صحیحین(بخاری و مسلم) کا مقام و مرتبہ

صحیحین (بخاری/مسلم) کا مقام ومرتبہ

ذکی الرحمن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
 دشمنانِ اسلام نے انکارِ حدیث کے لیے راستہ ہموار کرنے کی غرض سے کتبِ حدیث پر نوع بہ نوع شکوک وشبہات وارد کیے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے طور طریقے مختلف ہیں اور نئے نئے اسلوب وآہنگ میں انھیں بار بار دہرایا جاتا ہے۔ جس طرح انھوں نے عام طور سے صحابۂ کرامؓ پر اور خاص طور سے نقلِ احادیث میں مشہور صحابۂ کرامؓ جیسے حضرت ابوہریرہ اور حضرت عائشہؓ وغیرہ پر اعتراضات کیے ہیں، ٹھیک یہی روش انھوں نے یہاں بھی اختیار کی ہے۔ ویسے تو یہ لوگ جملہ فقہاء ومحدثین کو اپنا دشمن سمجھتے اور بتاتے ہیں، مگر ان میں بھی خاص طور سے انھیں ان ائمہ وعلماء اور محدثین سے سخت پرخاش ہے جن کے واسطے سے احادیثِ نبویہ کی ایک بڑی تعداد نقل ہوکر کتبِ حدیث میں رکارڈ ہوئی ہے۔
 اس سلسلے میں ان کا سب سے بڑاٹارگیٹ امام ابن شہاب زہری بنے ہیں اور فقہاء میں ان بدبختوں کو سب سے زیادہ عناد اور بے زاری ائمۂ اربعہ سے ہے۔دراصل یہ لوگ جانتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان بلند قامت شخصیات کا تقدس، احترام اور بھروسہ ملت کے دل سے نکال دیا جائے تو بہت جلد تمام حدیثوں کا اعتبار ختم ہوجائے گا اور پھر دین میں تحریف وترمیم کرنا اعدائے اسلام کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگا۔(السنۃ ومکانتھا فی التشریع:ص۲۰۶-۲۲۶)
 کتبِ حدیث کے حوالے سے ان لوگوں کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جم کر ان کتابوں کا مذاق اڑائیں گے اور عجیب تحقیر وتذلیل کے انداز میں ان کتابوں کا ذکر کریں گے۔مثال کے طور پر اسماعیل منصور نام کا ایک منکرِ حدیث کہتا ہے:’’روئے زمین کے مختلف خطوں میں آباد مسلمانوں کوحدیث وسنت کی ان کتابوں کی حقیقت جان لینی چاہیے جو زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ یہ وہم وگمان پر مبنی کچھ اقوال وفرمودات ہیں جن کی نسبت راویوں سے ہے اور ان راویوں نے انھیں اللہ کے رسولﷺ سے منسوب کر دیا ہے، حالانکہ بدیہی اور حتمی ویقینی بات ہے کہ یہ اللہ کے رسولﷺ کے اقوال وارشادات نہیں ہیں۔‘‘[یجب أن تعرف الأمۃ فی جمیع بقاع الأرض بحقیقۃ کتب الحدیث والسنۃ عند جمیع فرق المسلمین وہی أنھا أقوال ظنیۃ منسوبۃ إلی رواۃ ینسبونھا بدورھم إلی رسول اللّٰہ ولیست ہی أقوالہ بالضرورۃ] (تبصیر الامۃ بحقیقۃ السنۃ، اسماعیل منصور:ص۴۳۲-۶۵۸)
 مستشرقین اور ان کے خوشہ چیں منکرینِ حدیث نے کبھی ان کتابوں کو اہانت کے ساتھ زرد کتابیں، روایات کا کباڑ خانہ اور فکری کوڑے کرکٹ کا ڈھیر کہا ہے۔(دیکھیں دراسات محمدیۃ، گولڈزیہر،ترجمۃ الصدیق بشیر، مجلۃ کلیۃ الدعوۃ، لیبیا:۱۰/۵۶۷۔ المسلم العاصی، احمد صبحی منصور: ص۲۹۔ الصلاۃ فی القرآن:ص۶۳۔ جریدۃ أفاق عربیۃ، عدد ربیع الآخر سنۃ ۱۴۱۸ھ۔ إنذار من السمائ، نیازی عز الدین:ص۶۷۷)
 کبھی صحاح ستہ، کتبِ سنن ومسانید اور معاجم ومصنفات کو مشکوک کہتے ہیں اور دلیل یہ دیں گے کہ ان کتابوں میں صحیح، حسن، ضعیف، منکر اور متروک ہر قسم کی روایتیں بلاتفریق وتمیز بھر دی گئی ہیں۔(اضواء علی السنۃ، محمود ابوریہؒ:ص۳۱۷-۳۳۰)
 یہ ان لوگوں کا طریقۂ واردات ہے۔مطلق حکم اور عمومی فیصلہ سنا دیں گے کہ کتبِ حدیث میں درج ہر روایت مشکوک اور مخدوش ہے، بغیر یہ بتائے کہ ائمۂ حدیث نے رات دن ایک کرکے ان میں صحیح اور ضعیف روایتوں کی الگ الگ نشاندہی کر دی ہے۔
 ادھر کچھ عرصے سے یہ لوگ اُن کتابوں پر زوردار حملہ کرتے ہیں جنھیں عرفِ عام میں صحیح اور معتبر سمجھا جاتا ہے جیسے صحیح بخاریؒ اور صحیح مسلمؒ۔ یہ دونوں کتابیں دشمنانِ دین کا خاص طور سے نشانہ بنی ہوئی ہیں کیونکہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ اگر ان دونوں کتابوں کے بارے میں عام مسلمان مشکوک ہوجائیں گے تو پھر انھیں پورے ذخیرۂ سنت سے بے زار اور متنفر ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی ہے۔عبدالجواد یاسین نام کے ایک منکر حدیث کہتے ہیں:’’چونکہ بخاریؒ اور مسلمؒ کو ان کی کتابوں کی وجہ سے بہت اونچا مقام دیا جاتا ہے اور اہلِ سنت والجماعت کے فہمِ دین کی صورت گری میں ان دونوں کا بڑا کردار رہاہے، اس لیے ہم اپنی کتاب میں خاص طور سے ان دونوں کتابوں میں درج روایتوں کو ہدفِ تنقید بنائیں گے۔‘‘ [ولأن البخاری ومسلم یجبان ما دونھما من الکتب فی مفہوم اہل السنۃ فسوف نحاول الترکیز علی مرویاتھما فی ہذا لصدد] (السلطۃ فی الإسلام:ص ۲۹۲۔ دین السلطان:ص۱۰۳-۱۱۳)
 محمود ابوریہ رافضی شیعہ نے یہی بات مسند احمدؒ کے بارے میں کہی ہے۔وہ لکھتے ہیں: ’’ہماری رائے یہ بنی کہ مسند احمدؒ پر مفصل گفتگو کی جائے کیونکہ یہ کتبِ حدیث میں مشہور ترین کتاب ہے تاکہ جب عام مسلمانوں کے سامنے اس کی حقیقت کھل جائے اور صحت وصداقت کے حوالے سے اس کا درجہ اور معیار سامنے لادیا جائے تو پھران کے لیے اسی پر دوسری حدیثی کتابوں کو قیاس کر نا آسان ہوجائے گا اور ہمیں ہر کتاب پر علاحدہ علاحدہ گفتگو نہیں کرنا پڑے گی۔‘‘[علی أننا قد رأینا أن نتکلم عن مسند أحمد الذی ہو أشہرھا لنبیّن للمسلمین حقیقتہ ونکشف عن درجتہ بین کتب الحدیث لیقاس علیھا درجۃ سائر المسانید ویغنینا ذلک عن الکلام فی غیرہ](اضواء علی السنۃ:ص۳۲۳۔اس کی تردید کے لیے دیکھیں القول المسدد فی الذب عن المسند، امام ابن حجرؒ)
 کتبِ حدیث پر طعن وتشنیع کا ایک آزمودہ نسخہ جو ہر منکرِ حدیث نے کم وبیش اپنایا ہے یہ ہے کہ صحیحین کو غیر مستند اور غیر معتبر ثابت کیا جائے۔ صحیحین پر ان کے اعتراضات کا جائزہ لیا جائے تو یہ دو پہلوئوں سے کیے گئے ہیں۔ ایک تو صحیحین کی حدیثوں کی عدمِ صحت کے لیے وہ چند حدیثیں پکڑتے ہیں جو ان کی مریضانہ ذہنیت اور بیمار سوچ کے مطابق قرآن سے، عقل سے یا سائنس سے ٹکراتی ہیں یا جن کی وجہ سے ان کے مطابق اللہ کے رسولﷺ کی سیرت وکردار داغدار ہوتا ہے۔ اسی میں یہ بھی شامل ہے کہ جو حدیث ان کی نگاہ میں تورات وانجیل کے مندرجات سے میل کھاجائے وہ جعلی اسرائیلی روایت ہوجاتی ہے۔مگر یہ سب ان کے خود ساختہ قاعدے اور ضابطے ہیں جن کی رو سے یہ من کی موج اور دماغ کی سنک اور پینک میں جس حدیث کے بارے میں چاہتے ہیں بطلان اور فساد کا حکم لگادیتے ہیں۔ اس کے متعدد نمونے ہم چاہیں تو پیش کر سکتے ہیں اور زیرِ طبع ایک کتاب ’’دفاعِ سنت: انکارِ حدیث کی قدیم وجدید کوششوں کا جائزہ‘‘ کا ایک مستقل باب اس قسم کی مثالوں کے لیے وقف ہے۔ (ویسے تفصیل کے لیے منکرینِ حدیث کی کتابوں میں ان مقامات کو دیکھیں اضواء علی السنۃ المحمدیۃ: ص۲۹۹-۳۱۶۔ الاضواء القرآنیۃ فی اکتساح الاحادیث الاسرائیلیۃ وتطہیر البخاری منھا، صالح ابوبکر:۲/۱۲۳۔ فجر الإسلام:ص۲۱۸۔ ضحی الإسلام:۱/۳۴۰، ۲/۱۲۲-۱۳۰۔دفع الشبہات عن الشیخ الغزالی، احمد حجازی السقا:ص۲۴،۳۱۔ البیان بالقرآن:۱/۱۰۔ الصلاۃ فی القرآن:ص۶۳۔ لماذا القرآن:ص۸۰-۱۵۴۔ القرآن والحدیث الإسلام: ص۴۰۔ تبصیر الامۃ بحقیقۃ السنۃ:ص۱۲۴،۱۲۷،۲۴۷،۴۳۲،۶۵۸۔ السنۃ و دورھا فی الفقہ الجدید:ص۸،۲۳۷۔ السلطۃ فی الإسلام:ص۲۹۲-۳۴۸۔ الاسلام بدون حجاب: ص۲۵- ۳۰۔تاملات فی الحدیث عند السنۃ والشیعۃ:ص۲۲۴-۲۲۵۔اہل السنۃ شعب اللہ المختار: ص۲۳۔ دفاع عن الرسول ضد الفقہاء والمحدثین:ص۳۴-۳۲۶۔ حوار ومناقشۃ کتاب عائشۃ ام المومنین لہشام آل قطیط:ص۱۷ حاشیہ۔ إنذار من السمائ:ص۶۹۶-۷۱۳) 
 نیازی عز الدین کی کتاب ’’دین السلطان‘‘ میں صحیحین کی حدیثوں پر سب سے زیادہ اعتراضات کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے اور انکارِ حدیث کے لیے انجام دی گئی مبسوط ترین کاوش ہے۔بہرحال صحیحین پر اعتراض کا یہ پہلا رخ ہے۔
 دوسرا طریقہ یہ ہے کہ علمائے دین میں سے جن حضرات نے بھی صحیحین کی اکا دکا حدیثوں پر کلام کیا ہے ان کی باتوں سے دلیل پکڑی جائے اوریوں دونوں کتابوں کی ہر حدیث کو مشکوک اور مخدوش باور کرانے کی کوشش کی جائے۔یہ طریقہ مستشرقین نے بھی اپنایا ہے اور ان پروردہ اور نمک خوار مسلم مفکرین نے بھی۔
 مستشرق گولڈ زیہر کہتا ہے:’’یہ سوچنا غلط ہے کہ ان دونوں کتابوں کا یہ مقام ومرتبہ جو آج ہمیں دکھائی دے رہا ہے وہ اس وجہ سے کہ کسی نے کبھی ان کی حدیثوں پر اعتراض نہیں کیا،یا یہ کہ پوری علمی دنیا مکمل بحث وتحقیق کے بعد ان کتابوں کے معیارِ صحت وصداقت پر مکمل طور سے مطمئن ہوگئی ہے۔ درحقیقت ان دونوں کتابوں کی سطوت اور دبدبے کی بنیاد قومی اور عوامی زیادہ ہے اور اس کا کوئی تعلق نصوص کے آزادانہ مطالعے سے نہیں ہے۔دونوں کے تقدس کی اساس یہ ہے کہ امت نے ان دونوں کی صحت پر اجماع کر لیا ہے اور ان کی ہر حدیث کو اعلیٰ درجے کی روایت کے طور پر تسلیم کیا ہوا ہے۔ اگرچہ ان دونوں کتابوں پر تنقید ناپسندیدہ سمجھی گئی ہے اوربالعموم اس کی اجازت نہیں دی جاتی ہے اورصحیحین کو اسلامی شریعت کی تشکیل وتعبیر میں کلیدی حیثیت حاصل ہوگئی ہے،اس کے باوجود دارقطنی(م:۳۸۵ھ) نے اپنی کتاب ’’الاستدراکات والتتبع‘‘ لکھی جس میں صحیحین کی دو سو حدیثوں کو نشانۂ تنقید بنایا گیا ہے۔‘‘(دراسات محمدیۃ:ص۲۳۶۔ ضوابط الروایۃ عند المحدثین: ص۳۹۲)
 منکرِ حدیث جمال البناء نے گولڈزیہر کی دیکھا دیکھی یہی بات اپنی کتابوں میں بار بار دہرائی ہے۔ (دیکھیں السنۃ ودورھا فی الفقہ الجدید:ص۲۵،۱۳۱،۱۵۹) 
 گولڈزیہر وغیرہ کفار وملحدین نے بعض علماء کی انفرادی آراء پر تکیہ کیا ہے اور ان کی آڑ میں صحیحین کی حدیثوں کی صحت وصداقت پر سوالیہ نشانات کھڑے کیے ہیں حالانکہ اس سلسلے میں ان کے پاس کوئی حقیقی دلیل یا تحقیق نہیں ہے۔پھر ان لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ صحیحین شاید آسمان سے اتری ہیں یا کسی دور میں اربابِ حکومت نے ان کتابوں کی ناروا پشت پناہی کی اور پوری ملت کے سروں پر انھیں زبردستی مسلط کر دیا۔ 
یقینا امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے آخری حد تک انسانی کوشش وکاوش کرتے ہوئے اپنی کتابوں میں صحیح حدیثیں جمع کرنے کا التزام فرمایاہے۔ مگر امت نے محض ان کے دعوے پر یقین نہیں کر لیا۔ ہوا یہ کہ ان دونوں کتابوں کو اس دور کے علماء نے اور اس کے بعد کئی صدیوں تک محدثین وماہرینِ فن نے جانچا اور پرکھا اور ان میں درج ایک ایک حدیث کی سند اور متن کا گہرائی سے جائزہ لیا اور امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے جن تنقیدی معیاروں اور ضابطوں کی پابندی کا اعلان کیا تھا ان کا تجزیاتی مطالعہ لیا اور ہر جگہ دیکھا کہ دعوے کی مکمل پابندی ہوئی ہے یا نہیں،کیا دونوں بزرگوں نے اپنی شرطوں کو نبھایا ہے اور اپنے وعدوں کی پوری پاسداری کی ہے؟
نتیجہ یہ نکلا کہ حفاظ ومحدثین کی ایک جماعت نے گنی چنی چند حدیثوں کے بارے میں اپنی یہ رائے دی کہ ہماری تحقیق کے مطابق ان میں مبینہ شرطوں کا پاس ولحاظ نہیں کیا گیا ہے اور یہ چند حدیثیں کتاب کی دوسری حدیثوں سے درجے میں فروتر ہیں۔ ان حضرات نے سندوں پر بھی بات کی ہے اور کچھ جگہوں پر متن کے حوالے سے اپنے تحفظات ظاہر کیے، مگر ان میں سے کسی نے بھی اپنے استدراک اورجائزے میں یہ دعویٰ نہیں کیا کہ صحیحین میں کوئی ایک حدیث بھی جعلی اور مصنوعی شامل ہوگئی ہے، بلکہ کسی نے کسی ایسی روایت کی نشاندہی بھی نہیں کی جوناقابلِ تحمل ضعف سے دوچار ہو۔ ان کے استدراک کی آخری منزل یہ تھی کہ انھوں نے بعض حدیثوں کو صحیحین کی شرطوں پر پوری اترنے والا نہیں پایا اور انھیں شیخین کے معیاروں سے فروتر محسوس کیا۔(الضوء اللامع المبین عن مناہج المحدثین، احمد محرم:۲/۲۲۲) 
 حافظ عقیلیؒ نے اس بارے میں بڑی پیاری بات لکھی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’امام بخاریؒ نے اپنی کتاب ’’الصحیح‘‘ تیار کی تو اسے امام علیؒ بن المدینی، امام احمدؒ بن حنبل اور امام یحییٰ بن معینؒ وغیرہ وقت کے اکابرین علماء کی خدمت میں پیش کیا اور سب نے اس کتاب کو پسند کیا اور اس میں درج حدیثوں کی صحت کی گواہی دی۔ مختلف مشائخ واساتذہ کی طرف سے بس چار حدیثوں کے بارے میں کچھ مشورے اور تجاویز آئیں۔‘‘ اس پر امام عقیلیؒ لکھتے ہیں کہ ہمارے نزدیک ان چار حدیثوں کے بارے میں بھی امام بخاریؒ کی رائے ہی راجح اور مستند ہے اور وہ چاروں روایتیں بھی صحت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔(ہدی الساری:ص۹،۵۱۴)
 امام نوویؒ فرماتے ہیں: ’’کچھ لوگوں نے بخاریؒ ومسلمؒ پر بعض حدیثوں کے سلسلے میں اعتراض واستدراک کیا ہے۔ ان کے مطابق ان حدیثوں میں شیخین نے شرائط کی پوری پابندی نہیں کی اور جس درجے اور معیار کی حدیثیں جمع کرنے کا انھوں نے اہتمام کیا ہے اسے باقی نہیں رکھ پائے ہیں۔ امام دارقطنیؒ نے اس سلسلے میں ایک کتاب لکھی جس کا نام ’’الاستدراکات والتتبع‘‘ ہے اور اس میں صحیحین کی دوسو حدیثوں کے بارے میں تحقیقات جمع کی ہیں۔ اسی طرح ابو مسعودؒ دمشقی نے بھی صحیحین پر استدراک کیا تھا۔ ابو الغسانی الجیانی نے اپنی کتاب ’’تقیید المہمل‘‘ کے پہلے حصے میں جو علل کے بارے میں ہے، صحیحین کی چند حدیثوں پر نقد کیا ہے۔اس کتاب میں چند حدیثوں کے حوالے سے صحیحین کے راویوں پر گرفت کی گئی ہے اور چند ایسی حدیثیں بھی پیش کی گئی ہیں جو شرائطِ شیخین پر پوری اترتی ہیں، اس کے باوجود انھیں صحیحین میں شامل نہیں کیا گیا۔مگرایسے جملہ یا بیشتر استدراکات وتصحیحات کا جواب دیا جاچکا ہے۔‘‘(صحیح مسلم مع شرح النووی، مقدمۃ الشارح، فصل فی الاحادیث المستدرکۃ علی البخاری ومسلمؒ:۱/۴۹) 
 امام نوویؒ نے صحیح مسلم کی شرح میں احادیثِ مسلمؒ پر ہونے والے اعتراضوں کا جواب دیا ہے، جب کہ ان کے بعد علامہ ابن حجرؒ نے صحیح بخاریؒ کے سلسلے میں ہونے والے اشکالات رفع کر دیے ہیں۔ ان کی شرح ’’فتح الباری‘‘ کا مقدمہ ’’ہدی الساری‘‘ اس سلسلے میں کافی مشہور ومعروف ہے۔’’ہدی الساری‘‘ کی وجہ سے علامہ ابن حجرؒ کی امامت وسیادت تمام اہلِ فن نے تسلیم کی ہے۔ علماء نے یہاں تک کہا ہے کہ اگر یہ مقدمہ سونے کے پانی سے لکھا جائے تب بھی اس کا حق ادا نہیں ہوپائے گا۔ اس مقدمے میں ایک طرف تو صحیح بخاریؒ پر ہونے والے اعتراضات وشبہات کا مسکت جواب دیا گیا ہے،دوسری طرف صحیح بخاریؒ کے مطالعے کے سلسلے میں بہت سے رہنما مباحث بھی پیش کیے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ امام بخاریؒ کے حالاتِ زندگی، ان کے قائم کردہ ابواب کے مقاصد وغایات اور ابواب سے حدیثوں کی مناسبت وغیرہ بہت سے اہم پہلوئوں پر خاطر خواہ روشنی ڈالی گئی ہے۔ امام ابن حجرؒ نے تقریباً چارسال کی محنتِ شاقہ کے بعد یہ مقدمہ لکھا۔ یہ مقدمہ صحیح بخاریؒ کے ہر طالبِ علم کے لیے ایک گائیڈبک ہے۔ جو شخص بھی ایمان داری اور طلبِ صادق کے ساتھ صحیح بخاریؒ پڑھنے کا خواہاں ہے اور کتبِ حدیث میں اس کے مقام ومرتبے کے ادراک کا خواہشمند ہے تو اسے محنت اور لگن سے اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ 
 امام ابن حجرؒ نے ’’ہدی الساری‘‘ میں محض صحیح بخاری کا دفاع ہی نہیں کیا، بلکہ مجموعی طور سے صحیحین کا دفاع فرمایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’اس سوال کا مختصر جواب دینے کے لیے ہم کہنا چاہیں گے کہ بخاریؒ اور مسلمؒ کو اپنے اہلِ زمانہ اور بعد میں اس فن کے ائمہ پر گوئے سبقت وفوقیت حاصل ہے۔ صحیح اور معلل روایتوں کے فن سے گہری واقفیت رکھنے والے تمام علماء ان کے احسان مند اور منت کیش ہیں۔ سب متفقہ طور سے مانتے ہیں کہ امام علیؒ بن المدینی اپنے اقران واماثل میں احادیث کی علتوں کے بارے میں گہری واقفیت رکھتے تھے اور امام بخاریؒ نے ان سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ وہ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں نے کسی کی مجلس میں اپنے آپ کو چھوٹا محسوس نہیں کیا سوائے ایک علیؒ بن المدینی کی مجلس کے۔ مگر جب امام علیؒ بن المدینی کو ان کی یہ بات سنائی گئی تو انھوں نے فرمایا:’’ان کی اس بات پر مت جائو، ورنہ سچ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے جیسا کسی کو نہیں پایا ہے۔‘‘امام محمدؒ بن یحییٰ ذہلی کو اپنے زمانے میں امام زہریؒ کی حدیثوں کی علتوں کا سب سے بڑا شناسا اور ماہر سمجھا جاتا تھا۔ امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے ان سے بھی استفادہ کیا ہے۔ فربریؒ نے امام بخاریؒ کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے ’صحیح‘ میں کوئی بھی حدیث درج کرنے سے پہلے اللہ سے استخارہ کیا ہے اور اس کی صحت کا اچھی طرح یقین کر لیا ہے۔مکیؒ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام مسلمؒ بن الحجاج کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے اپنی کتاب کو امام ابوزرعہؒ رازی کی خدمت میں پیش کیا اور انھوں نے جس حدیث کے بارے میں بھی کسی علت کا اشارہ کیا،اسے چھوڑ دیا۔اس سے معلوم ہوگیا کہ شیخین نے اپنی صحیحین میں صرف انہی حدیثوں کو درج کیا ہے جو علت سے خالی ہیں یا جن کی علت شیخین کی نگاہ میں اثرانداز ہونے والی (قادحِ صحت)نہیں ہے۔اس لیے جن لوگوں نے بھی شیخین کی حدیثوں پر نقد کیا ہے تو وہ دراصل ان کے طریقۂ تصحیح کے حساب سے کیا ہے اور سچی بات یہ ہے کہ حدیثوں کی صحت وعلت کے سلسلے میں شیخین کی رائے دوسروں سے زیادہ معتبر اورمستند ہے۔ اس لیے یہ اعتراض ہی سرے سے ختم ہوجاتا ہے کہ فلاں اور علاں نے صحیحین پر نقد کیا ہے۔‘‘(ہدی الساری:ص۳۶۴-۳۶۵) 
 اس کے بعد علامہ ابن حجرؒ نے صحیحین کی ان حدیثوں پر تفصیل سے کلام کیا ہے جن پر اعتراضات کیے گئے ہیں اور ہر جگہ شیخین کی علمیت اور فضیلت وفوقیت کو بڑی عمدگی کے ساتھ ثابت کر دکھایا ہے۔(ہدی الساری:۲۶۶، ۳۶۴-۴۰۲)ان کا ماننا ہے کہ ہدفِ تنقید بنی جگہوں میں سے اکثر کا جواب بہ آسانی دیا جاسکتا ہے، بہت کم جگہیں ایسی ہیں جہاں کسی قدر کلفت اور محنت کی ضرورت پڑتی ہے اور تکلف سے کام لینا پڑتا ہے۔ (ہدی الساری:ص۳۶۶-۴۰۲) 
 دکتور ابوشہبہ فرماتے ہیں:’’شاید جن احادیث کے دفاع میں تکلف سے کام لیا گیاہے اور جہاں تنقید کرنے والے حق پر ہیں، ان میں سے ایک حضرت شریکؒ بن ابی نمر کی حدیثِ اسراء ومعراج بھی ہے جسے انھوں نے حضرت انسؓ بن مالک کے واسطے سے نقل کیا ہے۔ یہ ایک طویل حدیث ہے اور اس میں جناب شریکؒ نے حضرت انسؓ سے اس حدیث کو نقل کرنے والے دیگر تمام راویوں کی مخالفت کی ہے، متن کے الفاظ بھی جداہیں اور اس کی سند میں بھی راویوں کے نام کے ساتھ الٹ پھیر ہواہے۔ بعض الحاقی کلمات بھی پائے جاتے ہیں جن میں سب سے زیادہ عجیب وغریب یہ جملہ ہے کہ واقعۂ اسراء ومعراج ماقبلِ نبوت دور کا واقعہ ہے۔[إن الإسراء کان قبل أن یوحیٰ إلیہ](صحیح بخاریؒ:۷۵۱۷۔ صحیح مسلمؒ:۱۶۲)
 امام خطابیؒ، علامہ ابن حزمؒ، علامہ عبدؒالحق، قاضی عیاضؒ اور امام نوویؒ وغیرہ متعدد محدثین نے اس حدیث کو منکر (ضعیف راوی کی روایت جو ثقہ راوی کی روایت کے خلاف ہے) مانتے ہوئے اس میں پائی جانے والی غلط بیانی کا ذمے دارشریکؒ بن ابی نمر کو قرار دیا ہے۔یقینا شریکؒ بن ابی نمر ثقہ اور معتبر راوی تھے، کسی نے ان پر جھوٹ کی تہمت نہیں لگائی ہے۔ تاہم اس حدیث کے سلسلے میں وہ کنفیوژن کا شکار ہوئے ہیں اور الفاظ کو صحیح سے یاد نہیں رکھ سکے۔ورنہ سچی بات یہ ہے کہ تقریباً تمام ماہرینِ جرح وتعدیل نے شریک بن ابی نمر کی توثیق فرمائی ہے۔ (فتح الباری:۱۳/۴۹۴۔ تقریب التہذیب:۱/۴۱۸۔ الثقات، عجلیؒ:ص۲۱۷۔ الثقات، ابن حبانؒ: ۴/ ۳۶۰۔ الکاشف:۱/۴۸۵۔ معرفۃ الرواۃ المتکلم فیہم بما لا یوجب الرد، ذہبیؒ:ص۱۱۶) 
 امام بخاریؒ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں درج کیا ہے، مگر ان کی طرف سے عذرخواہی میں کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے واقعۂ معراج کے بارے میں صحیح حدیثیں جن میں واقعات کی صحیح ترتیب وغیرہ کا اہتمام کیا گیا ہے، اپنی کتاب میں بیان کر دی ہیں۔اس طرح سے انھوں نے اشارہ کر دیا ہے کہ شریک بن ابی نمر کی روایت میں کچھ غلطیاں ہیں۔ صحیح بخاریؒ کا مذاق رکھنے والے بہ خوبی جانتے ہیں کہ امام بخاریؒ اس قسم کے اشارے اور تلیمحات میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ (صحیح بخاریؒ:۳۲۰۷،۳۸۸۷۔ أعلام المحدثین: ص۱۴۰-۱۴۱۔ فی رحاب السنۃ ، الکتب الصحاح الستۃ: ص۷۱۔ فتح الباری:۱۳/۴۸۸ -۴۸۹۔ أحادیث الاسراء والمعراج دراسۃ توثیقیۃ)
 صالح ابوبکر جیسے منکرینِ حدیث نے احادیثِ معراج میں لفظی اختلاف کو بہانہ بناکر پورے ذخیرۂ حدیث پر انگشت نمائی کی ہے۔ اس کے جواب میں دکتور رفعت فوزی کی تحقیق شدہ کتاب ’’الإبہاج فی أحادیث المعراج للامام ابن دحیۃ‘‘ اور دکتور ابوشہبہؒ کی کتاب ’’الاسراء والمعراج‘‘ کا مطالعہ مفید ہوگا۔دکتور رفعت فوزی نے احادیثِ اسراء ومعراج پر اٹھائے جانے والے اعتراضوں کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے:’’اس روایت پر تنقید وتمحیص کی شکل میں ہمارے سامنے علمی وتعمیری تنقید کا اعلیٰ نمونہ سامنے آتا ہے جہاں ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ حقیقت واضح کر دی جائے اور یہ نہ دیکھا جائے کہ امام بخاریؒ کا مقام ومرتبہ کیا ہے اور ان کی کتاب کو کتنا مستند ومعتبر سمجھا جاتا ہے۔ اسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے قدیم وجدید علمائے دین اور نقاد محدثین نے کبھی حدیثوں کے متن سے صرفِ نظر نہیں کیا جیسا کہ بعض جاہلوں کا دعویٰ ہے۔ انھوں نے ہمیشہ سند کے ساتھ ساتھ حدیث کے متن پر بھی نگاہ رکھی اور اسے قرآن اور سنتِ صحیحہ کی روشنی میں جانچا اور پرکھا ہے تاکہ جعلی اور ملاوٹی متون والفاظ کو ذخیرۂ روایات سے علاحدہ کر دیا جائے۔‘‘ (احادیث الاسراء والمعراج دراسۃ توثیقیۃ:ص۹۱-۹۲)
 صحیحین کے بہت سے راویوں پر بھی بعض متقدمین نے کلام کیا ہے۔ صحیح بخاریؒ میں ایسے راویوں کی تعداد اسّی اور صحیح مسلمؒ میں ایک سو ساٹھ ہے۔ان میں حضرت عبدؓاللہ بن عباس کے آزاد کردہ غلام عکرمہؒ، اور عمروؒ بن مرزوق اور سویدؒ بن سعید وغیرہ شامل ہیں۔(دیکھیں ہدی الساری:ص۱۳۔ علوم الحدیث، ابن الصلاحؒ:ص۱۴۱-۱۴۲۔ تدریب الراوی:۱/۳۰۵۔ فتح المغیث، سخاویؒ:۱/۳۳۴)
دشمنانِ دین اور منکرینِ سنت نے ایسے راویوں کی موجودگی کو بھی صحیحین پر اعتراض ودشنام کا بہانہ بنایا ہے اور اس طرح سے صحیحین کی حیثیت اور اہمیت ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ (حدالردۃ، احمد صبحی منصور:ص۸۵-۸۷) 
 مگر ان کا یہ اعتراض برائے اعتراض ہے کیونکہ صحیحین کے جن راویوں پر بھی محدثین نے کلام کیا ہے ان میں سے کوئی ایک راوی بھی ایسا نہیں ہے جس کی دروغ گوئی یا ضعفِ شدید محدثین کے یہاں مسلّم اورمتفق علیہ ہو۔بس ایسا ہوا ہے کہ جہاں بہت سارے علمائے جرح وتعدیل نے انھیں معتبر ومستند بتایا ہے، وہاں اکّا دکّا لوگوں نے ان پر جرح بھی کی ہے۔ایسے میں شیخین نے اپنے علم ومطالعے کی روشنی میں تعدیل وتوثیق کرنے والے علماء کا موقف اپنایا اور ان کی حدیثیں بیان کر دیں۔ مگر اس پر بھی شیخین نے یہ احتیاط برتی ہے کہ ایسے راویوں کی حدیثیں انھوں نے اصول کے درجے میں ذکر نہیں کی ہیں، بلکہ متابعات وشواہد میں ذکر کی ہیں اور اگر کہیں اس کے خلاف ہوا بھی ہے تو ان کے ساتھ دیگر ثقہ اور معتمد علیہ راویوں کی ہم معنی روایات درج کی ہیں تاکہ جسے بھی ایسے کسی راوی کی روایت پر اشکال ہو تو وہ دیگر روایتیں دیکھ کر اپنی تشفی کرلے۔ گویا تمام راویوں کی مجموعی روایات کی روشنی میں اُس معنی ومضمون کی صحت وصداقت طے شدہ ہوجاتی ہے۔ (الضوء اللامع المبین عن مناہج المحدثین، احمد محرم:۲/۲۲۹)
  علامہ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:’’ہر منصف مزاج انسان کو جان لینا چاہیے کہ امام بخاریؒ یا امام مسلمؒ جب کسی راوی کی حدیث اپنی صحیح میں درج کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک یہ راوی عادل ہے اور اس کی یادداشت اور ضبط پر اعتماد کیا جاسکتا ہے اور اس کے اندر غفلت شعاری اور سہل کوشی جیسی خرابیاں نہیں ہیں۔یہ بات اس لیے سمجھ لینا ضروری ہے کیونکہ جمہور ائمۂ حدیث نے ان دونوں کتابوں کو مجموعی طور سے صحیحین کا جامع لقب دیا ہے۔ چنانچہ کسی راوی کی حدیث اگر شیخین نے صحیحین کے علاوہ کسی کتاب میں نقل کی ہے تو اسے ثقاہت وصداقت کا سرٹیفیکیٹ نہیں دیا جائے گا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جمہور علماء نے اتفاق کر لیا ہے کہ صحیحین کا ہر راوی عادل اور ثقہ ہے۔مگر یہ صرف ان حدیثوں کے راویوں کے لیے جن کی حدیثیں بہ طورِ اصل کتاب میں درج کی گئی ہیں۔ رہی وہ روایات جنھیں متابعات وشواہد کے طور پر یا تعلیقاً بیان کیا گیا ہے تو ان کے راویوں کو بھی مطلقاً سچا مانا گیا ہے، مگر حفظ وضبط کے اعتبار سے ان کے درجات جداگانہ ہیں۔ ان راویوں کے حوالے سے بھی اگر کسی امام نے جرح کی ہے تو اس کے مقابلے پر دوسرے امام نے تعدیل بھی کی ہے۔ 
جرح کے بارے میں اصول ہے کہ جرح مفسر ہونی چاہیے، یعنی یہ بھی بتایا جائے کہ کس وجہ سے فلاں راوی اپنے حفظ اورضبط میں کمزور خیال کیا گیا۔آیا وہ مطلقاً حفظ وضبط میں کمزور ہے یا خاص اس روایت کے نقل وبیان میں اس سے کوتاہی سرزدہوئی۔ دراصل جرح کے اسباب مختلف ائمہ کے یہاں متنوع ہوتے ہیں۔ کچھ اسباب قادحِ عدالت ہوتے ہیں اور روایت کو کمزور بنادیتے ہیں اور کچھ سے روایت کمزور نہیں ہوتی، بس اس کی صحت کا درجہ نیچے آجاتا ہے۔ شیخ ابو الحسن المقدسیؒ جب کسی راوی کی حدیث صحیحین میں پاتے تھے تو اپنے تلامذہ سے کہتے تھے کہ یہ راوی پل پار کر گیا۔ یعنی اب اس کے سلسلے میں اقوالِ جرح دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔شیخ ابو الفتح القشیریؒ نے یہی بات اپنی کتاب ’’مختصر القشیری‘‘ میں کہی ہے۔یہی ہمارا بھی اذعان ہے اور ہم اس سے باہر نہیں جاتے، الا یہ کہ کوئی حجتِ ظاہرہ مل جائے یا کوئی ایسا شافی وکافی بیان سامنے آجائے جو ہمارے پہلے سے جمے جمائے غلبۂ ظن سے بھاری بھرکم ثابت ہو۔ دراصل صحیحین کے لیے اس نام پر لوگوں کا اتفاق کر لینا اس امر کا متقاضی ہے کہ ان دونوں کتابوں کے راویوں کو بھی عادل اور ثقہ سمجھا جائے۔‘‘(ہدی الساری:ص۴۰۳)
 اس سلسلے میں فیصلہ کن بات یہ ہے کہ امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ دونوں خود بھی جرح وتعدیل کے فن میں درجۂ امامت پر فائز ہیں اور یہ حضرات اپنے راویوں کے بارے میں زیادہ علم ومعرفت رکھتے ہیں۔کسی راوی کے بارے میں اگر کسی نے کلام کیا ہے تو اس کے مقابلے پر شیخین میں سے دونوں کی یا کسی ایک کی توثیق موجود ہے۔ اگر راویوں کے بارے میں کسی بھی جرح کرنے والے کی جرح قبول کر لی جائے اور اس کی بنیاد پر راوی کو چھوڑ دیا جائے تو پھر دنیا میں کوئی خبر قابلِ قبول نہیں رہے گی اور نہ کوئی اثر نقل کیا جائے گا۔کونسا راوی ہے جس پر اعتراض نہیں کیا گیا ہے؟ اور کب سے اعتراض برائے اعتراض کو حجت مان کر اخذ وترک کا فیصلہ کیا جانے لگاہے؟(الضوء اللامع المبین عن مناہج المحدثین:۲/۲۳۲) 
 علامہ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:’’یہ اچھی طرح جان لو کہ بعض حضرات نے راویوں پر طعن اس لیے کیا ہے کیونکہ اِن کے اور اُن کے درمیان عقائد کا اختلاف تھا۔ اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے اور ایسی جرح کو معتبر نہیں ماننا چاہیے سوائے ان جگہوں کے جہاں سچ مچ جرح درست ہے۔ اسی طرح بہت سے دیندار حضرات نے اس بات کو راویوں کا عیب قرار دیا ہے کہ وہ کیوں کاروبارِ دنیا میں منہمک ہوئے اور اس وجہ سے ان کی تضعیف کر دی۔ مگر راوی کے سچا ہونے اور یادداشت کے پختہ ہونے کے بعد اس قسم کی جرح کی وجہ سے اسے ضعیف نہیں کہا جائے گا۔‘‘ (ہدی الساری:ص۴۰۴،۴۰۵-۴۹۳۔نیز دیکھیں البیان والتوضیح لمن أخرج لہ فی الصحیح ومس بضرب من التجریح، حافظ عراقی۔ معرفۃ الرواۃ المتکلم فیھم بمالایوجب الرد، امام ذہبی)
 اس تفصیل کو ذہن میں رکھیں تو گولڈزیہر وغیرہ کا یہ دعویٰ بالکل بکواس لگتا ہے کہ صحیحین کی مقبولیت اور علمی غلبے کی وجہ نری جذباتیت اور عوامی جوش وخروش ہے اور اس سلسلے میں نصوص کے آزادانہ وناقدانہ مطالعے کی زحمت نہیں اٹھائی گئی ہے۔ہم دیکھ چکے ہیں کہ صحیحین کی مقبولیت کی بنیاد امت کا اجماع ہے۔ امت نے ان دونوں کتابوں میں درج حدیثوں کو شرفِ قبول بخشا ہے اور انھیں صحت وصداقت کے اعلیٰ معیار پر کھرا پایا ہے۔
گولڈزیہر وغیرہ کے دعوے بے بنیاد ہیں۔ہر دور کے علماء نے ان دونوں کتابوں کا گہرائی سے جائزہ لیا ہے، ان میں مندرج ایک ایک سند اور متن کی تحقیق کی ہے، شیخین نے جن اعلیٰ تنقیدی معیارات کے التزام کی شرط لگائی ہے ان پر انھیں جانچا اور پرکھا ہے اور بار بار اس کارگزاری کے بعد ائمۂ دین اور ماہرینِ فن محدثین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شیخین نے حدیثوں کی صحت کا بہت اونچا معیار قائم کیا ہے اور اپنی کتابوں میں اسے برت کر دکھایا ہے۔گنتی کی چند حدیثیں ہیں جن پر بعض حضرات کو اشکال ہوا ہے، مگر تحقیق وتفحص کے بعد ان کے بارے میں بھی شیخین کا موقف ہی صائب اور صحیح نظر آتا ہے،یعنی کہ وہ حدیثیں ترجیحی طور سے درست ہیں۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ صحیحین کا یہ مقام ومرتبہ کسی فردِ واحد کی محنت کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ پوری امت کی مشترک مساعی کا ثمرہ ہے۔
 پوری امت کے ماہرینِ فن محدثین نے ان کتابوں پر کام کیا ہے۔ آثارِ نبویہ کے رد وقبول میں ان جہابذۂ فن کی بات قبول ہوتی ہے۔ کسی حدیث کی صحت وضعف کے بارے میں اجماعِ امت کی بات کہی جاتی ہے تو انھی حضرات کا اجماعی موقف مدِ نظر ہوتا ہے۔ انہی حضرات نے صحیحین کی صحت پر اتفاق کیا ہے اور انھیں تلقیِ قبول بخشا ہے۔ یہ اجماعِ معصوم ہے جس کے بارے میں کسی مغرور ومتکبر اور حقیقت سے منھ پھیرنے والے شخص کی بات قبول نہیں کی جائے گی۔علامہ ابن خلدونؒ فرماتے ہیں:’’تم ہرگز نہ کہو کہ صحیحین کے راویوں میں ضعف یا یادداشت کی خرابی پائی جاتی ہے کیونکہ امت نے اجماع کر لیا ہے کہ ان دونوں کتابوں کی ہر حدیث قبول کی جائے گی اور اس کے مطابق عمل کیا جائے گا۔ اس اجماع نے ان دونوں کتابوں کو مضبوط ترین تحفظ اور بہترین دفاعی حصار فراہم کر دیا ہے۔‘‘(مقدمۃ ابن خلدونؒ: ص۳۴۵) 
 گولڈ زیہر کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ صحیحین پر کسی بھی قسم کی تنقید کی اجازت نہیں دی جاتی ہے اور ان دونوں کتابوں کو ایک گونہ مقدس اورمتبرک شے (Taboo)کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ مگر آگے چل کر وہ خود اس کی تردید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ امام دارقطنیؒ نے صحیحین پر نقد میں اپنی کتاب ’’الاستدراکات والتتبع‘‘ لکھی ہے۔ گولڈزیہر کا یہ دعویٰ صریحاً تناقض پر مبنی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ علمائے کرام نے صحیحین کی بلا رو رعایت جانچ پڑتال کی ہے اور امام دارقطنیؒ ہی نہیں، علامہ دمشقیؒ اور علامہ غسانیؒ نے بھی صحیحین پر استدراک فرمایا ہے۔مگر گولڈزیہر اور اس کے متبعین اس حقیقت کو بھول گئے کہ صحیحین کی عظمت ورفعت کا راز یہ نہیں ہے کہ کسی نے آج تک ان کا تنقیدی مطالعہ اور جائزہ نہیں لیا، بلکہ صحیحین کی عظمت کا رازیہ ہے کہ یہ ہر قسم کی تنقیدوں اور اعتراضوں سے بری الذمہ ثابت ہوئیں۔ جو بھی الزامات واتہامات ان کتابوں کی حدیثوں اور راویوں پر لگائے گئے، وہ سب تحقیق وتمحیص کے بعد غلط ثابت ہوئے۔
پھر یہ بھی ہم سب جانتے ہیں کہ ہر شخص اس لائق نہیں ہوتا کہ تنقید کرے اور نہ ہر تنقید اس لائق ہوتی ہے کہ اس پر غور کیا جائے۔پھر تنقید کبھی کسی ایک پہلو یا جزئیے کے حوالے سے ہوتی ہے اور جہلاء یہ سمجھتے ہیں کہ تنقید پوری کتاب پر کی گئی ہے۔ یہی حال ان تمام استدراکات (Clarifications)کا ہے جو مختلف ادوار میں صحیحین پر کیے گئے ہیں۔ ناقدینِ حدیث جن کے فیصلوں کا احترام کیا جاتا ہے، ان کا متفق علیہ فیصلہ ہے کہ صحیحین پر ہونے والے استدراکات میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس کی بنیاد پر ان دونوں کتابوں کی صحت وثقاہت میں کوئی فرق آتا ہو یا ان کا مقام ومرتبہ گرجاتا ہو۔(ضوابط الروایۃ عند المحدثین:ص۳۹۳-۳۹۴)
 مگر افسوس کی بات ہے کہ دشمنانِ حدیث اپنے سادہ لوح قارئین ومعتقدین کو یہی تأثر دیتے ہیں۔ دکتور احمد محرم فرماتے ہیں:’’بخاریؒ ومسلمؒ کے راویوں میں سے بعض کی طرف وہم کی نسبت کی گئی ہے جسے ہم بھی تسلیم کرتے ہیں، مگر یہاں یہ فرق ملحوظ رکھنا چاہیے کہ وہم کی نسبت ایک چیز ہے جس کے بعض شواہد صحیحین میں ملتے ہیں اور راوی کے ضعیف ہونے یا وضاع ہونے کا معاملہ بالکل دوسری چیز ہے۔ یہ دوسری بات صحیحین کے کسی راوی کے بارے میں کسی نے بھی نہیں کہی ہے اور نہ کہی جاسکتی ہے۔ اگر ایسی بات کوئی زبان سے نکالتا ہے تو وہ دراصل دلیل وبرہان کے بغیر لاف گزاف بک رہا ہے اور شیطنت ونفسانیت اس کے سر پر بری طرح سوار ہے۔اس لیے ہم ہر ایک سے کہتے ہیں کہ صحیحین کے مقام ومرتبے کو کم کرنے سے بچوکیونکہ اس کا اثر پورے دین پر پڑے گا اور انھیں ان کی بلندی سے اپنی پستی تک کھینچ لانے کی کوشش نہ کرو کیونکہ تمہارے ذرا سے فائدے کی وجہ سے ہزاروں لاکھوں انسانوں کا دین وایمان سے رشتہ کمزور یا منقطع ہوجائے گا۔‘‘(الضوء اللامع المبین عن مناہج المحدثین:۲/۲۲۸)
 صحیحین کتبِ حدیث میں سب سے مستند اور معتبر کتابیں ہیں۔ امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے ان دو کتابوں میں اعلیٰ درجے کی صحیح حدیثیں یکجا کرکے دین کی عظیم الشان خدمت کی ہے اور ملت پر بہت بڑا احسان کیا ہے جس کی یہ امت ہمیشہ مقروض رہے گی۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے محسنوں کی شکرگزاری کی توفیق دے اور ان دونوں کتابوں سے امت کو جو فائدہ پہنچا ہے اس پر شیخین کو زیادہ سے زیادہ اجر وثواب عطا کرے۔(فی رحاب الکتب الستۃ:ص۹۷۔ الحدیث والمحدثون:ص۳۹۹-۴۰۳۔ کتب السنۃ دراسۃ توثیقیۃ، رفعت فوزی)
 شیخ احمد شاکر کی بات پر ہم بات ختم کریں گے کیونکہ انھوں نے ہمارے جذبات واحساسات کی عمدہ ترجمانی کر دی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:’’علمِ حدیث سے اشتغال رکھنے والے محققین اور ان کے بصیرت مند مستفیدین کے نزدیک جو بات حق ہے اور ہر شک وشبہے سے بالاتر ہے یہ ہے کہ صحیحین کی احادیث سب کی سب درست ہیں، ان میں سے کسی ایک حدیث میں بھی (نہ کہ کسی حدیث  کی ایک روایت) کوئی ضعف کا پہلو یا اعتراض کی گنجائش نہیں پائی جاتی۔ دارقطنیؒ وغیرہ حفاظِ حدیث نے صحیحین کی بعض روایتوں پر نقد کیا ہے یہ مان کر کہ یہ روایتیں صحت وثقاہت کے اس اعلیٰ معیار کو نہیں پہنچتی ہیں جو شیخین میں سے ہر ایک نے اپنی کتاب میں برتنے کی کوشش کی تھی۔ ورنہ جملہ حدیثوں کی صحت پر ان کا بھی اعتقاد ہے اور اس میں کسی ایک فرد نے بھی مخالفت نہیں کی ہے۔ اس لیے افواہ بازوں کی افواہوں سے پریشان مت ہوجائو جو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ صحیحین کی حدیثیں نادرست ہیں۔یہ لوگ جن حدیثوں کی بھی نشاندہی کرتے ہیں تم انھیں چھانٹ کر الگ کر لو اور ہر ایک کو ان قواعد وضوابط کی روشنی میں جانچو جن کے مطابق اس علم کے ماہرین وائمہ نے حدیثوں کو جانچا ہے اور پھر دلیل وبرہان کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرو۔ انشاء اللہ تم سمجھ جائو گے کہ صحیحین کی صحت پر پوری ملت نے اتفاق کیوں کیا ہے۔ ویسے راہِ راست پر چلنے کی توفیق ارزانی خالصتاً اللہ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ (الباعث الحثیث:ص۲۹۔ فی رحاب الکتب الستۃ:ص۷۲)
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
اپنی راۓ یہاں لکھیں