صبر و شکر

اگر انسان کو صبر وشکر کی دولت نصیب ہوجائے !

محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

اس وقت پوری دنیا کے انسانوں میں جن چیزوں کی کمی اور فقدان ہے ،ان میں صبر شکر کا مادہ بھی ہے ، بے صبری اور ناشکری کا مرض عام ہے اور اس روحانی بیماری اور مرض میں خاص و عام سب مبتلا نظر آتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص پریشان، رنجیدہ اور مضطرب و بے چین نظر آتا ہے، جو ملا ہے اس پر شکر بجا نہیں لاتا اور جو نہیں ملا ہے اس پر صبر نہیں کرتا، اپنے سے بلند معیار زندگی والے کو رشک اور حسرت کی نظر سے دیکھتا ہے تو اور زیادہ پریشان اور دکھی ہوجاتا ہے، جب کہ نبوی ہدایت ہے کہ اسباب دنیا میں اپنے سے نیچے والے پر نظر رکھو اور عمل و ریاضت اور عبادت و بندگی میں اپنے سے اونچے والے پر نظر رکھو۔ یہ ذہنی، دماغی اور قلبی سکون و اطمنان کا وہ عظیم نبوی نسخہ اور اکسیر ہے کہ اس بڑھ کر دینا میں اس بیماری کا کوئی علاج ہی نہیں ہے، کاش مسلمان اس نبوی نسخہ کو خود آزماتے اور دنیا کے مضطرب، بے چین اور بے سکون انسان کو یہ نبوی ﷺ نسخہ بتاتے تاکہ ان کو بھی سکون و اطمنان کی دولت مل جاتی اور اس نبوی نسخے کے صدقے میں راہ ہدایت کی توفیق پالیتے۔۔۔ صبر و شکر کے سلسلے میں اسلامی ہدایات کیا ہیں؟ آئیے آج کی مجلس میں اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔۔۔۔۔
صبر و شکر کے سلسلے میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: “عَجَبًا لأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ ‏”‏
(صحیح مسلم/حدیث نمبر ٧٤٢٥)
ترجمہ: مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، (اس لیے کہ) اس کے ہر معاملے میں خیر ہوتا ہے، اور یہ چیز مومن کے علاوہ اور کسی کو میسر نہیں، وہ اس طرح کہ اگر اس پر کوئی مصیبت آتی ہے اور وہ اس مصیبت پر صبر کرتا ہے تو اس صبر کرنے میں اس کے لیے خیر ہے، اور اگر اس کو خوش حالی میسر ہوتی ہے اور اس پر وہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے، تو اس شکر کرنے میں اس کے لیے خیر ہے۔
مذکورہ بالا حدیث سے یہ معلوم‌ ہوا کہ صبر و شکر کی یہ عظیم دولت جس کے ذریعے مومن اس دنیا میں ہر طرح کے حالات و مشکلات کا مقابلہ کرسکتا ہے اور خوشی و رنج اور تکلیف و راحت کے وقت اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکتا ہے اور خوشی و غمی دونوں حالتوں پر اس کے لیے خیر ہو یہ دولت اور انعام صرف اور صرف مومن کو حاصل ہے اس میں کوئی اور غیر مومن،مومن بندہ کا شریک و سہیم نہیں ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ مصائب کے ہجوم میں جو چیز انسان کو راہ راست پر قائم رکھتی ہے اور کسی سخت سے سخت اور مشکل سے مشکل حالت میں بھی اس کے قدم ڈگمگانے نہیں دیتی، وہ صرف ایمان باللہ ہے، جس کے دل میں ایمان نہ ہو وہ آفتوں کو اتفاق کا نتیجہ سمجھتا اور خیال کرتا ہے، یا دنیوی طاقتوں کو ان کے لانے اور روکنے میں موثر مانتا ہے، ان تمام صورتوں میں آدمی کم ظرف ہوکر رہ جاتا ہے، ایک خاص حد تک تو وہ مصیبت سہ لیتا اور برداشت کر لیتا ہے، لیکن اس کے بعد وہ گھٹنے ٹیک دیتا ہے، ہر آستانے اور ہر در پر جھک جاتا ہے، ہر ذلت کو قبول کر لیتا ہے، ہر غیر شرعی حرکت کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے، ہر غلط کام کرنے پر راضی ہو جاتا ہے، نعوذ باللہ خدا کو برا بھلا کہنے سے بھی نہیں چوکتا، حتیٰ کہ خود کشی تک کر گزرتا ہے۔
اس کے برعکس جو شخص یہ جانتا اورسچے دل سے مانتا ہو کہ سب کچھ اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس کائنات کا مالک و فرمانروا ہے، اسی کے حکم سے مصیبت آتی ہے اور اسی کے حکم سے ٹل سکتی ہے، تو اس کے دل کو اللہ تعالی صبر و تسلیم اور رضا بقضاء کی توفیق دیتا ہے، اس کو عزم و ہمت صبرو شکر اور ثبات و یقین کے ساتھ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت ہمت اور حوصلہ بخشتا ہے۔تاریک سے تاریک اور مشکل سے مشکل حالات میں اس کے سامنے اللہ تعالی کی امید کا چراغ رہتا ہے اور کوئی بڑی سے بڑی مصیبت،آفت اور پریشانی بھی اس کو اتنا پست ہمت نہیں ہونے دیتی کہ وہ راہ راست سے ہٹ جائے، یا باطل کے آگے سر جھکا دے، یا اللہ کے سوا کسی اور کے در پر اپنے درد کا مداوا ڈھونڈنے لگے۔ اس طرح ہر مصیبت اس کے لیے مزید خیر کے دروازے کھول دیتی ہے، اور مصیبت بھی حقیقت میں اس کے لیے مصیبت نہیں رہتی، بلکہ نتیجے کے اعتبار سے سراسر رحمت بن جاتی ہے، کیونکہ خواہ اس کا شکار ہوکر رہ جائے یا اس سے بعافیت گزر جائے، دونوں صورتوں میں وہ اپنے رب کی ڈالی ہوئی آزمائش سے کامیاب ہوکرنکلتا ہے اسی مفہوم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث شریف میں یوں بیان فرمایا کہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اللہ تعالی اس کے حق میں جو فیصلہ کرتا۔ ہے وہ اس کے لیے اچھاہی ہوتا ہے، مصیبت پڑے، تو صبر کرتا ہے اور وہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے، خوشحالی میسر آئے تو شکر گزار ہوتا ہے اور وہ بھی اس کے حق میں اچھا ہی ہوتا ہے، یہ بات مومن کے سوا کسی کو نصیب نہیں۔ (مسلم شریف/ مستفاد از معارف القرآن )
یہ دنیا امتحان اور آزمائش کی جگہ ہے، اس دنیا کو اللہ تعالٰی نے مصائب و مشکلات کی آماجگاہ اور آفات و بلیات کی گزر گاہ بنایا ہے، اور صرف اللہ ہی ہے جسکی ذات حاجت روا، مشکل کشا اور پناہ گاہ ہے”لاملجأ و منجأ من الله إلا إليه“ـــــــــــ
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مشکل موقعوں پر ایمان والوں کو صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ سے مدد اور نصرت و استعانت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
یا ایھا اللذین آمنوااستعينوا بالصبر و الصلوٰۃ ۔اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ سے مدد چاہو۔ اس لئے ہم اس درد کے درماں کو نماز اور صبر میں تلاش کریں ان شاء اللہ سارے مسائل حل ہو جائیں گے اور پریشانیاں کافور ہو جائیں گی۔
اس آیت کی تفسیر میں آیت کے ذیل میں مفسر قرآن حضرت مولانا عبد الماجد دریابادی رحمتہ اللہ علیہ نے جو کچھ لکھا ہے،غور سے پڑھئیے۔ اپنے ایمان کو تازہ کیجئیے، اور عملا اپنی زندگی میں اسے نافذ کیجئیے، مولانا مرحوم لکھتے ہیں:
“یعنی ہجوم مشکلات کے وقت بھی مشکل کشائے حقیقی سے تعلق برابر جوڑے رہو، اس پر بھروسہ رکھو، اسکے آگے جھکتے رہوـــــــــــــــــ روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ کسی بڑی اور پر قوت ہستی سے تعلق قائم ہو جانے سے دل کو کتنی تقویت حاصل ہو جاتی ہے، خطرہ کے وقت پولیس کے پہونچ جانے سے کسی بڑے حاکم کے آجانے سے دل کو کیسی ڈھارس بندھ جاتی ہے، شدید بیماری کے وقت کسی نامور طبیب کے آجانے سے ٹوٹی ہوئی آس کیسے جڑ جاتی ہے، پھر جب دل کا ربط ہمہ بیں و ہمہ داں،ناصر حقیقی و محافظ حقیقی سے قائم ہو جائے، تو انسانِ بے بنیان کی تسکین خاطر و تقویتِ قلب کا کیا پوچھنا! دنیا میں رہ کر زندگی کی کشمکش میں پڑ کر، مشکلات و مصائب کا پیش آتے رہنا نا گزیر ہے، افراد کو بھی اور امت و جماعت کو بھی، اور وہ دستور العمل ناقص ہے، جو مشکلات کے دفاع اور مصائب سے مقابلہ کا طریقہ نہ بتائے، قرآن مجید نے بجائے غیر ضروری اور نامتناہی تفصیلات میں جانے کے یہاں اشارہ اصل اصول کی جانب کر دیا۔
صبر کے لفظی معنی تنگی و ناخوشگواری کی حالت میں اپنے کو روکے رکھنے کے ہیں۔
اور اصطلاح شریعت میں اسکے معنی یہ ہیں کہ نفس کو عقل پر غالب نہ آنے دیا جائے، بھوک اور بے صبری اس میں داخل نہیں،قرآنی فرمان کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ ہجوم مشکلات کے وقت گھبرا نہ جاؤ،ثابت قدم رہو،دل قابو میں رکھو،خود دل کے بس میں نہ آجاؤ۔
صبر ایک سلبی کیفیت اور صلو’ة ایک ایجابی عمل ہے،ان دو کلیدی لفظوں سے اشارہ ادھر ہو گیا کہ انفرادی اصلاح اور اجتماعی فلاح دونوں کا راز صرف ان دو چیزوں میں ہے، ایک معاصی سے حفظ و احتیاط دوسرے اوامر کا اتباع….حق یہ ہے کہ اس مراقبہ سے بڑھ کر نہ روح کیلئیے کوئی غذا ہے اور نہ جراحت قلب کے لیے کوئی مرہم تسکین،یہی ایک تصور ہے اہل ایمان کیلئیے جو ہر ناگوار کو خوشگوار،ہر تلخ کو شیریں،ہر زہر کو قند بنا دینے کو کافی ہے”
حدیث شریف میں ہے کہ کسی کو کوئی عطا صبر سے بہتر اور زیادہ وسیع نہیں بخشی گئی۔ (بخاری) یہ نبوی فقرہ نہایت جامع ہے، جس کسی کو صبر کی دولت ملی سمجھ لو کہ وہ سب سے بہتر شیء کا مالک ہوگیا۔ جو تمام بھلائیوں اور محاسن و محامد کو اپنے میں سمیٹ لینے والی ہے۔ اگر کسی کو صبر کی طاقت حاصل ہوگئی تو پھر دوسرے محاسن کا حصہ اس کے لیے دشوار نہیں رہا۔ وہ زندگی کے اصل مزاج سے آشنا ہوگیا۔ صبر کے بغیر زندگی کی اعلیٰ قدریں ہاتھ نہیں آتیں۔ صبر کے بغیر کسی اعلیٰ تہذیب کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اعلیٰ زندگی میں صبر دیگر خوبیوں کے ساتھ ایک جمالیاتی احساس بن کر ابھرتا ہے ، جس پر کسی دوسری چیز کو ترجیح نہیں دے سکتے۔ صبر سے ہر طرح کی تنگی رفع ہوجاتی ہے۔ اس سے ذہن و فکر اور سعی و عمل میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ صبر اپنا مدد گار خود ہوتا ہے۔ صبر کے آگے مادی ضروریات کو ہرگز اتنی اہمیت نہیں دینی چاہیے کہ اخلاقی اقدار کا احساس باقی نہ رہے۔۔۔ (مستفاد کلام نبوت ۲/ ٢٥٩)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غرض آزمائش اور تکلیف کو برداشت کرنے، گلہ شکوہ نہ کرنے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور توکل کرنے کو صبر کہتے ہیں، اور اللہ کی عطا کردہ نعمت پر اللہ کا احسان مند ہونے اور اس کی حمد و ثنا کرنے کو شکر کہتے ہیں، صبر و شکر دونوں مومن کی شان اور اس کی پہچان ہے۔
صبر کا مطلب بزدلی، کم ہمتی اور تن آسانی نہیں، ہتھیار ڈال دینے اور ظلم سہنے کا نام بھی صبر نہیں اور نہ صبر اپنے موقف سے ہٹنے اور اپنے ایمان سے پیچھے ہٹ جانے کا نام ہے، بلکہ صبر نام ہے اپنے دین و ایمان اور اپنے صحیح اور درست موقف پر چٹان کی طرح جمے رہنے اور حالات کی سختی کا مقابلہ کرنے کا، یہ مقابلہ کبھی حکمت سے ہوتا ہے، کبھی طریقہ کار بدلنے سے ہوتا ہے اور کبھی نظر انداز کرنے اور ٹالنے سے ہوتا ہے اور کبھی شر کو خیر کے ذریعہ دفع کرنے سے ہوتا ہے، ان ساری مشکلات میں اصل مدد اور نصرت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور وہی مومن بندہ کی مشکلات کو دور کرتا ہے، وہی تدبیر و حکمت سمجھاتا ہے اور وہی راہ دکھاتا ہے اور وہی غیب سے بندے کی راہ یابی کا انتظام کرتا ہے اور اس طرح کرتا ہے کہ مومن کو گمان تک نہیں ہوتا۔ (مستفاد خطبات جمعہ از سعود عالم قاسمی)

دل کی ہر اک خلش نکل جاتی ہے
آتی ہے اگر بلا تو ٹل جاتی ہے
سختی سے حوادث کے نہ گھبرا امجد
یہ برف کوئی دم میں پگھل جاتی ہے

اللہ تعالیٰ ہمیں صبر و شکر کی حقیقت سمجھنے اور اس کے تقاضے کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

اپنی راۓ یہاں لکھیں