(انشائہ)
لاہور کا جغرافیہ
پطرس بخاری
اس انشائیے کے اندر بخاری صاحب لاہور کا جغرافیہ طنزیہ طور پر بیان کرتے ہیں۔اہل لاہور ان دنوں کن کن پریشانیوں اور تکالیف سے دو چار تھے پطرس صاحب ان تمام چیزوں کو لاہور کی علامت اور اس کا جغرافیہ کا نام دیکر تحریر کرتے ہیں۔ مقصور لاہور کا اصل جغرافیہ بیان کرنا نہیں بلکہ ان کمیوں پر طنز کرنا ہے جس سے حکام پہلو تہی کرتے اور نظریں چراتے نظر آتے ہیں۔
تمہید
تمہید کے طور پر صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ لاہور کو دریافت ہوئے اب بہت عرصہ گزرچکا ہے۔ اس ليے دلائل و براہین سے اس کے وجود کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ کہنے کی اب ضرورت نہیں کہ کُرے کو دائیں سے بائیں گھمائیے،حتٰی کہ ہندوستان کا ملک آپ کے سامنے آکر ٹھہر جائے۔ پھر فلاں طول البلد اور فلاں عرض البلد کے مقام انقطاع پر لاہور کا نام تلاش کیجیے۔ جہاں یہ نام کرے پر مرقوم ہو، وہی لاہور کا محل وقوع ہے۔ اس ساری تحقیقات کو مختصر مگر جامع الفاظ میں بزرگ یوں بیان کرتے ہیں کہ لاہور، لاہور ہی ہے۔ اگر اس پتے سے آپ کو لاہور نہیں مل سکتا تو آپ کی تعلیم ناقص اور آپ کی ذہانت فاتر ہے۔
محل وقوع
ایک دو غلط فہمیاں البتہ ضرور رفع کرنا چاہتا ہوں۔ لاہور پنجاب میں واقع ہے۔ لیکن پنجاب اب پنچ آب نہیں رہا۔ اس پانچ دریاؤں کی سرزمین میں اب صرف چار دریا بہتے ہیں اور جو نصف دریا ہے، وہ تو اب بہنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ اسی کو اصطلاح میں راوی ضعیف کہتے ہیں۔ ملنے کا پتہ یہ ہےکہ شہر کے قریب دو پل بنے ہیں۔ ان کے نیچے ریت میں یہ دریا لیٹا رہتا ہے۔ بہنے کا شغل عرصے سے بند ہے، اس ليے یہ بتانا بھی مشکل ہے کہ شہر دریا کے دائیں کنارے پر واقع ہے یا بائیں کنارے پر۔
لاہور تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں۔ لیکن دو ان میں سے بہت مشہور ہیں۔ ایک پشاور سے آتا ہے اور دوسرا دلی سے۔ وسط ایشیا کے حملہ آور پشاور کے رستےاور یو۔ پی کے حملہ آور دہلی کے رستے وارد ہوتے ہیں۔ اول الذکر اہل سیف کہلاتے ہیں اور غزنوی یا غوری تخلص کرتے ہیں۔ مؤخر الذکر اہل زبان کہلاتے ہیں۔ یہ بھی تخلص کرتے ہیں اور اس میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔
حدود اربعہ
کہتے ہیں، کسی زمانے میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن طلباء کی سہولت کے ليے میونسپلٹی نے اس کو منسوخ کردیا ہے۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقعہ ہے اور روزبروز واقع تر ہو رہا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے، کہ دس بیس سال کے اندر لاہور ایک صوبے کا نام ہوگا۔ جس کا دارالخلافہ پنجاب ہوگا۔ یوں سمجھئے کہ لاہور ایک جسم ہے، جس کے ہر حصے پر ورم نمودار ہورہا ہے لیکن ورم مواد فاسد سے بھرا ہے۔ گویا یہ توسیع عارضہ ہے، جو اس کے جسم کو لاحق ہے۔
آب و ہوا
لاہور کی آب وہوا کے متعلق طرح طرح کی روایات مشہور ہیں، جو تقریباً سب کی سب غلط ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لاہور کے باشندوں نے حال ہی میں یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ اور شہروں کی طرح ہمیں بھی آب و ہوا دی جائے۔ میونسپلٹی بڑی بحث وتمحیص کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی کہ اس ترقی کے دور میں، جبکہ دنیا میں کئی ممالک کو ہوم رول مل رہا ہے اور لوگوں میں بیداری کے آثار پیدا ہو رہے ہیں، اہل لاہور کی یہ خواہش ناجائز نہیں، بلکہ ہمدردانہ غور و خوض کی مستحق ہے۔
لیکن بدقسمتی سے کمیٹی کے پاس ہوا کی قلت تھی، اس ليے لوگوں کو ہدایت کی گئی کہ مفاد عامہ کے پیش نظر اہل شہر ہوا کا بیجا استعمال نہ کریں، بلکہ جہاں تک ہوسکے کفایت شعاری سے کام لیں۔ چنانچہ اب لاہور میں عام ضروریات کے ليے ہوا کے بجائے گرد اور خاص خاص حالات میں دھواں استعمال کیا جاتا ہے۔ کمیٹی نے جابجا دھوئیں اور گرد کے مہیا کرنے کے ليے مرکز کھول دیئے ہیں۔ جہاں یہ مرکبات مفت تقسیم کئے جاتے ہیں۔ امید کی جاتی ہےکہ اس سے نہایت تسلی بخش نتائج برآمد ہوں گے۔
بہم رسانی آب کے ليے ایک اسکیم عرصے سے کمیٹی کے زیرغور ہے۔ یہ اسکیم نظام سقے کے وقت سے چلی آتی ہے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ نظام سقے کے اپنےہاتھ کے لکھے ہوئے اہم مسودات بعض تو تلف ہوچکے ہیں اور جو باقی ہیں، ان کے پڑھنے میں بہت دقت پیش آرہی ہے۔ اس ليے ممکن ہے تحقیق و تدقیق میں چند سال اور لگ جائیں۔ عارضی طور پر پانی کا یہ انتظام کیا گیا ہے کہ فی الحال بارش کے پانی کو حتی الوسع شہر سے باہر نکلنے نہیں دیتے۔ اس میں کمیٹی کو بہت کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ تھوڑے ہی عرصے میں ہر محلے کا اپنا ایک دریا ہوگا، جس میں رفتہ رفتہ مچھلیاں پیدا ہوں گی اور ہر مچھلی کے پیٹ میں کمیٹی کی ایک انگوٹھی ہوگی جو رائے دہندگی کے موقع پر ہر رائے دہندہ پہن کر آئے گا۔
نظام سقے کے مسودات سے اس قدر ضرور ثابت ہوا ہے کہ پانی پہنچانے کے ليے نل ضروری ہیں۔ چنانچہ کمیٹی نے کروڑوں روپے خرچ کرکے جابجا نل لگوا دیئے ہیں۔ فی الحال ان میں ہائیڈروجن اور آکسیجن بھری ہے۔ لیکن ماہرین کی رائے ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ گیسیں ضرور مل کر پانی بن جائیں گی۔ چنانچہ بعض بعض نلوں میں اب بھی چند قطرے روزانہ ٹپکتے ہیں۔ اہل شہر کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے اپنے گھڑے نلوں کے نیچے رکھ چھوڑیں، تاکہ عین وقت پر تاخیر کی وجہ سے کسی کو دل شکنی نہ ہو۔ شہر کے لوگ اس پر بہت خوشیاں منا رہے ہیں۔
ذرائع آمد و رفت
جو سیاح لاہور تشریف لانے کا ارادہ رکھتے ہوں، ان کو یہاں کے ذرائع آمدورفت کے متعلق چند ضروری باتیں ذہن نشین کرلینی چاہئیں تاکہ وہ یہاں کی سیاحت سے کماحقہ اثرپذیر ہوسکیں۔ جو سڑک بل کھاتی ہوئی لاہور کے بازاروں میں سے گزرتی ہے، تاریخی اعتبار سے بہت اہم ہے۔ یہ وہی سڑک ہے جسے شیرشاہ سوری نے بنایا تھا۔ یہ آثار قدیمہ میں شمار ہوتی ہے اور بےحد احترام کی نظروں سے دیکھی جاتی ہے۔ چنانچہ اس میں کسی قسم کا رد و بدل گوارا نہیں کیا جاتا۔ وہ قدیم تاریخی گڑھے اور خندقیں جوں کی توں موجود ہیں۔ جنہوں نے کئی سلطنتوں کے تختے اُلٹ د یئے تھے۔ آج کل بھی کئی لوگوں کے تختے یہاں اُلٹتے ہیں اور عظمت رفتہ کی یاد دلا کر انسان کو عبرت سکھاتے ہیں۔
بعض لوگ ز یادہ عبرت پکڑنے کے ليے ان تختوں کے نیچے کہیں کہیں دو ایک پہیے لگا لیتے ہیں اور سامنے دو ہک لگا کر ان میں ایک گھوڑا ٹانگ د یتے ہیں۔ اصطلاح میں اس کو تانگہ کہتے ہیں۔ شوقین لوگ اس تختہ پر موم جامہ منڈھ لیتے ہیں تاکہ پھسلنے میں سہولت ہو اور بہت زیادہ عبرت پکڑی جائے۔
اصلی اور خالص گھوڑے لاہور میں خوراک کے کام آتے ہیں۔ قصابوں کی دوکانوں پر ان ہی کا گوشت بکتا ہے اورزین کس کر کھایا جاتا ہے۔ تانگوں میں ان کے بجائے بناسپتی گھوڑے استعمال کئے جاتے ہیں۔ بناسپتی گھوڑا شکل وصورت میں دُم دار ستارے سے ملتا ہے۔ کیونکہ اس گھوڑے کی ساخت میں دم زیادہ اور گھوڑا کم پایا جاتا ہے۔ حرکت کرتے وقت اپنی دم کو دبا لیتا ہے اور اس ضبط نفس سے اپنی رفتار میں ایک سنجیدہ اعتدال پیدا کرتاہے۔ تاکہ سڑک کا ہر تاریخی گڑھا اور تانگے کا ہر ہچکولا اپنا نقش آپ پر ثبت کرتا جائے اور آپ کا ہر ایک مسام لطف اندوز ہوسکے۔
قابل دید مقامات
لاہور میں قابل دید مقامات مشکل سے ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لاہور میں ہر عمارت کی بیرونی دیواریں دہری بنائی جاتی ہیں۔ پہلے اینٹوں اور چونے سے دیوار کھڑی کرتے ہیں اور پھر اس پر اشتہاروں کو پلستر کردیا جاتا ہے، جو دبازت میں رفتہ رفتہ بڑھتا جاتا ہے۔ شروع شروع میں چھوٹے سائز کے مبہم اور غیرمعروف اشتہارات چپکائے جاتے ہیں، مثلاً ’’اہل لاہور کو مژدہ‘‘ ’’اچھااور سستا مال‘‘۔ اس کے بعد ان اشتہاروں کی باری آتی ہے جن کے مخاطب اہل علم اور سخن فہم لوگ ہوتے ہیں، مثلاً ’’گریجویٹ درزی ہاؤس‘‘ یا ’’اسٹوڈنٹوں کے ليے نادر موقع‘‘ یا ’’کہتی ہے ہم کو خلق خدا غائبانہ کیا‘‘۔
رفتہ رفتہ گھر کی چار دیواری ایک مکمل ڈائریکٹری کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ دروازے کے اوپر بوٹ پالش کا اشتہار ہے۔ دائیں طرف تازہ مکھن ملنے کا پتہ مندرج ہے۔ بائیں طرف حافظہ کی گولیوں کا بیان ہے۔ اس کھڑکی کے اوپر انجمن خدام ملت کے جلسے کا پروگرام چسپاں ہے۔ اُس کھڑکی پر کسی مشہور لیڈر کے خانگی حالت بالوضاحت بیان کردیئے گئے ہیں۔ عقبی دیوار پر سرکس کے تمام جانوروں کی فہرست ہے اور اصطبل کے دروازے پر مس نغمہ جان کی تصویر اور ان کی فلم کے محاسن گنوا رکھے ہیں۔ یہ اشتہارات بڑی سرعت سے بدلتے رہتے ہیں اور ہر نیا مژدہ اور ہر نئی دریافت یا ایجاد یا انقلاب عظیم کی ابتلا چشم زدن میں ہر ساکن چیز پر لیپ دی جاتی ہے۔ اس ليے عمارتوں کی ظاہری صورت ہر لمحہ بدلتی رہتی ہے اور ان کے پہچاننے میں خود شہر کے لوگوں کوبہت دقت پیش آتی ہے۔
لیکن جب سے لاہور میں دستور رائج ہوا ہے کہ بعض بعض اشتہاری کلمات پختہ سیاہی سے خود دیوار پر نقش کردیئے جاتے ہیں، یہ دقت بہت حد تک رفع ہوگئی ہے۔ ان دائمی اشتہاروں کی بدولت اب یہ خدشہ نہیں رہا کہ کوئی شخص اپنا یا اپنے کسی دوست کا مکان صرف اس ليے بھول جائے کہ پچھلی مرتبہ وہاں چارپائیوں کا اشتہار لگا ہوا تھا اور لوٹتے وقت تک وہاں اہالیان لاہور کو تازہ اور سستے جوتوں کا مژدہ سنایا جا رہا ہے۔ چنانچہ اب وثوق سے کہا جاسکتا ہےکہ جہاں بحروف جلی ’’محمد علی دندان ساز‘‘ لکھا ہے وہ اخبار انقلاب کا دفتر ہے۔ جہاں ’’بجلی پانی بھاپ کا بڑا ہسپتال‘‘ لکھا ہے، وہاں ڈاکٹر اقبال رہتے ہیں۔ ’’خالص گھی کی مٹھائی‘‘ امتیاز علی تاج کا مکان ہے۔ ’’کرشنا بیوٹی کریم‘‘ شالامار باغ کو، اور ’’کھانسی کا مجرب نسخہ‘‘ جہانگیر کے مقبرے کو جاتا ہے۔
صنعت و حرفت
اشتہاروں کے علاوہ لاہور کی سب سےبڑی صنعت رسالہ بازی اور سب سے بڑی حرفت انجمن سازی ہے۔ ہر رسالے کا ہر نمبر عموماً خاص نمبر ہوتا ہے اور عام نمبر صرف خاص خاص موقعوں پر شائع کئے جاتے ہیں۔ عام نمبر میں صرف ایڈیٹر کی تصویر اور خاص نمبروں میں مس سلوچنا اور مس کجن کی تصاویر بھی دی جاتی ہیں۔ اس سے ادب کو بہت فروغ نصیب ہوتا ہے اور فن تنقید ترقی کرتا ہے۔
لاہور کے ہر مربع انچ میں ایک انجمن موجود ہے۔ پریذیڈنٹ البتہ تھوڑے ہیں۔ اس ليے فی الحال صرف دو تین اصحاب ہی یہ اہم فرض ادا کر رہے ہیں۔ چونکہ انجمنوں کے اغراض ومقاصد مختلف ہیں اس ليے بسااوقات ایک ہی صدر صبح کسی کانفرنس مذہبی کا افتتاح کرتا ہے، سہ پہر کو کسی سنیما کی انجمن میں مس نغمہ جان کا تعارف کراتا ہے اور شام کو کسی کرکٹ ٹیم کے ڈنر میں شامل ہوتا ہے۔ اس سے ان کا مطمح نظروسیع رہتا ہے۔ تقریر عام طور پر ایسی ہوتی ہے جو تینوں موقعوں پر کام آسکتی ہے۔ چنانچہ سامعین کو بہت سہولت رہتی ہے۔
پیداوار
لاہور کی سب سے مشہور پیداوار یہاں کے طلباء ہیں، جو بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں، اور ہزاروں کی تعداد میں دساور کو بھیجے جاتے ہیں۔ فصل شروع سرما میں بوئی جاتی ہے اور عموماً اواخر بہار میں پک کر تیار ہوتی ہے۔ طلباء کی کئی قسمیں ہیں۔ جن میں سے چند مشہور ہیں۔ قسم اولٰی جمالی کہلاتی ہے۔ یہ طلباء عام طور پرپہلے درزیوں کے ہاں تیار ہوتے ہیں، بعد ازاں دھوبی اور پھر نائی کے پاس بھیجے جاتے ہیں، اور اس عمل کے بعد کسی ریستوران میں ان کی نمائش کی جاتی ہے۔ غروب آفتاب کے بعد کسی سنیما یا سنیما کے گردونواح میں:
رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے
شمعیں کئی ہوتی ہیں، لیکن سب کی تصاویر ایک البم میں جمع کرکے اپنےپاس رکھ چھوڑتے ہیں اور تعطیلات میں ایک ایک کو خط لکھتے رہتے ہیں۔ دوسری قسم جلالی طلباء کی ہے۔ ان کا شجرہ جلال الدین اکبر سے ملتا ہے۔ اس ليے ہندوستان کا تخت وتاج ان کی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ شام کے وقت چند مصاحبوں کو ساتھ ليے نکلتے ہیں اور جودوسخا کے خم لنڈھاتے پھرتے ہیں۔ کالج کی خوارک انہیں راس نہیں آتی اس ليے ہاسٹل میں فروکش نہیں ہوتے۔
تیسری قسم خیالی طلباء کی ہے۔ یہ اکثر روپ اور اخلاق اور آواگون اور جمہوریت پر باآواز بلند تبادلہٴ خیالات کرتے پائے جاتے ہیں اور آفرینش اور نفسیات جنسی کے متعلق نئے نئے نظریئے پیش کرتے رہتے ہیں۔ صحت جسمانی کو ارتقائے انسانی کے ليے ضروری سمجھتے ہیں۔ اس ليے علی الصبح پانچ چھ ڈنٹر پیلتے ہیں اور شام کو ہاسٹل کی چھت پر گہرے سانس لیتے ہیں۔ گاتے ضرور ہیں، لیکن اکثر بےسرے ہوتے ہیں۔
چوتھی قسم خالی طلباء کی ہے۔ یہ طلباء کی خالص ترین قسم ہے۔ ان کا دامن کسی قسم کی آلائش سے تر ہونے نہیں پاتا۔ کتابیں، امتحانات، مطالعہ اور اس قسم کے خرخشے کبھی ان کی زندگی میں خلل انداز نہیں ہوتے۔ جس معصومیت کو ساتھ لے کر کالج میں پہنچے تھے، اسے آخر تک ملوث ہونے نہیں دیتے اورتعلیم اور نصاب اور درس کے ہنگاموں میں اس طرح زندگی بسر کرتے ہیں جس طرح بتیس دانتوں میں زبان رہتی ہے۔
پچھلے چند سالوں سے طلباء کی ایک اور قسم بھی دکھائی دینے لگی ہے، لیکن ان کو اچھی طرح سے دیکھنے کےليے محدب شیشے کا استعمال ضروری ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ریل کا ٹکٹ نصف قیمت پر ملتا ہے اور اگر چاہیں تو اپنی انا کے ساتھ زنانے ڈبے میں بھی سفر کرسکتے ہیں۔ ان کی وجہ سے اب یونیورسٹی نے کالجوں پر شرط عائد کر دی ہے کہ آئندہ صرف وہی لوگ پروفیسر مقرر کئے جائیں، جو دودھ پلانے والے جانوروں میں سے ہوں۔
طبعی حالات
لاہور کے لوگ بہت خوش طبع ہوتے ہیں۔
ماخذ :۔ انتخابِ مضامین پطرس، ص: 94، مرتبہ:وجاہت علی سندیلوی