جانوروں کے حقوق

جانوروں کے حقوق اور احکام

(مقدمۂ کتاب) 
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
اسلام سارے جہاں کے لیے رحمت ہے۔ اس کی رحمت کی سرحد صرفِ عالمِ انسانی پر ختم نہیں ہوجاتی،بلکہ یہ تمام عالموں اور دنیائوں کے لیے رحمت ہے۔رسولِ اسلامﷺ کے تعلق سے قرآن میں فرمایا گیا ہے{وما أرسلناک إلا رحمۃ للعالمین}(انبیائ،۱۰۷)’’اے محمدؐ، ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔‘‘
غور کریں تو یہاں ’’رحمۃ للناس‘‘ کی جگہ ’’رحمۃ للعالمین‘‘ بولا گیا ہے۔عالمین جمع ہے عالَم کی جو ہر مخلوق کی الگ دنیا کے لیے بولا جاسکتا ہے۔جانوروں کی بھی ایک دنیا ہے،اس لیے بے شک وشبہ حیوانات کو بھی آپ کی رحمت کا حصہ ملاہے، بلکہ کہا جائے کہ خاصا بڑا حصۂ رحمت جانوروں کے لیے مخصوص رہا ہے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔
 یقینا خلاقِ عالم کی تخلیق کا سب سے بڑا شاہکار انسان ہے،لیکن اُس کی خلّاقی اور صناعی پر اس وقت بھی عقلِ انسانی داد دیے بغیر نہیں رہ پاتی جب وہ مختلف جاندار اشیاء پر مختلف زاویوں سے غور وفکر کرتی ہے اور اس کے سامنے حکمتوں اور مصلحتوں سے بھرپور نئے نئے گوشے واشگاف ہوتے چلے جاتے ہیں۔
کائناتی شعبوں میں انسان سے متعلق اور وابستہ ایک شعبہ حیوانات کا بھی ہے جس میں انسانوں کے لیے مختلف دروسِ عبرت کا پنہاں ہونا خود قرآنِ کریم سے ثابت ہے۔ نیز ان کے حقوق واحکام کو بھی قرآن وحدیث میں انتہائی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً یہ کہ انسان کے لیے کون سا جانور کھانا حلال یا حرام ہے۔ اس سلسلے میں شریعتِ اسلامیہ نے اپنے پیروکاروں کو بڑے واضح اصول عطا کیے ہیں۔
نبیِ اکرمﷺ چونکہ رحمۃ للعالمین ہیں،اس لیے آپﷺ نے عالمِ حیوانات کی قدر ومنزلت انسانوں کو اس طرح سکھائی کہ حیوانات نے آپﷺ سے کلام کیا، آپؐ کی نبوت کا اقرار کیا اور اس طرح بہت سے معجزات حیوانات سے متعلق ظاہر ہوئے۔
انسان کی طبیعت میں تنوع پسندی اور تلون ہمیشہ رہا ہے۔ جب یہی جذبات بے قابو ہوکر حیوانات کی طرف مبذول ہوتے ہیں تو انسان مختلف جانوروں کی ریس کرنے اور انہیں آپس میں لڑا کر اپنے لیے تفریحِ طبع کا سامان مہیا کرنے لگ جاتا ہے۔ مگراس تفریح سے جانوروں کو سخت ایذاء پہنچتی ہے اور اس میں کسی نہ کسی حد تک قمار بازی کا عنصر بھی شامل ہوجاتاہے۔ شریعت کی باریک بیں نگاہوں سے یہ گوشے بھی مخفی نہیں رہے اور اس نے اس سلسلے میں بھی واضح احکامات عطا فرمائے۔
 آج جدید مغربی تہذیب دعویٰ کرتی ہے اور اس کے اندھے معتقدین کی زبانیں یہ کہتے نہیں سوکھتیں کہ ہم نے پہلی بار دنیا میں جانوروں کے کاز کو ابھارا ہے اور اُن کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آنے کو ایک قانونی حق کی شکل میں پیش کیا ہے۔مگر تجدد پسندوں کا یہ دعویٰ اسلام کے تناظر میں قطعاً غلط ہے۔اب سے چودہ سو سال قبل جب کہ انسان جانوروں پر نرمی اور شفقت کے تصور سے بھی ناآشنا تھا،اللہ کے آخری نبی حضرت محمدﷺ نے نوعِ انسانی کو جانوروں کے ساتھ نرمی سے پیش آنے،ان کے ساتھ بھلا سلوک اور احسان کرنے کی تعلیم وتربیت دی اور ان اخلاقی اصولوں پر باقاعدہ اسلامی سماج میں عمل کراکے دکھایا۔
اس دنیا میں جانوروں کے حقوق سے متعلق تفصیلات جس مذہب نے سب سے پہلے فراہم کی ہیں وہ اسلام ہے،جس شخصیت نے ان کا پرچار اور عملی نمونہ پیش کیاہے وہ خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ ہیں اور جن تحریرات نے انہیں ہم تک بہ حفاظتِ تمام پہنچایا ہے ان کا نام قرآن وحدیث ہے۔اس لیے مسلمان اس پر بجا طور سے فخر کر سکتے ہیں کہ جہاں اور بہت سے معاملات میں اولیت اور سبقت کا شرف انہیں حاصل ہے،وہیں اس معاملے میں بھی یہ اعزاز ان کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں ہے۔ 
 دینِ حق اسلام نے معلوم تاریخ میں پہلی بار جانوروں کے ساتھ رعایت کرنے اور نرمی برتنے کے اعلیٰ وارفع آداب واحکام متعارف کرائے۔ ان میں سے کچھ آداب واحکام وہ ہیں جو واجب ہیں،یعنی اگر کوئی ایمان کا دعوے دار ان کی پاسداری نہ کرے تو گنہ گار ہوگا۔اور کچھ آداب وہ ہیں جنہیں استحباب کے خانے میں رکھا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان پر عمل پیرا ہونے والے کے لیے اخروی اجر وثواب اور مغفرت ورحمت کا وعدہ ہے۔
اس کے بالمقابل معاصر دنیا میں حقوقِ حیواں کے نام پر قائم ہونے والی ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں اور تحریکوں میں آج تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ جانوروں کو کتنے اور کیا کیا حقوق حاصل ہیں اور انسانوں کو ان کے مقابلے میں کیا کچھ خصوصی رعایتیں دی  جائیں گی۔جبکہ اسلام نے اس مسئلے کا کافی وشافی حل بہت پہلے اپنے واضح احکام وفرامین کی شکل میں پیش کر دیاہے۔
 جانوروں کے حقوق اورنگہ داشت کا نعرہ بلند کرنے والی تنظیمیں اور تحریکیں صرف اخلاقی اور انسانی بنیادوں پر سرگرمِ عمل ہیں،ان کے پسِ پشت کوئی دستوری اساس یا واجب العمل مجموعۂ قوانین نہیں پایا جاتا۔ یہ تنظیمیں چونکہ نظریاتی اور فکری سطح پر سیکولر ہیں،اس لیے عام انسانوں کو وہ یہ باور نہیں کراپاتیں کہ ان کے بتائے تحفظِ حیواں کے حقوق ادا کرنے اور پابندیاں نبھانے پر آخرت میں کسی قسم کا اجر وثواب مرتب ہوگا، یا ان کی خلاف ورزی کرنے پر کونسی سخت سزا مل کر رہے گی۔دنیا میں جانوروں کے حقوق کی پامالی پر زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ ملکی عدالتوں میں اس کے تعلق سے استغاثہ دائر کیا جائے اور جج صاحبان اپنی صواب دید سے جو مالی تاوان ہو سکتا ہے عائد کر دیں۔جانوروں کے حقوق کی پاسداری کرانے کے لیے ان لادینی تنظیموں کے پاس وہ فطری جذبہ اور دینی محرک نہیں ہے جو انسانی ضمیر کی گہرائیوں سے پھوٹتا ہے اور صرف اور صرف آخرت پر ایمان کی دَین ہے اور گناہوں سے پرہیز کا سب سے طاقتور ذریعہ ہے۔ 
 جانوروں کے حقوق کی خاطر آواز اٹھانے والی پہلی تنظیم برطانیہ میں سن ۱۸۲۴ء میں قائم ہوئی تھی،یعنی اسلام کی آمد کے تقریباً ساڑھے بارہ صدیوں کے بعد۔ مگر اسلامی تہذیب میں اول روز سے جانوروں کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کیا گیا ہے اور پوری اسلامی تاریخ میں اس کی کارفرمائی صاف نظر آتی ہے۔ تاریخِ عالم میں پہلی بار امتِ مسلمہ نے ہی معذور اور بوڑھے جانوروں کی نگہ داشت اور کفالت کے لیے وقف املاک کا سلسلہ شروع کیا۔ خاص کر گھوڑوں اور دیگر بوڑھے جانوروں کی پرورش وپرداخت کے لیے مفت اصطبل اور باڑے بنائے گئے اور ان کے اخراجات کی بھرپائی کے لیے بڑی بڑی جاگیریں وقف کی گئیں۔ بھٹکے ہوئے جانوروں کو بھی ان کے اصل مالک کے ملنے تک اِن جگہوں پر رکھا جاتا تھا۔ جانوروں کے بیمارستان بھی بنائے گئے اور ان کے اخراجات کے لیے بھی املاک وقف کی گئیں۔
 اسلام اور امتِ مسلمہ جانوروں کے ساتھ حسنِ سلوک کا یہ مظاہرہ کر چکے تھے اور عملاً یہ عالمِ اسلام میں ہورہا تھا۔اس کے صدیوں بعد مغربی دنیا کو ہوش آیا اور جانوروں کے حقوق اور مراعات کو لے کر ان ملکوں میں آوازیں اٹھنے لگیں۔ دیر آید درست آید،مگر اس میں غلط یہ ہورہاہے کہ اب یہ باور کرایا جاتا ہے کہ سب سے پہلے دنیا میں جانوروں کے حقوق پر توجہ مغربی اقوام نے دی۔ حالانکہ تاریخ کی رو سے یہ بالکل بے بنیاد بات ہے،خاص کر اسلامی تاریخ کو سامنے رکھیں تو یہ ایک صریح جھوٹ ہے۔
 اسلام نے جانوروں کے ساتھ جس نرمی اور حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے اور عملاً جسے برت کر دکھایا ہے،اس کا پاسنگ بھی کوئی قوم اپنی تاریخ کے حوالے سے پیش نہیں کر سکتی۔رسولِ رحمت اور نبیِ انسانیت حضرت محمدﷺ نے تو ہمیں یہ بتایا ہے کہ ایک عورت صرف اس لیے جہنم کی مستحق بن گئی تھی کیونکہ اس نے ایک بلّی کو بھوکا مرجانے دیا،اسے باندھ کر ڈال دیا،نہ خود اسے کھانے کو کچھ دیا اور نہ آزاد کیا کہ وہ خود تلاش کرکے کھالیتی۔
اسی طرح آپﷺ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ بنی اسرائیل میں ایک عورت جسم فروشی کا پیشہ کرتی تھی۔ ایک روز راستے میں اس نے ایک کتے کو دیکھا جو پیاس کی شدت کی وجہ سے گیلی مٹی چاٹ رہا تھا۔ اُسے کتے پر ترس آیا اور اس نے اپنے برتن سے اسے پانی پلا دیا۔ اللہ نے اس کے عمل اور جذبے کی قدر کی۔چنانچہ اسے توبہ کی توفیق ہوئی اور وہ جنت کی مستحق بنی۔
اس دین کی عظمت یہ ہے کہ اس نے جانوروں پر ظلم کو مستوجبِ جہنم گناہ قرار دیا ہے اور ان کے ساتھ ہمدردی اور رحم دلی کو مستوجبِ جنت عمل بتایا ہے۔
 یہاں ایک اور مثال سن لیں۔ اللہ کے نبیﷺ ایک روز ایک انصاری کے باغ میں گئے تو دیکھا کہ وہاں ایک اونٹ ہے۔ اونٹ نے جیسے ہی آپؐ کو دیکھا بے تاب ہوگیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ آپﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس کے کانوں اور سر کو سہلایا تو اونٹ کو سکون ملا۔ بعدازاں آپﷺ نے حاضرین سے پوچھا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے،یہ اونٹ کس کا ہے؟ ایک انصاری نوجوان آگے آئے اور کہا کہ یہ اونٹ میرا ہے اے اللہ کے رسولﷺ۔ تو آپﷺ نے فرمایا:’’اس جانور کے بارے میں تمہیں اللہ کا خوف نہیں جس نے تمہیں اس کا مالک بنایا ہے؟ اس اونٹ نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور بہت زیادہ تھکاتے ہو۔‘‘[دخل النبیﷺ حائطا لرجل من الأنصار فإذا جمل فلما رأی النبیﷺ حن إلیہ وذرفت عیناہ فأتاہ النبیﷺ فمسح ذفرتہ فسکن فقال من رب ہذا الجمل لمن ہذا الجمل فجاء فتی من الأنصار فقال ہو لی یا رسول اللہ فقال ألا تتقی اللہ فی ہذہ البہیمۃ التی ملکک اللہ إیاہا فإنہ شکا لی أنک تجیعہ وتدئبہ](سنن ابو داؤدؒ:۲۵۴۹۔ مسند احمدؒ:۱۷۴۵،۱۷۵۴)
 قرآنِ کریم اور سنتِ مطہرہ میں بہ آسانی بہت ساری نصوص ایسی مل جاتی ہیں جن میں جانوروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور نرمی وہمدردی کے رویے پر ابھارا گیا ہے اور اس بنیاد پر ہرگز کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے کہ وہ شرعاً حلال جانور ہیں یا حرام جانور ہیں۔اسی طرح بہت سی احادیث میں ان لوگوں کو عذابِ شدید کی وعید سنائی گئی ہے جو جانوروں کو بھوکا رکھتے ہیں، انہیں بے جا زودوکوب کرتے ہیں یا کسی اور طریقے سے انہیں تکلیف اور اذیت میں مبتلا کرتے ہیں۔
 قرآنِ پاک میں تاکیدی لب ولہجے کے ساتھ جانوروں کے ساتھ نرمی برتنے کی تلقین کی گئی ہے اور جانوروں کو اللہ کی قدرتِ کاملہ اور ربوبیتِ تامہ کی ناقابلِ انکار نشانیوں کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوا ہے: {وَمَا مِن دَآبَّۃٍ فِیْ الأَرْضِ وَلاَ طَائِرٍ یَطِیْرُ بِجَنَاحَیْْہِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمْثَالُکُم مَّا فَرَّطْنَا فِیْ الکِتَابِ مِن شَیْْء ٍ ثُمَّ إِلَی رَبِّہِمْ یُحْشَرُون} (انعام،۳۸)’’زمین میں(اپنے پیروں سے چلنے والے)کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو،یہ سب تمہاری ہی طرح کی امتیں ہیں۔ ہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں کوئی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں۔‘‘
 ’’إلا أمم أمثالکم‘‘ (یہ سب تمہاری ہی طرح کی امتیں ہیں)کے الفاظ بہ ظاہر نہایت مجمل ہیں،لیکن غور کیجئے تو ان میں بڑی تفصیل پوشیدہ ہے۔ نشانیاں مانگنے والوں کو یہ آفاق کی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم کوئی ایک نشانی مانگتے ہو،اللہ کی تو یہ پوری کائنات نشانیوں سے بھری پڑی ہے۔ زمین پر چلنے والا ہر جاندار اور فضا میں اڑنے والا ہر پرندہ اللہ کی نشانی ہے۔غور کرو تو تم دیکھ سکتے ہو کہ جس طرح تمہارے انفرادی اور اجتماعی وجود کے اندر اللہ کی قدرت،حکمت اور ربوبیت کی بے شمار نشانیاں ہیں جو تم پر توحید، جزا وسزا اور پیغمبر کی دعوت کی صداقت کی گواہی دے رہی ہیں، اسی طرح اس کائنات کی دوسری مخلوقات کے اندر بھی خالق کی قدرت، حکمت اور ربوبیت کے دلائل موجود ہیں۔ جس طرح تم ایک نوع ہو، اسی طرح وہ بھی الگ الگ نوعیں ہیں۔ جس طرح تم ایک فطرت رکھتے ہو اسی طرح یہ بھی اپنی ایک مخصوص جبلت رکھتے ہیں۔ جس طرح تم شعور ، ادراک اور جذبات رکھتے ہو اسی طرح اپنے جبلی تقاضوں اور اپنے منشائے تخلیق کے اعتبار سے یہ بھی اپنے اندر شعور، ادراک اور جذبات رکھتے ہیں۔ (تفہیم القرآن) 
 سورۂ نحل میں قرآن نے اسی حقیقت کے ثبوت میں شہد کی مکھی کا تذکرہ فرمایا ہے۔ وہاں ارشاد ہوا ہے:{وَأَوْحَی رَبُّکَ إِلَی النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوتاً وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُون٭ثُمَّ کُلِیْ مِن کُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلاً یَخْرُجُ مِن بُطُونِہَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ فِیْہِ شِفَاء  لِلنَّاسِ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لآیَۃً لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُون} (نحل،۶۸-۶۹)’’اور دیکھو تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں اپنے چھتّے بنا اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ اس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے۔ یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں۔‘‘
 ان آیتوں میں اللہ رب العزت نے شہد کی مکھی کے نوعی نظام میں خالق کی قدرت، حکمت اور ربوبیت کے جو آثار نمایاں ہیں ان کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔گویا اللہ کی وحدانیت اور ربوبیت کی شہادت تو اس کائنات کا ذرہ ذرہ دے رہا ہے۔ زمین پر چلنے والا ہر جاندار اور فضا میں اڑنے والا ہر پرندہ اس کا گواہ ہے۔ اگر انسان اپنے وجود کے اندر کی شہادتوں سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے تو باہر کی ان نشانیوں ہی کو آنکھیں کھول کر دیکھ لے جو نیچے بھی موجود ہیں اور اوپر بھی۔’’إلا أمم امثالکم‘‘ کے ذریعے یہ تنبیہ کر دی گئی کہ یہ جانور بھی تمہاری طرح ہی اللہ کی مخلوق ہیں اور ان کے ساتھ تمہارا رویہ بھی اس تصور کا عکاس ہونا چاہیے۔’’ثم إلی ربہم یحشرون‘‘ (پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں)کے الفاظ میں لطیف اشارہ ہے کہ اگر کوئی ان جانوروں کو ناحق طریقے سے تکلیف دے گا تو وہ یاد رکھے کہ ایک روز یہ اللہ کے سامنے اس کی شکایت کریں گے اور رحمن ورحیم رب اپنی اس بے زبان مخلوق کو انصاف دلائے گا۔ جب ان جانوروں کے تعلق سے یہ فرمایا گیاہے کہ اگر یہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں تواس کا بدلا بھی دلایا جائے گا،تو بہ درجۂ اولیٰ اگر ہوش مند اور مکلف انسان ان پر زیادتی کرتا ہے تو اس سے بھی انہیں قصاص دلایا جائے گا۔صحیح احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔مثال کے طور پر پیاسے کتے کو پانی پلادینے پر مغفرت اور بلّی کو بھوکا مارنے پر عذاب کی نوید سنائی گئی ہے۔ صحیح بخاریؒ میں یہ حدیثیں موجود ہیں۔(دیکھیں التحریر والتنویر،ابن عاشور:در تفسیر آیتِ متعلقہ)
 قرآن وسنت کی یہ نصوص اور ان کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے فقہائے کرام نے اپنی کتابوں میں مستقل ابواب کے تحت ان امور سے بحث کی ہے کہ جانوروں کے ساتھ کیا کچھ کرنا مستحب ہے اور کیا کچھ کرنا حرام ہے اور کیا کچھ کرنا مکروہ سمجھا جائے گا۔ اسی طرح حلال جانوروں کو ذبح کرنے کا شرعی طریقہ کیا ہے اور کیسے ذبح کرتے وقت ذبیحہ جانور کو زیادہ سے زیادہ راحت پہنچائی جائے۔ ان امور پر فقہی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ آداب واحکام بیان کیے گئے ہیں۔
اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں اور دیگر مخلوقات کو انسان کے تابع بنایا ہے اور اس کے فائدے کے لیے انہیں مسخر کیا ہے۔انسان کو یہ حق پہنچتا ہے کہ شریعت کی نگاہ میں جن مصلحتوں کا اعتبار کیا گیا ہے ان کی بنیاد پر جانوروں کو ذبح کرے،مگر انسان کو یہ حق خلاقِ کائنات نے نہیں دیا ہے کہ وہ بغیر کسی شرعی مصلحت کے ان جانوروں کو ایذاء پہنچائے یا اور کسی شکل میں انہیں پریشانی میں ڈالے۔جانوروں سے کیسے فائدہ اٹھایا جائے اور کن کن جانوروں سے غذائی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، یہ سب شریعت نے شرح وبسط کے ساتھ بتا دیا ہے۔ 
اس سے باہر جاکر جانوروں کا استحصال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔یہی وجہ ہے کہ صرف تفریح اور کھیل میں جانور کا شکار کرنے سے منع کیا گیا۔ ذبح کرکے کھانے کا ارادہ نہ ہو تو جانور کو کاٹنے،زخم پہنچانے یا تکلیف دینے کی حرمت بیان کی گئی۔علمائے کرام نے بلا ضرورت جانور کو تکلیف پہنچانے کو کبیرہ گناہوں کے زمرے میں رکھا ہے کیونکہ صحیح حدیثوں میں ایسا کرنے والے پر لعنت بھیجی گئی ہے اور کسی گناہ پر لعنت کا بھیجا جانا قرینہ ہوتا کہ وہ کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔ ایک بلّی کو بھوکا مارنے والی خاتون کے جہنمی ہونے کی حدیث بھی اس باب میں قطعی نص کا درجہ رکھتی ہے۔ 
 یہ جانور نہ انسان کے بنائے ہوئے ہیں اور نہ اس کے باپ کی جاگیر ہیں۔ یہ اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں جنہیں اللہ نے ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر انسانوں کے لیے مسخر کیا ہے۔گویا یہ اللہ کا ایک انعام ہیں جس کا تقاضا ہے کہ اللہ کی اس نعمت کی قدر کی جائے اور اس کی حفاظت کی جائے تاکہ یہ نعمت باقی رہے اور اس سے استفادے کا سلسلہ جاری رہے۔
اسلام کی رحمت کی وسعت اور عالم گیری ان جانوروں کے حق میں بھی ثابت ہے جن سے ضروریاتِ زندگی میں بہ ظاہر کوئی تعاون نہیں ملتا اور جن کا وجود بہ وہلۂ اولیٰ لغو اور بے مقصد دکھائی پڑتا ہے۔مگر ایسے جانوروں کے ساتھ بھی اسلامی شریعت نے حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے کیونکہ وہ بہرحال اللہ کی مخلوق ہیں اور دیگر جانداروں کی طرح ان کے اندر بھی درد اور تکلیف محسوس کرنے کا مادہ رکھا گیا ہے۔ ہم اپنی کوتاہ علمی کی وجہ سے اس بے کراں کائنات میں ان کے حقیقی رول کا ادراک نہیں کر پاتے،ورنہ ایسا نہیں ہے کہ وہ بے مصرف پیدا کیے گئے ہیں۔ آج سائنسی ترقی کے بعد بہت سارے جانوروں کے بارے میں ہم جان گئے ہیں کہ ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے میں ان کی بڑی حصے داری ہے۔ اس لیے اسلام کہتا ہے کہ ہر مخلوق کا اس وسیع وعریض دنیا میں کوئی نہ کوئی وظیفۂ حیات ہے اور تم جانو یا نہ جانو،وہ اپنامفوضہ کام کر رہی ہے اور اپنے وجود کا جوازثابت کرنے میں مصروف ہے۔
 جس زمانے میں اسلام کا نظام دنیا میں قائم تھا اور امتِ اسلامیہ اجتماعی اور سیاسی گوشوں میں بھی اسلام پر عمل پیرا تھی، اس زمانے میں مسلمانانِ عالم جانوروں کے ساتھ نرمی وہمدردی میں اس حد تک پہنچ گئے تھے جس کا تصور بھی آج ہمارے لیے مشکل ہے۔ مثال کے طور پر جلیل القدر صحابی حضرت عدیؓ بن حاتم کا وطیرہ بن گیا تھا کہ وہ روٹی کا چورا بنا کر اسے چیونٹیوں کے سوراخ کے پاس ڈال آتے تھے اور کہتے تھے کہ ’’یہ ہمارے پڑوسی ہیں اور ان کا ہم پر حق ہے۔ [کان یفت الخبز للنمل ویقول إنہن جارات ولہن حق](شعب الایمان، بیہقیؒ: ۱۱۰۷۹۔ طبقات ابن سعدؒ:۳/۳۲۰)
 مصر کے مشہور شہر فسطاط کا یہ نام اسی لیے پڑا کیونکہ فاتحِ مصر حضرت عمروؓ بن العاص نے اس جگہ ایک خیمہ لگایا تھا۔ خیمے کے ایک کونے میں اتفاق سے فاختہ نے اپنا گھونسلا بنا لیا۔ وقتِ روانگی حضرت عمروؓبن العاص نے خیمہ اکھاڑ کر اس فاختہ کا گھونسلا گرانا اچھا نہ سمجھا اور خیمے کو یونہی چھوڑ دیا۔ بعد میں لوگ اس کے آسپاس آباد ہوتے چلے گئے اور ایک پورا شہر بس گیا۔ عربی زبان میں بڑے خیمے کو فسطاط کہتے ہیں اور یہی اس شہر کی وجہِ تسمیہ ہے۔
 محمد بن عبدالحکمؒ نے حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز کی سیرت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے اپنی خلافت کے زمانے میں یہ حکم جاری کیا تھا کہ بلا ضرورت گھوڑوں کو تیز نہ دوڑایا جائے۔ اسی طرح ڈھلائی لوہاری کے کارخانے کے مالکوں کے نام انہوں نے یہ فرمان جاری کیا تھا کہ بھاری اور موٹی لگامیں نہ بنایا کریں۔ نیز عام لوہاروں خرّادوں پر پابندی لگا دی تھی کہ گھوڑے کے پیروں میں آہنی نال نہ ٹھونکیں کیونکہ اس سے گھوڑے کو تکلیف پہنچتی ہے۔ اسی طرح مصر کے گورنر کے نام انہوں نے خط لکھا تھا کہ ’’مجھے اطلاع ملی ہے کہ یہاں باربرداری کا کام اونٹوں سے لیا جاتا ہے اور ایک اونٹ پر ایک ہزار رطل تک بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ جیسے ہی میرا یہ خط تمہیں موصول ہو تو سمجھ لو کہ آج کے بعد مجھے پتہ نہ چلنے پائے کہ کسی اونٹ پر چھے سو رطل سے زیادہ وزن ڈھویا گیا ہے۔‘‘(دیکھیں سیرۃ عمر بن عبدالعزیز،محمد بن الحکمؒ:ص۱۳۶)
 حیوانات کے حقوق کے نعرے بلند کرنے والی قومیں کیا اس اعلیٰ درجے کے طرزِ تعامل کی کوئی مثال پیش کر سکتی ہیں؟بلکہ ہم پوچھتے ہیں کہ مختلف ممالک میں جانوروں کو زخمی کرنے اور مارنے کے جو وحشیانہ مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں،کیا یہ تنظیمیں اور انجمنیں ان کے خلاف آواز بلند کر سکتی ہیں؟ اسپین، موزمبیک، یونان، اٹلی اور ہالینڈ وغیرہ مغربی ملکوں میں بیلوں کو جس بری طرح زخمی کرکے اور تل تل کرکے مارا جاتا ہے ہمارے سامنے ہے۔ان مقابلوں میں لڑنے والے کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ بیل کو بہ تدریج اور تھوڑا تھوڑا زخم دے کر مارے تاکہ سست رفتاری سے بیل موت کے آغوش میں جائے۔کیا نام نہاد مہذب دنیا جو اسلام کے شعار عید الاضحی کی قربانی پر چیں بہ جبیں ہوتی ہے،اس سلسلے میں کچھ روک تھام کر سکی ہے؟
یونان اور اٹلی میں دور سے انسان نما وحشی درندوں کی بھیڑ بیل پر پتھر بازی کرتی ہے،انہیں نوکیلے تیر مارتی ہے اور ان پر چھریاں چلاتی ہے جس کے نتیجے میں اس بے زبان جانور کے جسم میں ہرجگہ سے خون کا فوارہ بہنے لگتا ہے اور جب اس کی طاقت جواب دے جاتی ہے تو وہ بے دم ہوکر گر جاتا ہے،یہ سب کسی بڑے مقصد کی خاطر نہیں،بلکہ صرف ٹائم پاس،تفریح اور انٹرٹین منٹ کی خاطر کیا جاتا ہے اور پوری دنیا میں اسے براہِ راست ٹیلی کاسٹ کیا جاتا ہے،مگر اس درندگی کے خلاف کوئی سرکاری یا نیم سرکاری صدائے احتجاج بلند نہیں ہوتی۔اس قسم کے وحشت آمیز مقابلوں کا انعقادبڑے اسٹیڈیموں میں کیا جاتا ہے۔ ہزاروں ترقی یافتہ انسان ایک معصوم جانور کو اس طرح تڑپ تڑپ کر مرتا ہوا دیکھتے ہیں، ہنستے ہیں اور بے شرمی کی حدیں پھلانگتے ہوئے اپنے اس جنگلی پن کو عین تہذیب اور شائستگی کا نام دیتے ہیں۔
بہت سی غیر سرکاری تنظیموں کے سروے کی رپورٹس کے مطابق صرف اسپین کے اندر اس طرح قتل کیے جانے والے بیلوں اور سانڈوں کا سالانہ اوسط پینتیس ہزار ہے،جب کہ دیگر یورپین ممالک کے اسٹیڈیموں میں ہر سال دس ہزار جانوروں کا خون اس وحشیانہ طریقے سے بہایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں پرندوں،مرغوں،مینڈھوں اور پہاڑی بکروں کو باہم لڑانے اور ایک دوسرے سے مروانے کے مقابلے منعقد کرائے جاتے ہیں جو اپنی بربریت اور اذیت ناکی میں کسی طور سے بھی اسپین اور یورپ میں بیل کشی کے مقابلوں سے کم نہیں ہوتے۔ پھر مہذب اور ترقی یافتہ مغربی ممالک میں نشانہ سکھانے کے کلبوں میں باقاعدہ جانوروں اور پرندوں کا نظم کیا جاتا ہے تاکہ ٹریننگ لینے والے ان پر نشانے کی مشق کرسکیں اوربے زبان جانوروں کو گولیوں سے بھون کر مردم خوری کی اپنی ہوس مٹائیں۔حیرت اس پر ہوتی ہے کہ اسلام نے حلال جانوروں کو غذا بنانے کی جو اجازت دی ہے اُس پر معترضین بڑے خفا رہتے ہیں،حالانکہ ان کی ناک کے نیچے جانوروں کے ساتھ یہ حیوانیت سوز معاملہ کیا جارہا ہے، مگر اس کے خلاف ان کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں؟آخر یہ دوہرا معیار کیوں ہے؟ 
 امریکہ اور یورپ کے بوچڑ خانوں اور مذبحوں میں جانوروں کو کرنٹ دے کر مارا جاتا ہے یا بہت وزنی ہتھوڑے سے اس کے سر کو پاش پاش کیا جاتا ہے یا کسی نوکیلی آہنی چھڑ کو یک لخت بھیجے میں گھونپ دیا جاتا ہے اور اس طرح نہایت دردناک اور تکلیف دہ طریقے سے انہیں موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے، پھر گوشت کاٹ کر بازاروں میں فروخت کیا جاتا ہے۔مگر ناہنجاروں کا یہ دعویٰ ہے کہ غذائی ضروریات کے تحت جانوروں کا مارنے کا یہ طریقہ کم سے کم تکلیف دہ ہے اور اس کے مقابلے میں اسلام نے ذبح کا جو طریقہ بتایا ہے جس میں جانور کو ایذاء بھی کم پہنچتی ہے اور اس کا پورا فاسد خون بھی باہر نکل آتا ہے،وہ زیادہ الم ناک اور سفاکانہ ہے۔جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں،جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔
  یہ سب حقائق ان تنظیموں کو نظر نہیں آتے،تاہم عید الاضحی کے موقعے پر جانوروں کی قربانی یا حج کے موقعے پر کی جانی والی جانوروں کی قربانی ان کی آنکھ کا کانٹا بنی ہوئی ہے۔ایسے لوگوں کو ہمارا جواب یہ ہے کہ اللہ رب العالمین جس نے اس پوری کائنات کو پیدا کیا ہے اور جس نے انسانوں کی ضرورت کا لحاظ کرتے ہوئے یہ جانور خلق فرمائے ہیں، اسی نے ہمیں ان کی قربانی کرنے کا حکم دیا ہے۔اسی نے قربانی کو اپنے دین کا شعار اور علامتی نشان مقرر فرمایا ہے۔ جو لوگ جانوروں پر رحم کی دہائی دیتے نہیں تھکتے انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا خالق ان سے زیادہ ان جانوروں پر رحم کرنے والا ہے۔ حج میں قربانی کے لیے بھیجے جانے والے جانور اور بقرعید کے موقعے پر قربان کیے جانے والے جانور دراصل اللہ کے نبیوں اور رسولوں کی سنت کے اتباع میں ذبح کیے جاتے ہیں اور مسلمان جب تک مسلمان ہے اپنے دین کی اس پہچان سے دست بردار نہیں ہو سکتا،چاہے یہ بات کافروں اور منافقوں کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔
 عید الاضحی اور حج کے موقعے کی قربانی دین کا شعار ہے اور اللہ رب العالمین نے اپنی کتاب میں اس کا حکم ہمیں دیا ہے:{وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاہَا لَکُم مِّن شَعَائِرِ اللَّہِ لَکُمْ فِیْہَا خَیْْرٌ فَاذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَیْْہَا صَوَافَّ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُہَا فَکُلُوا مِنْہَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ کَذَلِکَ سَخَّرْنَاہَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ٭لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُمْ کَذَلِکَ سَخَّرَہَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللَّہَ عَلَی مَا ہَدَاکُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ} (حج،۳۶-۳۷)’’اور (قربانی کے)اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے،تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے،پس انہیں کھڑا کرکے ان پر اللہ کا نام لو اور جب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں تو ان میں سے خود بھی کھائو اور ان کو بھی کھلائو جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور ان کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں۔ ان جانوروں کو ہم نے اس طرح تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکریہ ادا کرو۔ نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون،مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اس نے ان کو تمہارے لیے اس طرح مسخر کیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو،اور اے نبیؐ بشارت دے دو نیکوکاروں کو۔‘‘
 {إِنَّا أَعْطَیْْنَاکَ الْکَوْثَرَ٭فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ}(کوثر،۱-۲)’’اے نبی ہم نے تمہیں کوثر عطا کر دیا،پس تم اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔‘‘
 اسلامی تہذیب وتمدن میں جانور کو اس کا جائز حق دیا گیا ہے، اس کے ساتھ حسنِ سلوک اور خبرگیری کے رویے کی تحسین کی گئی ہے۔نیز جانوروں پر تشدد،سختی،قساوت اور ظلم کے جملہ مظاہر کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ایک طرف یہ دیکھیں کہ اسلامی شریعت نے یہ اصول طے کیا کہ جانور کو نقصان پہنچایا جائے تو اس پر مواخذہ ہوگا اور اس کی تلافی کرنی پڑے گی،لیکن جانور اگر کسی کو نقصان پہنچا دے تو جانور کو بدلے میں نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔آپﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’بے زبان جانور سے بدلا نہیں لیا جائے گا۔‘‘[العجماء جبار](صحیح بخاریؒ:۲۲۲۸۔عجماء کے اندر چوپائے اور چرندے آتے ہیں اور جبار کے معنی ہیں بے مصرف یعنی جس پر کسی نوع کا تاوان نہ لگایا جاسکے۔)
پھر دوسری طرف قدیم غیر اسلامی تہذیبوں کا مطالعہ کریں جیسے کہ عبرانی تہذیب، یونانی تہذیب، رومی تہذیب اور فارسی تمدن وغیرہ۔پھر آگے بڑھ کر تیرہویں صدی عیسوی سے انیسویں صدی عیسوی تک مختلف یورپین ممالک کا اس تناظر میں تاریخی جائزہ لیں۔آپ کو یہ جان کر حد درجہ حیرت ہوگی کہ ان تمام قدیم وجدید تہذیبوں اور تمدنوں میں جانور کو اپنے تصرف کا ذمے دار مانا گیا ہے اور مختلف تصرفات پر اسے لائقِ محاسبہ اور قابلِ سرزنش بتایا گیا ہے۔ 
 مثال کے طور پر یہودیوں کی محرف شریعت کو دیکھیں کہ اس میں یہ حکم ملتا ہے کہ اگر کوئی بیل کسی انسان کو سینگ مار کر ہلاک کر دے تو بدلے میں اس بیل کو سنگ سار کیا جائے گا،یعنی پتھر مار مار کر ہلاک کیا جائے گا۔کتابِ خروج میں ہے:’’اگر کوئی بیل کسی مرد یا عورت کو سینگ مار کر مار ڈالے تو اس بیل کو ضرور سنگسار کیا جائے اور اس کا گوشت ہرگز نہ کھایا جائے۔لیکن بیل کا مالک بے گناہ ٹھیرے گا۔‘‘(خروج:۲۱/۲۸) بائیبل کا یہ قطعہ اس بارے میں صریح ہے کہ بیل اپنے عمل کا ذمے دار ہے اور سزا کے طور پر اسے سنگ سار کرنے میں قانونی سزا کے جملہ عناصر آگئے ہیں۔ 
 یونانی تہذیب میں حد کی گئی ہے کہ جانوروں کے جرائم کا تصفیہ کرنے کے لیے خاص فوجداری عدالتیں لگائی جاتی تھیں۔ مشہور یونانی فلسفی افلاطون (Aristotle)نے اپنی کتاب ’’دا پرنسپلس‘‘ (The Principles)میں ذکر کیا ہے کہ اگر کوئی جانور کسی انسان کو قتل کر دے تو مقتول کے گھر والوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ عدالت میں اس جانور کے خلاف استغاثہ کریں، اور اگر جانور کے اوپر جرم ثابت ہوجائے تو بہ طورِ قصاص اسے قتل کر دیا جائے گا۔ 
 آتش پرست فارس میں جانوروں کے تعلق سے معاملہ اور زیادہ دلچسپ اور حیرت ناک حد کو پہنچ گیا تھا۔زرتشت کی طرف منسوب کتابوں کے مجموعے جس کا نام ’’زند اوستھا‘‘ ہے اور جس کے اوپر قدیم فارسی مذہب کا پورا دارومدار ہے،اس میں لکھا ہے کہ پاگل پن کی بیماری میں مبتلا کوئی کتا اگر کسی بکرے یا بھیڑ کو کاٹ لے اور اسے قتل کر دے،یا کسی انسان کو کاٹ لے اور اسے زخمی کردے تو سزا کے طور پر اس کتے کا دایاں کان کاٹ دیا جائے گا۔اگر وہ دوبارہ یہی جرم کرے تو اس کا بایاں کان بھی کاٹ دیا جائے گا۔ تیسری بار ایسا کرنے پر اس کا سیدھا پیر کاٹا جائے اور چوتھی بار میں الٹا پیر،پانچویں بار کرنے پر اس کی دُم اُکھاڑ دی جائے گی اور اب کی بار اس کے مالک کو بھی سزا دی جائے گی اور یہ تب ہے جب ثابت ہوجائے کہ مالک نے اپنے کتے کے سلسلے میں احتیاط اور نگرانی کا حق ادا نہیں کیا تھا۔ اگر مالک ثابت کردے کہ اس نے لازمی تدابیر اختیار کی تھیں تو وہ بے گناہ چھوٹ جائے گا،سزا صرف کتے کو دی جائے گی۔ 
 اس قانون کے اندر اور اس میں درج سزائوں کے اندر جس طرح بار بار بتایا گیا ہے کہ مجرم جانور کے پچھلے جرائم کو دیکھتے ہوئے ہر بار سزا بڑھائی جائے گی،اس سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ قدیم فارسی تہذیب میں جانور کو قانوناً جواب دہ (Accountable)تصور کیا گیا ہے اور اس کی حرکات وسکنات سے جو نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں ان کا اسے ذمے دار مانا گیا ہے۔
 قرونِ وسطیٰ میں جب کہ جزیرۃ العرب اور ایشیا میں اسلام کی بہار آئی تھی،ان صدیوں میں یورپ سرتاپا جہالت اور توہمات کی ظلمتوں میں بھٹک رہا تھا۔فرانس وہ پہلی عیسائی ریاست ہے جس نے تیرہویں صدی عیسوی میں جانور کو قانونی طور پر جواب دہ قرار دیا اور حکومتی سرپرستی میں جانوروں کے جرائم کی سزا سنانے کے لیے عدالتیں تشکیل دی گئیں۔اس کے بعد ’’سارڈینیا‘‘ میں یہ ہوا۔ پندرہویں صدی کے وسط میں ’’بیلجیم‘‘ نے یہ قانون اختیار کیا اور سولہویں صدی عیسوی کے وسط میں ہالینڈ، جرمنی اور اٹلی نے بھی جانور کو قانوناً جواب دہ مان لیا اور بہت سارے ملکوں میں انیسویں صدی ہجری تک جانوروں کی جواب دہی کا یہ احمقانہ قانونی نظام قائم رہا اور اس کے مطابق مقدمات فیصل ہوتے رہے اور غیر ذوی العقول جانور سزا پاتے رہے۔
 یورپین اقوام اور قدیم تہذیبوں کی علم بردار ملتوں کے اس طرزِ عمل کو سامنے رکھیں،پھر دوسری طرف اسلامی شریعت کو دیکھیں جس نے شروعات سے ہی حیوانات کو معفو عنہ قرار دیا ہے اور اسی بنیاد پر ان کے ساتھ نرمی اور شفقت کا معاملہ کرنے کی تاکید کی ہے اور انہیں غیر مکلف ماننے کی وجہ سے ان سے سرزد ہونے والی حرکات،پھر چاہے وہ کسی کو قتل کر دیں یا زخمی کرڈالیں،کو قابلِ مواخذہ نہیں مانا ہے۔ اسلامی شریعت کی نظر میں جملہ حیوانات غیر عاقل ہوتے ہیں اور ان سے جو بھی اچھے یا برے کام سرزد ہوتے ہیں وہ بہ حکمِ فطرت ہوتے ہیں۔وہ باقاعدہ جرم کا ارادہ کرکے جرم نہیں کرتے کہ انہیں قانوناً مأخوذ کیا جائے اور سزا سنائی جائے۔
 تاہم شریعتِ اسلامیہ اللہ رب العالمین کی طرف سے اتارا ہوا آخری دستور العمل ہے۔ اگر اس میں بے محابا انداز میں جانوروں کے ساتھ نرمی برتنے کا حکم ہی ہوتا تو یہ انسانی سماج کے اوپر ظلم ہوجاتا۔اس لیے شریعت نے جہاں جانوروں کے ساتھ اچھے تعامل کا حکم دیا ہے اور ان کے حقوق مقرر کرکے انہیں واجب الادا بتایا ہے،وہیں دوسری طرف شریعت نے یہ اصول بھی طے کیا ہے کہ وہ جانور جو فطرتاً موذی ہوتے ہیں اور بلا وجہ انسانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں،انہیں مارا جائے گا۔نیز وہ تمام جانور جن کا گوشت کھانے سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہے انہیں بھی حرام کر دیا گیا۔صحیحین میں اللہ کے رسولﷺ کا یہ حکم ملتا ہے کہ ’’پانچ جانور ایسے ہیں جو اپنی حد سے تجاوز کرتے ہیں(اور انسانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں) اور انہیںحرم میں بھی قتل کیا جائے گا؛چوہا،بچھو،چیل،کوّا اور کاٹنے والا کتا۔‘‘[خمس فواسق یقتلن فی الحرم الفأرۃ والعقرب والحدیا والغراب والکلب العقور](صحیح بخاریؒ:۳۱۳۶۔ صحیح مسلمؒ:۱۱۹۸) 
 مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ شریعت نے ان موذی جانوروں کو تڑپا تڑپا کر مارنا جائز کر دیا ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ موذی جانوروں کے بارے میں بھی شریعت کا حکم یہ ہے کہ ان پر کاری ضرب لگائی جائے گی اور ایک بار میں ہی ان کا بہ عجلت خاتمہ کر دیا جائے گا۔ تڑپا تڑپا کر انہیں مارنا خلافِ انسانیت بھی ہے اور خلافِ شریعت بھی۔ اللہ کے رسولﷺ نے جانور کو قتل کرتے ہوئے بھی ان کے ساتھ احسان کا حکم دیا ہے اور اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ انہیں تڑپا کر نہ مارا جائے۔ ان کی راحت رسانی کے لیے پہلے سے چھریاں تیز کر لے۔
 یہی وہ مبنی بر فطرت اعتدال اور توازن ہے جس کے سائے میں انسانیت سعادت اور خوش بختی سے ہم کنار ہو سکتی ہے،بلکہ یہی وہ رحمتِ عام ہے جس میں کائنات کی ہر چیز کا حصہ مخصوص رکھا گیا ہے،حتی کہ بے زبان اور غیر عاقل جانوروں کا بھی۔
 سطورِ بالا کی روشنی میں یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ جانوروں کے ساتھ احسان کرنے اور نرمی سے پیش آنے میں اسلام کا نمونہ ہی کامل واکمل نمونہ ہے۔اس میں نہ جانور کو مہمل سمجھ کر چھوڑ دیا گیا ہے اور نہ اس درجہ مبالغہ آرائی کی گئی ہے کہ اسے انسان کے مساوی مان لیا گیا اور عام شہریوں پر جو قوانین عائد ہوتے ہیںوہ اس پر بھی عائد کر دیے گئے۔دینِ حق نے جانوروں کے کچھ حقوق بیان کیے ہیں اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ ان حقوق کو اللہ کا حکم سمجھ کر ادا کریں اور ہر جانور کے ساتھ اس کے مناسبِ حال رحم وکرم کا معاملہ کریں۔
 آج مسلمانوں کے علاوہ دیگر قومیں بڑھ چڑھ کر حیوانی حقوق کی بات کر رہی ہیں اور یہاں تک کہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ حیوان کا مقام ومرتبہ بعض انسانوں کے یہاں اپنے بنی نوع سے بھی بڑھ گیا ہے۔سننے میں ایسی حیرت انگیز خبریں بھی آتی رہتی ہیں کہ فلاں کروڑپتی اور ارب پتی نے اپنی پوری جائداد یا جائیداد کا ایک بڑا حصہ اپنے پالتو کتے یا بلّی یا کسی اور جانور کے نام کر دیا ہے اور اپنے قریب ترین اعزہ واقارب کو ایک پھوٹی کوڑی تک نہیں دی، یا جو انہیں دیا وہ جانور کو دیے حصے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ایسے سنگ دل تو ہر ترقی یافتہ سوسائٹی اور پکنک اسپاٹ پر دیکھنے کو مل جاتے ہیں جو انسانی اشیائے خورد ونوش سے کہیں زیادہ مہنگی اور مرغن غذائوں سے اپنے پالتو جانوروں کو شکم سیر کراتے ہیں۔بلکہ مغربی ممالک میں اور اب دھیرے دھیرے اِدھر مشرقی ملکوں میں بھی جانوروں کے خاص فائیو اسٹار اور سیون اسٹار ہوٹل کھل رہے ہیں جہاں دولت مندوں کے جانوروں کو اعلیٰ درجے کی مہنگی غذائیں اور آسائشیں فراہم کی جاتی ہیں۔
انسان کے لیے اس سے بڑھ کر حماقت کی بات کیا ہوگی کہ وہ اپنے ابنائے جنس کے مقابلے میں جانوروں کو ترجیح دینے لگے۔اگر الٰہی تعلیمات سے بے بہرہ ہوکر آج کا انسان اس طرح کے کسی بھی معاملے میں افراط وتفریط کا شکار دکھائی پڑ رہا ہے تو دوسری طرف دینِ حق اسلام کی شکل میں موجود نظامِ حیات اس قسم کی ہر بے اعتدالی سے پاک ہے۔اسلام کی شکل میں اللہ کی بخشی ہوئی عظیم الشان شریعت ہمیں حکم دیتی ہے کہ ہر زندہ مخلوق کے ساتھ انصاف اور حسن سلوک کرو۔ وہ ہمیں ظلم وزیادتی کی ہر شکل سے باز رہنے کی تاکید کرتی ہے۔اعتدال اورمیانہ روی کی یہی امتیازی خوبی ہے جس کی بنا پر یہ شریعت ہر زمان ومکان میں انسانی رہنمائی کی صلاحیت اپنے اندر رکھتی ہے اور اس میں بغیر افراط وتفریط میں جائے ہر حق دار کو اس کا مناسبِ فطرت حق دیا گیا ہے۔
 عجیب وغریب بات یہ ہے کہ یہی نام نہاد ترقی یافتہ طبقہ جو جانوروں کے حقوق کے لیے دنیا سر پر اٹھائے ہوئے ہے،انہی لوگوں کے ہاتھوں سے انسانوں کے حقوق سب سے زیادہ پائے مال ہورہے ہیں۔کائنات میں اس سے بڑھ کر ظالمانہ رویہ اورکیاہوگا۔یہ فطرت کے فساد اور اخلاقی دیوالیے پن کی دلیل ہے کہ کتوں اور بلّیوں کو مخدوم بنایا جائے، ان کے ساتھ اکرام واعزاز کا معاملہ کیا جائے اور نوعِ انسانی کو جسے اللہ تعالیٰ نے خاص شرف بخشا ہے اور دیگر بہت سی مخلوقات پر اسے فضیلت وعظمت دی ہے اس کو درخورِ اعتناء اور لائقِ توجہ نہ سمجھا جائے۔ارشادِ باری ہے:{وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنَاہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلا}(بنی اسرائیل،۷۰)’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی اور تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سے مخلوقات پر انہیں نمایاں فوقیت بخشی۔‘‘
 مشہور عربی شاعر حافظ شوقی نے ایسے لوگوں کے طرزِ عمل کی کتنی عمدہ ترجمانی کی ہے:
موت کلب بضیعۃ جریمۃ لا تغتفر
فتل شعب بأسرہ مسألۃ فیہا نظر
 یعنی ’’کسی غیر آباد اور سنسان جگہ پر اگر ایک کتا مر جائے تو ان لوگوںکے نزدیک یہ ایک ناقابلِ معافی جرم ہے، اور کسی ملک کی پوری انسانی آبادی کا قتلِ عام کر دیاجائے تو یہ ان کے نزدیک بس ایک محلِ نظر اور قابلِ غور مسئلہ ہے۔‘‘ 
 اس کتاب میں ہم اسلام کے جاری کردہ ان احکامات وتعلیمات کا مختصراً جائزہ لیں گے جو اس نے بے زبان جانوروں کے تعلق سے مشروع کیے ہیں تاکہ قارئین کے سامنے یہ بات منقح ومشرّح ہوجائے کہ دینِ اسلام ہی اصل دینِ فطرت ہے اور اس کی رحمت اور فیضان بخشی کا دائرہ جملہ مخلوقات پر محیط ہے۔برادرم تنویر احمد شیخ نے کتاب کی پروف خوانی کی ہے،اس لیے ان کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے۔ اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کتاب کو مؤلف،ناشر اور قارئین سب کے حق میں مفید اور نافع بنائے کیونکہ وہی سب کی سنتا اور سب کو بخشتا ہے۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین۔ وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین
(نام کتاب: جانوروں کے حقوق اور احکام) 
اپنی راۓ یہاں لکھیں