سراج اورنگ آبادی حالات زندگی اور ادبی خدمات
از قلم: احمد
تعارف سراج اورنگ آبادی
سراج اورنگ آبادی پورا نام’’ سید سراج الدین ‘‘اور سراج تخلص تھا۔ والد کا نام سیّد درویش تھا۔ آپ کا شمار دکن کےنامور اور چنندہ شعراء میں ہوتا ہے۔ سراج کا کلام آج ڈھائی سو سال کے طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود اسی ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے جیسا کہ اس وقت پڑھا جاتا تھا۔ سراج کی پیدائش غالباً ۱۱۲۷ھ مطابق ۱۷۱۵ء اورنگ آباد میں ہوئی۔ سراج کا زمانہ قدیم اردو شعراء کا آخری اور جدید اردو کا ابتدائی زمانہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سراج کی شاعری میں قدیم اور جدید اردو شاعری کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ سراج قدیم دکنی شعراء کی آخری کڑی کہے جا سکتے ہیں ،کیونکہ سراج کے بعد قدیم دکنی شعراء میں کوئی قابل قدر شاعر نہیں ملتا۔
سراج کا خاندان
سراج اورنگ آبادی کا خاندان اورنگ آباد کے معزز گھرانوں میں سے تھا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بلوغت کے قریب سراج پر ایک طرح کی جنونی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔ وہ گھر سے بھاگ بھاگ کر صحراء میں چلے جاتے اور وہیں رہنا پسند کرتے، نوبت یہاں تک آپہونچی کہ ان کے والد سراج کو بیڑیوں میں باندھ کر رکھتے۔ تقریباً سات سال تک یہ کیفیت رہی، جب ٹھیک ہوئے توصلحاء و فقراء کی صحبت کا شوق ہوا۔اس زمانے کے مشہور بزرگ شاہ عبدالرحمٰن چشتی سے بیعت کی، اسی زمانے میں سراج نے اردو شاعری کی طرف توجہ کی۔
سراج اورنگ آبادی کے ادبی کارنامے
چار سال کے قلیل عرصہ میں سراج کا دیوان مرتب ہوا جس میں تقریباً پانچ ہزار اشعار موجود ہیں۔میر تقی میر سید حمزہ کو سراج استاد قرار دیا ہے۔ نصیر الدین ہاشمی لکھتے ہیں’’شمالی ہند کے تذکرہ نویس میر حسن اور میر تقی میر کسی حمزہ کو سراج کا استاد قرار دیتے ہیں ،مگر یہ صحیح نہیں ہے دکن میں اس نام کا کوئی شاعراس تخلص کا نہیں گزرا،جہاں تک تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ سراج کو کسی سے تلمذ حاصل نہیں تھا‘‘۔ سراج مزاجاً میر تقی میر کے ہم مشرب تھے۔ ولی کی طرح سراج کی شاعری نے بھی شمالی ہند میں زبان ِاردو کو نکھارنے اور سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا۔
قدیم شعراء میں ولی کے طرز کا سراج کے علاوہ کوئی دوسرا شاعر پیدا نہیں ہوا۔ سراج کے کلام پر فارسی شاعری کا زیادہ اثر ملتا ہے۔ لیکن وہ ہندی الفاظ بھی بے تکلف استعمال کرتے ہیں۔ سراج نے تمام اصناف سخن غزلیں، مثنویاں، مخمس، ترجیع، بند اور رباعیات پر طبع آزمائی کی، لیکن غزل اور مثنوی میں اس نے لازوال شہرت حاصل کی۔
سراج کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائے:
خبرِ تحیّر ِعشق سن، نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو توں رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
شہِ بیخودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی پختہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی
بنیٔ سمت غیب سیں کیا ہوا کہ چمن سروکا جل گیا
مگر ایک شاخ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی
نظرِ تغافلِ یار کا گلہ کس زباں سیں بیاں کرو
کہ شراب صد قدح آرزو خمِ دل میں ستی دو بھری رہی
ان اشعار کو پڑھ کر یہ کہنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ ڈھائی سو سال پہلے کی زبان ہے۔ یہی وجہ ہے سراج کے کلام نے خود ان کی زندگی میں ہی کافی شہرت حاصل کر لی۔سراج کے کلام میں شگفتگی، خیالات کی بلندی، کلام کی صفائی اور سادگی تمام چیزیں پائی جاتی ہیں۔ سراج چونکہ صوفی شاعر تھے اس لئے ان کی غزلوں میں صوفیانہ جھلک بھی مل جاتی ہے۔ ان کی غزلوں سے صوفیا ایک طرف اپنی روح کو تسکین پہنچاتے تو دوسری طرف اہل ذوق کیلئے بھی اس میں لطف و مسرت کا سامان ہوتا۔ سراج اور میر کا زمانہ تقرباً ایک ہی ہے اسی وجہ سے سراج کے بہت سے کلام میر کے کلام کے ہم ردیف ہیں جیسے:
تجھ جدائی میں اے بہار مراد
خوب لگتی نہیں چمن کی یا د(سراج)
موند آنکھیں سفرعدم کا کر
بس ہے دیکھا نہ عالمِ ایجاد (میر)
نظر آیا ہے قد ترا مجھ کوں
سرد آزاد گلشنِ ایجاد (سراج)
ہر طرف ہیں اسیر،ہم آواز
باغ ہے گھر ترا تو اے صیّاد (میر)
سراج نے کلیات کے علاوہ چند مثنویاں بھی تحریر کی جس میں’’بوستان خیال‘‘(جو ایک عشقیہ مثنوی ہے) کو سب سےزیادہ شہرت ملی۔ بعض محققین لکھتے ہیں کہ یہ مثنوی خود سراج کی آپ بیتی ہے جسے سراج نے الگ ناموں اور کرداروں کے ذریعہ بیان کیا ہے۔ سراج کی دیگر مثنویاں ؛سوز و گداز، مناجات، نالۂ ہجر، نامۂ شوق، احوال فراق، خط بندگی، مطلب دل، حمد باریٔ تعالیٰ، مناجات، در نعت حضرت رسالت اور درصفت چار یار ہیں۔ سراج کا انتقال غالباً اا۷۷ھ مطابق ۱۷۶۵ء میں ہوا۔
مراجع و مصادر: دکن میں اردو، کلیات سراج
نوٹ:۔ یہ مضمون نیٹ جے آر ایف،سیٹ،ٹیٹ وغیرہ امتحان میں پوچھے جانے والے سوالوں کے پیش نظر تیار کیا گیا ہے۔ اس طرح کے مزید مضامیں حاصل کرنے کیلئے لال رنگ کے گھنٹی والے نشان کو دبا کر ہماری ویب سائٹ ’’علم کی دنیا ‘‘ ilmkidunya.in کو سبسکرائب کر لیں تاکہ ہماری ہر اپڈیٹ آپ تک بذریعہ Notification پہنچ جائے۔ والسلام