توبہ اور انابت

توبہ اور انابت

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی 

 رب کائنات کا ارشاد ہے :

  وَ تُوْبُوْۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ اے مومنو! تم سب اللّٰہ سے توبہ کرو تاکہ کامیاب ہوجاو(سورہ النور /31) 
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ۔ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میرے بندو!تم نے گناہوں کے ذریعے اپنے اوپر جو زیادتی کی ہے تو اس کی وجہ سے اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو ۔ اللہ ہر طرح کے گناہوں کو معاف کر دیگا ، بیشک وہ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے، اور اپنے رب کی طرف واپس آجاؤ اور اس کے فرمانبردار بن جاؤ اس سے پہلے کہ تمہیں عذاب آدبوچے اور پھر تمہاری کوئی مدد نہیں کی جائے گی۔ (سورہ الزمر /54)

 اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 بندہ کی توبہ سے اللہ تعالی کو اس شخص سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جسے صحرا کا سفر درپیش ہو اور سواری کا جانور جس پر اس کا کھانا پانی بھی ہو غائب ہوجائے اور ملنے کی امید نہ رہے ۔ وہ شخص ایک درخت کے سایہ میں آکر کر لیٹ گیا کہ وہ جانور کے ملنے سے مایوس ہوچکاہے( اور خود اس کے بچنے کی بھی امید نہیں رہی) لیکن جب نیند کھلی تو دیکھا کہ سواری کا جانور اس کے پاس موجود ہے تو وہ خوشی کے مارے کہنے لگا اے اللہ!تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں، خوشی کی زیادتی اور شدت کی وجہ سے اس نے جملے کو الٹ دیا(  صحیح مسلم ) 
اللہ تعالیٰ رات میں اپنا دامن پھیلاتے ہیں تاکہ دن کا خطاکار توبہ کرلے اور دن میں اپنا دامن پھیلاتے ہیں تاکہ رات میں غلطی کرنے والا تائب ہوجائے ( صحیح مسلم) توبہ کا مطلب یہ ہے کہ بندہ گناہ سے باز آجاۓ، معصیت کے ارتکاب پر اسے ندامت اور پشیمانی ہو اور پختہ ارادہ کرے کہ دوبارہ گناہ کے قریب نہیں جائے گا اور اگر اس گناہ کا تعلق کسی انسان کے حق سے ہو تو اسے ادا کرے یا معاف کرالے۔
رمضان کی رحمتوں اور برکتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے توبہ و استغفار ضروری ہے کہ معصیت میں مبتلا رہ کر نہ تو روزہ سے کوئی فائدہ ہوگا اور نہ شب بیداری سے ، گناہ کی وجہ سے دل سخت اور تاریک ہوجاتا ہے اور سخت و تاریک دل پر رمضان کے انوار و تجلیات کا کوئی اثر نہیں ہوتاہے ۔ اس مہینے میں جنت کا دروازہ اس لئے کھول دیا جاتا ہے تاکہ بندہ توبہ و استغفار کرکے اس میں داخل ہوسکے اور آسمان کے دروازے اس لئے کھولے جاتے ہیں تاکہ انعام و اکرام اور نور کی بارش ہو ، جس کی وجہ سے عمل کی تاثیری صلاحیت اور اجروثواب میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔اور شیطان کو اس لئے جکڑ دیا جاتا ہے تاکہ نیکی کی راہ کی رکاوٹ ختم ہو جائے ، اس کے باوجود اگر کوئی خواہش نفس کے پیچھے بھاگتا ہے تو اس سے بڑا بدبخت کون ہوگا ؟؟؟ اس لئے آئیے ہم رمضان کو عہد و پیمان کا مہینہ بنائیں، اور اس وعدے کے ساتھ رمضان شروع کریں کہ ہم:
(1)نماز کی پابندی کریں گے اور زندگی کے آخری لمحے تک ادا کریں گے ۔
(2)زکات ادا کریں گے اور غریبوں کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کریں گے ۔
(3) رشوت ، خیانت ، سودی لین دین ،ملاوٹ ، دھوکہ دہی اور دوسرے مالی اور معاملاتی بدعنوانی سے باز رہیں گے۔
(4)زبان ، کان اور آنکھ کی حفاظت کریں گے ، بدگوئی ، بے حیائی ، غیبت ، حسد ، کینہ اور چغل خوری سے دور رہیں گے۔
(5)قرآن تجوید کے ساتھ پڑھیں گے ، سمجھیں گے اور اس پر عمل کریں گے ۔
(6) بھلائی اور نیکی کریں گے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیں گے ، برائی سے دور رہیں گے اور دوسروں کو بھی اس سے دور رکھنے کی کوشش کریں گے ۔
نوٹ:۔ اس طرح کے علمی ادبی اور اصلاحی مضامین کلئے لال رنگ کے گھنٹے والے نشان کو دبا کر  ہماری ویبسائٹ ilmkidunya.in کو سبسکرائب کر لیں تاکہ ہماری ہر اپڈیٹ اۤپ تک بذریعہ ای میل پہنچ سکے۔
اپنی راۓ یہاں لکھیں