توہینِ رسالت

توہینِ رسالت ﷺ مذہبی آزادی کی خلاف ورزی،

روسی صدر کے بیان کا خیر مقدم ہوناچاہیے!

سرفرازاحمد قاسمی،حیدرآباد

عالمی پیمانے پر جس طریقے سےایک منظم پلاننگ کے تحت اسلاموفوبیا کی فضاء قائم کی گئی ۔اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کےلئے جو مفروضے وضع کئےگئے۔ 9/11 کے امریکی حملوں کے بعد اس میں مزید شدت پیدا کی گئی اور کوئی ایسا گوشہ نہیں چھوڑا گیا جہاں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام نہ کیاگیا ہو۔اس دوران مسلمان اپنا دفاع کرتے رہے اور دنیا کو بتاتے رہے کہ اظہار رائے کی آزادی دنیا میں بسنے والے ہرفرد کو ملنی چاہئے ۔مگر اس آزادی کا دائرہ اتنا وسیع نہ ہو کہ دوسروں کے جذبات مجروح ہونے لگیں،لیکن اسے ان سنی کردی گئی۔مسلمانوں کےلئے یہ وقت بڑا چیلنج بھرا اور صبر آزما ثابت ہوا۔مسلمانوں کی بار بار وضاحت کے باوجود کہیں پیغمبر اسلام اور محسن انسانیت ﷺ کے خاکے بنائے گئے تو کہیں کسی اور طریقے سے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔اس کے نتیجے میں اگر کہیں کچھ مسلمانوں نے ردعمل کا اظہار کردیا تو یہ مغربی ممالک اور یورپ کےلئے ایک بڑا ایشو (مسئلہ )بن گیا۔ اور پھر اسکے ذریعے اسلام اور مسلمان نشانے پر آگئے۔آپ کو شاید یاد ہو گاکہ امریکی ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر جب حملہ ہوا تھا تو اس حملے کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑنے کا اعلان کیا تھا اور اسے صلیبی جنگ بتایا تھا۔اس بیان کو دنیا بھرکے مسلم مخالف لیڈروں نے مسلمانوں کے خلاف مظالم کا ایک نیا سلسلہ شروع کرنے کا اشارہ سمجھ لیا۔سکے بعد ایسے بیانات آنے لگے کہ سارے مسلمان دہشت گرد نہیں مگر سارے دہشت گرد مسلمان ہیں۔اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف ممالک نے اپنے یہاں کے علیحدگی پسندوں کو دہشت گرد کہنا شروع کردیا۔دنیا بھر میں یہ سلسلہ چلتارہا جواب بھی جاری ہے۔

براک اوباما جب امریکی صدر بنے تو اسوقت امریکی لیڈروں کو یہ احساس ہوگیاتھا کہ مسلمانوں میں امریکہ کی شبیہ مسخ ہوئی ہے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ ہٹلر اور مسولینی نے جو سینکڑوں لوگوں کا قتل کیا انکے اس مذموم عمل کو انکے ہم مذہب لوگوں سے نہیں جوڑا گیاتھا۔مگر 9/11کے واقعہ کو ڈائریکٹ مسلمانوں سے جوڑدیاگیا۔جس کے اثرات دنیا بھر کے مسلمانوں پر پڑے،جسکی وجہ سے مسلمان امریکہ کو مسلم مخالف سمجھنے لگے ہیں۔چنانچہ اوباما نے اسی دوری کو ختم کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور اپنے قول وعمل سے یہ دکھانے اور بتانے کی ہرممکن کوشش کی کہ امریکہ نہ ہی اسلام مخالف ہے اور نہ ہی مسلم مخالف۔اس وقت عالمی سیاسی منظر نامہ تبدیل ہورہاہے۔اسکی ایک بڑی وجہ افغانستان میں طالبان کا اقتدار پر کنٹرول ہے۔امریکی فوج کو بری طرح شکست دینے کے بعد طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت بنالی ہے۔گذشتہ 15اگست کو طالبان نے افغانستان کو اپنے کنٹرول میں لے لیاتھا،اسکے بعد سے سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونے لگا ہے۔اس تبدیلی میں چین اور روس اہم کردار ادا کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔خبر یہ بھی ہے کہ 2028ء  تک چین اقتصادی محاذ پر امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گا،اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ چین سے نمٹنے کےلئے امریکہ کو جو کچھ کرنا ہے 2027ء تک ہی کرنا پڑےگا۔

افغانستان کی طالبانی حکومت سے چین اور روس کے اچھے تعلقات ہیں اور یہ تعلقات روز بہ روز مزید مستحکم ہورہے ہیں، یہ احساس امریکہ کو بھی ہے اسی لئے امریکہ اب روس سے بڑے پیمانے پر مذاکرات کرنے کےلئے بھی تیارہے اور اسکی کوششیں دونوں ملکوں میں جاری ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان یہ مذاکرات 10جنوری کو متوقع ہے۔ایک مقامی اخبار کے مطابق “امریکہ اور روس کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول اور یوکرین سمیت دیگر سیکوریٹی معاملات پر مذاکرات جنوری میں طے پاگئے ہیں۔وہائٹ ہاؤس میں نیشنل سیکوریٹی کے ترجمان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ دونوں ممالک کے وفود 10جنوری کو ملاقات کریں گے۔جس کے بعد 12جنوری کو روس اور ناٹو اتحاد جبکہ 13جنوری کو امریکہ،روس اور یورپی ممالک کے وفود کے مابین بات چیت ہوگی۔ترجمان کا مزید کہنا تھاکہ جب ہم مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے تو روس بھی اپنے تحفظات رکھے گا اور ہم بھی روس کی سرگرمیوں کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کریں گے۔ان کا کہنا تھاکہ کچھ معاملات میں پیش رفت ہوسکتی ہے،جبکہ بعض معاملات پر اختلاف رائے ہوگا اوراسے ہی سفارت کاری کہتے ہیں۔ترجمان نے واضح کیا کہ یوکرین کے حوالے سے صدر بائیڈن کی سوچ واضح اور غیر مبہم ہے،ان کے بقول صدر بائیڈن یہ واضح کرچکے ہیں کہ امریکہ روس،یوکرین تنازعہ کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتاہے،لیکن اگر روس نے یوکرین میں مداخلت کی تو اسے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی جانب سے نتائج کا سامنا کرنا پڑےگا۔جغرافیائی لحاظ سے روس اور یورپی یونین کی سرحد کے قریب واقع ملک یوکرین سابق سوویت یونین کا ہی حصہ تھا،البتہ روس یوکرین پر روس کے خلاف اشتعال انگریزی کے الزامات عائد کرتا رہا ہے۔سال 2014ء میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا اوراسکے بعد سے ہی روسی حمایت یافتہ جنگجو گروپس اور یوکرینی فوج کے درمیان وقتاً فوقتاً جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔خیال رہے کہ امریکہ سمیت مغربی ممالک روسی افواج کی یوکرین کی سرحد کے قریب بڑھتی ہوئی نقل وحرکت پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔اطلاعات کے مطابق رواں ماہ ہزاروں روسی فوجی یوکرین کی سرحد کے قریب تعینات کئے گئے ہیں۔امریکہ اور یورپی ممالک کو خدشہ ہے کہ روس ممکن طور پر یوکرین پر حملے کا منصوبہ بنارہا ہے،G-7 ممالک نے رواں ماہ روس کو خبردار کیاتھا کہ اگر اسکی افواج یوکرین میں داخل ہوئی تو اسکے نتائج سنگین ہونگے،البتہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن ایسے کسی بھی منصوبے کی تردید کرتے ہوئے یہ ضمانت طلب کررہے ہیں کہ یوکرین کو ناٹو کا حصہ نہیں بنایاجائے گا اور ناٹو اسکی سرحد کے قریب جنگی مشقیں بھی روک دیں”۔

اس خبر سے اتنا تو واضح ہے کہ روس ایک بار پھر خطے میں مستحکم ہورہاہے اور اپنی طاقت میں اضافہ کررہا ہے ۔شاید اسی لئے امریکہ روس سے مذاکرات کےلئے آمادہ ہواہے،افغانستان میں سوویت یونین کی شکست میں روس بھی شریک تھا اسکے بعد جب طالبان نے 90کی دہائی میں اقتدار حاصل کیاتھا تو امریکہ اسکا حمایتی تھا آج امریکہ کی شکست سے روس طالبان حکومت کا حمایتی ہے اور اسی وجہ سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے گذشتہ 23دسمبر کو سالانہ کانفرنس میں ایک اہم بیان دیا ہے ایسا لگتاہے کہ وہ مقدس شخصیات کی اہمیت سے واقف ہوچکے ہیں، اس کے علاوہ آزادیِ اظہارِ رائے کے دائرے سے بھی انھیں واقفیت ہوگئی ہے۔روسی صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی آزادیِ اظہارِ رائے نہیں ہے۔شان رسالتؐ میں گستاخی،مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔جولوگ اسلام کو مانتے ہیں،انکے مقدس جذبات کو مجروح کرنا ہے۔روسی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق پوٹن نے اپنی سالانہ کانفرنس میں کہا کہ”پیغمبر اسلام ﷺ کی توہین مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے،اسکے علاوہ مسلمانوں کے جذبات کی بھی خلاف ورزی ہے۔ان کا کہنا تھاکہ شان رسالت ﷺ میں گستاخی لوگوں کو ناراض کرنے اور اشتعال دلانے کا سبب ہے۔پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی آزادی اظہار رائے نہیں ہے۔شان رسالت میں گستاخی مذہبی آزادی کے خلاف ہے جو دراصل مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا ہے۔متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو پر حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے روسی صدر کا کہنا تھا کہ ایسی حرکتیں انتہاء پسندی کی جانب لے جاتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ آزادی آپ کے ارد گرد لوگوں کو عزت دینے کا نام ہے۔روس ایک کثیر النسلی اور کثیر الاعتقادی ریاست کے طور پر تیار ہوا ہے اور ہم ایک دوسرے کی روایات کا احترام کرنے کے عادی ہیں مگر کچھ دوسرے ممالک اس چیز کو پس پشت ڈال دیتےہیں”۔
یہ روسی صدر کا بیان ہے جس کا خیر مقدم بڑے پیمانے پرکیا جانا چاہیے۔پوری دنیا میں مسلمان یہی سمجھاتے رہے لیکن انکی بات کو ان سنی کردی گئی۔آج یہی بات پوٹن کہہ رہےہیں تو کچھ غلط نہیں کہہ رہے ہیں۔دنیا کو آج امن کی ضرورت ہےاور امن کے قیام کےلئے یہ ضروری ہے کہ ہر مذاہب کے ماننے والے اور انکی مقدس شخصیات کا احترام کیاجائے۔بصورتِ دیگر دنیا میں امن کا قیام ایک خواب ہی رہےگا۔اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر دنیا بھر میں بالخصوص یورپی ممالک میں جو تماشے ہوتے رہتےہیں اس کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔یورپی ممالک اور انکے لیڈران کو روسی صدر کے اس بیان کو بار بار پڑھنا،سمجھنا اور ذہن نشین کرناچاہیے۔یورپ کے لیڈران اس طرح کے کئی مواقع پر مضحکہ خیز بیان دیتے رہے ہیں انھیں حالات کو سمجھنا چاہیے اور پوٹن سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔              تھائی لینڈ،فرانس اور چین کے علاوہ دیگر ممالک کی حکومتوں نے دہشت گردی مخالف کارروائی کے نام پر مسلمانوں کے خلاف جو ظلم وستم کا سلسلہ ماضی میں شروع کیا اور جیلوں میں مسلمانوں کو قید کیاجانے لگا، انھیں مذہبی فرائض اداکرنے پر سزائیں دی جانے لگی،یہ چیزیں امن کے قیام کےلئے بڑی رکاوٹ ہے۔امریکی صدر بش نے جو ماحول بنادیا تھا اوباما اس خلیج کو پاٹنے میں سرگرداں رہے لیکن اسکے بعد ٹرمپ نے بش کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی اور مسلم مخالف لہر میں مزید اضافہ کیا۔

ابھی گذشتہ ماہ امریکی ایوان نمائندگان میں اسلاموفوبیا کے خلاف بل منظور کیاگیاہے،اس بل کی حمایت خود امریکی صدر بائیڈن نے کی اور اسے پاس کرایا۔بائیڈن پھر سے امریکہ کو اسی ڈگر پر لے جانا چاہتے ہیں ہیں جہاں اوباما نے اسے چھوڑ دیاتھا۔اسلاموفوبیا کے خلاف بل پاس کرانا اسی کا حصہ ہے۔ یہ سب دنیا کے بدلتے حالات کی جانب ایک اہم اشارہ کررہے ہیں۔امریکہ ماضی میں روس کا کٹر حریف رہاہے۔چین کا مقابلہ کرنے اوراسے اطمینان بخش طریقے سے گھیرنے کےلئے امریکہ نے اسلاموفوبیا کے خلاف بل پاس کیا ہے کیوں کہ وہ جانتاہے کہ چین سے مقابلہ اس وقت تک نہیں کیاجاسکتا جب تک اسلاموفوبیا کے خلاف کوئی ٹھوس کام نہ ہو۔چین ایک عرصے سے ایغور مسلمانوں پر ظلم وستم جاری رکھے ہوئے ہے ایسے میں امریکہ کی یہ ساری جدوجہد چین کو گھیرنے کےلئے بھی ہورہی ہے۔روسی صدر نے اس ایشو کےلئے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا ہے جو مسلمانوں کےلئے بے حد اہم ہے۔اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ بدلتی دنیا اور بدلتے حالات میں اسلام اور مسلمان ایک اہم ایشو ہیں انھیں نظر انداز کرکے دنیا میں کوئی بھی تبدیلی کارگر نہیں ہوسکتی۔پوٹن کے اس بیان پر پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اس بیان کا خیر مقدم کیاہے۔ٹویٹر پر جاری اپنے بیان میں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ روسی صدر کے بیان کا میں خیر مقدم کرتاہوں،انکا بیان میرے موقف کی تائید ہے۔امت مسلمہ کو اسلاموفوبیا کے مقابلے کےلئے اس پیغام کو غیر مسلم دنیا تک پہونچانا چاہئے،میں اس بیان سے مکمل اتفاق کرتاہوں”۔

اسی طرح امارت اسلامی افغانستان نے روسی صدر کے اس بیان کا پرزور انداز میں خیر مقدم کیا ہے۔طالبان کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا کہ”امارت اسلامی روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے بیان کا خیر مقدم کرتی ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی اظہار رائے کی آزادی نہیں،بلکہ یہ آزادی مذہب اور مسلمانوں کے مقدس جذبات کی خلاف ورزی ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ صدر پوٹن کا نئی افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے دیا گیا بیان خوش آئند ہے”پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے توہینِ رسالت اور اسلاموفوبیا کے معاملے پر مسلم ممالک کے سربراہان کو گذشتہ دنوں خط بھی لکھ چکےہیں۔روسی صدر کے اس بیان کا بڑے پیمانے پر خیر مقدم ہونا چاہئے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ مسلم ممالک کے دیگر حکمرانوں کا اب تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا جبکہ یہ انتہائی حساس موضوع ہے،پھر اس معاملے پر مسلم حکمرانوں کی معنی خیز خاموشی کا کیا مطلب ہے؟ایک چیز اور بھی قابل غور ہے کہ عالمی حکمرانوں کو تحفظ ناموس رسالت پر قانون سازی کرنی چاہئے اور اسطرح کی حرکت کرنے والوں کےلئے سخت سزا کا التزام کیاجانا چاہئے۔اظہارِ رائے کی آزادی کا دائرہ بھی جمہوریت کے علمبرداروں کو طے کرنے کی ضرورت ہے،تاکہ دنیا میں امن وامان کا قیام ممکن ہوسکے،۔اس گئے گذرے دور میں مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتاہے لیکن اپنے نبی اور رسول ﷺ کی عزت وحرمت کو پامال ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔آپ ﷺ کی عزت و حرمت ایک مسلمان کےلئے سب سے قیمتی چیز ہے۔

ہندوستان سمیت دنیا بھر میں آئے روز جو تماشے ہورہے ہیں اور اسے اظہار رائے کی آزادی کا نام دیا جارہا ہے یہ بہر حال غلط ہے۔دھرم سنسند کے نام پر جو نفرت اور غلاظت پھیلائی جارہی ہے یہ کسی صورت ملک کے مفاد میں نہیں ہے اور حکومتوں کی خاموشی مزید تشویشناک ہے ،یہ سلسلہ بالکل بند ہوناچاہیے۔اسلام کا مستقبل ابھی تاریک نہیں ہوا ہے، حکمرانوں کو یہ یادرکھنا ہوگا،2010 میں برصغیر کے ایک جہاں دیدہ اور بہت بڑے عالم،معروف فقیہ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب جب ہندوستان آئے تھے تو دارالعلوم دیوبند کی مسجد رشید میں بعض اساتذہ کے اس سوال پر کہ آپ نے پوری دنیا کی سیر کی ہے،دنیا کی کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں آپ کو اللہ نے نہ پہونچایا ہو ہر جگہ اللہ نے کو سفر کرایا یہ بتائیں کہ پوری دنیا میں آپ کو اسلام کا مستقبل کیسا نظر آیا؟مفتی صاحب نے بڑے پروقار انداز اور انتہائی اطمینان کے ساتھ یہ فرمایا کہ دنیا میں اسلام کا مستقبل تابناک اور روشن ہے۔اس سلسلے میں ہمیں فکر مند ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے،روسی صدر کا بیان اس حقیقت کی تصدیق کےلئے کافی ہے۔

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

(مضمون نگارکل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com

اپنی راۓ یہاں لکھیں