(دوسری قسط)
دین کی نئی تفہیم وتعبیر
شیخ محمد صالح المنجد
ترجمہ: ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
ان جدید باطنیت پسندوں نے اپنے مکتبۂ فکر کے لیے کچھ اصول ومبادی وضع کیے ہیں۔ یہ ہر جگہ ان اصولوں کا پرچار اور پرسار کرتے ہیں اور جو بھی وسائل وذرائع انھیں میسر ہیں ان کے ذریعے سے عام مسلمانوں میں انھیں معتبر بناتے ہیں۔ یہاں ایسے ہی چند اصولوں کا تجزیہ مقصود ہے۔
ان کا پہلا اصول یہ ہے کہ نصِ شرعی کے معنی ومفہوم کو ظنی(surmised) اور محتمل(probable)مانا جائے گا۔ ان حضرات کا دعویٰ ہے کہ قرآن کی ہر آیت اور اللہ کے نبیﷺ کی ہر سنت اپنے معنی ومفہوم میں غیر قطعی(indecisive) اور غیر یقینی ہے۔کسی بھی نصِ شرعی کے اندر صرف ایک معنی ومفہوم کی گنجائش نہیں ہوتی، بلکہ اس میں دیگر معانی ومدلولات کا بھی پورا احتمال ہوتا ہے۔ایسی نص جو دلالت میں بھی قطعی اور محکم ہو، سرے سے موجود نہیں ہے۔(دیکھیں النص القرآنی طیب تیزینی:ص۲۶۱۔ نقد النص، علی حرب:ص۲۰)
اس سے وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ نصِ شرعی کا جو معنی ومفہوم بھی کوئی فرد یا فرقہ بیان کرے ہمیں اس کا احترام کرنا چاہیے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ حق ہو۔ اس لیے یہ کہنا کہ دین یا نصِ شرعی کا فلاں فہم (Understanding)درست اور فلاں نادرست ہے،ٹھیک نہیں ہے۔ ہر مطالعہ اور ہر فہم درست ہے۔ (التراث والتجدید، حسن حنفی:ص۱۱۲)
ان لوگوں کے تصورِ تاویل کا اہم پہلو یہ ہے کہ ان کے نزدیک الفاظِ قرآنی کا اعجاز ہی یہ ہے کہ قرآن کے معنی میں تجدد(renovation) اور ارتقاء(development) ہوتا رہتا ہے۔ اس کے الفاظ کی دلالت کو کچھ متعین معنوں میں محدود نہیں کیا جاسکتا ہے۔
محمد أرکون کہتے ہیں: ’’قرآنی نص کا دروازہ جملہ معانی کے لیے کھلا ہے۔ کسی تفسیریا تاویل کے لیے ممکن نہیں کہ اس دروازے کو بند کردے یا نص میں پنہاں معنی کو پوری طرح بیان کر پائے۔‘‘[فالقرآن ہو نص مفتوح لجمیع المعانی ولا یمکن لأی تفسیر أو تأویل أن یغلقہ أو یستنفدہ بشکل نہائی](تاریخیۃ الفکر العربی الإسلامی، محمد أرکون:ص۱۴۵)
بنابریں کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ دعویٰ کرے کہ دین کا جو فہم اس کے پاس ہے وہی حق ہے اور دوسروں کا فہم غلط ہے۔ ایسا دعویٰ کسی فہمِ دین کے بارے میں نہیں کیا جاسکتا ہے، پھر چاہے وہ پوری امت کا اجماعی فہم ہو اور چودہ سو سال تک مسلمانوں نے اس کے مطابق زندگی گزاری ہو۔
محمد ارکون وغیرہ اس مکتبۂ فکر کے لوگ جب اس قسم کی باتیں کرتے ہیں تو قارئین یہ نہ سمجھیں کہ وہ علماء اور اہلِ اجتہاد کو نصوصِ شرعیہ پر غور وفکر کی دعوت دے رہے ہیں اور یہ کہ ان کی بات صرف ان نصوصِ شرعیہ سے متعلق ہے جو لغوی لحاظ سے محتمل المعنی ہیں۔ اس کے بجائے ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ہر فردِ بشر کو بہ ذاتِ خود دین کا مطالعہ کرکے اپنی راہِ عمل منتخب کرنی چاہیے، قطعِ نظر اس سے کہ وہ عالم ہے یا جاہل، اسے عربی زبان آتی ہے یا نہیں، اس کے پاس دینی معلومات ہیں یا نہیں۔ ہر آدمی مجاز ہے کہ وہ کسی بھی قرآنی لفظ سے کوئی بھی معنی اخذ کرے۔ اسے صرف اپنے ضمیر کو راضی کرنا ہے، باقی پوری دنیا کیا کہتی ہے، علمائے دین کیا روک ٹوک لگاتے ہیں اور ماہرینِ لغت کیا باتیں بناتے ہیں؛ اسے کسی کی چنداں فکر نہیں ہونی چاہیے۔
طیب تیزینی جیسے کچھ لوگوں نے یہاں تک مبالغہ کیا ہے کہ وہ غیرمسلموں کا بھی حق مانتے ہیں کہ اپنے فہم اور اپنے علمی سرمائے اور اپنے اعتقادی پسِ منظر کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کریں، اس کی تفسیر کریں اور قبول یا ردّ کردیں۔ کسی مسلمان کو ان پر اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ [من حق غیر المسلمین الذین یعیشون فی المجتمع الإسلامی أن یفسروا القرآن بما یوافق ثقافتہم ومعتقداتہم](النص القرآن، طیب تیزینی: ص۲۲۶)
محمد ارکون کہتے ہیں: ’’مجھے جس دینی مطالعے کی آرزو ہے، وہ وہی آزادانہ مطالعہ ہے جو آزاد روی اور آوارگی میں ہر رخ پر دوڑنے اور بھٹکنے کی حد تک جا پہنچے۔ یہی وہ مطالعہ ہے جس میں ہر فردِ بشر اپنی شخصیت اور ذات کو دریافت کر سکتا ہے۔‘‘[إن القرأۃ التی أحلم بہا ہی قرأۃ حرۃ إلی درجۃ التشرد والتسکع فی کل الاتجاہات إنہا قرأۃ تجد فیہا کل ذات بشریۃ نفسہا](الفکر الأصولی واستحالۃ التأصیل، أرکون:ص۷۶)
انجینئر علی حرب کہتے ہیں کہ نصِ مقدس ہر ایک کے لیے اوپن ہے اور اس میں ہر قسم کے پہلوئوں اور سطحوں کے لیے پوری گنجائش پائی جاتی ہے۔[النص یتسع للکل ویتسع لکل الأوجہ والمستویات] (نقد الحقیقۃ، علی حرب:ص۴۵)
اس مکتبۂ فکر کے لوگ بار بار اپنی تحریروں اور تقریروں میں یہ بات دہراتے ہیں کہ نص مقدس ہے ،مگر اس کی تاویل آزاد رہے گی۔النصُّ مقدس والتأویل حرٌّ۔یعنی ہر مسلمان، بلکہ ہر غیر مسلم کو بھی پورا حق حاصل ہے کہ نصِ شرعی-قرآنی آیت، سنتِ نبوی، اجماعِ امت- کا جو معنی ومفہوم چاہے طے کر دے اور اس کے مطابق عمل کرے۔
مثال کے طور پر یہ آیتِ کریمہ ہے: {وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنّ} (نور،۳۱)’’اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بنائو سنگھار نہ دکھائیں بہ جز اس کے جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں اور اپنا بنائو سنگھار نہ ظاہر کریں۔‘‘
اس آیتِ کریمہ میں پردے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس میں ایک لفظ ’’جیوبہن‘‘ استعمال ہوا ہے جس کا مفرد ’’جَیْبٌ‘‘ ہے۔ معنی ہے گریبان۔ گریبان چونکہ سینے پر ہوتا ہے اس لیے بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ سینہ کیا ہے اور بعض نے گریبان کیا ہے۔ یہ لغت اور شریعت کی رو سے اس کا ایک متعین معنی ہے۔ مگرجدید ملحدین کے نزدیک کوئی بھی شخص اس سے جو مرضی چاہے معنی مراد لے سکتا ہے۔ اسلافِ امت نے اس آیت سے جو سمجھا ہے اور جس کے مطابق صدیوں سے مسلمان خواتین پردہ کرتی آئی ہیں، وہ فہم ہر مسلمان کے لیے لازم الاتباع نہیں ہے۔
ڈاکٹر محمد شحرور کو دیکھو کہ وہ لفظ جیب کا ایک خاص مفہوم طے کرتے ہیں۔ان کے مطابق جیب کی دو سطحیں ہیں۔ اندرونی جیب اور بیرونی جیب۔ اندرونی جیب کا پردہ واجب ہے اور بیرونی جیب کا پردہ کھولنا ضروری ہے۔داخلی جیب سے مراد عورت کے پستان، بغل اور شرمگاہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو عورت نصف جانگھ سے اوپر تک شورٹ( shorts) پہنتی ہے اور بکنی(Bikini) وغیرہ سے اپنے پستان ڈھانپ لیتی ہے اور بغل سے نچلا حصہ بھی چھپا لیتی ہے تو اس نے حجاب کا حق ادا کر دیا۔ وہ پردے دار خاتون ہے اور اس نوعیت کا پردہ کرکے اس نے اللہ کی رضاجوئی حاصل کر لی ہے اور اس کے احکام کی اطاعت کا عہد نبھادیا ہے۔رہا بیرونی جیب تو اس سے مراد چہرہ، کہنیوں تک ہاتھ اور پیر وغیرہ ہیں جنھیں چھپایا نہیں جائے گا۔(دیکھیں الکتاب والقرآن:ص۶۰۴)
قرآن نے چوری کی سزا قطعِ ید بیان کی ہے۔ ارشادِ باری ہے:{وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُواْ أَیْْدِیَہُمَا جَزَاء بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّہِ وَاللّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْم} (مائدہ، ۳۸)’’اور چور خواہ عورت ہو یا مرد، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، یہ ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا۔ اللہ کی قدرت سب پر غالب ہے اور وہ دانا وبینا ہے۔‘‘
مگرانجینئر محمد شحرور نے اس آیت کا یہ معنی طے کیا ہے کہ چوروں کے ہاتھ روک دو، انھیں چوری نہ کرنے دو، انھیں جیل میں ڈال دو۔[أی کفوا أیدیہما عن السرقۃ بالسجن مثلاً] (نحو أصول جدیدۃ:ص۹۹-۱۰۳)
اسی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے آیت کا یہ معنی متعین کیا ہے کہ چور کو اس گناہ سے باز رکھو بہ ایں طور کہ اس کی ضروریات پوری کر دو۔[کفوا أیدیہما عن السرقۃ بتوفیر العیش الکریم لہما](حوالۂ سابق)
ارشادِ باری ہے:{کُلُّ شَیْْء ٍ ہَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہُ لَہُ الْحُکْمُ وَإِلَیْْہِ تُرْجَعُون} (قصص، ۸۸)’’ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے، فرماں روائی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو۔‘‘
اس سیدھی سادی آیت کا یہ غلط مفہوم ان لوگوں نے طے کیا کہ اس کائنات کی بناوٹ میں تضادات (Contradictions) رکھے گئے ہیں۔ مادہ (Matter)جہاں بھی جاتا ہے اپنے ساتھ ان تضادات کو لے جاتا ہے، اس لیے یہ کائنات (Universe)عنقریب تباہ ہو جائے گی، بدل جائے گی، ہلاک (Annihilated)ہوجائے گی، مگر اس کی ہلاکت اسے دوسرے مادے میں تبدیل کر ڈالے گی۔[إن ہذا الکون یحمل تناقضاتہ وأن المادۃ تحمل تناقضہا معہا لذلک فإن ہذہ الکون سیتدمر وسیتبدل وسیہلک ولکن ہلاکہ سیحولہ إلی مادۃ أخری] (نحو أصول جدید:ص۱۰۲)
ارشادِ باری ہے{یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللّہَ الَّذِیْ تَسَاء لُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلَیْْکُمْ رَقِیْبا}(نسائ،۱)’’لوگو، اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد وعورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتے وقرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔‘‘
عبدالرزاق نوفل لکھتے ہیں کہ آیت میں نفسِ واحدہ سے مراد پروٹون (Proton)ہے اور اس کے زوج سے مراد الیکٹرون (Electron)ہے۔(القرآن والعلم الحدیث، عبدالرزاق نوفل:ص۱۳۶) مگر یہ تشریح کرتے ہوئے وہ بھول گئے کہ آیت کے اگلے ٹکڑے میں نفسِ واحدہ اور اس کے زوج کی صراحت کر دی گئی ہے۔ مزید برآں یہ بھی انھیں دیکھنا چاہیے تھا کہ آیت کا روئے سخن انسانوں کی طرف ہے۔ یہاں کائنات سرے سے مخاطب ہی نہیں ہے۔
ایک جگہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:{إِنِّیْ أَنَا رَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْْکَ إِنَّکَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُویً}(طہ،۱۲)’’اے موسیٰ میں ہی تمہارا رب ہوں، جوتیاں اتار دو، تم وادیِ مقدس طویٰ میں ہو۔‘‘
ڈاکٹر مصطفی محمود کہتے ہیں کہ یہاں جوتیوں سے مراد نفس اور جسم کے تقاضے ہیں۔ گویا کہا جارہا ہے کہ نفسانی خواہشات (Carnel Desires)اور جسمانی لذتوں سے پاک صاف ہوکر آئو۔[المقصود بالنعلین النفس والجسد یعنی ہوی النفس وملذات الجسد] (القرآن محاولۃ لفہم عصری:ص۱۳۵)
ان مثالوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اگر اس مکتبۂ فکر کے نہج کے مطابق نصوصِ قرآنیہ کی تفسیر وتعبیر کی جائے تو پھر افراتفری مچ جائے گی اور افکار وآراء کا لامتناہی بیہڑ اُگ آئے گا۔ جتنے منھ اتنی باتیں ہوں گی کیونکہ ان لوگوں کے اصول کے مطابق ایسا کوئی لگا بندھا ضابطہ یا قاعدۂ کلیہ نہیں ہے جس کی روشنی میں کسی فہم کو صحیح اور کسی کو غلط کہا جاسکے۔ان لوگوں کے دعوے کے مطابق قرآن ایک کھلی کتاب ہے اور اس کے اندر ہر قسم کے معانی کا احتمال قائم ہے۔
مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اسی قرآن سے کفر وشرک اور الحاد وزندقے کی تائید بھی نکل سکی ہے، اسی سے اباحیت اور بدکاری کی تعلیم بھی مل سکتی ہے تو پھر اسے نازل کرنے کا مقصد کیا ہوا؟ کیوں اسے اہلِ ایمان کے لیے ایک نظامِ زندگی، ایک دستور العمل اور ایک صراطِ مستقیم بناکر پیش کیا گیا ہے؟ پھر یہ کھلواڑ جو تم لوگ قرآنِ مجید کے حوالے سے کر رہے ہو، کیا دنیا میں کسی بھی فن کی کسی بھی کتاب کے حوالے سے ایسی ہرزہ سرائی اور عبث کاری ممکن ہے؟ کیا علمِ طب، علمِ ہندسہ، علمِ جغرافیہ یا کسی بھی علم وفن کی کتاب کے بارے میں ہر کس وناکس کو کھلی چھوٹ دی جاسکتی ہے کہ جو چاہے سمجھے اور جیسے چاہے عمل کرے؟
دس کلومیٹر کے کسی گائوں پر بھی اگر کسی مکھیا کی حکومت ہو تو وہ وہاں اپنی پسند کا دستور چلاتا ہے، کیا وہاں کسی کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ اس دستور کی جس شق اور دفعہ کو جو چاہے معنی پہنا کر جس طرح چاہے اس کی تاویل وتشریح کر ڈالے؟ کیا اس انارکی اور بدنظمی کے ساتھ کوئی ملک تو دور کی بات ہے، کوئی معمولی ادارہ بھی کام کر سکتا ہے؟کیا کسی بھی درسگاہ میں طلبہ کو یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ امتحانی سوالات کے جو چاہے جوابات لکھ کر آجائیں اور کہیں کہ ہم نے یہی جواب سمجھا ہے؟ کیا کسی بھی دوسرے میدان میں لوگوں کو اس حد تک بے قید چھوڑا گیا ہے کہ وہ جدھر چاہیں بھٹکیں اور جہاں چاہیں منھ ماریں؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر سرے سے ان الفاظ اور محاوروں کی اہمیت کیا رہ جاتی ہے جو معانی کی اساس اور پیمانے کی حیثیت رکھتے ہیں،جب کہ پہلے ہی یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ لفظ کے اطلاقات (implications) میں سرخ، سفید، سیاہ اور جو بھی رنگ فرض کیے جاسکتے ہوں وہ سب صحیح ہیں۔اگر آپ زمین بول کر آسمان اور آسمان بول کر زمین مراد لینے کا امکان فرض کر لیتے ہیں تو پھر نص کی اپنی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی۔ دیکھا جائے تو یہ صورت نص کی توضیح کی نہیں، ایجاد کی بن جاتی اور یہ نقطۂ نظر مغرب کی تاویلِ نصوص کی فکر (Hermeneutic Approach) کے اس رجحان کے مشابہ ہوجاتا ہے جس کے مطابق صاحبِ نص کی وفات کے بعد یہ قاری پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس طرح اور کن بنیادوں پر نص سے معانی کا استخراج کرے۔
یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی شخص کی تکفیر اس وقت جائز نہیں ہے جب کہ وہ کسی بھی صریح سے صریح تر آیت کا مفہوم خود سے نکال رہا ہو اور اس کے مطابق عمل پیرا ہو۔ اس طرح وہ گویا ہر شخص کو انفرادی طور پر تاویل کا اختیار دیتے ہیں، چاہے وہ اپنے موقف کے حق میں جیسی بھی تاویل کرے۔اس حوالے سے یہ لوگ کسی بھی اصول اور حد کو تسلیم کرنے کے خواہاں نظر نہیں آتے۔
نص کی تفہیم وتعبیر کے باب میں اختیارِ معنی کی لامحدود گنجائش باقی رکھنے کی کوشش میں ان لوگوں نے اس کے منطقی انجام پر غور نہیں کیا کہ اس طرح نص(قرآن) میں محکم کا مسلّمہ وجود ختم ہوکر پوری نص متشابہ بن جاتی ہے اور ایمانیات کی دیوار گر جاتی ہے کیونکہ اسے شک وظن کی بنیاد پر نہیں اٹھایا جاسکتا ہے۔ مزید انھوں نے اس پر بھی غور نہیں کیا کہ پھر شارع پر عائد ہونے والے اس الزام کو کس طرح رفع کیا جاسکتا ہے کہ اس نے ایسی چیزوں کے اعتقاد وعمل کا بندوں کو مکلف بنایا ہے اور ان پر سعادت وشقاوتِ اخروی کی بنیاد رکھی ہے جو مبہم، غیر واضح اور بہ ایں معنی مشکوک ہیں۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ امام شافعیؒ اور امام ابن تیمیہؒ کی طرح نصوص کے فہم وتاویل کے اصول وضع کرنے کی اجازت ہمیں بھی کیوں نہ حاصل ہو اور یہ حق صرف متقدمین تک ہی محدود کیوں رکھا جائے۔ اصولاً تو یہ بات بہ ظاہر صحیح نظر آتی ہے، لیکن تاویل کے جو معنی یہ لوگ مرادلیتے ہیں نہ تو لغت کے لحاظ سے درست ہیں اور نہ کلامِ شارع کے لحاظ سے صائب ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ تاویلِ نص کے باب میں ان لوگوں کی فکر اصولی طور پر انتہاپسندانہ اور افراط وتفریط پر مبنی ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ نصوصِ شرع کے ظنی الدلالت ہونے کا جو اصول ان لوگوں نے اختیار کیا ہے، اگر اس کے مطابق عمل کیا جانے لگے تو اجتماعی وسماجی زندگی برباد ہونے میں ایک دن بھی نہیں لگے گا۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے:{وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَہْوَاء ہُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِیْہِنَّ بَلْ أَتَیْْنَاہُم بِذِکْرِہِمْ فَہُمْ عَن ذِکْرِہِم مُّعْرِضُونَ} (مومنون،۷۱)’’اور حق اگر کہیں ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو زمین اور آسمان اور ان کی ساری آبادی کا نظام درہم برہم ہوجاتا،نہیں، بلکہ ہم ان کا اپنا ہی ذکر ان کے پاس لائے ہیں اور وہ اپنے ذکر سے منھ موڑ رہے ہیں۔‘‘
انسانوں کی اجتماعی زندگی ان لغوی معانی ومدلولات پر چل رہی ہے جس پر سب اتفاق کر چکے ہیں اور انہی معانی ومدلولات کی بنیاد پر ایک دوسرے سے گفتگو کی جاتی ہے اور افہام وتفہیم (Mutual Understanding) ہوتا ہے۔ اگر ہم کہہ دیں کہ اب کسی لفظ کا بھی کوئی معنی متعین نہیں ہے، جو شخص جو چاہے معنی مراد لے سکتا ہے تو پھر جو ہنگامہ مچے گا اس کا ہم تصور ہی سکتے ہیں۔
یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نصوصِ شرعیہ کے حوالے سے ہر شخص اپنا من چاہا مفہوم اختیار کرے اور دل پسند تاویل کر دے اور اس سلسلے میں اپنے علمی وفکری سرمائے اور اپنی خواہشِ نفس کو حاکم اور فیصل بنائے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟نتیجہ یہ ہوگا کہ کوئی بھی کسی کی بات نہ سمجھ پائے گا، یا کم از کم اس کی بات پر اعتبار نہیں کرے گا،کیونکہ عین ممکن ہے کہ وہ جس چیز کو آگ کہہ رہا ہے اس سے اس کی مراد پانی ہو۔ ایسے میں سماجی تعلقات و روابط منقطع ہوجائیں گے۔ تعاون اور آشتی کی فضا ختم ہوجائے گی۔ انسانی سماج میں جنگل کا اندھا قانون رائج ہوجائے گا۔
دین داری اور خداترسی کا مسئلہ تو اس کے بعد پیدا ہوگا۔اس تصور کے ساتھ کیسے کسی سماج میں کوئی قانون نافذ کیا جاسکتا ہے؟ ہر شخص جہاں قانون اور دستور کو اپنے انداز میں سمجھنے کا مجاز اور مختار ہوگا اور اس کے مطابق حرکت وعمل کے لیے آزاد ہوگا، وہاں قانون کی بالادستی کیسے قائم ہوگی؟کسی کو قانون شکنی پر کیوں کر سزا دی جاسکے گی؟منصف قانون کی جس دفعہ سے ایک جرم کی سزا متعین کررہا ہوگا، اسی دفعہ سے مجرم اپنے لیے انعام کی تجویز نکال رہا ہوگا۔پھر کس بنیاد پر سرکاری محکموں اور دفتروں سے ہدایات جاری کی جائیں گی؟کیسے کسی حکم کو حکم اور کسی ممانعت کو ممانعت کہا جاسکے گا کیونکہ صورتِ حال تو یہ ہوگی کہ جو چاہے کسی اجازت کو ممانعت سمجھ لے اور جو چاہے کسی حرمت کو حلت مان لے۔کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہوگا کیونکہ یہ اس کی اپنی تاویل ہے اور اس نے اپنی ذات سے ایک لفظ کا کوئی لغوی معنی طے کر دیا ہے جو دوسروں کے لیے واجب التسلیم نہ ہو، مگرخود اس کے لیے تو قابلِ قبول ہے۔
پھر طلبہ کیسے پڑھیں گے؟ ہو سکتا ہے کہ انھیں کتاب کی عبارت کا جو مفہوم بتایا جائے وہ اسے سمجھ جائیں،مگر وہ استاد کے بتائے یا مصنف کے بیان کردہ مفہوم کے خلاف سمجھنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ وہ اگر امتحان میں کوئی بکواس بھی لکھ آئیں تو کسی کو حق نہ ہوگا کہ ان کی فضول گوئی کو نادرست کہہ سکے۔
اس مکتبۂ فکر کے لوگ عام طور پر یورپ کی دانش گاہوں میں پڑھے ہیں اور ان کی بڑی تعداد ہے جنھیں مغربی ممالک نے بہ ظاہر اپنے یہاں ملازمت پر رکھا ہوا ہے۔ یہ لوگ امتحان میں اپنے طلبہ کے سامنے متنبی شاعر کا ایک قصیدہ رکھیں جو ’’سیف الدولۃ‘‘ کی مدح پر مشتمل ہے اوروہ اس کا مطلب پوچھیں اور ان کے طلبہ میں سے کوئی انہی کی فکر وخیال کا حامل ہو جو ان سے کہے کہ یہ تعریف نہیں، ہجوِ ملیح (Concealed Derogation)ہے۔ اس میں جہاں جہاں بھی متنبی نے سیف الدولۃ کی شان میں تعریفی کلمات کہے ہیں، وہ سب استہزاء اور طنز وتعریض پر مشتمل ہیں۔ یعنی اچھے الفاظ بول کر سامنے والے کا مذاق اڑایا گیا ہے۔
دوسرا طالب علم کہے کہ یہ مدحیہ کلام نہیں ہے، بلکہ عشقیہ غزل ہے۔ متنبی نے سیف الدولۃ کو ایک رمز بناکر اپنی اُس محبوبہ کا تذکرہ کیا ہے جس کی قربت ووصال اسے کبھی حاصل نہ ہو سکا۔
تیسرا طالب علم لکھتا ہے کہ یہ قصیدہ کسی کی تعریف میں نہیں ہے، بلکہ اس میں شاعر نے خود اپنی مدح سرائی کی ہے۔ بہ ظاہر اس میں جو ہمیں ایک قائل اور ایک مخاطب دکھائی دے رہا ہے تو یہ فقط ایک واہمہ ہے۔ اس قصیدے میں سیف الدولۃ کا وجود دراصل شاعر کی مخفی انا (Alter Ego)کا اظہار ہے۔
چوتھے طالب علم نے قصیدے کے بارے میں کوئی بھی بات کہنے کے بجائے خالی کاپی نگراں کے حوالے کر دی۔ اب استاد کے لیے کیسے ممکن ہے کہ ان تمام جوابوں کو درست قرار دے؟ کیا عقلِ سلیم کا کچھ بھی حصہ رکھنے والا کوئی شخص بھی ان تمام جوابوں کو ٹھیک کہہ سکتا ہے؟
اگر امریکہ اور یورپ کی گود میں بیٹھے یہ مفکرین ایسے طلبہ کی کاپیوں کو جانچتے ہوئے کوئی بھی معیار اپناتے ہیں تو انھوں نے خود اپنی تردید کر دی، کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ فہم کا کوئی پیمانہ نہیں ہوتا۔ پھر ان کے طلبہ بھی کہنے میں حق بہ جانب ہوں گے کہ تم اپنے فہم کی روشنی میں ہمارے فہم کا محاکمہ کیسے کر سکتے ہو؟ تمھی نے تو ہمیں بار بار سمجھایا ہے کہ کسی نص کا ہر مطالعہ اور ہر تفہیم درست ہے اور کسی ایک فہم کو دوسرے فہم پر فوقیت وفضیلت حاصل نہیں ہوگی۔
اب اگر یہ دانشور حضرات اپنی تفہیمِ نو کی منطق یہاں استعمال کریں گے تو انجام انارکی اور افراتفری کی شکل میں ظاہر ہوگا کیونکہ اس وقت جس طالب علم نے خالی کاپی واپس کر دی تھی اور ایک بھی سوال کا جواب نہیں دیا تھا، اسے بھی پورے نمبرات (Marks)دینے ہوں گے کیونکہ انہی لوگوں نے یہ بار بار کہا ہے کہ کسی کا چپ رہنا بھی انقلاب اور بغاوت کی ایک اشتعال آمیز تعبیر ہے اور یوں آدمی ہر موروثی علم وفن اور ذخیرۂ معلومات سے اپنی بیزاری کا اعلان کرتا ہے۔ جس طالب علم نے کچھ نہیں لکھا اس نے دراصل اپنی خاموشی کے ذریعے سے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ جدید دور کے پیمانوں اور سانچوں کی مدد سے متنبی کی شاعرانہ عظمت پر بات کرنا نامناسب اور غلط ہے۔
یہ انارکی اور خود تخریبی کی ایسی شکل ہے جس سے بدتر کسی دوسری شکل کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔یہ علمی اور سماجی زندگی کی تباہی وبربادی کا سامان ہے، ایسی تباہی وبربادی جو یہ چند انسان نما جانور لانا چاہتے ہیں۔
جس طرح کا دعویٰ یہ لوگ کرتے ہیں، اسے اگر تسلیم کر لیا جائے تو پھر نصِ شرعی کا فائدہ کیا ہوا؟ قرآن کو عربوں کی زبان میں ہی نازل کرنے کا کیا معنی ہوا؟ کیا یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جس وحی کو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے اور اپنے بندوں کو اس کی اتباع پر ابھارا ہے اور اس کے بالمقابل تسلیم ورضا کا رویہ اپنانے کی تاکید فرمائی ہے اور اس سے اعراض کرنے والوں کو سزا دینے کا اعلان کیا ہے، کیا ایسی وحیِ ربانی کے بارے میں ہم یہ مان کر چلیں گے کہ اس کے فہم کا معاملہ ہر ایرے گیرے نتھو خیرے کے عقل وفہم پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ جو چاہے مراد لے اور جیسے چاہے عمل کرے؟کیا یہ بات عقل میں آتی ہے کہ وحیِ ربانی کی اصولی تعلیمات اور اس کے بنیادی تصورات بھی اس قدر مبہم اور غامض ہوں کہ ہر آنے والی نسل اس کی وہ تعبیر وتشریح کرے جو پچھلی نسل کی تعبیر وتشریح کی عین ضد ہو؟
اللہ ہم سب کو ہذیان گوئی سے بچائے، آمین۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
(جاری)