یہ ہے: عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، يَقُولُ: كَانَ بَيْنَ خَالِدٍ وَسَعْدٍ كَلَامُ، فَذَهَبَ رَجُلٌ يَقَعَ فِي خَالِدٍ عِنْدَ سَعْدٍ ، فَقَالَ: مَهُ إِنَّ مَا بَيْنَنَا لَمْ يَبْلُغْ دِيننا ( حلیة الاولیاء، جلد 1، صفحہ 94) یعنی طارق بن شہاب روایت کرتے ہیں کہ خالد بن ولید اور سعد بن ابی وقاص کے درمیان کچھ تکرار ہوگئی۔ اس کے بعد ایک شخص حضرت سعد کے پاس آیا اور حضرت خالد کی بُرائی کرنے لگا۔ اس پر حضرت سعد نے اس سے کہا: دور ہو جاؤ ، ہمارے درمیان جو کچھ ہے ، وہ ہمارے دین تک نہیں پہنچے گا۔ حضرت سعد کی بات کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے درمیان جو اختلاف ہے، اس بنا پر ہم اپنی آخرت کو برباد نہیں کریں گے۔ یہی ہے فرقان کی صلاحیت اور اس کی قوت و طاقت ۔ (مستفاد ماہنامہ الرسالہ/ دسمبر 2024ء)
ذیل میں لفظ فرقان کی تفسیر و تشریح چند مفسرین کی تفسیروں سے ملاحظہ فرمائیں ۔
تفسیرِ ماجدی میں
مفسر قرآن مولانا عبد الماجد دریابادی رح اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔
اور اس بڑے داتا کی ساری بخششیں اور نعمتیں تمہارے وہم و گمان میں بھی کب آسکتی ہیں)”ان تتقوا اللہ“۔ اور اس تقویٰ و خشیت الہی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ طاعت و اطاعت میں لگے رہو گے۔ ”فرقانا“۔ فرقان کی تشریح اہل تفسیر نے اپنے اپنے مذاق کے مطابق کی ہے۔ لیکن بہتر ہوگا کہ لفظ ان سب مفہوموں کا جامع سمجھا جائے اور ہدایت اور نور قلب جس سے حق و باطل میں فیصلہ ہو جائے اور غلبہ علی الاعداء اور نجات آخرت جس سے حق و باطل میں عملی فیصلہ ہو جائے سب کو شامل رہے۔——————————
سید ابو الاعلیٰ مودودی رح لکھتے ہیں ؛
کسوٹی اس چیز کو کہتے ہیں جو کھرے اور کھوٹے کے امتیاز کو نمایاں کرتی ہے۔ یہی مفہوم ”فرقان“ کا بھی ہے، اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ اس لفظ سے کیا ہے۔ ارشاد الہٰی کا منشا یہ ہے کہ اگر تم دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرو، تو تمہاری دلی خواہش یہ ہو کہ تم سے کوئی ایسی حرکت سر زد نہ ہونے پائے جو رضائے الہٰی کے خلاف ہو، تو اللہ تعالیٰ تمہارے اندر وہ قوت تمیز پیدا کردے گا جس سے قدم قدم پر تمہیں خود یہ معلوم ہوتا رہے گا کہ کونسا رویہ صحیح ہے اور کونسا غلط، کس رویہ میں خدا کی رضا ہے اور کس میں اس کی ناراضی، زندگی کے ہر موڑ، ہر دورا ہے، ہر نشیب اور ہر فراز پر تمہاری اندرونی بصیرت تمہیں بتانے لگے گی کہ کدھر قدم اٹھانا چاہیے اور کدھر نہ اٹھانا چاہیے، کونسی راہ حق ہے اور خدا کی طرف جاتی ہے اور کونسی راہ باطل ہے اور شیطان سے ملاتی ہے۔
———————————–
فی ظلال القرآن میں
مفسر: سید قطب شہید رح لکھتے ہیں ۔
اب اہل ایمان کے نام یہ آخری پکار ہے اور اس سبق کے آخیر میں ہے۔ یہ پکار اس خاطر ہے کہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔ اس لیے کہ اس عظیم ذمہ داری کا حق صرف وہ لوگ ادا کرسکتے ہیں جن کے اندر نور تقویٰ ہو اور اس کے ذریعے وہ شیطانی شبہات اور وسوسوں کا مقابلہ کرسکیں اور اس راہ پر ان کے قدم مضبوط ہوں اور ان کو یہ فکر یکسوئی تب ہی نصیب ہوسکتی ہے، جب وہ تقویٰ کے ذریعے حاصل کردہ ربانی نورانیت اور روشنی کو کام میں لائیں۔
یہ ہے زاد راہ اور حقیقی سامان سفر۔ زاد تقویٰ جو دلوں کو زندہ کرتا ہے ان کو بیدار کرتا ہے اور ان کے اندر ولولہ پیدا کرتا ہے۔ نیز اس کی وجہ سے دلوں کے اندر احتیاط اور بیداری پیدا ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے انسان کو ایسا نور بصیرت ملتا ہے جس کی وجہ سے اس راہ کے نشیب و فراز سب روشن ہو جاتے ہیں۔ انسانی سوچ پر ان شبہات و وساوس کا اثر نہیں ہے جن کی وجہ سے راہ تاریک ہوجاتی ہے نیز تقویٰ کی وجہ سے انسان کو اس کی کوتاہیوں پر معافی بھی مل جاتی ہے۔ اور انسان کی زندگی میں سنجیدگی اور ثبات پیدا ہوجاتا ہے۔ انسان پر امید ہوتا ہے اور مشکلات اور تقصیرات کی وجہ سے وہ مایوس نہیں ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ تقویٰ کی وجہ سے انسان کے دل میں وہ دو ٹوک بصیرت پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے انسان اپنی راہ کی مشکلات میں صحیح فیصلے کرسکتا ہے۔ لیکن یہ وہ حقیقت ہے کہ تمام روحانی تجربات کی طرح اس کو بھی عملاً اپنانے کے بعد ہی اس کی پوری ماہیت انسان پر منکشف ہوتی ہے۔ صرف کلام وبیان سے اس کی ماہیت کو پوری طرح بیان نہیں کیا جاسکتا۔ خصوصاً ان لوگوں پر جن کا کوئی ذوق ہی نہ ہو۔
بعض امور حسن اور عمل کے درمیان پیچیدہ ہوتے ہیں۔ اور انسان کی فکر و نظر ہمیشہ جادہ حق کی نشاندہی میں پیچیدگی کا شکار رہی ہے۔ زندگی کی اہم راہوں پر انسان حق و باطل کے اندر مشکل سے تمیز کرسکتا ہے۔ بڑے بڑے دلائل بھی انسان کو اطمینان قلبی عطا کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ آخر کار خاموشی چھا جاتی ہے اور قلب و نظر مطمئن نہیں ہوتے۔ دلائل و براہین کا یہ جدل وجدال بے فائدہ ہوتا ہے، لیکن آخر کار تقویٰ ہی سامنے آتا ہے۔ تقویٰ کے ذریعہ ہی عقل کو روشنی ملتی ہے۔ تقویٰ ہی حق کی شکل و صورت وضع کرتا ہے اور راستہ منکشف ہوتا ہے ، دل مطمئن ہوتا ہے ، ضمیر کے اندر استراحت آجاتی ہے اور قدم جم جاتے اور انسان راستے پر چل نکلتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بذات خود سچائی فطرت سے اوجھل نہیں ہوتی ، فطرت کی بنا اور تعمیر سچائی پر ہے اور اس سچائی ہی کے ساتھ زمین و آسمان کو پیدا کیا گیا ہے، لیکن انسانی خواہشات سچائی اور فطرت کے درمیان حائل ہو جاتی ہیں۔ ذاتی خواہشات فضا میں آلودگی پیدا کر دیتی ہیں اور انسان کی حقیقی نظر کام نہیں کرتی اور انسان کو جادہ حق نظر نہیں آتا۔ محض دلیل و برہان سے ذاتی خواہشات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تقویٰ اور خدا خوفی ہی ہے جس کے ذریعے خواہشات کو دبایا جاسکتا ہے۔ اور خوف خدا اور تقویٰ بروقت اپنا کام کرتے ہیں۔ خفیہ حالت میں بھی اور اعلانیہ حالات میں بھی۔ یہی وجہ ہے کہ تقویٰ کو مبداء فرقان بتایا گیا ہے جس سے بصیرت منور ہوتی ہے اور ہر قسم کا التباس اور شک دور ہو جاتا ہے۔
یہ وہ قوت اور صلاحیت ہے جو بازار سے خریدی نہیں جاسکتی۔ یہ اللہ کا فضل عظیم ہی ہوتا ہے جسے چاہتا ہے عطا کردیتا ہے اور اس فضل عظیم ہی کے نتیجے میں خطائیں معاف ہوتی ہیں۔ اور یہ وہ عمومی بخشش ہے جو رب العالمین اپنے خصوصی کرم سے جس پر چاہتا ہے ، کردیتا ہے۔
———————————–
تفسیرِ عثمانی میں مولانا شبیر احمد عثمانی رح لکھتے ہیں ،،
1 یعنی اگر خدا سے ڈر کر راہ تقویٰ اختیار کرو گے تو خدا تم میں اور تمہارے مخالفوں میں فیصلہ کر دے گا۔ دنیا میں بھی، کہ تم کو عزت دے گا اور ان کو ذلیل یا ہلاک کرے گا جیسے بدر میں کیا اور آخرت میں بھی، کہ تم نعیم دائم میں رہو گے اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا۔ (وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ) 36۔ یس :59) (هٰذَا يَوْمُ الْفَصْلِ ۚ جَمَعْنٰكُمْ وَالْاَوَّلِيْنَ) 77۔ المرسلات :38) دوسری بات یہ ہے کہ تقویٰ کی برکت سے حق تعالیٰ تمہارے دل میں ایک نور ڈال دے گا جس سے تم ذوقاً و وجداناً حق و باطل اور نیک و بد کا فیصلہ کرسکو گے۔ اس کے علاوہ ایک بات حضرت شاہ صاحب نے لکھی ہے کہ ” شاید فتح بدر میں مسلمانوں کے دل میں آیا ہو کہ یہ فتح اتفاقی ہے، حضرت ﷺ سے مخفی کافروں پر احسان کریں کہ ہمارے گھر بار اور اہل و عیال کو مکہ میں نہ ستاویں، سو پہلی آیت میں خیانت کو منع فرمایا اور دوسری آیت میں تسلی دی کہ آگے فیصلہ ہو جائے گا، تمہارے گھر بار کافروں میں گرفتار نہ رہیں گے۔