سب رس
اردو زبان کی پہلی نثری داستان
از قلم: احمد
سب رس اردو ادب کے نثری صنف کی پہلی تصنیف ہے۔ یہ ایک تمثیلی داستان ہے جو سترہویں صدی میں لکھی گئی۔ اس کے تخلیق کار ملّا وجہی ہیں۔ملّا وجہی نے یہ کتاب سلطان عبداللہ قطب شاہ کے فرمائش پر لکھی تھی۔ سلطان عبداللہ قطب شاہ نے ملّا وجہی سے بیان عشق میں کتاب لکھنے کی درخواست کی تھی۔
ملّا وجہی لکھتے ہیں ’’ سلطان عبداللہ ظلّ اللہ، عالم پناہ، صاحب سپاہ، حقیقت آگاہ، دشمن پرور، ثانی سکندر، عاشق صاحب نظر، دل کے خطرے تے باخبر، صورت میں یوسف تے اگلے، آدم بے ہوش ہوئے پھتر پگلے۔ حکمت میں افلاطون شاگرد،سخاوت میں حاتم کا کھولے برد، شجاعت میں رستم گرد، عالی ہمت غازی مرد، شمشیر ہور ہمت کے صاحب،نیم دھرم اورست کے صاحب، دارودر، فریدوفر، کلیم بیاں، مسیحادم، مررخ صولت، زہراعشرت، خورشید علم، صباح کے وقت بیٹھےتخت، یکایک غیب تے کچھ رمز پاکر، دل میں اپنے کچھ لیا کر، وجہی نادرمن کوں، دریادل،گوہرسخن کوں، حضوربلائے،پان دئے،بہوت مان دئے،ہور فرمائے کہ انسان کے وجودیچہ میں کچھ عشق کا بیان کرنا، اپنا ناو عیاں کرنا،کچھ نشان دھرنا‘‘۔
ملّا وجہی کی یہ کتاب اسم بامسمیّ ہے۔ ’’رس‘‘ کے معنی جذبات کے ہیں، یعنی ملّا وجہی نے اس کتاب میں تمام جذبات جو انسان کے اندر ہوتے ہیں کرداروں کے ذریعہ پیش کر دیا۔ مثلاً پیار،محبت، وفاداری، غیرت، عاشق کیلئے قربان ہونے کی چاہت، باپ کے ساتھ وفاداری، ملک کے ساتھ وفاداری وغیرہ۔ ملّا وجہی نے اس کتاب کی تالیف ۱۰۴۵ھ ۱۶۳۵ء میں کی ۔ ملّا وجہی کے کلام سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں’’بارے جس وقت تھا ایک ہزار چہل و پنج اس وقت ظہور پکڑیا یو گنج‘‘۔
کچھ ملّا وجہی کے بارے میں
سترہویں صدی کا مشہور دکنی شاعر ملّا وجہی پورا نام اسد اللہ وجہی تھا۔ملّا وجہی کے آباء و اجداد خراسان کے رہنے والے تھے جو ہجرت کر کے ہندوستان آگئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے،ملّا وجہی کی پیدائش ہندوستان میں ہی دکن کے علاقے میں ہوئی۔ ملّا وجہی نے وجہی،وجیہی،اور وجیہ تخلص اختیار کیا۔ ملّا وجہی سب رس تحریر کرنے سے پہلے قطب مشتری (۱۶۰۹ء)میں لکھ کر اپنا لوہا منوا چکا تھا۔
ملّا وجہی نے لمبی عمر پائی۔ قطب شاہی دور کے چار بادشاہوں یعنی ابراہیم قطب شاہ، محمد قلی قطب شاہ، محمد قطب شاہ اور عبداللہ قطب شاہ کا زمانہ دیکھا۔ تاریخ میں ملّا وجہی کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات کے متعلق کچھ پتہ نہیں چلتا،ایک اندازے کے مطابق تقریباً ۱۶۵۹ء میں ملّا وجہی نے وفات پائی۔
سب رس
۱۶۳۵ء کی اس تصنیف کو مولوی عبدالحق نے بیسویں صدی میں متعارف کرایا۔ انہوں نے رسالہ اردو ۱۹۴۵ء میں پہلی بار اس کتاب پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ مولوی عبدالحق کے مقدمے کے ساتھ اس کتاب کو ۱۹۵۳ء،۱۹۶۴ء اور ۱۹۸۳ء میں انجمن ترقی اردو پاکستان سے شائع کیاگیا۔ مولوی عبدالحق کے مطابق سب رس کا اصل ماخذ فتاحی کا قصہ حسن و دل ہے۔
خلاصہ داستان سب رس
داستان کا آغاز اس طرح ہوتاہے کہ ملک سیستان کا بادشاہ عقل جس کا بیٹا دل رہتا ہے۔ دل جوان ہو کر ملک تن پر حکومت کرتاہے۔ ایک روز کسی سے آب حیات کے بارے سنتا ہے اور اسے پانے کیلئے بے قرار ہو اٹھتا ہے۔ دل کے کہنے پر اس کا جاسوس نظر آب حیات کی جستجو میں نکل پڑتا ہے۔ نظر آب حیات کی تلاش میں شہر عافیت کے بادشاہ ناموس پھر زہد پہاڑی پر رہنے والے زرق نامی بوڑھے سے ملتا ہوا جب ہدایت قلعے کے بادشاہ ہمت سے ملتاہے،تب اس پر یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ مشرق میں ایک ملک ہے، جس کی حکمرانی حسن نام کی ایک حاتون کرتی ہے، جو عشق کی بیٹی ہے۔ اس کے شہر دیدار میں رخسار نام کا ایک باغ ہے،جس میں دہن نام کا ایک چشمہ ہےجو آب حیات کا اصل سرچشمہ ہے۔ مگر آب حیات تک پہونچنے کیلئے شہر سگ سار کے بادشاہ رقیب کو جل دینا پڑتاہے، جو ایک نہایت ہی مشکل ترین کام ہے۔
شہر سگسار پہونچ کر نظر رقیب کو بہت سارا سونے کا لالچ دیکر باغ رخسار تک پہونچانے پر آمادہ کرتاہے، رقیب سونے کے لالچ میں اس کام پر آمادہ ہوجاتاہے۔دونوں ایک بلند مقام پر پہونچتے ہیں،جہاں سے شہر دیدار دکھائی دیتاہے۔ یہیں ہمت کے بھائی قامت سے نظر کی ملاقات ہوتی ہے۔ نظر چپکے سے ہمت کا سفارشی خط قامت کو دے دیتاہے۔ چنانچہ قامت کے اشارے پر سیم ساق موقع پاتے ہی نظر کو چھپا دیتاہے۔ نظر کو نہ پاکر رقیب تھک ہار کراپنے وطن شہر دیدار لوٹ آتاہے۔
رقیب سے پیچھا چھڑاکر نظر شہر دیدار آتا ہے، یہاں اس کی ملاقات حسن کی سہیلی لٹ(زلف) اور شہزادی کے خادم غمزہ سے ہوتی ہے۔ نظر کو پتہ چلتاہے کہ غمزہ اس کا بچھڑا ہوا بھائی ہے۔ غمزہ نظر کو جواہری بتا کر شہزادی سے ملواتا ہے۔ شہزادی حسن نظر کو ایک باتصویر ہیرا دکھاکر پوچھتی ہے کہ اس پر کس کی تصویر ہے۔ نظر تصویر دیکھ کر پہچان لیتاہے اور بتاتا ہے کہ یہ دل بادشاہ کی تصویر ہے۔ شہزادی دل سے ملنے کی حواہش ظاہر کرتی ہے۔ اور اپنے غلام خیال کو نظر کے ساتھ لگا دیتی ہے۔ نظر واپسی پر دل کو سارا قصہ ماضی سناتا ہے۔ دل تمام باتیں سن کر آمادہ سفر ہوجاتاہے۔ یہ بات دل کے وزیر وہم کو اچھی نہیں لگتی۔ وہم دل کے باپ عقل بادشاہ کو اس سے باخبر کر دیتاہے۔ عقل بادشاہ وزیر وہم کے کہنے پر نظر اور دل کو گرفتار کروا دیتا ہے۔
نظر شہزادی حسن کی دی ہوئی جادوئی انگوٹھی کی مدد سے اسے منہ میں رکھ کر لوگوں کی نگاہ سے اوجھل ہو کر جیل سے بھاگ جاتاہے۔ کئی روز چلنے کے بعد ایک دن وہ آب حیات تک پہونچ جاتا ہے۔ آب حیات پینے کیلئے جیسے ہی منہ کھولتاہے انگوٹھی اس کے منہ سے نکل کر چشمے میں چلی جاتی ہے۔ چشمہ نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے، اور نظر سب کو دکھائی دینے لگتاہے۔ نظر رقیب کے ہاتھوں گرفتار کر لیا جاتاہے۔ اس بار وہ حسن کی سہیلی لٹ کے دئے ہوئے بال کو جلا کر آزاد ہوتا ہے۔ اور غمزہ کی مدد سے دل کو بھی آزاد کروا لیتا ہے۔
غمزہ اور نظر عقل کا معاون بن کر زرق کے بیٹے توبہ کو شکست دیکر شہر عافیت پہنچتے ہیں،اور وہاں کے بادشاہ ناموس کو شکست دیکر شہر تن کی جانب پیش قدمی کرتےہیں۔ دعائے سیفی کی مدد سے غمزہ اپنے سپاہیوں کو ہرنوں کے ریوڑ میں تبدیل کر دیتا ہے۔ توبہ شکست خوردہ عقل کے پاس آتا ہے اور غمزہ کی پیش قدمی کا حال بیان کرتا ہے۔ یہ سن کر عقل پریشان ہو جاتا ہے اور دل کو یہ نصیحت کرتے ہوئے آزاد کر دیتا ہے کہ عورت کی ذات بہت مکار ہوتی ہے۔ کیا معلوم حسن بھی تمہارے ساتھ دغا کرے، اگر شہر دیدار کا خیال ہے تو فوج لیکر جاؤ۔ باپ کے مشورے کے مطابق دل فوج لیکر چل پڑتا ہے۔
دوسری طرف حسن بھی اپنے باپ سے بذریعہ خط مدد طلب کرتی ہے۔ چنانچہ عشق کا سپہ سالار مہر جفا، مشقت اور درد حسن کی مدد کوآتے ہیں۔ حسن غمزہ کے مشورے پر اپنی بہن کو بھی کوہ قاف سے بلوا لیتی ہے۔ اس جنگ میں عقل بھی شرکت کرتا ہے، لیکن وہ شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہوتاہے۔ دل گرفتار کر لیا جاتاہے۔ حسن اپنی دائی ناز کے مشورے کے مطابق دل کو چاہ ذقن میں ڈلوا دیتی ہے۔
ایک دن رقیب کی بیٹی غیر بزور جادو حسن کی صورت اختیار کر کے دل سے ملتی ہے، حسن دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر اپنے معشوق دل کو بے وفا سمجھ کر اسے قید خانے میں ڈلوا دیتی ہے۔ موقع پاتے ہی رقیب دل کو وہاں سے غائب کر کے قلعہ ہجراں میں نظر بند کر دیتا ہے۔ غیر کو اپنے کئے پر شرمدنگی ہوتی ہے، اور صحیح صورت حال سے حسن کو باخبر کرتی ہے۔ سچ جان کر حسن دل کے پاس معافی نامہ ارسال کرتی ہے، گلے شکوے دور کرکے دونوں ایک دوجے کے ہو جاتے ہیں۔
ادھر عقل کے شکست خوردہ سپاہی ہمت اپنی طاقت مجتمع کر کے انتقام لینے کے ارادے سے شہر دیدار پر حملہ آور ہوتا ہے۔ لیکن آپسی سمجھوتے سے عشق اور عقل میں صلح ہو جاتی ہے۔ عقل عشق کا وزیر بن جاتا ہے۔حسن اور دل کی شادی ہو جاتی ہے۔ دونوں خوشی خوشی زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔ ایک روز آب حیات کے چشمے پہ نظر،ہمت اور دل کی ملاقات حضرت خضر سے ہوتی ہے۔ دل حضرت خضر سے دعائیں لیتاہے، دل کے کئی بیٹے ہوتے ہیں،جس میں بڑا بیٹا بقول وجہی یہ کتاب(سب رس) ہے۔ ملّا وجہی لکھتے ہیں’’ دل کوں فرزنداں ہوئے، فرزنداں خرد منداں ہوئے، اس فرزنداں میں کا بڑا فرزند سو یو کتاب، لایق قابل مستید ہر بات‘‘۔
سب رس کےاہم کردار
سب رس کے چھوٹے بڑے کل کردار تقرباً ۷۶ ہیں۔ ان میں سب سے جاندار کردار نظر(دل کا جاسوس) کا ہے۔ اس داستان کا ہیرو دل اور ہیروئن حسن کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ سب رس کردار حسب ذیل ہیں:
عقل: ملک سیستان کا بادشاہ اور دل کا باپ۔
دل: ملک تن کا حکمراں اور حسن کا عاشق۔
نظر: دل کا جاسوس جو آب حیات کی جستجو میں نکلتا ہے۔
ناموس: شہر عافیت کا بادشاہ۔
زرق: زہد پہاڑی پر رہنے والا بوڑھا شخص۔
ہمّت: قلعہ ہدایت کا حکمراں۔
شہر دیدار: جس کے باغ رخسار کے چشمہ دہن میں آب حیات رہتا ہے۔
عشق: مشرق کا بادشاہ اور حسن کا باپ۔
حسن: شہر دیدار کی ملکہ اور عشق کی بیٹی۔
رقیب: عشق کا خادم اور مقام سنگسار کا نگراں۔
قامت: ہمت کا بھائی۔
زلف(لٹ): حسن کی سہیلی۔
غمزہ: نظر کا بچھڑا ہوا بھائی۔
خیال: شہزادی حسن کا غلام۔
وہم: عقل کا وزیر۔
ہلال: حسن کی بہن کا کمانڈر۔
ناز: شہزادی حسن کی دائی۔
مہر: حسن کا سپہ سالار۔
وفا: سپہ سالار مہر کی بیٹی۔
غیر: رقیب کی بیٹی۔
ماخوذ:۔ دکن میں اردو، سب رس
نوٹ:۔ یہ مضمون نیٹ جے آر ایف،سیٹ،ٹیٹ وغیرہ امتحان میں پوچھے جانے والے سوالوں کے پیش نظر تیار کیا گیا ہے۔ اس طرح کے مزید مضامیں حاصل کرنے کیلئے لال رنگ کے گھنٹی والے نشان کو دبا کر ہماری ویب سائٹ ilmkidunya.in کو سبسکرائب کر لیں۔ والسلام