قرآن، جہاد اور آتنک واد
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
حدیثِ نبوی میں قرآنِ مجید کی جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں، ان میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ ’’لا تنقضی عجائبہ‘‘ یعنی اس کے عجائبات ختم ہونے پر نہیں آتے۔کوئی اس کے معانی کو سمجھنا چاہے اور جس جہت سے سمجھنے کی کوشش کرے اس کو مایوسی نہیں ہوگی۔ہر طالب کو قرآن میں اس کا مطلوب مل جاتا ہے۔ دنیا وآخرت کے مسائل میں کوئی عقدہ ایسی نہیں ہے جس کو آیاتِ قرآنی کے ذریعے نہ کھولا جاسکتا ہو۔ اصول ومبادی اور کار آمد باتوں کا مصدر اور اس کا سرا قرآنِ کریم کے ذریعے بہ آسانی حاصل کیا جاسکتا ہے، بہ شرطیکہ نیت اچھی ہو،مقصد طلبِ ہدایت، اصلاحِ معاشرت،قلب وروح کی طہارت اور ان کو آلودگیوں سے پاک رکھنا ہو۔
مضامینِ قرآن یا علومِ قرآن کی فہرست مختصر نہیں ہے۔ہر دور کے علماء نے ہدایت طلبی کے لیے اور اپنا تعلق اللہ سے قوی کرنے کے لیے قرآن کو اپنا کلیدِ فکر بنایا ہے لیکن دوسری طرف کفار ومنافقین نے بھی اپنی باطل پرستی کی تسکین کے لیے آیاتِ قرآنیہ کو غلط طور پر پیش کرنے میں کمی نہیں کی ہے۔ منافقوں نے ایک سے ایک سخت اعتراض اٹھائے ہیں۔جاہلانہ،عامیانہ اور بازاری فقرے بازیاں بھی کی گئی ہیں۔ کبھی اسے جادو، شاعری اور اساطیر الاولین کہا، تو کبھی اس کے مصدر ومنبع کے بارے میں شبہات ظاہر کیے اور اسے قولِ بشر قرار دے کر رد کرنے کی کوشش کی۔کبھی اسے پیش کرنے والے رسولؐ کے دنیاوی مقام ومرتبے کو زیرِ بحث لایا گیا تو کبھی اس کے وقفے وقفے سے نزول پر سوالیہ نشان کھڑ اکیا گیا۔کبھی اس کی اثر آفرینی کو مات دینے کے لیے اس کی تلاوت شروع ہوتے ہی شوروغوغا مچانے کی تکنیک پر عمل کیا گیا۔ ان سبھی اعتراضوں کا جواب قرآن نے مختلف انداز میں دیا ہے۔
بعد میں بھی ہر زمانے میں اہلِ باطل اور ان کے کارپردازوں کی جانب سے قرآن اور قرآنی تعلیمات کو بار بار نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور آج بھی یہ سلسلہ تھم نہیں رہا ہے۔کہنے والے کہتے ہیں کہ قرآن غیر مسلموں کو قتل کرنے اور انھیں دوست نہ بنانے کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں کو ابھارتا ہے کہ جہاں کافروں کو پائو، انھیں مار ڈالو۔اصلاً یہ اعتراض قرآن کی ان تعلیمات سے متعلق ہے جن میں جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔جہاد کیا ہے؟ لغت میں اس کا معنی جدوجہد کرنا، جی توڑ کوشش کرنا، دبائو ڈالنا، سختیاں برداشت کرنا، مصیبتیں اٹھانا وغیرہ آتے ہیں۔ان سب معانی میں یہ لفظ قرآن میں بھی استعمال ہوا ہے۔(سورۂ فرقان:۵۲۔ سورۂ نحل:۱۱۰۔ سورۂ لقمان:۱۵۔ سورۂ عنکبوت:۶)
جہاد کا ایک معنی جنگ بھی ہے، مگر دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔جو لوگ بھی جہاد کے حوالے سے قرآن پر اعتراض کرتے ہیں ان کی بنیادی غلطی یہی ہے کہ یہ لوگ جنگ اور جہاد کو ہم معنی مان کر چلتے ہیں۔جنگ تو مادی فائدوں، مال ودولت کے حصول، توسیعِ اقتدار اور لوٹ مار کے لیے کی جاتی ہے، لیکن اسے جہاد نہیں کہا جائے گا۔جنگ افراد کے درمیان بھی ہوتی ہے اور کوئی بھی جنگ کا اعلان کر سکتا ہے، مگر جہاد کا اعلان اور اس اعلان کے مطابق پیش قدمی صرف اسلامی ریاست کرے گی۔اگرچند مسلمان شراب پیتے ہیں تو اس سے یہ استدلال کرنا درست نہیں کہ اسلام شراب پینے کی تعلیم دیتا ہے، ٹھیک اسی طرح اگر کچھ بہکے ہوئے شرپسند لوگ جہاد کے نام پر دہشت گردانہ اقدامات کرتے ہیں تو ان کی کارروائیوں کو جہاد کا نام دینا سخت غلطی ہے۔
قرآن وسنت کی اصطلاح میں جہاد وہ ہے جو ظلم وبربریت کے خاتمے کے لیے، مظلوموں کی دادرسی کی غرض سے اور دینِ حق کی اشاعت کے لیے کیا جاتا ہے۔ دین کی اشاعت کا مطلب کوئی نکتہ آفریں شخص یہ نہ نکالے کہ کسی کی بھی گردن پر تلوار رکھ کر اس سے زبردستی کلمہ پڑھوایا جاتا ہے۔دین کی اشاعت کامطلب ہے کہ دعوتِ حق ہر انسان کے سامنے پیش کی جائے، وہ چاہے تو قبول کرے اور چاہے تو قبول نہ کرے۔ قرآن صاف اعلان کرتا ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں کی جائے گی۔لاإکراہ فی الدین۔
پھر یوں بھی غور کرو کہ جہاد کی تعلیم کس دین ومذہب میں نہیں پائی جاتی؟ ویدوں میں بھی دھرم کی ترویج واشاعت کے لیے جہاد کا حکم بہ کثرت موجود ہے۔(دیکھیں حق پرکاش بہ جواب ستیارتھ پرکاش)یہاں صرف ایک حوالہ دیکھ لیں۔رگ وید کے پہلے منڈل میں سوکت نمبر چھبیس کا دوسرا منتر اس طرح ہے:’’اے فرماں بردار لوگو! تمہارے آتشیں اسلحے وغیرہ از قسم توپ وتفنگ، تیر تلوار وغیرہ ہتھیار، مخالفوں کو مغلوب کرنے اور ان کو روکنے کے لیے قابلِ تعریف اور بہ استحکام ثابت ہوں۔ تمہاری فوج مستحقِ تعریف ہو، تاکہ تم ہمیشہ فتح یاب ہوتے رہو۔‘‘
اب اگر اس جیسے منتروں کو ان کے سیاق وسباق سے کاٹ کر کوئی شخص یہ دعویٰ کرنا شروع کر دے کہ ویدک دھرم دوسرے مذہب والوں کے قتلِ عام کا حکم دیتا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ اس کا یہ دعویٰ جھوٹا ہوگا۔ کسی بھی صورت میں اسے مبنی بر انصاف نہیں کہا جاسکے گا۔سچی بات یہ ہے اورقرآنِ کریم میں ایک بار نہیں متعدد بار یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ قرآنِ کریم کو اگر کوئی اللہ سے تعلق قائم کرنے کے لیے، اپنی اصلاح کے لیے یا اپنے معاشرے کو دنیا کے لیے نفع بخش بنانے کے لیے اس کی پیروی کرنا چاہے، یا عدل وانصاف قائم کرنے کے لیے قرآنِ کریم کو معیار بنائے اور پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کی دست گیری فرماتا ہے اور اس کے لیے قرآن بہت آسان کر دیا گیا ہے۔ اسی لیے قرآن کا ایک نام ذکر بھی ہے۔ ذکر کا لفظ اِن تمام معانی پر حاوی ہے: اللہ کا ڈر،اللہ کی یاد، اللہ کے حضور ایک نہ ایک دن حاضری کا یقین،اعمال کے خیر وشر کا بدلہ دیے جانے کا نظام۔ ان سب کو اگر کوئی حاصل کرنا چاہے تو قرآن اس کے لیے دل کی دوا اور داروئے شفا ہے، اور اسی کو فرمایا گیا ہے:
{وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِن مُّدَّکِرٍ} (قمر، ۱۷)
’’اور ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کر دیا ہے سو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین