زہے نشاط اگر کیجئے اسے تحریر

زہے نشاط اگر کیجئے اسے تحریر

(قصیدہ در مدح بہادرشاہ ظفر)

شیخ محمد ابراہیم ذوق کا مشہور مدحیہ قصیدہ جسے ذوق نے بہادر شاہ ظفر کی مدح  میں کہا تھا۔

زہے نشاط اگرکیجئے اسے تحریر

عیاں ہو خامہ سے تحریر نغمہ جاے صریر

زبان سے ذکر اگر چھیڑیے تو پیدا ہو

نفس کے تار سے آواز خوشتر از بم وزیر

ہوا یہ باغِ جہاں میں شگفتگی کا جوش

کلید قفل دل تنگ و خاطر دلگیر

کرے ہے والب غنچہ در ہزار سخن

چمن میں موج تبسم کی کھول کر زنجیر

کچھ انبساط ہوائی چمن سے دور نہیں

جو وا ہو غنچۂ منقار بلبل تصویر

قفس میں بیضہ کی بھی شوق نغمہ سنجی سے

عجب نہیں کہ ہو مرغ چمن بنالہ صفیر

اثر سے باد بہاری کے لہلہاتے ہیں

زمیں پہ ہم سر سنبل ہے موج نقش حصیر

نکل کےسنگ سے گر ہو شرارہ تخم فشاں

تو سبز فیض ہوا سے ہو وہ برنگ شعیر

زمیں پر گرتے ہی لے آئے دانہ برگ و ثمر

جو ٹوٹے ہاتھ سے زاہد کے سبحۂ تزویر

ہو پہ دوڑتا ہے اس طرح سے ابر سیاہ

کہ جیسے جائے کوئی پیل مست بے زنجیر

نہ خار دشت ہے نرمی میں خواب مخمل ہے

ہر ایک تار رگ سنگ بھی ہے تار حریر

ہوا میں ہے یہ طراوت کہ دود گلخن بھی

برستا اٹھتا ہے آتش سے مثل ابر مطیر

یہ آیا جوش میں بارانِ رحمت باری

کے سنگ سنگ میں سنگ یدہ کی ہے تاثیر

ہرایک خار ہے گل ہر گل ایک ساغرِ عیش

ہر ایک دشت چمن ہر چمن بہشت نظیر

ہر ایک قطرۂ شبنم گہر کی طرح خوش آب

ہر اک گہر گہر شب چراغ پر تنویر

کرے ہے صبح شکر خندہ اس مزے کے ساتھ

کہ جس طرح بہم آمیختہ ہوں شکر و شیر

سنوارتی ہے جو شام اپنی زلف مشکیں کو

سواد مشک ختن پر ہے لاکھ آہو گیر

نہال شمع سے ہر شب چنے گل شبو

بہار عیش میں گلچیں کی طرح سے گلگیر!

ہنسے چراغ تو ایسی ہنسی میں پھول جھڑیں

حیا سے رنگ گلِ آفتاب ہو تغییر

رہے ہے چرخ پہ ہر صبح،جو صبوحی کش

بہ ایں درازیِ ریش آفتاب ساغر گیر

عجب نہیں ہے کہ آرائشِ زمانہ سے

حنائی پنجہ ہوں، تاک و چنار و بیدا انجیر

چمن میں ہے یہ درختانِ سبز پر، جوبن

کہ زہر کھاتے ہیں سبزانِ خطۂ کشمیر

نی کیونکردیکھ کے گلشن کو یہ پڑھوں مطلع

کہ آئی ہے نظر، اک قدرتِ خداے قدیر

مطلع ثانی

ظہور نرگس و گل جلوۂ سمیع و بصیر

نسیم و نکہت گلِ اطہررِ لطیف و خبیر

شمیم عیش سے، ہے یہ زمانہ عطر آگیں

کہ قرصِ عنبر اگر ہے زمیں، تو گرد عبیر

حمل سے حوت تلک، جا بہ جا ہیں تصویریں

بنا ہے، عالمِ بالا بھی، عالم تصویر

جہاتِ ستہ سے، بزم جہاں سے وسعت خواہ

کہ ہے ہجوم نشاط و سرور جم غفیر

زمانہ دشمنِ عشرت کا اس قدر قاتل

مہِ صیام کو، دیکھے نہ کوئی بے شمشیر

ہوا ہے مدرسہ، یہ بزم گاہِ عیش و نشاط

کہ شمش بازغہ کی جا، پڑھیں ہیں، بدر منیر

اگر پیالہ ہے صغریٰ، تو ہے سبو کبریٰ

نتیجہ یہ ہے کہ سر مست ہیں صغیر و کبیر

زمیں میکدہ یہ خندۂ نشاط انگیز

کہ لائے مے سے، ہو دیوارِ قہقہہ، تعمیر

دیا ہے رنج کو دھو تیرے غسلِ صحت نے

ضمیر خلق سے، اے بادشاہ پاک ضمیر

عجب نہیں، یہ ہوا سے، کہ مثلِ نبض صحیح

کرے اگر حرکتِ موجِ چشمۂ تصویر

شہنشاہ! ترے یمنِ شفاے کالم سے

جو لا علاج مرض تھے، وہ ہیں علاج پذیر

کہ چوبِ گل کو اگر ماریں بیدِ مجنوں پر

تو صورتِ بشر ہوش مند، خوش تقریر

اشارہ فہم ہو ایسا کہ وہ بیان کرے!

زبانِ برگ سے، گونگے کے، خواب کی تعبیر

جو میلِ کحلِ بصارت کو کلکِ خطِ غبار

تو چشم دائرہ عین بھی، ہو چشم بصیر

نہ موج مے کو ہو پیچس، نہ شیشہ لےہچکی

گئی جہاں سے یہ بیماریِ فواق و زحیر

نہ برق کو تپ و لرزہ، نہ ابر کو ہو زکام

نہ آب میں ہو رطوبت، نہ خاک میں تبخیر

بدل گئی ہے حلاوت سے تلخیٔ دارو

شرابِ تلخ بھی ہو، مے کشوں کی شربت و شیر

قوی ہے قوتِ تاثیر سے دوائے طبیب

غنی قبول کی دولت سے ہے دعائے فقیر

(قطعہ)

شکستِ دل کو ترے، یمن تندرستی سے

کرے درست، اگر مومیائی تدبیر

تو موے کاسۂ چینی کو چارہ ساز قضا

نکالے کاسۂ چینیی سے مثلِ موے خمیر

کھجائے سر، جو کبھی مفسدانِ سرکش کا

علاجِ خارش سر ہو،بناخنِ شمشیر

بنا ہے، نقشِ شفاخانہ ہزار شفا

ہر ایک خانۂ تعویذ صاحب تکسیر

ہر ایک اسم عزیمت میں، اسم اعظم ہے

ہر ایک نسخۂ شفا میں ہے، نسخۂ اکسیر

رہا نہ کوئی، گرفتار رنج عالم میں

چھٹے جو تیرے تصدق میں مجرمانِ اسیر

شہا ہے دم سے ترے، زندگانیِٔ عالم

یہ تیرا دم ہے وہ اعجاز عیسوی تاثیر

مثالِ خضر تو اے رہنماے ملت و دیں

جہاں میں پیر ہو، پر ہوکر امتوں سے پیر

تو ہے وہ حامیِٔ دنیا و دیں زمانے میں

کہ تجھ سے زیب ہےدنیا کو، دین کو توقیر

کیا شہانِ سلف نے، مسخّر ایک جہاں

کیے ہیں تونے شہنشاہِ دو جہاں تسخیر

سحر سے شام تلک، زرفشاں ہے، پنجۂ مہر

نثار کرتا ہے ہر روز ایک گنج خطیر

فلک پہ کرتا ہے ہر شب اداجو سجدۂ شکر

نشانِ سجدہ ہے زیب جبینِ ماہِ منیر

یہ روز بہ سے ترے ہے جواں جہانِ کہن

کہے نہ کوئی دو شنبہ کو بھی، جہاں میں پیر

(قطعہ)

حیات بخش جہاں، تیرا مژدۂ صحت

جو بخشے خلق کو، عمرطویل و عیش کثیر

ہزاروں سال، سرِ ہر صدی نکال کے دانت

ہنسیں اجل پہ، جوانوں کی طرح مردم پیر

جہاں کو یوں تری صحت کے ساتھ ہے صحت

صحیح، جیسے کہ قرآن ہو مع تفسیر

یہ ہو خوشی ہے کہ فربہ ہوں جس سے روزبروز

ہلال بست و نہم کی طرح بدن کے حقیر

پڑھوں ثنا میں تری اب وہ مطلع روشن

کہ جس کا مطلع خورشید بھی نہ ہووے نظیر

شہنشاہ! وہ تری روشنی رائے منیر

عقول عشرہ، کے انوار جس کے عشرِ عشیر

جو ہو نہ، تابع امر تشاور واولی الامر

تو عقلِ کل کو کرے تو نہ ہرگز اپنا مشیر

جو ہیں نکات و معانی بشر کی فہم سے دور

وہ تیرے ذہن میں، موجود سب قلیل و کثیر

اگر ہے، سہو کو کچھ دخل،حافظے میں تو یہ

نہ اپنا یاد ہے احساں نہ اور کی تقصیر

حیا ہے گر متعلق تری نگاہ کے ساتھ

تو ہے ضمیر کی جانب تری صفا کی ضمیر

ترا تو سیّئہ بھی یوں ہے داخلِ حسنات

کہ جیسے صحبتِ اصحابِ کہف میں قطمیر

کرے ہے سلب تغیر کو ذاتِ حادث سے

زمانہ عدل سے تیرے، یہ اعتدال پذیر

مجال کیا کہ ترے عہد میں شرر کی طرح

اٹھائیں سر کو شرارت  سے ، سرکشان شریر

ہوا میں آکے جو کرتا ہے سرکشی، شعلہ

تو چٹکیاں دلِ آتش میں لے ہے آتش گیر

ترے نسق سے جو بالکل رہی نہ خوں ریزی

لڑائیوں میں کہیں پھوٹتی نہیں نکسیر

جو پہنچے بت کدے میں تیرا شورِدین داری

بلند نالۂ ناقوس سے بھی ہو تکبیر

کیا یہ کفر کو اسلام نے ترے معدوم

کہ کوئی زلفِ بتاں پر، نہ کر سکے تکفیر

جہاں میں چشم سیہ مستِ یار کا ہو یہ رنگ

جو مے کشوں کو ترا احتساب دے تعزیر

پڑی گلے میں رسن خطِ سرمہ سے اس کے

رہے مدام وہ گردش میں از پئے تشہیر

وہ برقِ قہر خدا تیری تیغ آتش دم

کہ جس کی آنچ ترے دشمنوں کو نارِ سعیر

جو ہے خدنگ کا تیرے نشانہ چشم حسود

تو ہے تفنگ کا تیرے دلِ عدو نخچیر

ترے نہیب سے ہوں شکلِ فلسِ ماہی الگ

کریں نہ حلقہ جوہر رفاقتِ شمشیر

جو تیر نکلے کماں سے تری وہ ہو جائے

طلب میں جان عدو کی رواں قضا کا سفیر

ترے ہے خامۂ طغرا نگار میں یہ زور

جو کھینچے اک روشِ خطِ منحنی وہ لکیر

تو اس سے ایسی ہوں اشکالِ ہندسی پیدا

مٹا دے دیکھ کے اقلیدس اپنی سب تحریر

وہ روشنی ترے خط  میں کہ ابن مقلہ اگر

لگائے آنکھوں سے سرمے کی جاتری تحریر

تو ہو یہ نورِ بصارت کو پڑھ لے حرف بہ حرف

جو ہوئے لوح جبیں پر نوشتۂ تقدیر

ترا سمندر ہے وہ تیز رو کہ وقتِ خرام

نظر ہو دیدۂ زرقا کی بھی نہ اس کا نظیر

کہ سیرگاہ دو عالم تو راہِ یک روزہ

اور اس کا شرق سے تا غرب عرصہ گاہِ مسیر

ترے جو فیل کی تعریف خسروا لکھوں

کروں حکایتِ شیریں وہ کوہ کن تحریر

کہ فیل کوہ، کجک تیشہ فیل باں فرہاد

دو دو نو دانت صفا ایک ایک جوئے شیر

جلے نہ اشرفی آفتاب عالم میں

خطِ شعاع سے اس پر جو یہ نہ ہو تحریر

ابو ظفر شہِ والا گہر بہادر شاہ

سراجِ دینِ نبی سایۂ خداے قدیر

شہ بلند نگہ شہریار والا جاہ

خدیو مہرکلہ خسروِ سیہر سریر

جہاں مسخر و عالم مطیع وخلق مطاع

فلک مؤید و اختر معین و بخت بصیر

زمیں ہو سبز جو تیرے سحابِ بخشش سے

تو بوٹی بوٹی  سے ہر خاک کی بنے اکسیر

بچشمِ مہر اگر تیرا نیّر اقبال 

کرے نگاہ سرِ آب جو و آبِ غذیر

تو فلس فلس سے ہو ماہیوں کے وقتِ شکار

نگینِ دستِ سلیماں بدستِ ماہی گیر

نہ ہے ثنا کے لیے تیری اختتام و تمام

نہ ہے دعاکے لیے  تیری انتہا و اخیر

مگر یہ ذوق ثنا سنج و مدح خواں تیرا

غلام پیرِ کہن سال اک فقیر حقیر

کرے دل سے دعا یہ سدا فقیرانہ

سنا ہے جب سے کہ رحم خدا دعائے فقیر

الٰہی! آپ پہ ہو تا زمیں، زمیں کو ثبات

زمیں پہ تا ہو فلک اور فلک کو ہو تدویر

فلک پہ چھوڑے نہ تا دامنِ مسیح حیات

زمیں پہ خضرمی تا ہو فنا نہ دامن گیر

عطا کرے تجھے عالم میں قادر قیوم

بہ جاہ و دولت و اقبال و عزت و توقیر

تنِ قوی و مزاج صحیح و عمرِطویل

سپاہ وافر و ملکِ وسیع و گنجِ خطیر

 (انتخاب قصائد،ص:۳۳)

نوٹ:۔ یہ مضمون نیٹ جے آر ایف،سیٹ،ٹیٹ وغیرہ امتحان میں پوچھے جانے والے سوالوں کے پیش نظر تیار کیا گیا ہے۔ اس طرح کے مزید مضامیں حاصل کرنے کیلئے لال رنگ کے گھنٹی والے نشان کو دبا کر ہماری ویب سائٹ ’’علم کی دنیا ‘‘ ilmkidunya.inکو سبسکرائب کر لیں۔ والسلام

اپنی راۓ یہاں لکھیں