شہادت حسینؑ۔۔۔کاتاریخی پس منظر!
مولانامحمدمحفوظ قادری 9759824259
نواسئہ رسول،حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہماکے لخت جگر حضر امام حسین علیہ السلام اورآپ کے جاں نثار ساتھیوں کی 10محر م الحرام کو (کربلا کے میدان میں)شہادت واقع ہو ئی ہے اوریہ واقعہ تاریخ اسلام میں قیامت صغریٰ سے کم نہیں ہے کیونکہ آپ کی یہ جنگ حق اور باطل کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین مبین کی بقاء کی خاطر تھی۔
اللہ نے آپ کے ذریعہ اس دین مبین کو ایسی بقاء عطافرمائی کہ آج تک نہ کوئی اس دین حق کو مٹا سکا ہے اور نہ کوئی صبح قیامت تک اس دین کو مٹانے کی جرأت کر سکتا ہے کونکہ اس دین حق کا حامی و ناصر اللہ رب العزت خود ہے۔
مناقب حسین علیہ السلام:
حضرت امام حسین علیہ السلام کی پیدائش مبارک 5شعبان المعظم 4ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا اسم مبارک حسین اور شبیر رکھا،آپ کی کنیت ابوعبداللہ،اورلقب سبط رسول،ریحانتہ الرسول ہے۔
آپ کو بڑے بھائی(حسن علیہ السلام)کی طرح جنتی جوانوں کا سردار اور فرزند بنایا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چچی حضرت ام الفضل بنت الحارث حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی زوجہ ایک دن رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں،اور عرض کی یارسول اللہ!آج میں نے ایک پریشان کرنے والاخواب دیکھا ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معلوم کیاوہ کیاہے ۔۔؟
عرض کی وہ بہت ہی شدید ہے۔ان کو اس خواب کے بیان کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی مرتبہ معلوم کرنے پر عرض کیا کہ میں نے دیکھا جسم اطہر کا ایک ٹکڑاکاٹا گیا اور میری گود میں رکھا گیا۔(حضورعلیہ السلام نے)ارشاد فرمایا تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے،انشاء اللہ فاطمتہ الزہرا(رضی اللہ عنہا)کے بیٹا ہوگااور وہ تمہاری گود میں دیا جائے گا۔ایسا ہی ہوا،حضرت امام حسین علیہ السلام پیدا ہوئے اور حضرت ام الفضل کی گود میں دیئے گئے۔
ام الفضل فرماتی ہیں کہ میں نے ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکرحضرت امام حسین کورسول اللہ کی گود میں دیا،کیا دیکھتی ہوں کہ (آپ)کی چشم مبارک سے آنسئوں کی لڑیاجاری ہیں۔
میں نے عرض کی یارسول اللہ!میرے ماں باپ آپ پر قربان! یہ کیا حال ہے۔فرمایا(پیارے رسول نے)جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے یہ خبردی کہ میری امت اس فرزند کو قتل کرے گی،میں نے کہا:کیااس کو۔۔؟
فرمایا ہاں!اور میرے پاس اس کے مقتل کی سرخ مٹی بھی لائے۔(رواہ البیہقی فی الدلائل)۔
احادیث میں شہادت حسین علیہ السلام کی خبریں کثرت سے آئیں ہیں۔
ابن سعد وطبرانی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،مجھے جبریل نے خبر دی کہ میرے بعد میرافرزندحسین زمین ’’طَف‘‘میں قتل کیا جائے گا،جبریل امین میرے پاس یہ مٹی لائے،انہوں نے عرض کی یہ حسین کی خواب گاہ (مقتل)کی خاک ہے۔
طَف قریبِ کوفہ اس مقام کا نام ہے جس کو کربلا کہتے ہیں۔(المعجم الکبیرللطبرانی)۔
حضرت فاطمہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہما کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (حسین)سینے سے قدم تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے،اور شواہدالنبوہ میں آپ کے حسن وجمال کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جب آپ اندھیرے میں بیٹھتے تو آپ کی مبارک پیشانی اوررخساروں سے روشنی نکل کر قرب وجوار کو روشن کر دیتی تھی۔
اپنے دونوں نواسوں حسنین کریمین کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے تاجدا کائنات حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حسن اورحسین دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
یزیدبن معاویہ:
ابوخالد اموی وہ بدنصیب شخص ہے کہ جس کی پیشانی پر پیارے رسول کے اہل بیت کو بے گناہ قتل کرنے کا سیاہ داغ ہے۔ہرزمانے میں دنیائے اسلام ’’یزید‘‘پرملامت کرتی رہی ہے اور تاقیامت کرتی رہے گی۔
یہ بدبخت،سیاہ دل،ننگ خاندان25ھ میں امیرمعاویہ کے گھرمَیسون بنت بَحدل کلبیہ کے پیٹ سے پیدا ہوا،بہت ہی موٹا،بدنما،کثیرالشعر،بدخُلق،تُندخُو،فاسق،فاجر،شرابی،بدکار،ظالم،بے ادب اورگستاخ تھا۔
عبداللہ بن حنظلہ ابن الغسیل رضی اللہ عنہمانے فرمایا:خداکی قسم!ہم نے یزیدپر اس وقت خروج کیاجب ہمیں اندیشہ ہوگیاکہ اس کی بدکاریوں کے سبب آسمان سے پتھرنہ برسنے لگیں۔
محرمات کے ساتھ نکاح،سوداورمنہیات کواس نے اعلانیہ طورپررائج کیا۔
مدینہ طیبہ ومکہ مکرمہ کی اس نے بے حرمتی کرائی۔اصحاب اسراروفراست اس وقت سے ڈرتے تھے کہ سلطنت اس شقی و بدبخت کے ہاتھ میں نہ آجائے۔
59ھ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے دعا کی اللہم انی اعوذ بک من رألستین وامارۃ الصبیان’’اے پروردگار!میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں60ھ کے آغاز اور لڑکوں کی حکومت سے‘‘اس دعاسے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جوحامل اسرارتھے وہ سمجھتے تھے کہ60ھ کاآغاز لڑکوں کی حکومت اور فتنوں کا وقت ہے اسی وجہ سے انہوں نے59ھ میں مدینہ منورہ کو ہجرت فرمائی۔
رویانی نے اپنی مسند میں حضرت ابودردأرضی اللہ عنہ سے ایک حدیث روایت کی ہے جس کاخلاصہ اس طرح ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سناکہ آپ نے فرمایا ’’میری سنت کوسب سے پہلے بدلنے والابنی امیہ کاایک شخص ہوگاجس کانام یزیدہوگا‘‘۔
ابویعلیٰ نے اپنی مسندمیں حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’میری امت میں عدل وانصاف قائم رہے گا،یہاں تک کہ پہلارَخنہ اندازوبانئی ستم بنی اُمَیّہ کاایک شخص ہوگاجس کانام یزید ہوگا‘‘(سوانح کربلا،مصنف صدرالافاضلؒ،مرادآبادی)۔
بہرحال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد رجب 60ھ ۔680ء میں یزید بن معاویہ خلیفہ مقرر ہوا اس کی عمر 24 سال تھی۔
حضرت امیر معاویہ یزید کی خلافت کیلئے اپنی حیات میں ہی سب سے بیعت لے چکے تھے سوائے مکہ اور مدینے کے مقتدر حضرات کہ جن میں حضرت امام حسین،عبد اللہ بن زبیر،عبد اللہ بن عمر،عبد اللہ بن عباس اور عبد الرحمان بن ابی بکر نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا تھا۔
باپ کے بعدجب یزید تخت نشین ہواتو یزید کو تخت نشین ہوتے ہی سب سے پہلے ان حضرات سے بیعت لینے کی فکر ہوئی۔
یزید نے مدینہ کے حاکم ولید بن عقبہ کو خط لکھاکہ امیر معاویہ کی موت اور میرے تخت نشیں ہونے کا کسی کو علم ہو اس سے پہلے تم حسین بن علی اور عبد اللہ بن زبیر سے جس طرح بھی ممکن ہو میری بیعت حاصل کر لو،اس فرمان کے حاصل ہوتے ہی ولید بن عقبہ نے حضرت امام حسین اور عبد اللہ بن زبیر کو اپنے پاس بلایا۔
یہ دونوں حضرات اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ولید کے پاس پہنچے،ولیدنے امیر معاویہ کی وفات کی ان حضرات کو خبر دی اور یزید کے حق میں بیعت کی خواہش ظاہر کی۔
یہ سن کر حضرت امام حسین نے فرمایا مجھ جیسے لوگ چھپ کر بیعت نہیں کیاکرتے سب کو جمع کرو اور مجمع عام بیعت لوولید امن پسند حاکم تھا یہ جواب سن کر خاموش ہوگیا اور حضرت امام حسین وہاں سے رخصت ہونے لگے تو مروان نے ولید سے کہا کہ اگر تم نے ان سے آج بیعت نہیں لی توپھر کبھی موقع نہیں مل سکے گا یا تو ان سے زبر دستی بیعت لو یا پھر بیعت نہ کرنے کا ان سے انتقام لو،مروان کے یہ جملے سن کر حضرت امام حسین نے پیچھے کو پلٹ کر کہا دوسروں کو بزدلانہ مشورہ کیوں دیتے ہو اگر ہمت ہے تو خود ہی مقابلہ پر آجائویہ حسینی جذبات سن کر مروان گھبرا گیا اور حضرت امام حسین کی خوشامد کر نے لگا بہر حال حضرت امام حسین اور عبد اللہ بن زبیروہاں سے واپس آگئے اورحالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے آپ نے مع متعلقین مکہ کوجانے کی تیاری شروع کردی۔حضرت عبد اللہ بن زبیر اسی رات مدینہ سے مکہ کو روانہ ہوگئے مگر حضرت امام حسین ایک یا دودن کے بعد روانہ ہوئے،روانگی سے قبل حضرت امام حسین مع اہل و عیال اپنے نانا جان تاجدار کائنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضئہ مبارک پر حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا اور مدینہ سے جدائی کا غم لیکر اہل بیت کا یہ چھوٹا سا مقدس قافلہ مدینہ سے مکہ کیلئے روانہ ہو گیا۔
کوفیوں کی طرف سے خطوط کا ملنا:
عراقیوں کی حالت بہت عجیب تھی یہ ایک طرف امیر معاویہ کے بہت بڑے مخالف اور دوسری طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سچا عاشق بن کر دکھا تے تھے لیکن جب امیر معاویہ سے مقابلہ کا وقت آتا تو یہ میدان سے بھاگتے ہوئے نظر آتے،لیکن جب بھی ان کو موقع ملتا تو یہ عاشقان اہل بیت بن کر میدان میں ضرور آجایا کرتے تھے خواہ ان کو میدان چھوڑنا ہی کیوں نہ پڑے۔یزید کی تخت نشینی کے بعد یہ عاشقان علی ایک بارپھر میدان میں آگئے اور انہوں نے حضرت امام حسین کے مکہ پہنچنے کے بعد سینکڑوں خطوط بھیج کر حضرت امام حسین سے درخواست کی سارا عراق آپ کے ساتھ ہے کوفہ آکر ہم سب مسلمانوں کو یزید کی ناپاک حکومت سے بچا لیجئے،اور کوفیوں کا ایک وفد بھی اپنا معروضہ لیکر حضرت امام حسین کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اہل کوفہ اور پورا عراق آپ کے ساتھ ہے آپ ہمارے ساتھ چل کر حکومت سنبھال لیجئے۔
حضرت امام حسین نے ان کا یہ جوش وجذبہ دیکھ کر خود جانے کے بجائے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا تاکہ مسلم بن عقیل وہاں کا معائنہ کرکے صحیح حالات سے مطلع کریں۔
ہزارہا کوفیوں کابیعت کرنا:
مسلم بن عقیل نے کوفہ پہنچ کر مختار بن عبید ثقفی کے یہاں قیام کیا اور کوفی گروہ در گروہ مسلم بن عقیل کی خدمت میں حاضر ہونے لگے اور مسلم بن عقیل کو یقین دلایا کہ ہم حضرت امام حسین پر اپنا جان و مال سب کچھ قربان کرنے کی قسمیں کھاتے ہیں اُس وقت کوفہ کے حاکم نعمان بن بشیر تھے ان کو معلوم ہوا کہ یزید کی حکومت کا تختہ پلٹنے کیلئے مختار بن عبید کے گھر پر مسلم بن عقیل کے ذریعہ سازشیں ہورہی ہیں۔تو نعمان حاکم نے مختار اور دوسرے لوگوں کو آگاہ کیا کہ وہ اس فتنہ پردازی سے باز آجائیں لیکن انہوںنے کوئی سخت قدم نہیں اُٹھا یا۔
نعمان کی اس تنبیہ کے بعد مسلم بن عقیل ہانی بن عروہ کے مکان پر منتقل ہو گئے اور یہاں اٹھارہ ہزار کوفیوں نے مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر حضرت امام حسین کی خلافت کیلئے بیعت کر لی،یہ عقیدت و محبت دیکھ کر مسلم بن عقیل نے حضرت امام حسین کوخط لکھاکہ یہاں ہر طرح سے حالات ساز گار ہیں اٹھارہ ہزارکوفیوں نے میرے ہاتھ پر آپ کے حق میں بیعت کرلی ہے آپ تشریف لے آیئے۔
مسلم بن عقیل اور کوفہ کے حاکم کا مقابلہ:
ہزار ہا کوفیوں کاحضرت امام حسین کے حق میں بیعت کر نا بہت نازک مسئلہ تھا کوفہ کے جاسوسوں نے ایک دم یہ خبر یزید کو دے دی یہ خبر ملتے ہی یزید گھبرا گیا اور یزید نے بصرہ کے حاکم عبید اللہ بن زیاد کو حکم دیا کہ فوراً کوفہ پہنچ کر اس فتنہ کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور مسلم بن عقیل کو یا تو کوفہ سے نکال دو یا قتل کر و!عبیداللہ بن زیاد بہت ہی ظالم و جابر شخص تھا اس نے کوفہ آکر اعلان کر دیا کہ جو بھی مسلم بن عقیل کو اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کو پناہ دے گا اس کو سولی پرلٹکا دیا جائے گااور اس نے مسلم بن عقیل کو تلاش کرنا شروع کردیا یہ خبر ملتے ہی ہانی بن عروہ نے مسلم بن عقیل کو دوسری جگہ منتقل کر دیاابن زیاد کو معلوم ہوا کہ مسلم کو پناہ دینے میں ہانی کا ہاتھ ہے تو ابن زیاد نے ہانی بن عروہ کو گرفتار کرالیا اور کہا کہ مسلم کو ہمارے حوالہ کرو،ہانی نے ابن زیاد سے منع کردیا کہ وہ کسی بھی حالت میں اپنے مہمان کو آپ کے حوالہ نہیں کریں گے یہ الفاظ سن تے ہی ابن زیاد نے غصہ میں آکر ہانی کو بری طرح مار پیٹ کر زخمی کیا اوران کو قید کر دیا۔
ہانی بری طرح پٹائی سے زخمی ہو چکے تھے یہ خبر کوفہ میں چاروں طرف پھیل گئی کہ ہانی کو مار مار کر ابن زیاد نے ہلاک کر دیا ہے جب یہ خبر مسلم بن عقیل کو ملی کہ ان کے میزبان کو ان کی وجہ سے ابن زیاد نے قتل کرا دیا ہے اور ان کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے خاندان اہل بیت کے ایک فرد کو پناہ دی ہے یہ سن تے ہی مسلم بن عقیل کی غیرت ایمانی جوش میں آگئی اور اپنے ساتھ اٹھارہ ہزار کوفیوں کو لیکر میدان میں آگئے اور عبیداللہ بن زیاد کو قصرِ امارت میں گھیر لیا۔
مسلم بن عقیل کی شہادت اور کوفیوں کی غداری:
عبیداللہ بن زیاد کیلئے یہ بہت ہی دشوار وقت تھا اس کے پاس صرف پچاس آدمی تھے اور حفاظتی انتظامات بھی مکمل نہیں تھے ابن زیاد نے کوفہ کے سرکردہ حضرات پر زور دیا کہ وہ اپنے اپنے قبیلہ کے لوگوں کو واپس بلائیں اور اعلان کریں کہ جو شخص امیر کی اطاعت کرے گااسے انعام سے نوازہ جائے گا اورجو مخالفت کرے گااس کو سخت سزادی جا ئے گی،اس اعلان کو سن تے ہی تمام عاشقان اہل بیت جو امام حسین کے حق میں مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے ان کا جوش و جذبہ ٹھنڈا ہو گیا اور مسلم بن عقیل کے ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد ابن زیاد کی دھمکی سے ڈر کر مسلم بن عقیل سے الگ ہوگئی،اور کچھ لوگوں نے سرکردہ حضرات کے کہنے پر انعام کے لالچ میں آکر مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑ دیا غرض کہ اٹھارہ ہزارکے مجمع میں سے صرف تیس آدمی اُن کے ساتھ باقی بچے،اس طرح کوفیوں نے غداری کر کے اپنی قدیم روایت کو زندہ کیا۔
مسلم بن عقیل نے جب کوفیوں کی غداری دیکھی تو پہلے آپ نے ایک مکان میں پناہ لی لیکن غداروں نے اس مکان کابھی پتہ بتا دیا اورابن زیاد کی فوج نے اس مکان کوچاروں طرف سے گھیر لیا آپ نے اپنے آپ کو گھرا ہوا دیکھ کر جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فوج سے مقابلہ شروع کردیا تیس آدمی جو آپ کے ساتھ باقی رہ گئے تھے وہ بھی فرار ہوگئے اور آپ اکیلے لڑتے رہے یہاں تک آپ زخموں سے چور ہوکر گر پڑے اورآپ کو گرفتارکر کے ابن زیاد کے سامنے لایا گیا توابن زیاد نے آپ کو قتل کرا دیا۔
آپ نے شہادت سے قبل عمربن سعدجو ان کا قریبی عزیز اور اموی حکام میں سے تھا اس کو یہ وصیت کی حضرت امام حسین کویہاں کے تمام حالات وواقعات سے آگاہ کردیں اور ان کو راستہ سے ہی واپس کر دینا۔
امام حسین علیہ السلام کی کوفہ کو روانگی:
کوفہ میں قیامت برپا ہوچکی تھی اورحضرت امام حسین مکہ سے کوفہ کی طرف سفر کی تیاری میں مصروف تھے مسلم بن عقیل کا وہ خط کہ جس میں اٹھارہ ہزار کوفیوں کی بیعت کی خبر تھی اس نے حضرت امام حسین کو شک میں ڈال دیا تھا حضرت امام حسین سے محبت کرنے والے لوگ جن میں خاص طور سے عمربن عبد الرحمان،عبد اللہ بن عباس،عبد اللہ بن زبیر ان سب ہی لوگوں نے آپ کے اس فیصلہ کی مخالفت کی اورآپ کو گذشتہ غداریوں اور دھوکہ دہی کے واقعات یاد دلائے لیکن آپ اپنے ارادے پر قائم رہے۔عبداللہ بن عباس نے دیکھا کہ آپ ماننے کو تیار نہیں ہیں اور کوفہ جاکر ہی رہیں گے تو انہوں نے آپ سے گزارش کی کہ اہل عیال کو ساتھ لیکر نہ جائو،لیکن اللہ کا حکم کچھ اورتھا ساری کوششیں و تدابیر ناکام ہو گئیں اور حضرت امام حسین کے ارادے میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی بلکہ بعض مئورخوں کا بیان ہے کہ چاہنے والوںنے جب آپ کو کوفہ جانے سے روکنے کی زیادہ کوشش کی تو حضرت امام حسین نے فرمایا کہ نانا جان نے مجھے بذریعہ خواب یہی حکم دیا ہے کہ میں اس کو پورا کروں!میرا سر جائے یا رہے۔
بہرحال آپ اپنے چاہنے والے عزیزوں اور رشتہ داروں کو روتا ہوا چھوڑ کر اہل بیت کے مختصر قافلہ کو لیکرذی الحجہ60ھ کو کوفہ کیلئے روانہ ہوئے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام اوریزیدی فوج:
حضرت امام حسین راستہ میں ہی تھے کہ کوفہ سے آنے والے لوگوں نے مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر دی یہ خبر سن کر آپ کو بے حد رنج وغم ہوا اور ساتھ میں چلنے والوں نے مشورہ دیا کہ یہیں سے کوفہ جانے کا ارادا ملتوی کر دیا جائے لیکن مسلم بن عقیل کے بھائیوں نے کہا کہ ہم واپس نہیں ہوں گے یاتو ہم اپنے بھائی کا بدلہ لیں گے یاہم بھی اپنی جانیں قربان کردیں گے اور سفر جاری رہااس قافلہ کو آگے چل کر عمربن سعد کا بھیجا ہوا قاصد ملا جو مسلم بن عقیل کی وصیت کے مطابق حضرت امام حسین کو کوفہ جانے سے روکنے کیلئے آرہا تھا آپ نے اس سے حالات معلوم کرنے کے بعد اپنے ساتھیوں سے کہا کہ مسلم بن عقیل اور ہمدرد ساتھیوں کو شہید کردیا گیا ہے کوفیوں نے اپنا وعدہ توڑ دیا ہے حالات نازک ہیں تم میں سے جو بھی واپس جانا چاہے جا سکتا ہے آپ کے اس فرمان کے بعد جو لوگ راستہ میں سے شامل ہوئے تھے واپس ہوگئے۔
ابن زیاد کو مکہ سے حضرت امام حسین کی روانگی کی خبر ہوچکی تھی اس نے حُر بن تمیمی کو ایک ہزار کا لشکر لیکر حضرت امام حسین کے مقابلہ کیلئے روانہ کیااور حکم دیا کہ امام حسین اوران کے ساتھیوں کو گھیر کر میرے پاس لے آئو۔
حُر کے دل میں حضرت امام حسین کی بہت زیادہ محبت وعظمت تھی حُر نے امام حسین کے قافلہ کو گھیر کر ان کوموقع دیا کہ وہ رات کے وقت کسی اور طرف نکل جائیں لیکن حضرت امام حسین نے کسی اور طرف جانا گوارہ نہیں کیا اور یہ قافلہ آگے کو بڑھتا رہااور یہ مقدس قافلہ 2محرم الحرام 61ھ کوکربلا کے میدان میں خیمہ زن ہو گیا۔
3محرم کو عمربن سعد بھی چار ہزار کا لشکر لیکرحضرت امام حسین سے مقابلہ کیلئے کربلا کے میدان میں پہنچ گیا،یہ امام حسین کا عزیز تھا مگر اس کو رَئے کی حکومت کا لالچ دیکر بھیجا گیا تھا۔
عمر بن سعد کیلئے یہ امتحان کا وقت تھاسوچنے لگا کہ اگر امام حسین اور انکا قافلہ اس کے ہاتھ سے مارا جاتا ہے تو وہ قیامت تک کسی کو منھ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا اور اگر جنگ سے بھاگتا ہے تو رَئے کی حکومت ہاتھوں سے جاتی رہے گی۔
عمر بن سعد نے سوچا کہ کسی بھی طرح آپس میں سمجھوتا کر ادیا جائے لیکن اس کی یہ تمام کوششیں ناکام ہوئیں اور 7محرم کو ابن زیاد کی طرف سے اسے حکم ملا کہ دریاپرپہرا لگا دو تاکہ اہل بیت کو پانی بھی میسر نہ ہو سکے۔
لیکن پہرے کے باوجود بھی حضرت امام حسین کے سوتیلے بھائی عباس بن علی لڑجھگڑکر پانی لے ہی آتے تھے۔
شمر سے مقابلہ:
ابن زیاد کو عمر بن سعد پر شک ہو گیا کہ یہ امام حسین سے ملا ہوا ہے اس لئے ابن زیاد نے شمر ذی الجوشن کو امام حسین کے مقابلہ کیلئے بھیجااور عمر بن سعد کو لکھا کہ تم نے حسین سے مصالحت کیلئے کئی دن برباد کر دئے ہیں میرے اس حکم کے ملتے ہی یاتو حسین سے بیعت لیکر میرے پاس لے آئو یا پھرجنگ شروع کردو۔
عمر بن سعد کو 9محرم کو جب یہ حکم ملا تو اس کے دل کی حالت بھی بدل گئی اور دنیا دین پر غالب آگئی۔اور رَئے کی حکومت کے لالچ میں سعد نے امام حسین اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ سختی سے پیش آنا شروع کردیا حضرت امام حسین پر زور دیا گیا کہ وہ یزید کی خلافت قبول کرلیں اور اس کیلئے آپ کے گھر والوں کو طرح طرح سے ستایا گیا،معصوم بچوں کو پانی سے تڑپایا گیا،عورتوں کے خیموں کو آگ لگانے کی ناپاک کوشش کی گئی مگر حضرت امام حسین کے ارادے ذرہ برابر َسرد نہ ہوسکے اور آپ اپنی بات پر پتھر کی چٹان کی طرح قائم ر ہے۔
نہ سختیاں آپ کے قدم پیچھے کو ہٹا سکیں اور نہ دنیوی عیش وآرام آپ کے قدم ڈگمگا سکا آپ برابر یزید کی بیعت سے انکار کرتے رہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت:
آخر 10محرم الحرام 61ھ کو حق وباطل کی وہ جنگ چھڑ ہی گئی جس پر انسانیت قیامت تک آنسو بہاکر شرمسار ہوتی رہے گی جنگ شروع ہونے سے قبل امام حسین نے اپنے بھائیوں،بیٹوں،بھتیجوں اور ساتھیوں سے کہا کہ میرے ساتھ اپنی جانوں کو قربان نہ کرو لیکن مردوں،عورتوں اوربچوں نے آپ کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔آپ کی بہن حضرت زینب نے جب بھائی اور پورے خاندان کو جنگ کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو رونیں لگیں آپ نے انکو تسلی دی اور صبرسے رہنے کو کہا۔
جنگ شروع ہوگئی ایک طرف حضرت امام حسین کے قافلہ میں72افرادجن میں 22اہل بیت کے جوان اور خاندا ن نبوی کی کچھ خواتین اور غلام چھوٹے اور بڑے تین روز سے بھوکے پیاسے شامل تھے۔دوسری طرف چار ہزار پر مشتمل یزیدی لشکر تھا یزیدی لشکر جب ان معصوموں کی جانب بڑھنے لگا تو تو یزیدی فوج کے ایک نیک دل سردار حُر نے اسے روکناچاہا لیکن لشکر نہیں رکا تو حُر اور اس کے چند ساتھی حضرت امام حسین کی حمایت میں لڑنے لگے اور لڑکر جان دیدی۔
حضرت امام حسین کے قافلہ میں اگر چہ گنے چنے آدمی تھے وہ بھی تین دن کے پیاسے تھے لیکن ان میں سے ہر ایک نے جرأت و بہادری کی ایسی مثال پیش کی جسے رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جاسکتا ان میں سے ایک ایک یا دودو مجاہد آگے کو بڑھتے اور یزیدی لشکر کو چیر تے ہوئے آگے کو بڑھتے چلے جاتے جب حسینی قافلہ کے اکثر لوگ شہید ہوگئے تو حضرت امام حسین کے صاحبزادے حضرت علی اکبر،عبداللہ بن مسلم اورجعفرطیار کے پوتے عدی میدان کار زار میں آئے اور یہ بھی شہید ہوگئے۔
ان کے بعد عبد الرحمان بن عقیل حضرت امام حسن کے صاحبزادے قاسم اورابو بکر نے جام شہادت نوش فرمایا۔آخرمیں حضرت امام حسین خود میدان عمل میں آئے تو یزیدیوں نے چاروں طرف سے تیروں کی برسات شروع کردی۔
حضرت امام حسین زخموں کی کثرت کی وجہ سے نڈھال ہو چکے تھے کہ اُسی وقت ایک بد بخت نے ایسا تیر مارا کہ آپ کا چہرہ بھی لہو لہان ہوگیا اور آپ کے جسم مبارک میں زیادہ طاقت باقی نہ رہی ساتھ ہی یزیدیوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا زرعہ بن شریک تمیمی نے آپ کی گردن پر کئی وار کرکے اور زخمی کر دیا اور آپ زخموں کی تاب نہ لاکر گِر پڑے آپ کے گرنے کے بعد خولی نے سر اقدس جسم مبارک سے جدا کر دیا اس طرح حق وباطل کی یہ جنگ اس دردناک سانحہ پر ختم ہو گئی۔
شہادت کے دوسرے دن شہداء کی لاشیں دفن کی گئیں،حضرت امام حسین کا سر مبارک ابن زیاد کے پاس کوفہ روانہ کر دیا گیا تھا اس لئے آپ کے جسم مبارک کو بغیر سر کے ہی دفن کیا گیا۔(از۔۔تاریخ اسلام)
الغرض ان کے نانا جان کا لایا ہوا دین آج بھی باقی ہے اور صبح قیامت تک اس دین کے اسی طرح چرچے ہوتے رہیں گے اور جو بھی اس دین کی پناہ میں آجاۓگا اللہ رب العزت اس کو بھی دارین کی عزتیں عطا فرمائے گا۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمارے اندر بھی حسین جیسا جذبہ ایمانی پیدا فرمائے تاکہ ہمارا ظاہر وباطن ہر طرح کے لہو لعب و فسق وفجور سے پاک وصاف ہو،حسینی اخلاق وکرداراورروح ہمارے اُپر غالب آجائے اور یزیدیت جیسے نفس کا خاتمہ ہو جائے۔
مسلمانوں کو چاہئے کہ دس محرم الحرام کو اہل بیت و شہدائے کربلا کی بار گاہ میں خراج عقیدت(ایصال ثواب،سبیل،لنگروغیرہ تقسیم کرکے”شریعت کی حدودمیں رہ کر‘‘)پیش کریں،اور دارین کی سعادتوں کے حقدار بنیں۔آمین