سلام اس پر کہ جس نے زندگی کا راز سمجھایا
محمد قمرالزماں ندوی
استاذ/مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725
“نعتیہ شاعری” شاعری کی ایک مشہور و معروف اور مقبول صنف ہے، لیکن یہ شاعری کی سب سے مشکل اور دشوار صنف بھی ہے، اس میں شاعر کو بہت احتیاط سے چلنا پڑتا ہے، ورنہ خطرہ رہتا ہے کہ تعریف نبی ﷺ میں کہیں افراط و تفریط نہ ہوجائے اور وحدانیت و رسالت کا فرق کہیں مٹ نہ جائے، اس لئے شعراء کو پھونک پھونک کر اس صنف شاعری میں قدم رکھنا پڑتا ہے ۔ بہت سے شعراء بلکہ اکثر شعراء کرام جوش عقیدت اور فرط محبت میں اس فرق کو ملحوظ نہ رکھ سکے اور افراط و تفریط اور غلو کے مقام پر جا پہنچے ہیں ۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے نعت،اور حمد و منقبت کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ،، نعت کا موضوع ہماری زندگی کا ایک نہایت عظیم اور وسیع موضوع ہے ،اس کی عظمت و وسعت ایک طرف عبد سے اور دوسری طرف معبود سے ملتی ہے ،شاعر کے پایئہ فکر میں ذرا سی لغزش ہوئی اور وہ نعت کے بجائے گیا حمد و منقبت کی سرحدوں میں ،اس لئے اس موضوع کو ہاتھ لگانا اتنا آسان نہیں جتنا عام طور پر سمجھا جاتا ہے ۔ حقیقتا نعت کا راستہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے ٫٫ – ( مقدمہ از کتاب ،،اجالے عشق احمد کے،،)
غرض ،،نعت،، شاعری کی بڑی مشکل صنف ہے، اس میں جتنی حد بندیاں اور پابندیاں ہیں اتنی کسی اور ہئیت میں نہیں ،اس میں پیش آنے والے موضوعات حد ادب سے سر مو بھی تجاوز نہیں کیا جاسکتا ،اگر چہ جدت پسندی ایک حد تک اس میں روا رکھی جاسکتی ہے ۔ بقول مولانا مجیب بستوی ،،اس ہئیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت واحترام محبت و ارادت اور عزت و تکریم جزوکل کی حیثیت رکھتے ہیں ،نعت لکھنے سے پہلے شاعر کو فن سے واقفیت اور زبان پر کامل دسترس کے ساتھ تاریخی شواھد ،قرآنی تفسیر اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے متعلق نہ صرف صحیح معلومات کا ذخیرہ ذہن و دل میں ہو، بلکہ اسلامی قدروں کا غائر مطالعہ بھی اشد ضروری ہے،،۔
،، ن ع ت ،،عربی زبان کا ایک مادہ ہے ، لغت میں اس کے معنی ۰۰ اچھی اور قابل تعریف صفات کا کسی شخص میں پایا جانا اور ان صفات کا بیان کرنا ہے ،،کہتے ہیں نعت الرجل یعنی اس شخص میں خلقتا و طبعاً بہترین خصلتیں پائی جاتی ہیں،، ۔ اسی طرح بہتر معنوی و صوری صفات کے حامل کو عربی میں کہا جاتا ہے، ھو نعته وہ خوبی اور تعریف میں بہترین ہے ۔
قرآن مجید میں نعت کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال یعنی احادیث میں دو تین جگہ یہ لفظ استعمال ہوا ہے، اور ہر جگہ خوبی اور وصف محمود کے لئے استعمال ہوا ہے ۔
عربی زبان میں یوں تو تعریف و توصیف کے لئے بہت سے الفاظ استمال ہوئے ہیں مثلا حمد،ثنا اور مدح، لیکن اہل قلم اور شعراء حضرات نے ، لفظ حمد کو اللہ عز و جل کی تعریف کے لئے اور لفظ نعت کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا و صفت بیان کرنے کے لئے مخصوص کر لیا ہے ۔ اردو فاری اور عربی زبان میں نعت کا یہ مفہوم تو ہے ہی، لیکن اب اس کی اتباع میں
دنیا کی تمام زبانوں میں بھی نعت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثنا مراد ہوتی ہے۔ نعت *رسول صلی اللہ علیہ وسلم* نظم و نثر دونوں اقسام ادب میں ہمیشہ سے لکھی جاتی رہی ہے، مگر عام طور پر نعت کا لفظ ان نظموں کے لئے زیادہ استعمال ہوا ہے جو مدح رسول کے لئے لکھی گئ ہیں ۔
اس روئے زمین پر اللہ تعالی کی تعریف کے بعد سب سے زیادہ جس ہستی کی تعریف کی گئی ہے اور اللہ تعالی کی حمد و تعریف کے بعد جو ہستی، سب سے لائق ستائش و مدح ہے، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے، شاید ہی کوئی ہفتہ اور دن ہو جس میں آپ کی تعریف و توصیف پر مضامین و مقالات کتابیں نثر و نظم میں شائع نہ ہوتی ہوں ۔
نعت گوئی ،حب رسول اور شوق زیارت مدینہ کے احساسات کی ترجمانی کا موثر ذریعہ ہے ،یہ صنف عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوگئی تھی اور حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے قصائد جن کو شاعر رسول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ کا قصیدئہ بردہ جو ان کی نجات اور حیات کا ذریعہ بنا اور عربی ادب میں اس کو امتیازی حیثیت حاصل ہوئی،اپنی ادبی افادیت اور مقبولیت کی وجہ سے ہمیشہ عربی زبان وادب کے نصاب میں شامل رہے ۔۔ان کے علاوہ عہد نبوی میں خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ کرام نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور انسانیت پر اور آپ کے اخلاق کریمانہ اور جمال ظاہری کو موزوں الفاظ میں بیان کیا ہے، اور آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
فارسی اور اردو شعراء اس صنف میں عرب شعراء سے پیچھے نہیں رہے ،بلکہ بقول حضرت مولانا علی میاں ندوی رح فارسی کو عربی پر سبقت حاصل رہی اور پھر اردو شاعری کو ۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت باسعادت کا یہ مہینہ ہے، تو آئیے اس ماہ مبارک کی مناسبت سے
مرحوم ماہرالقادری رح کا شہرئہ آفاق خراج عقیدت درود و سلام آپ تمام قارئین باتمکین کی خدمت میں درود و سلام کا نذرانہ کے عنوان سے پیش کرتے ہیں ، اس امید کے ساتھ کہ اس درود و سلام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جن اعلیٰ اوصاف،صفات، کردار،اخلاق اور خوبیوں کا ذکر کیا گیا ہے،ہم بھی انہیں بحیثیت امتی اپنانے کی کوشش کریں گے اور دنیائے انسانیت کے لیے نمونہ اور مثال بنیں گے۔ مجھے شعراء کے درود و سلام میں ماہر القادری کے یہ اشعار بہت پسند ہیں اور بارہاں تنہائی میں انہیں پڑھتا اور گنگناتا ہوں ۔ یہ الگ بات ہے کہ حفیظ جالندھری مرحوم مولانا ثانی حسنی ندوی مرحوم ،اقبال سہیل مرحوم اور بھی بہت سے شعراء کے درود و سلام کو بھی بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی، جس میں کلام ثانی کی تو مثال نہیں ۔ بہر حال اب ماہر القادری مرحوم کے درود و سلام کے اشعار کو آپ سب بھی پڑھئے اور گنگنائیے ۔
سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پر کہ اسرار محبت جس نے سمجھائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اس پر کہ جس نے خون کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں کھا کر دعائیں دیں
سلام اس پر کہ دشمن کو حیات جاوداں دے دی
سلام اس پر، ابو سفیان کو جس نے اماں دے دی
سلام اس پر کہ جس کا ذکر ہے سارے صحائف میں
سلام اس پر، ہوا مجروح جو بازار طائف میں
سلام اس پر، وطن کے لوگ جس کو تنگ کرتے تھے
سلام اس پر کہ گھر والے بھی جس سے جنگ کرتے تھے
سلام اس پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا
سلام اس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا
سلام اس پر جو سچائی کی خاطر دکھ اٹھاتا تھا
سلام اس پر، جو بھوکا رہ کے اوروں کو کھلاتا تھا
سلام اس پر جو امت کے لیے راتوں کو روتا تھا
سلام اس پر جو فرش خاک پر جاڑے میں سوتا تھا
سلام اس پر جو دنیا کے لئے رحمت ہی رحمت ہے
سلام اس پر کہ جس کی ذات فخر آدمیت ہے
سلام اس پر کہ جس نے جھولیاں بھردیں فقیروں کی
سلام اس پر کہ مشکیں کھول دیں جس نے اسیروں کی
سلام اس پر کہ جس کی چاند تاروں نے گواہ دی
سلام اس پر کہ جس کی سنگ پاروں نے گواہی دی
سلام اس پر، شکستیں جس نے دیں باطل کی فوجوں کو
سلام اس پر کہ جس کی سنگ پاروں نے گواہی دی
سلام اس پر کہ جس نے زندگی کا راز سمجھایا
سلام اس پر کہ جو خود بدر کے میدان میں آیا
سلام اس پر کہ جس کا نام لے کر اس کے شیدائی
الٹ دیتے ہیں تخت قیصریت اوج دارائی
سلام اس پر کے جس کے نام لیوا ہر زمانے میں
بڑھا دیتے ہیں ٹکڑا سرفروشی کے فسانے میں
سلام اس ذات پر، جس کے پریشاں حال دیوانے
سناسکتے ہیں اب بھی خالد و حیدر کے افسانے
درود اس پر کہ جس کی بزم میں قسمت نہیں سوتی
درود اس پر کہ جس کے ذکر سے سیری نہیں ہوتی
درود اس پر کہ جس کے تذکرے ہیں پاک بازوں میں
درود اس پر کہ جس کا نام لیتے ہیں نمازوں میں
درود اس پر، جسے شمع شبستان ازل کہئے
درود اس ذات پر، فخرِ بنی آدم جسے کہئے
ماہر القادری