تفہیم شریعت ورکشاپ کا انعقاد وقت کی ایک اہم ضرورت!
سرفراز احمد قاسمی
(جنرل سیکریٹری کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک)
گذشتہ دنوں 4/5 دسمبر کو مسلم پرسنل لاء بورڈ کے زیراہتمام ایک دوروزہ پروگرام میں شرکت کا موقع ملا۔تفہیم شریعت ورکشاپ کے عنوان سے یہ پروگرام شہر حیدرآباد کے دور دراز علاقے کی ایک عالیشان اور وسیع و عریض مسجد،مسجد عالمگیر،عیدگاہ گٹالہ بیگم پیٹ،ہائی ٹیک سٹی میں ہفتہ،اتوار منعقد ہواتھا۔پروگرام سے دوتین دن قبل میرے ایک دوست جو شہر کی ایک بڑی مسجد کے امام وخطیب ہیں،انکا پرسنل واٹس ایپ میسج موصول ہواتھا،جو بظاہر اس پروگرام کا اشتہار تھا۔یہ بھیج کر وہ مجھ سے پروگرام میں شرکت کے تعلق سے میرا ارادہ معلوم کررہے تھے۔میں نے اس کا مثبت جواب دیا اور شرکت کی حامی بھرلی۔اس پروگرام میں شرکت کا ارادہ تو میں کئی دنوں پہلے کرچکا تھا،کیوں کہ اجلاس کے سلسلے میں کئی دنوں سے مسلسل اخبارات میں خبریں شائع ہورہی تھی اور لوگوں سے شرکت کی اپیل کی جارہی تھی۔سوشل میڈیا پر بھی اسکے اشتہارات گشت کررہے تھے جس میں علماء،وکلاء،لاء اسٹوڈنٹ اور دانشوران سے بڑی تعداد میں شرکت کی اپیل کی جارہی تھی۔
چنانچہ پروگرام کے مطابق ہم لوگ ہفتے کے دن صبح 9 بجے شرکت کےلئے اجلاس گاہ پہونچ گئے۔پروگرام کی کارروائی تلاوت سے شروع ہوچکی تھی۔استقبالیہ کونٹر پر دوتین علماء ایک رجسٹر لیکر موجود تھے جس میں آنے والے شرکاء کے نام،ایڈریس اور موبائیل نمبرات کا اندراج کیاجارہا تھا اور ساتھ میں آنے والے مہمانوں اور شرکاء کو ایک فائل نما بیگ،جس میں ایک قلم، ایک کاپی،اور پروگرام کی تفصیلات کے علاوہ مختلف عنوانات پرگفتگو کے خلاصے ایک صفحے اوردوصفحے میں پیش کئے گئے تھے، شامل تھا۔آنے والے تمام شرکاء کو یہ فائلیں دیکر انکا استقبال کیاجارہاتھا اورجلس گاہ کی جانب رہنمائی کی جارہی تھی۔ اس میں شرکت کےلئے نہ صرف شہر حیدرآباد بلکہ ریاست تلنگانہ کے علاوہ آندھرا پردیش اور کرناٹک کے اضلاع سے بھی لوگ آئے ہوئے تھے۔یہ پروگرام جو خاص طور سے علماء،وکلاء،لاء اسٹوڈنٹ اور دانشور حضرات کےلئے منعقد کیاگیا تھا اس میں عام لوگوں کی بھی اچھی خاصی تعداد شریک تھی۔
5 نشستوں پر یہ دوروزہ پروگرام مشتمل تھا۔پہلی اور افتتاحی نشست،مختلف اہل علم کے تعارفی خطاب کےلئے مختص کی گئی تھی،جس میں شہر کے تقریباً تمام تنظیموں کے ذمہ داران شریک ومدعو تھے۔ دوسری نشست بعد نماز ظہر کےلئے “تعدد ازواج” کا موضوع مقرر تھا،اس موضوع پر مقالہ پیش کرنے کےلئے مہاراشٹر کے مالیگاؤں شہر سے ایک کثیر المطالعہ ندوی عالم،مولانا عارف جمال ندوی صاحب مدعو کئےگئے تھے۔تیسری نشست بعد نماز مغرب تاعشاء رکھی گئی تھی۔ اس نشست کےلئے تین موضوعات منتخب تھے۔پہلا موضوع “طلاق کی مشروعیت” سے متعلق تھا۔اس کےلئے شہر حیدرآباد کے ایک معروف اور اہل قلم شخصیت مولانا احمد ومیض ندوی صاحب متعین تھے۔اسی طرح اس نشست کا دوسرا موضوع “طلاق قبل التحکیم” تھا،اس پرمقالہ پیش کرنے کےلئے حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کے قابل فرزند اورنوجوان عالم،مولاناعمر عابدین قاسمی مدنی متعین تھے۔اس نشست کا تیسرا عنوان “نفقہ مطلقہ” تھا اوراسکےلئے دہلی سے مولانا تبریز عالم قاسمی آرگنائزر تفہیم شریعت کمیٹی بورڈ،مدعو تھے۔اس طرح پہلے دن کا پروگرام ختم ہوگیا۔
دوسرے دن یعنی 5دسمبر اتوار کو چوتھی نشست صبح نو بجے ناشتے کے بعد شروع ہوئی،اس نشست کےلئے دوعنوان منتخب کئےگئے تھے،ایک تھا “خواتین کا حق میراث”اس عنوان پر محاضرے کےلئے شہر کے ہی ایک عالم، مولانا ڈاکٹر فہیم اختر ندوی صاحب پروفیسر اسلامک اسٹیڈیز مانو یونیورسٹی مدعو تھے۔اسی طرح اس نشست کا دوسرا عنوان تھا “یتیم پوتے کا حق میراث”اس موضوع پرمقالہ پیش کرنے کےلئے مولانا تبریز عالم قاسمی دہلی متعین تھے۔پانچویں اور آخری نشست مختلف علماء کے خطابات وتاثرات،اور دعاء و تشکر پر مشتمل تھی۔ یہ دو روزہ پروگرام 5 نشستوں اور 6 اہم عناوین پر،بورڈ کے نئے جنرل سکریٹری،فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا۔مولانا رحمانی گذشتہ ماہ 20/21 نومبر کو بورڈ کے دو روزہ اجلاس کانپور میں جنرل سکریٹری منتخب ہوئے ہیں،اس سے قبل بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی صاحب کے انتقال کے بعد اپریل کے شروع میں انھیں صدربورڈ کی جانب سے کارگذار جنرل سکریٹری نامزد کیاگیا تھا۔غالبا حیدرآباد کا یہ پہلا پروگرام ہے جو مولانا رحمانی کے جنرل سکریٹری بننے کے بعد منعقد ہوا ہے۔
اس پروگرام کے انعقاد کا مقصد جیسا کہ اسکے عنوان سے ظاہر ہے،دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تفہیم کے معنی تعلیم دینا،آگاہ کرنا،سمجھنا اور ہدایت کرنا ہے،اردو میں اسکے مترادف الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں،مثلا سکھانا،سمجھانا،پڑھانا،اور فہمائش کرنا وغیرہ،مختصر الفاظ میں یہ سمجھئے کہ اس پروگرام کے انعقاد کا دو مقصد ہے نمبر ایک یہ کہ پہلے شریعت کو سمجھا جائے،اسلامی قوانین سے بڑے پیمانے پر واقفیت حاصل کی جائے اور پھر اسے دوسرے لوگوں کو سمجھایا جائے۔ ایک تو یہ کہ پہلے ہم خود سمجھیں اور پھر اسے دوسروں کو یعنی سامنے والوں کو سمجھائیں یہی اس پروگرام کااصل مقصد ہے۔تفہیم شریعت کمیٹی،مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ایک اہم شعبہ ہے جسے غالبا 2005ء میں بھوپال کے بورڈ کے اجلاس میں قائم کیاگیا ہے۔مولاناخالد سیف اللہ رحمانی صاحب اس شعبے کے کنوینر ہیں، وہ ایک جگہ اس سلسلے میں رقمطراز ہیں کہ”بھوپال میں ایک مستقل شعبہ تفہیم شریعت کا قائم کیاگیا ہے،جسکا مقصد فقہاء(چنندہ علماء)اور وکلاء کا اسلامی قوانین پر باہمی مذاکرہ اور مشترک طور پر قانون شریعت کی معقولیت کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہے۔
موجودہ حالات میں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ اس شعبہ کو مزید فعال بنایاجائے اور اسکے زیادہ سے زیادہ پروگرام رکھے جائیں۔اس کام کےلئے ایسے اجتماعات منعقد کئے جائیں،جن میں وکلاء،قانون داں،دانشوران اور مثبت مزاج کے حامل صحافی حضرات ہوں،وکلاء،قانون داں جب قانون وشریعت اوراسکی حکمتوں کو سمجھ لیں گے تو وہ عدالتوں میں انکو بہتر طور پر پیش کرسکیں گے۔دانشور اور صحافی حضرات جب اس سے واقف ہوجائیں گے تو ذرائع ابلاغ وغیرہ میں وہ شرعی نقطہ نظر کی ترجمانی کرسکیں گے۔مذاکرہ کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ ایک تا ڈیڑھ گھنٹہ قانون شریعت کے کسی پہلو (منتخب عنوان)پر آسان اور واضح زبان میں فقہی احکام کو پیش کیاجائے،اور پھر نصف گھنٹہ سے پون گھنٹے سوال وجواب کا سیشن ہو۔مذاکرہ کے موضوعات کے انتخاب کی ایک صورت تو یہ ہے کہ کسی زمانے میں جو خاص مسئلہ اٹھاہو اور وہ کسی عدالتی فیصلہ یا میڈیا کی خبر کی بنیاد پر موضوع بحث بن گیا ہو،جیساکہ گذشتہ دنوں متبنی اور دارالقضاء کا مسئلہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا موضوع بن گیاتھا،یا جیسے فی الحال تین طلاق اور تعدد ازدواج کا موضوع ہے،انکو مجلس مذاکرہ کا موضوع بنایاجائے۔دوسری صورت یہ ہے کہ مسلم پرسنل لاء کے موضوعات میں سے کسی ایک موضوع پر بحث کی جائے،جیسے ایک دن قانون نکاح پر بحث ہو،اور دوسرے دن قانون طلاق پر وغیرہ ذالک”(تفہیم شریعت تعارف اورطریقہ کار)
مذکورہ اقتباس سے آپ نے تفہیم شریعت کمیٹی اوراسکے طریقہ کار کو سمجھ لیا ہوگا۔حیدرآباد میں جو پروگرام ہوا اس میں ایک کمی تو یہ رہی کہ اکثر نشستوں میں سوال وجواب کا سیشن وقت کی کمی وجہ سے غائب ہوگیا۔بعض نشستوں میں سوال وجواب کےلئے تھوڑا ساوقت دیاگیا جوناکافی تھا۔اسی طرح جن مقالہ نگار اور محاضرین کو مدعو کیاگیا تھا ان میں سے بعض نے تو بڑی عمدہ،مفصل اوراپنے موضوع پر فاضلانہ مقالہ پیش کیا جن سے شرکاء بڑی تعداد میں مطمئن ہوئے،لیکن بعض محاضرین ایسے بھی تھے جنھوں نے اپنے مقرر کردہ موضوع پر کوئی مطالعہ نہیں کیاتھا،بلکہ شرکاء کو جوکتابچہ تقسیم کیا گیا تھا من وعن اسی کو پڑھ کر سنادیا گویاخانہ پری کردی گئی۔سوال یہ ہے کہ ایسے محاضرین جو اطلاع کے باوجود اپنے موضوع کا ہمہ گیر مطالعہ نہیں کرسکتے یا انکے پاس مطالعے کاوقت نہیں انکو مدعوکرکے کتنا فائدہ ہوگا؟کچھ لوگوں کا الزام ہے کہ مولوی کی جماعت کاہل ہوتی جارہی ہے،وہ محنت نہیں کرناچاہتے۔انکی باتوں میں کسی قدر سچائی ہے یہ الگ بات ہے کہ سارے علماء کو اس صف میں شامل نہیں کیاجاسکتا،چند سال قبل جمعیة علماء کے ایک ذمہ دار نے دہلی آفس میں مجھ سے کہاتھاکہ”جمعیة علماء جو سیمنار کرتی ہے اسکےلئے ایک ایک مقالہ نگار کو کئی کئی ہزار روپے بطور محنتانہ پیش کیاجاتاہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ زیادہ ترلوگ تحقیق وتدقیق کا مظاہرہ نہیں کرتے،محنت نہیں کرتے،جیسے تیسے لکھکر اپنامقالہ جمع کردیتے ہیں،نتیجہ یہ ہوتاہے کہ انکا مقالہ کسی خاص اہمیت کاحامل نہیں ہوتا۔
مذاکرے اوراسطرح کے پروگرام کے انعقاد کامقصد یہ بھی ہے کہ اس بحث ومباحثے کے ذریعے ذہن کشادہ ہونئے نئے سوالات پیدا ہوں اورپھراسکے تشفی بخش جوابات دیئے جائیں۔ اسی طرح پروگرام میں شرکاء کو جوکتابچہ تقسیم کیاگیا اس میں اغلاط کی بڑی تعداد ہے،جسکامطلب یہ ہے کہ اسکی پروف ریڈنگ نہیں کی گئی جلدی جلدی میں شائع کردیاگیا۔بورڈ کے ذمہ داران کو اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔بورڈ کے ایک ذمہ دار نے بتایا کہ 2005ء سے اب تک ملک کے مختلف شہروں میں تفہیم شریعت کے عنوان سے صرف 12 پروگرام ہوئے ہیں،جن میں پہلا اور بارہواں پروگرام حیدرآباد میں منعقد ہوا۔میں نے ایک ذمہ دارسے پوچھاکہ ملک کے کن کن شہروں میں اسطرح کے پروگرام ہوئے؟ اس سوال پر انھوں نے جواب دیاکہ اسکی کوئی لسٹ ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔اس طرح کا ریکارڈ تو بورڈ کے پاس ہونا ہی چاہئے امیدکہ اس پر توجہ دی جائے گی اور بورڈ سے متعلق ریکارڈ محفوظ رکھاجائےگا۔اس پروگرام میں ایک کمی یہ محسوس کی گئی کہ صرف ایک ہی مکتبہ فکر یعنی دیوبندی مکتبہ فکر کے لوگ شامل تھے،جبکہ بورڈ تمام مکاتب فکر کا متحدہ پلیٹ فارم ہے کہلاتا ہے۔دیگر مکاتب کے لوگوں بھی کو بھی شامل کیاجانا چاہئے یا پھر انکےلئے الگ سے پروگرام کی شکل بنانی چاہئے۔جامعہ نظامیہ،اہل حدیث اور دیگرمکاتب کے لوگ نہ شرکاء میں تھے اور نہ ہی مدعو کئے گئے تھے۔ایسے میں صرف ایک مکتبہ فکر کے لوگوں کو جمع کرکے کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔
اس بات سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ فتنوں اور انتشار کے اس دور میں بورڈ کا وجود غنیمت ہے۔اس پلیٹ فارم سے جوآواز بلند کی جاتی ہے آج بھی اسکی بازگشت عام گھروں کے علاوہ اقتدار کے ایوانوں میں سنی جاتی ہے۔بورڈ کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ یہ ہندوستانی مسلمانوں کا سب سے بھروسہ مند پلٹ فارم ہے۔بورڈ نے بلاشبہ ماضی میں اپنے بینر تلے کارہائے نمایاں انجام دیئے جسکی وجہ سے بلا اختلاف مسلک ومشرب لوگوں کی توجہ انھیں حاصل ہوئی،لیکن حالیہ برسوں میں اسکی محدود اور روایتی سرگرمی نے اسکی ساکھ کو متاثر کیا۔1972ء میں قائم ہونے والی اس تنظیم کو ہراعتبار سے مضبوط ومستحکم ہوناچاہیے۔ملت اسلامیہ ہندیہ آج اضطراب آمیز ماحول اور انتہائی مشکل دور سے گذر رہی ہے،اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ بورڈ روایتی کارروائیوں سے اوپر اٹھ کر اپنی سابقہ وقار کی بحالی کےلئے جدوجہد کرے،تفہیم شریعت ورکشاپ کے ایک دو پروگرام سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔اس طرح کے پروگرام بڑے شہروں میں حلقے واری سطح پر منعقد ہونے چاہیے۔بہت سی ایسی مساجد کے خطباء اور ائمہ روایتی خطاب سے آگے نہیں بڑھتے تو پھر وہ لوگوں کواسلامی قانون کس طرح سمجھائیں گے؟،جبکہ وہ خود ان قوانین سے لاعلم ہیں یا پھر کماحقہ واقفیت نہیں رکھتے۔بہتر ہوگا کہ بورڈ علماء،ائمہ،خطباء،مدرسین،اسکول ٹیچر،وکلاء،دانشوران اور صحافی حضرات کےلئے الگ الگ پروگرام کا خاکہ تیارکرے،اور محاضرین کی حیثیت سے وسیع المطالعہ شخصیت کا انتخاب کرے تاکہ اسکا فائدہ دیر تک اور دور تک پہونچ سکے۔ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے پاس کوئی منظم پلان،حکمت عملی اور تربیتی نظام موجود نہیں اور نہ آج تک اس پر کوئی توجہ دی گئی۔بورڈ کو ایک منظم اور مرتب نظام ترتیب دیناچاہئے جووقت کی اہم ضرورت ہے۔عائلی مسائل سے واقفیت اوراسکے تحفظ کےلئے تفہیم شریعت جیسے پروگرام کو بڑے پیمانے اور ہرسطح کے لوگوں کےلئے منعقد کرنے کی ضرورت ہے۔مجموعی طور پر یہ پروگرام انتہائی کامیاب رہا،یہ سلسلہ جاری رہناچاہئے۔