خواجہ عزیز الحسن مجذوب

ہمارے مجذوبؔ
( حافظِ عصر حضرت خواجہ عزیز الحسن غوری مجذوبؔؒ 1884 تا 1944 )

محمد سلمان قاسمی بلرامپوری 

تصور کریں ۔۔۔۔۔۔۔
کیمرے کے سواد و بیاض (بلیک اینڈ وائٹ) کا زمانہ ہے لکھنؤ کے شاہراہِ عام پر ایک قلندر اپنی امبیسڈر کار میں بیٹھا متوسط چال سے جارہا ہے
دیکھتے ہی دیکھتے ایک فیشن ایبل لیڈی اس کار کا اوور ٹیک کرتی ہے اس پرطرہ اپنی شوخ آنکھیں نکال کر اس فقیر کو اپنی کج ادائی میں گم کر جاتی ہے ۔۔۔فقیر اپنے جذبات کی عکاسی یوں کرتا نظر آتا ہے ؀
*اس ناز سے اس شان سے اس تیز روی سے*
*گزروگے تو دنیا سے گزر جائیں گے ہم*۔۔
جی ہاں اس زندہ دل ،بزلہ سنج، فرشتہ صورت فرشتہ سیرت اور خدا داد شاعر کا نام ہے *خواجہ عزیز الحسن غوری مجذوبؔ* (خلیفہ مجاز حیکم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ)
خواجہ صاحب کی پیدائش12 جون 1884 بروز بدھ ۔۔۔
اورئی ضلع جالون کے ایک محلہ میں ہوئی کہا جاتا ہے کہ انکا محلہ ان بارہ محلے میں سے ہے جنکو شہاب الدین محمد غوری نے بسایا تھا۔۔
والد صاحب خواجہ عزیز اللہ پیسے سے اک با وضع وکیل تھے
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے بیعت تھے خاندان کے دیگر افراد بھی بڑے بڑے عہدوں پر رہے ہیں
خواجہ صاحب نےعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے اور وکالت کی ڈگری حاصل کی
پورا نام خواجہ عزیز الحسن غوری تخلص مجذوبؔ ہے شروع میں حسن تخلص لکھتے تھے بعد میں مرشدِ کامل حضرت تھانویؒ کی وجہ سے مجذوب لکھنے لگے،
اور اسی نام سے شہرت پائی
تاریخی نا م مرغوب احمد ہے
پہلے قانون چھوڑ کے محکمہِ آبکاری میں نوکری کی اسکے بعد ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے
سات سال تک اس عہدے پر رہے یہ عہدہ طبیعت کے خلاف ہونے پر اپنا تبادلہ محکمۂ تعلیم میں کرالیا
پہلے مکاتبِ اسلامیہ کے ڈپٹی انسپکٹر مقرر ہوئے
اسکے بعد انگریزی اسکولز کے انسپکٹر آف اسکولز( یوپی )مقرر ہوئے
اور اسی عہدے سے ریٹایرڈ ہوکر پنشن خوار ہوئے۔۔۔
17 اگست 1944 کو یہ عندلیبِ چمنستانِ تھانوی اور خسروِ ثانی اس دارِ فانی سے رخصت ہوا۔۔۔؀
*دمِ آخر بخیر ۔۔۔۔انجام کن*
*بخلدم زیرِ پائے مصطفی کن*
سیمابؔ اکبر آبادی مائلؔ تھانوی، مصطفی خان مداح احمقؔ پھپھوندی، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحبؒ ، کے علاوہ بہت سارے لوگوں نے قطعہ تاریخ لکھی ہے۔۔۔ طوالت کی وجہ سے صرف مفتی صاحبؒ کی قطعہ تاریخ کے چار مصرعے پر اکتفا کررہا ہوں؀
*یا رب بخواب می شنوم یا حقیقت است*
*ایں ناشنیدنی کہ عزیز الحسن نماند*
*ایں یادگارِ اشرفِ ما ہم ز ما برفت*
*گم کردہ ایم یوسف وہم پیرہن نماند*
شاعری کے ساتھ نثر نگاری میں بھی کامل دسترس کے ساتھ
اردو فارسی اور انگریزی زبان میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے
اس سلسلے میں علامہ تھانویؒ کی ،،سوانح حیات،، اشرف السوانح آپکی بہترین تالیف ہے
اسکے علاوہ حضرت کے ملفوظات اور مواعظ بھی قلم بند فرمائے۔جو مخصوص ضبطِ تحریر کی وجہ سے ایک امتیازی شان رکھتے ہیں
خواجہ صاحب نے باقاعدہ سے شعر گوئی میں کوئی استاذ نہیں بنایا اور شعر گوئی میں مشق و ریاض کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی، ایک ابال کی طرح جذبات ابلتے،اور موزوں قالب اختیار کرتے چلے جاتے،کبھی جذبات کا دھارا اتنا تیز ہوتا کہ ایک زمیں میں ڈیڑھ دو سو اشعار تک بنا ڈائری و بیاض کے کہہ ڈالتے تھے اپنا اعزاز کسی طرح پسند نہیں کرتے تھے جب کبھی زبر دستی کرسیِ صدارت پر بٹھائے جاتے تو فرماتے تھے؀
*ہم خاک نشینوں کو نہ مسند پہ بٹھاؤ*
*یہ عشق کی توہین ہے اعزاز نہیں ہے*
واضح رہے کہ دنیائے شاعری میں مے پرستوں یعنی بادۂ معرفت کے متوالوں اور شیخ و زاہد یعنی متتقشف علمائے ظاہر میں پرانی رقابت رہی ہے اور ان پر طعن و تشنیع شاعری کا جز ہے
لہذا خیال رہے شعراء کی زبان میں جہاں شیخ و زاہد وغیرہ کا ذکر آیا ہے ان سے مراد ریا کار اربابِ ظاہر ہیں جنکے دل شرابِ معرفت یعنی دین کی روح سے خالی ہیں
ترکِ دنیا اور گوشہ گیری میں دینداری کا کمال نہیں ہے بلکہ دنیا میں رہ کر دین پر قائم رہنا یہ کمال ہے بقول مجذوب ؀
*دکھا اتقاء آکے رندوں میں زاہد*
*یہ حجرے میں کیا پارسا ہورہا ہے*
خواجہ صاحب حافظ شیراز سے حد درجہ متاثر تھے۔۔ اکثر موضوعات ومحاکات میں حافظ کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں ؀
*عندلیبِ بوستانِ راز ہوں میں*
*ہم نوائے بلبلِ شیراز ہوں میں*
خواجہ صاحب کی مرشدِ برحق حضرت تھانویؒ سے والہانہ شیفتگی تھی، وہ فنا فی الشیخ تھے،
نظام الدین اولیاءؒ ا اور امیر خسروؒ کے بعد فنائیت اور شرابِ عشق میں مخموریت خواجہ صاحب کے علاوہ کہیں اور نظر نہیں آتی؀
*ترے محبوب کی یا رب شباہت لے کے آیا ہوں*
*حقیقت اسکو تو کردے میں صورت لے کے آیا ہوں*
*جو اشرف تھا زمانے میں جو اشرف ہے زمانے میں*
*میں ایسے تیرے اشرف کی عقیدت لے کے آیا ہوں*
مجذوب صاحب کے کلام میں ادبی اختراع کا مادہ، بلبلِ شیراز کی ہم آہنگی،زود گوئی کے ساتھ پر گوئی، مشکل زمین میں قافیہ پیمائی، بادۂ حِدت کی سرشاری وسرمستی، پاکیزگیِ نفس،نغمہ وشعر کی کیف آفرینی،سوز و گداز، جذب و مستی،حقیقت وواردات،معرفت وحقیقت کے رموز،حال و قال کے بلند ترین مرقعے،آبدار لآلی کی افزونی، تسلسلِ محاکات،منظر کشی،بلا کا درد و اثر،مشاہدہ و یقین کا پرتو، اور پاکیزہ حقائق کے آئینے کے ساتھ پورا کلام زبان کی صفائی اور سلاست کا نمونہ ہےگویا خواجہ صاحب کو شاعرِ عرفانیات یا شاعرِ روحانیات کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔۔
مرشدِ کامل حکیم الامت حضرت تھانویؒ خواجہ صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں
،،،خواجہ صاحب تصوف کے وقائع و غوامص کو اپنے اشعار میں ادا کردیتے ہیں،،،
دوسرے موقعے پر فرمایا،،،خواجہ صاحب کے تمام اشعار انکے حال ہیں،،،
خواجہ صاحب کے ایک شعر کے متعلق حضرت تھانویؒ نے فرمایا تھا ،،،اگر میرے پاس اتنی رقم ہوتی تو میں آپکو ایک لاکھ روپیہ اس شعر کا انعام دیتا۔،،،شعر دیکھیں ؀
*ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی*
*اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی*
حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ فرماتے ہیں
،،،حضرت خواجہ صاحبؒ بڑے پایہ کے قادرِ کلام اور مسلم شعراء میں سے ہیں انکے ہزاروں اشعار ادبی دنیا کے بڑے بڑے ماہرین سے خراجِ تحسین حاصل کرچکے ہیں
جگر مراد آبادی سے مجذوب صاحب کے مجموعۂ کلام کے سلسلے میں دریافت کیا گیا فرمایا،،،،یہ دیکھیئے مولانا مجذوب کا یہ مجموعہ کیسا بےجان نظر آرہا ہے ،،،آگے فرمایا
اصل بات یہ ہے کہ مولانا کے حرکات اور انکی بے چینی کو جب تک شامل نہ کیا جائے صحیح معنوں میں ان سے لطف اندوز نہیں ہوا جاسکتا،
شبلی منزل میں ایک بار اکابر علماء کے اجتماع میں مشہور شاعر اقبال سہیل اعظمی مرحوم بھی تھے،خواجہ صاحب نے اپنی غزل پڑھی جس کا ایک شعر یہ ہے؀
*یہ کون آیا کہ دھیمی پڑگئی لو شمعِ محفل کی*
*پتنگوں کے عوض اڑنے لگیں چنگاریاں دل کی*
یہ شعر پڑھکر سہیل صاحب سے دریافت کیا کہ کچھ سمجھ آیا
اقبال سہیل نے عرض کیا،،،حضرت دماغ کا یہاں کام نہیں ہے یہاں تو دل کا کام ہے اہلِ دل ہی اس کلام کو سمجھ سکتے ہیں،،،
قلم کے جادوگر مفسر قرآن حضرت مولانا عبد الماجد دریابادیؒ کےحرفِ آخر قول کے اختصار کے ساتھ (جو خواجہ صاحب کی شخصیت اور انکی شاعری کو بلکل صحیح طریقے سے پروموٹ کرتی ہے) کلامِ مجذوب کی طرف آئینگے
ملاحظہ کریں ،،،خواجہ صاحب بڑے ہی کرم فرما تھے پندرہ بیس سال سے شگفتہ تعلقات تھے،اچھے اور سادہ انسان، وضع قطع مولویانہ،خاکساری اور فروتنی کے پتلے،اچھے شاعر اور شاعری بھی بپائے مست،اپنے شیخ کے عاشقِ صادق، تخلص مجذوب شیخ کا ہی عطا کردہ تھا،خلیفہ مجاز ہونے کے ساتھ عاشقوں کے سرگروہ تھے،چہرہ بڑا نورانی، نورانیت میں شاید اس سے بھی بڑھکر،اپنے سرکاری کام میں مروت یا کسی ذاتی اثر کا دخل نہ آنے دیتے تھے،یہ ایک کرامت ہی تھی،سید تھے ،جنتی بہشتی تھے،،،
مجذوبؔ صاحب کی تیغِ زبان کی چمک دیکھئے شیخ و زاہد پر تلوار کی کاٹ دیکھیئے؀
*یوں نظر عاشق پہ ڈالی جائیگی*
*دیکھکر گردن جھکالی جائیگی*
*زاہدوں پر مے اچھالی جائیگی*
*جان ان مردوں میں ڈالی جائیگی*
*شیخ پینے کا ارادہ ۔۔۔۔تو کرے*
*حوضِ کوثر سے منگا لی جائیگی*

محاکات و منظر کشی کو دیکھیئے مرشد تھانویؒ کے متعلق فرما رہے ہیں ؀
*چڑھی ہے کچھ ایسی کہ تیور تو دیکھو*
*جواں آج پیرِ مغاں۔۔۔۔۔۔۔ ہورہا ہے*
*دمکتا ہے چہرہ چمکتی ہے آنکھیں*
*بڑھاپے میں بھی جانِ جاں ہورہا ہے*
جلوۂ محبوب کے لئے قلب کا ماسوا سے فارغ ہونا ضروری ہےکہ ایک مکان میں دو مکیں نہیں رہ سکتے؀
*وارفتگیِ شوق کا امکاں۔۔ ۔۔۔۔ نہیں رہا*
*آجا کہ اب دل میں کوئی ارماں نہیں رہا*
حضرتِ ناصح کی ایسی تیسی بھی دیکھئے؀
*یہ سب سوچ کر دل لگایا ہے ناصح*
*نئی بات آپ کیا فرما رہے ہیں*
موت کے سلسلے میں شعر و ادب نے بہت کچھ لکھا متنبی جیسا باغی اور کسی کو نگاہِ خاطر میں نہ لانے والا شاعر لکھتا ہے؀
*تخالف الناس حتی لا اتفاق لھم*
*الا علی شجب والخلف فی الشجب*
لیکن اس لازمی انجام (موت) کو مجذوبؔ صاحب نے جس انداز سے بیان کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ؀
*بس اتنی سی حقیقت ہے فریب خواب ہستی کی*
*کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہوجائے*
نعت شریف کے یہ شعر دیکھیئے اور عشقِ رسول کی وارفتگی محسوس کرئیے؀
*بس اب تو ایک یہی میرا کام ہوجائے*
*اسی پہ اب مجھے حاصل دوام ہوجائے*
*مدینہ جاؤں پھر آؤں پھر جاؤں*
*تمام عمر اسی میں تمام ہوجائے*
بقول مفتی محمد حسن صاحب مرحوم خواجہ صاحب کا یہ شعر سونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ہے؀
*بہرِ غفلت تیری یہ ہستی نہیں*
*دیکھ جنت اس قدر سستی نہیں*
*رہ گزر دنیا ہے یہ بستی نہیں*
*جائے عیش و عشرت و مستی نہیں*
بارِ امانت اٹھانے کے لئے سمٰوات و ارض و جبال نے اپنے عجز کا اظہار کیا،لیکن انسان کی بار برداری دیکھئے اور جملہ مخلوقات پر انسانی تفوق کا ظہور دیکھئے ؀
*چمکنے لگا ہے سر بسر نور ہوکر*
*میں جل جانے والا نہیں طور ہوکر*
موت مومن کا تحفہ ہے اور وصال یار کے لئے جسر کا کام کرتی ہے اور مومن کی صفت اشد حبا لللہ ہے ؀
*یہ کس کی محبت میں مرنے چلا ہوں*
*چلی آرہی ہے قضا حور ہوکر*
مجذوبؔ کے حسنِ ادا کی داد دیجئیے اپنے کلام طرزِ بیان اور بنائے خامہ پر بہترین مفسرانہ تبصرہ خود ہی کرتے ہیں ؀
*قدرِ مجذوب خاصانِ خدا سے پوچھو*
*شہرۂ عام تو اک قسم کی رسوائی ہے*
حافظ شیراز کے شعر کی کمال کی ترجمانی بھی دیکھیئے؀
حافظ گوید۔۔۔۔۔۔
*بچشمِ عقل ببیں رہ گزر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر آشوب*
*جہان و کارِ جہاں بے ثبات و بے محل است*
اب مجذوب صاحب کا شعر دیکھئے کتنے ہم آہنگ نظر آتے ہیں ۔۔۔؀
*کیا دو روزہ زندگی کا قرینہ چاہیئے*
*مرنے والے کی طرح دنیا میں جینا چاہیئے*

محبت کا خلاصہ اور نچوڑ خواجہ صاحب کی طرح کوئی پیش کرسکتا ہے؟ مزید نفسِ امارہ سے بچنے کے لئے یہ اکسیر بھی دیکھیئے ؀
*خلاصہ ہم سے سن لے کوئی آدابِ محبت کا*
*دعائیں دل میں دینا، ظلم سہنا، اور بے زباں رہنا*
*بھروسہ کچھ نہیں اس نفسِ امارہ کا*
*فرشتہ بھی یہ ہوجائے تو اس سے بد گماں رہنا*
خانۂ خدا میں کوئی محمود وایاز نہیں ہوتا یہاں خورد وکلاں کا جھگڑا نہیں ہوتا؀
*سب ایک رنگ ہیں میکدے کے خورد وکلاں*
*یہاں تفاوتِ پیر و جواں نہیں ہوتا*
لیل و نہار کے آٹھ پہر اور آٹھوں پہر ایک دیوانہ کتنی کٹِھنائی اور مشکلات سے کاٹتا ہے ایک ہی شعر میں آٹھ صفات کمال کرتے ہو خواجہ جی؀
*تحیر،یاس،سوزش، گریہ نالہ، آہ،غم حسرت*
*بہلتا ہے دل انہیں آٹھوں سے آٹھوں پہر اپنا*
،،ہر در پہ جھکے سر یہ میری شان نہیں ہے،، یہ کسی زاہد کا سر نہیں ہے بلکہ سودائی و دیوانے کا سر ہے جو درِ محبوب کے علاوہ کہیں نہیں جھکتا؀
*میں ہوں اور حشر تک اس در کی جبیں سائی ہے*
*سرِ زاہد نہیں یہ سر سرِ سودائی ہے*
خواجہ صاحب کبھی صفِ شعراء میں اساتذہ کے پہلو بہ پہلو نظر آتے ہیں اور کبھی محفلِ یکتائی میں آتش بجاں مغنی؀
*یہ معانی،یہ حقائی،یہ روانی،یہ اثر*
*شاعری تیری ہے اے مجذوبؔ یا الہام ہے*
اپنے پیر و مرشد حضرت تھانویؒ( متوفی 1943) کے انتقال کے بعد کہیں قرار نہ تھا آج تھانہ بھون تو کل لکھنؤ،کبھی اعظم گڑھ، کبھی سیتاپور پیر بھائیوں کے پاس جاکر غم ہلکا کرتے؀
*چونکہ گل رفت وگلستاں شد خراب*
*بوئے گل را از کہ جوئیم از گلاب*
اس لذیذ حکایت کو جسے دراز ہونا چاہئیے مختصر کرنے کو جی نہیں چاہتا مگر اختصار بھی اپنی جگہ ایک حسن ہے لہذا اس مضمون کو اس شعر پر ختم کیا جاتا ہے مصور محبوب کی صورت تو بنا سکتا ہے لیکن محبوب کے ناز وانداز کو لفظوں میں کیسے ڈھال سکتا ہے قارئین معاف فرمائیں راقم منظر کشی کرنے سے کما حقہ عاجز ہے ؀
*گر مصور صورتِ آں دلستاں خواہد کشید*
*لیکن حیرانم کہ نازش را چسپاں خواہد کشید*
محمد سلمان قاسمی بلرامپوری بزنس ایڈوائزر اینڈ ریسرچ اسکالر
8795492282

اپنی راۓ یہاں لکھیں