شیخ ابراہیم ذوق دہلوی حیات و خدمات

شیخ محمد ابراہیم ذوق دہلوی

تحریر:احمد

مرزا رفیع سودا کے بعد ذوق کو اردو کا سب سے بڑا قصیدہ نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔ سودا کے انتقال کے بعد ذوق فنِ قصیدہ کے ماہتاب وآفتاب بن کر چمکے اور تقریباً نصف صدی تک ارضِ زبانِ اردو کو روشن کیا۔

تعارف شیخ ابراہیم ذوق

ذوق کا پورا نام شیخ محمد ابراہیم تھا۔ آپ ذوق تخلص کرتے تھے۔ آپ کے والد ماجد کا نام شیخ محمد رمضان تھا،جو ایک معمولی سپاہی تھے۔ ذوق کی پیدائش مولانا محمد حسین آزاد کی تحقیق کے مطابق ۱۲۰۴ھ مطابق ۱۷۸۹-۹۰ء کے قریب پرانی دلّی کے محلہ کابلی دروازہ میں ہوئی۔ اور ڈاکٹر تنویر علوی کے تحقیق کے مطابق ذوق کی پیدائش ۱۲۰۳ھ میں ہوئی۔

تعلیم و تعلم

ذوق نے ابتدائی تعلیم حافظ غلام رسول سے حاصل کی۔ مولانا آزاد لکھتے ہیں’’ ذوق جب پڑھنے کے قابل ہوئے تو حافظ غلام رسول نامی ایک شخص بادشاہی حافظ تھے۔ ان کے گھر کے پاس رہتے تھے۔ محلے کے اکثر لڑکے انہیں کے پاس پڑھتے تھے۔ انہیں بھی وہیں بیٹھا دیا گیا۔ حافظ غلام رسول شاعر بھی تھے اور شوق تخلص کرتے تھے‘‘۔(آب حیات،ص:۳۷۷)

شیخ ابراہیم اپنے استاذ محترم کے تخلص ’’شوق‘‘ کے مناسبت سے’’ ذوق ‘‘تخلص اختیار کرنا شروع کیا۔ حافظ غلام رسول کے یہاں اکثر شعر و شاعری کا چرچا رہتا تھا۔ ذوق اپنے متعلق لکھتے ہیں کہ مجھے سنتے سنتے بہت سے اشعار یاد ہو گئے تھے۔

حافظ غلام رسول کے بعد ذوق نے شاہ نصیر کی شاگردی اختیار کی۔ لیکن شاہ نصیر نے ذوق کے معاملے  میں بے توجہی اور لاپرواہی سے کام لیا، جس سے ذوق کو بڑا رنج ہوا۔ مولانا آزاد لکھتے ہیں ’’ بعض موقعوں پر ایسا ہوا کہ شاہ صاحب نے ان کی غزلوں کو بے اصلاح پھیر دیا اور کہا طبیعت پر زور ڈال کر کہو۔ کبھی کہ دیا کچھ نہیں ہے، پھر سوچ کر کہو۔ بعض غزلوں کو جو اصلاح دی اس میں بھی بے پروائی پائی گئی۔ چنانچہ ایسا کئی دفعہ ہوا کہ غزلیں پھیر دیں۔ بہت سے شعر کٹ گئے‘‘۔

شاگرد

ذوق کے مشہور تلامذہ میں ظہیر دہلوی، مولانا محمد حسین آزاد،انور دہلوی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

پہلی دفعہ مشاعرے میں شرکت

ذوق ایک غریب سپاہی کے بیٹے تھے،اس وجہ سے نہ ان کا کوئی دوست تھا نہ کوئی ہمدرد اور اوپر سے استاذ کی بے توجہی نے ذوق کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ ایک دن ذوق بہت ہی غمگین اور رنجیدہ بیٹھے تھے۔ان دنوں دلی میں مشاعرے خوب ہوا کرتے تھے۔ میر کلو حقیر نامی ایک بزرگ شخص نے ذوق کو اس طرح بیٹھا دیکھ اپنے پاس بلایا اور کہا میاں ابراہیم آج کچھ مکدر معلوم ہوتے ہو خیر ہے؟ میر کلو شعر و شاعری سے اچھی واقفیت رکھتے تھے۔ پرانے استاذ تھے۔ ذوق نے اپنے دل کے غبار کو میر صاحب کے سامنے نکال دیا۔ میر صاحب نے کہا بھلا غزلیں سناؤ۔ انہوں نے غزلیں سنائی۔ میر صاحب کو ذوق کی حالت پر بڑا ترس آیا۔ کہا جاؤ بلا تامل غزلیں پڑھ دو۔ کوئ اعتراض کرے تو ذمہ داری ہماری ہے۔ ذوق نے مشاعرے میں شرکت کی اور غزلیں پڑھی۔ غزل مذکور یہ ہے:

رکھتا بہر قدم وہ یہ ہوش نقش پا

ہو خاک عاشقاں نہ ہم آغوش نقش پا

افتادگاں کو بے سرو ساماں نہ جانیو

دامان خاک ہوتا ہے رو پوش نقش پا

اعجاز پا سے تیرے عجب کیا کہ راہ میں

بول اٹھے منہ سے ہر لب خاموش نقش پا

اس رہ گزر میں کس کو ہوئی فرصت مقام

بیٹھے ہیں نقش پا بہ سر دوش نقش پا

جسم نزار خاک نشیناں کوئے عشق

یوں ہے بے زمیں پر جیسے تن و توش نقش پا

یا بوس درکنار کہ اپنی تو خاک بھی

پہنچی نہ ذوق اس کے یہ آغوش نقش پا

اس دن سے ذوق جرأت مندی اور ہمت سے اپنی غزلیں مشاعروں میں پڑھنے لگے۔ ذوق شفقت و محبت کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے۔ دھیرے دھیرے ذوق کا شہرہ ہر طرف ہونے لگا۔

مرزا ابوظفر بہادر کےدربار تک رسائی

شاہ نصیر کے سفر دکن کے بعد میر کاظم حسین کے توسط سے ذوق کی رسائی مرزا ابوظفر بہادر کے دربار تک ہوئی۔ مرزا ابوظفر پہلے شاہ نصیر سے اصلاح لیا کرتے تھے اور اپنی غزلیں انہیں دکھاتے تھے۔ اب ان کی غیر موجودگی میں ذوق سے مشورہ سخن کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ اکبر شاہ ثانی کے دربار تک ذوق کی رسائی ہوگئی۔ قلعے کے اندر باہر ہر جگہ ذوق کی شہرت کا ڈنکا بجنے لگا۔ ذوق نے بے شمار قصیدے اکبر شاہ ثانی کی شان میں کہے۔ انہیں کی طرف سے ذوق کو خاقانیٔ ہند کا خطاب عطا کیا گیا۔

مولانا آزاد لکھتے ہیں ’’ چند سال بعد ذوق نے ایک قصیدہ اکبر شاہ کے دربار میں کہ کرسنایا کہ جس کے مختلف شعروں میں انواع و اقسام کے صنائع و بدائع استعمال  کئے تھے۔ اس کے علاوہ ایک ایک زبان میں ایک شعر تھا اور ان کی تعداد ۱۸ تھی۔ مطلع اس کا یہ ہے:

جب کا سرطان و اسد مہر کا ٹھرے مسکن

آب و ایلولہ ہوئے نشو ونمائے گلشن

 اس پر اکبر شاہ ثانی نے خاقانیٔ ہند کا خطاب عطا کیا۔ اس وقت شیخ مرحوم(ذوق) کی عمر ۱۹ برس تھی‘‘۔(آب حیات،ص:۳۹۰)

ذوق کی شہرت کو دیکھ کر جو شعراء پہلے شاہ نصیر سے اصلاح لیا کرتے تھے،اب رفتہ رفتہ ذوق کی طرف متوجہ ہونے لگے۔ ذوق کو شاہ نصیر کی زندگی میں ہی قلعے میں اور قلعے سے باہر دلی کے ادبی محفلوں میں استادانہ حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔

اکبر شاہ ثانی کے انتقال کے بعد جب بہادر شاہ ظفر(آخری مغلیہ حکمراں) تخت نشیں ہوئے تو انہوں نے ذوق کو ملک الشعراء کے خطاب سے سرفراز فرمایا۔ بہادر شاہ ظفرنے شروع میں ذوق کیلئے ۴ روپئے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا، جسے بعد میں بڑھا کر ۱۰۰ روپئے کر دیاگیا۔ ذوق جب تک زندہ رہے انہیں بہادر شاہ کی استاذی کا شرف حاصل رہا۔ ذوق کے بعد بہادرشاہ ظفر نے غالب کو اپنا استاد مقرر کیا۔

مرزا غالب سے معاصرانہ چشمک

مرزا غالب سے ذوق کی معاصرانہ چشمک رہا کرتی تھی، جس کا اظہار اس سہرے سے بھی ہوتاہے۔ جس کو مرزا غالب نے شہزادہ جواں بخت کی شادی کےموقع پر زینت محل کی فرمائش پر لکھا تھا۔ اور مقطع استعمال کیا:

خوش ہو اے بخت کہ آج ہے تے سر سہرا

باندھ شہر آوے جواں بخت کے سر پر سہرا

ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں!

دیکھیں کہ دے کوئی اس سہرے سے بڑھ کر سہرا

ذوق کو جب اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے اس کے جواب میں چار مصرعے کچھ اس طرح تحریر کر ڈالے:

اے جواں بخت مبارک تجھے سر پر سہرا

آج ہے یمن و سعادت کا ترے سر سہرا

جن کو دعوائے سخن ہو یہ سنا دو ان کو

دیکھو اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور سہرا

ذوق نے اپنی پوری زندگی دہلی میں گزار دی۔ ذوق کی شہرت سن کر حیدرآباد کے مہاراجہ چندولال شاداں نے ذوق کو بلایا مگر ذوق نہیں گئے اور جواب میں لکھ دیا:

گرچہ ہے ملک دکن میں ان دنوں قدر سخن

کون جائے ذوق پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر

ذوق کے کارنامے

ذوق کے تمام کے تما قصائد اکبر شاہ ثانی اور بہادر شاہ ظفر کی مدح میں ہے، سوائے ایک قصیدے کے جو عاشق نہال چشتی نامی بزرگ کی مدح میں ہے۔ ذوق نے قصیدے کے علاوہ جملہ اصناف ِسخن عزل، قطعہ، مثلث، رباعی، مخمس، مسدس، مثنوی، واسوخت، نظم، تاریخ، وغیرہ پر بھی طبع آزمائی کی۔ ذوق علم نجوم، علم ہیئت، علم طب، علم منطق، علم فلسفہ، علم فقہ، علم تصوف، علم تفسیر، علم حدیث، علم تاریخ، علم موسیقی وغیرہ سے بھی گہری واقفیت رکھتے تھے۔

ذوق کے قصیدوں کی کل تعداد ۳۰ کے قریب بتائی جاتی ہیں۔

ذوق کا انتقال

ذوق ۱۷ دن بیمار رہنے کے بعد ۲۴ صفر ۱۲۷۱ھ مطابق ۱۸۵۴ء جمعرات کے دن اس دارفانی سے دارالبقاء کی طرف کوچ کر گئے۔ مرنے سے تین گھنٹہ پہلے ذوق کی زبان سے یہ شعر نکلا:

کہتے ہیں آج ذوق جہاں سے گزر گیا

کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے

ذوق کے متعلق شعراء و ادبا کے آراء و خیالات

مولانا حسین آزاد نے ذوق کو اردو نظم کا خاتم قرار دیا ہے۔

سر سید آثار الصنادید میں لکھتے ہیں’’ غزل اور قصائد سے دفتر دفترہے اور ہر شعر انتخاب‘‘۔

امداد امام اثر ذوق کے متعلق لکھتے ہیں’’ مرزا رفیع سودا کے بعد قصیدہ گوئی میں شیخ ابراہیم ذوق کا نمبرہے۔ مگر ان دونوں شاعروں میں پہاڑ اور ٹیلے کا فرق ہے‘‘۔

الطاف حسین حالی لکھتے ہیں’’ کوئی شاعر جس نے قصیدے میں کمال بہم نہیں پہنچایا وہ مسلم الثبوت نہیں سمجھا گیا۔ خود مرزا غالب کا قول تھا کہ جو قصیدہ نہیں لکھ سکتا اس کو شعراء میں شمار نہیں کرنا چاہئے۔ اس بنا پر وہ ذوق کو پورا شاعراور شاہ نصیر کو ادھورا شاعر جانتے تھے‘‘۔

محمد حسین آزاد نے ذوق کے متعلق ایک دوسری جگہ لکھا ہے’’ آپ کا رنگ سانولا تھا چیچک کے داغ بہت تھے۔ کہتے تھے نو دفعہ چیچک نکلی تھی، مگر رنگت اور داغ کچھ ایسے مناسب اور موزوں واقع تھے کہ چمکتے تھے اور بھلے معلوم ہوتے تھے۔

ذوق کے شامل نصاب  Net Jrf قصیدے اگلے مضمون میں شائع کئے جائیں گے۔ آپ ہم سے جڑے رہے۔ آپ ہمیں فیسبک پیج  پر.بھی فولو کر سکتے ہیں۔

نوٹ:۔ یہ مضمون نیٹ جے آر ایف،سیٹ،ٹیٹ وغیرہ امتحان میں پوچھے جانے والے سوالوں کے پیش نظر تیار کیا گیا ہے۔ اس طرح کے مزید مضامیں حاصل کرنے کیلئے لال رنگ کے گھنٹی والے نشان کو دبا کر ہماری ویب سائٹ ’’علم کی دنیا ‘‘  ilmkidunya.in کو سبسکرائب کر لیں۔ والسلام

اپنی راۓ یہاں لکھیں