عقل اور شریعت
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
کیا عقل مصدرِ تشریع ہو سکتی ہے؟ جدیدیت کے علمبردار بہت سارے مسلم مفکرین یہ آئیڈیا بڑی شدومد سے پیش کر رہے ہیں کہ عقلِ انسانی مکمل فقہی وشرعی معرفت کا مصدر ومأخذ ہو سکتی ہے۔ وہ اس خیال کو اسلامی اصولِ فقہ کے تناظر میں ایک انقلابی فکروخیال تصور کرتے ہیں۔حالانکہ ان کا یہ دعویٰ خود اس بات کی بین دلیل ہے کہ ان حضرات کو نہ علمِ شرعی کی کچھ ہوا لگی ہے اور نہ اصولِ فقہ کے بارے میں انہیں کچھ زیادہ واقفیت ہے،ورنہ یہ جانتے ہوتے کہ علمائے فقہ ہوں کہ علمائے اصول،سب حضرات نے ادلۂ شرعیہ کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک دلیل نقلی اور دوسری دلیل عقلی۔
اصولِ فقہ میں امام غزالی کی مشہور ترین کتاب ’’المستصفیٰ‘‘ ہے۔ اس میں انہوں نے ادلۂ شرعیہ ذکر کرتے ہوئے چوتھی قسم دلیلِ عقلی کو بتایا ہے۔(المستصفیٰ من علم الاصول،تحقیق:حمزہ بن زہیر حافظ:۲/۴۰۶)
امام ابن تیمیہؒ نے ان فلاسفہ وحکماء پر تنقید کی ہے جو دلائل کو دلیلِ شرعی اور دلیلِ عقلی کے خانوں میں بانٹتے ہیں،جس سے ایک گونہ احساس یہ پیدا ہوتا ہے کہ گویا عقلی دلیل شریعت کے دائرے سے باہر ایک مستقل دلیل ہے۔ اُن کے مطابق ادلۂ شرعیہ کی صرف دو قسمیں ہیں،دلیلِ نقلی اور دلیلِ عقلی۔ (منہاج السنۃ:۱/۸۔ درء تعارض العقل والنقل:۱/۱۹۸) گویا انہوں نے دلیلِ عقلی کو شریعت کی دلیل شمار کیا،اس کا مدِ مقابل اور حریف نہیں۔
شرعی مسائل میں عقل کے استعمال کا فقہِ اسلامی کی ترقی وتدوین میں بڑا ہاتھ رہا ہے۔جب کہ خاص طور سے اصولِ فقہ میں جزئیات کے استیعاب واستقصاء میں عقل سے بڑی مدد لی گئی ہے۔ مثلاً نصِ شرعی کے فہم میں عقل سے کام لیا گیا ہے۔ فہمِ نص ایک مستقل عقلی علم ہے جو نص کے الفاظ، سیاق وسباق اور قرائن میں غور وفکر کرکے مطلوبہ معنی اخذ کرنے سے عبارت ہے۔ اسی طرح قیاس بھی ایک عقلی عمل ہے جس میں منصوص صورتِ حال کے حکم کو غیر منصوص صورتِ حال پر چسپاں کیا جاتا یہ دیکھنے کے بعد کہ دونوں جگہ کیا کچھ اشتراکِ حال ہے اور کیا کچھ فرق ہے۔اسی طرح استصحاب کا تعلق بھی عقل سے ہے۔ استصحاب کا مطلب ہے کسی شے کو ورودِ شرع سے قبل کی اس کی اصل حالت پر باقی رکھنا۔
سیاستِ شرعیہ بھی مکمل طور سے عقل پر مبنی اور مصلحت وفساد کے موازنے پر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ولیِ امر یامسلم حکمراں ملکی احوال اور نظم ونسق کو درست کرنے کے لیے جو قوانین بنا سکتا ہے ان کی تفصیلات بیان کرنے والی شرعی نصوص ہمیں نہیں ملتیں۔ مثلاً ٹریفک کا نظام،بلدیاتی نظام، سول سروس کا نظام وغیرہ۔ پھر بھی حکمرانِ وقت کے بنائے ان قانونی انتظامات کو فقہاء نے نظام ہائے شرعیہ کہا ہے حالانکہ ان کا مصدر ومنبع عقل واجتہاد ہوتا ہے،نہ کہ نصِ شرعی۔
مقاصدِ شریعت بھی تفکر وتدبر پر قائم ایک علم ہے جس میں نصوصِ شرع کی جزئیات پر غور کرکے اُن سے عمومی قاعدے اور شارع کے پیشِ نظررہنے والے اغراض ومقاصد کا استنباط کیا جاتا ہے۔ اقوالِ فقہاء میں ترجیح کا مسئلہ بھی مکمل طور سے عقل پر منحصر ہے۔اس میں دلائل کا موازنہ کیا جاتا ہے اور دیگر قرائن واعتبارات پر عقلی زاویے سے غور وخوض ہوتا ہے۔ حدیثوں کی تصحیح وتضعیف میں بھی عقل کو بڑا دخل حاصل ہے۔ ماہرِ فن محدث مختلف راویوں کے حالات کا مطالعہ کرتا ہے، ان کی روایتوں کا تقابل کرتا ہے اور غلطی کے احتمالات اور کسی حدیث کے ثبوت کے تاریخی امکان پر غور کرتا ہے۔
یہ سب وہ فنون ہیں جن کا تعلق اصولِ فقہ یا علومِ شرعیہ سے ہے اور ان میں عقل کی کارفرمائی یقینی ہے۔ مگر یہ سوال کہ کیا عقل فی نفسہ شریعت کا مأخذ ہو سکتی ہے،تو اس بارے میں ہم بتادیں کہ یہ قدیم زمانے سے پوچھا جانے والا سوال ہے اور ہر زمانے میں علمائے اصول اور فقہائے شرع نے اس کا جواب دیا ہے جو بہرحال ہمارے جدید مفکرین کے تاویلی فلسفوں کے مقابلے میں زیادہ گہرائی اور زیادہ توازن کا حامل ہے۔
اصولِ فقہ میں علمائے شریعت نے پوری وضاحت کے ساتھ عقائد وشعائر کا زمرہ الگ رکھا ہے اور معاملات و معاشرتی مسائل کاخانہ الگ رکھا ہے۔اول الذکر کو توقیفی مانا ہے اور ثانی الذکر کو اجتہادی۔ چنانچہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اللہ کے بارے میں کچھ ایسا اعتقاد رکھے جو منصوص نہیں ہے،یا اس کی کسی ایسے ڈھنگ سے عبادت کرے جو منصوص نہیں ہے۔عقل کو یہ آزادی نہیں دی جاسکتی کہ وہ اللہ کے بارے میں کوئی نیا عقیدہ تراشے یا اللہ کی عبادت کا کوئی نیاطریقہ اختراع کرے۔
البتہ وہ علوم ومعاملات جن کا تعلق سماجی اورشہری مسائل سے ہے تو وہ اجتہادی ہیں اور عقل کو چھوٹ ہے کہ وہ اس میں جتنا تفنن واختراع کر سکتی ہے کرے اور جتنا اپنی اختراعی صلاحیت کا مظاہرہ کر سکتی ہے کرے،بس ایک شرط کے ساتھ۔ وہ شرط یہ ہے کہ اُس کی تجویز کردہ کوئی صورت ایسی نہ ہو کہ وحیِ ربانی یعنی شریعت سے ٹکراتی ہو۔ اس شرط کالحاظ کرتے ہوئے وہ ہر نئی چیز اختیار کر سکتی ہے اور یہ ہرگز شرط نہیں کہ ان مسائل سے متعلق ہر چیز کے بارے میں نص کو دیکھا جائے گا۔
عقاید اور عبادت کا میدان وہ اکلوتا میدان ہے جس میں ہر بات کا منصوص یعنی نصِ شرعی سے ثابت ہونا ضروری ہے اور عقل اس میں کوئی نئی چیز ایجاد کرنے کی مجاز نہیں۔ جب کہ اجتہاد کا میدان وہ ہے جس میں صرف ایک شرط کے ساتھ کہ شریعت سے ٹکرائو نہ ہو،عقل کو کھلی اجازت دی گئی ہے کہ جس قدر نیا پن پیدا کر سکتی ہے کرے۔ اس پر کوئی قید وبندش نہیں۔