تفسیروں میں راستی اور انحراف
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
قرآنِ کریم آخری صحیفۂ ہدایت ہے اور رہتی دنیا تک کے لیے اب یہی انسانیت کا اکلوتا دستور اور منشور ہے۔یہ نبیِ آخر الزماں خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ کی صداقت ونبوت کا زندۂ جاوید معجزہ ہے جس نے اپنے نزول کے ساتھ ہی تاریخِ عالم کا دھارا بدل دیا تھا۔یہ اپنی جامعیت اور گہرائی کے اعتبار سے ہر دور میں انسانی عقل وفکر کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔اس کی زبان معجزانہ اور اندازِ بیان اچھوتا اور نرالاہے۔ اس کی تفسیر وتاویل، اعجازواعراب، تاریخ وجغرافیہ، اسلوبِ بیان وغیرہ پر جس قدر لکھا جاچکا ہے وہ بھی کسی معجزے سے کم نہیں۔ اس کے فہم وتدبر میں اور اس کے حقائق ومعارف کی نقاب کشائی میں زندگی کی جو ساعتیں بھی لگ جائیں وہ مبارک اور باعثِ رشک ہیں۔ایک بندۂ عاجز کے لیے اس سے بڑھ کر شرف وافتخار کیا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ربِ حقیقی کے کلام کا مخاطب بنے، اسے سمجھے اور اس کی گہرائیوں میں ڈوب جائے۔
اہلِ سنت والجماعت مفسرینِ نے ہر دور میں اپنے خصوصی ذوق اور ماحول کے مطابق قرآن کی خدمت کی ہے اور تفسیر کے لیے مخصوص مناہج اور اصول سامنے رکھے ہیں، مگر ان اصولوں میں تنقیح کا عمل جاری رہا تاآنکہ کچھ اصولوں کو متفق علیہ مان لیا گیا۔مثلاً دوسری صدی کے علماء کی تفاسیر پر نظر ڈالیں تو وہ قرآنِ پاک کی قرآنی ونبوی تفسیر کے ساتھ اکثر طور پر صرف صحابہؓ وتابعینؒ کے اقوال پر مکتفی نظر آئیں گے۔ مگر اس کے بعد ہر دور میں علومِ تفسیر میں اضافہ نظر آتا ہے حتی کہ اب یہ علوم اس قدر پھیل گئے ہیں کہ کسی ایک علم کا پورا احاطہ کرنا بھی مشکل ہے۔ علومِ تفسیر نے اس قدر ارتقائی وتوسیعی شکل اختیار کر لی ہے کہ ان کا تاریخی جائزہ لینا بھی بجائے خود ایک اہم موضوع بن گیا ہے۔ان علوم کے ارتقاء اور ان کی تفصیل سے قطعِ نظر غور طلب معاملہ یہ ہے کہ وہ کون سے بنیادی عناصر اور وسائل ہیں جو تفسیرِ قرآن میں ممد ومعاون ہو سکتے ہیں اور جن کو ملحوظ نہ رکھنے سے قرآن فہمی کی راہ مشکل ہے، اور گاہے انحراف کا دروازہ کھل جاتا ہے۔جمہور علمائے تفسیر نے قرآن کی تفسیر کے سلسلے میں کچھ متفق علیہ اصولوں سے استفادہ کیا ہے اور ان میں ترتیب دیتے ہوئے یہ واضح کر دیا ہے کہ ان عناصر کی ترتیبی حیثیت سے صرفِ نظر کرنا بہت سی گمراہیوں اور لغزشوں کا موجب بن سکتا ہے۔دورِ حاضر میں ان اصولوں کی اہمیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔معاصر مفسرین کے لیے بھی ضروری ہے کہ قرآن کا مطالعہ انہی بنیادی اصولوں کی روشنی میں کریں تاکہ انہیں قرآن فہمی میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔
ان میں پہلا اصول یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر قرآن کی روشنی میں کی جائے گی۔ قرآن کی تلاوت اور اس کے مطالعے سے یہ حقیقت بہ خوبی واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن نے بعض حقائق کو ذہن نشیں کرانے کے لیے متعدد مقامات پر ان کا اعادہ کر دیا ہے۔لیکن ہر مقام پر اندازِ بیان نرالا اور جداگانہ ہے۔ ایک مقام پر اجمال ہے تو دوسرے مقام پر اسی کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے اور پھر مقصد واستدلال کے اعتبار سے بھی نمایاں فرق ہے۔ تفسیر القرآن بالقرآن کے سلسلے میں اختلافِ قرأت کو بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ صحابۂ کرامؓ اور تابعینِ عظامؒ بعض آیات کی تفسیر میں اختلافِ قرأت سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔ خصوصاً حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت ابی بن کعبؓ کی قرأتیں تو تفسیر کے سلسلے میں بہت زیادہ اہمیت کی حامل سمجھی گئی ہیں۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر صحیح حدیثوں کی روشنی میں کی جائے گی۔ قرآن فہمی کے سلسلے میں سنتِ نبوی کو -جو کہ مرادِ الٰہی کی تبیین وتعبیر ہے-دوسرے بنیادی مرجع کی حیثیت حاصل ہے،بلکہ ائمۂ دین نے حدیثِ نبوی کو قرآن کی شرح کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے۔ قرآن میں بھی تبیینِ آیات کو اہم ترین فریضۂ رسالت بتایا گیا ہے۔ اس بنا پر علمائے دین نے حدیثِ نبوی کی تدوین میں خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا۔ سنت وحدیث کی حجیت سے انکار دراصل تفسیر بالرائے مذموم کا دروازہ کھولنے کے مرادف ہے۔ محقق علماء نے ایسے لوگوں کی تردید کرتے ہوئے سنت کی اہمیت کو واضح فرمایا ہے اور قرآن فہمی کے لیے اسے لازم قرار دیا ہے۔
اگلا اصول یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر بالترتیب اقوالِ صحابہؓ اور اقوالِ تابعینؒ کی روشنی میں کی جائے۔اگر فہمِ قرآن کی کوئی مشکل خود قرآن اور حدیث سے حل نہ ہورہی ہو تو اقوالِ صحابہؓ کی طرف رجوع کرنا لازم ہے کیونکہ صحابۂ کرامؓ جاہلی ادب، زمانۂ نزول کے اہلِ کتاب کے عادات واطوار اور لغتِ متداولہ کے اوضاع واسرار سے بہ خوبی واقف تھے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جن احوال وظروف میں قرآن نازل ہورہا تھا وہ ان کی نظروں کے سامنے تھے اور وہ آیات کے پسِ منظر سے پوری طرح آگاہ تھے۔ پھر ان کے اذہان صاف ستھرے تھے اور وہ گرد وپیش کی تمدنی آلائشوں سے پاک تھے۔
صحابۂ کرامؓ میں سے خصوصاً خلفائے راشدینؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت ابی بن کعبؓ کے تفسیری اقوال سے بے اعتنائی ناممکن سی بات ہے۔مگر جب تفسیر نہ قرآن میں ملے، نہ سنت میں، نہ اقوالِ صحابہؓ میں تو بہت سے ائمہ ایسی صورت میں کبارِ تابعین مثلاً مجاہدؒ بن جبر، سعیدؒ بن جبیر، عکرمہؒ، عطائؒ، حسنؒ بصری، مسروقؒ، سعیدؒ بن مسیب، ابو العالیہؒ، ربیعؒ، قتادہؒ اور ضحاکؒ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔اگر کسی آیت کے مفہوم پر کتاب وسنت اور اقوالِ صحابہؓ سے روشنی نہ پڑتی ہو اور تابعینؒ بھی اس کی تاویل میں مختلف الرائے ہوں تو پھر لغتِ عرب اور محاورات کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ تاہم یہ ایسا ذریعہ اور عنصر نہیں کہ تفسیر کے دوسرے سرچشموں سے بے نیاز کردے۔ یہی وجہ ہے کہ جن علماء نے تفاسیر میں لغت ومحاورات سے استفادہ کیا ہے اور لغوی تشریحات کے لیے شواہد چھان مارے ہیں انہوں نے بھی اپنی تفسیروں میں سنت اور اقوالِ صحابہؓ سے اعتناء کیا ہے، بلکہ ان کو مقدّم رکھا ہے اور باوجود اعتزال اور عقلیت پسند ہونے کے احادیث اور اقوالِ صحابہؓ سے مدد حاصل کی ہے۔جمہور علمائے اہلِ سنت کے یہ وہ منہجی عناصر یا بنیادی اصول ہیں جن سے قرآن فہمی کے سلسلے میں بالترتیب استفادہ کرنا ضروری ہے۔ ان کے علاوہ اسبابِ نزول، تاریخِ جاہلیت، نظم ومناسبت، اسرائیلی روایات سے واقفیت بھی قرآن فہمی میں معاون ہو سکتی ہے۔ان متفق علیہ تفسیری اصولوں کے باوجود بعض شوریدہ سروں نے اپنی الگ راہ بنائی۔ چنانچہ کتبِ تفسیر میں مناہج، رجحانات اور اسلوب وانداز کا اختلاف ایک بدیہی حقیقت کی شکل میں آج موجود ہے جس کا انکار کوئی صاحبِ علم نہیں کر سکتا ہے۔
درج بالا تفسیری اصولوں سے اعراض برتتے ہوئے لکھی جانے والی بہت سی تفسیریں نصِ قرآنی کے فہم میں غلط رجحانات اور باطل تاویلات سے بھری ہوئی ہیں۔ ان میں اپنے خاص فکری اور اعتقادی مسلک ومشرب کو درست ثابت کرنے کی ہوڑ میں اس قدر بے جا تکلف سے کام لیا گیا ہے کہ نہ اُسے ذوقِ سلیم قبول کرتا ہے اور نہ قرآنی بلاغت سے وہ ہم آہنگ ہے۔ بلکہ بعض جگہ تو دین کے اصول وقواعد کی صریح مخالفت ہوتی دکھائی پڑتی ہے۔ اور قطعی دلائلِ شرعیہ کی روشنی میں جائزہ لیں تو بعض اوقات انسان اہلِ ایمان کے زمرے سے خارج ہوجاتا ہے۔عام طور پر مسلمان کسی بھی تفسیر کو عقیدت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ ان کی نگاہ میں وہ کلامِ رب العالمین کی توضیح وتشریح کرتی ہے۔ مگر ساتھ ہی بالعموم یہ حقیقت ذہن سے فراموش ہو جاتی ہے کہ یہ مفسرین بہرکیف انسان ہی تھے اور معصوم عن الخطا نہیں تھے۔ ان کی لکھی کتابوں اور تفسیروں میں غلطی،کجی اور انحراف کا پورا امکان ہے۔
کتبِ تفسیر میں غلط رجحانات اور طریقوں کے رواج پانے کا محرک جہاں دین سے جہالت اور دوری ہے،وہیں خواہشِ نفس کی اتباع بھی اس کا ایک سبب ہے۔کچھ لوگ دل میں اسلام کی نفرت دبائے رہتے ہیں اور اس کے نظام کو اندر سے سبوتاژ کرنے کے لیے تفسیرِ قرآن کا سہارا لیتے ہیں۔تفسیر کے ہر غلط طریقے کی کچھ نہ کچھ جڑیں ماضی میں پیوستہ ہیں جنہیں ان کی گہرائی تک پہنچ کر سمجھنا ضروی ہے۔ تفسیرِ قرآن میں انحراف اور بگاڑ کی چند نمایاں شکلیں یہ ہیں:
۱-ان میں پہلی شکل یہ ہے کہ عقل کو اس کے جائز اور مناسب مقام سے اورنچا اٹھا دیا جاتا ہے اور ہر چیز میں، حتی کہ شارع کی ہدایات وتعلیمات میں بھی اسے قاضی اور فیصل باور کرلیا جاتا ہے۔ یہ اندھی عقل پرستی ہے۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ مادیات پر زور دیا جاتا ہے اور غیبیات کو کھینچ تان کر محسوسات کے دائرے میں لایا جاتا ہے۔اس کا دوسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ عقل کو مصدرِ تشریع شمار کیا جانے لگتا ہے جس کا رتبہ اور مقام کسی بھی اعتبار سے وحیِ الٰہی سے کم نہیں سمجھا جاتا، بلکہ اگر کوئی شرعی نص اس کے خلاف نظر آتی ہے تو فی الفور اس کا انکار یا اس کی تاویل شروع کر دی جاتی ہے۔ پورے ہنگامے میں کسی کو یہ دیکھنے کی فرصت نہیں ملتی کہ آخر علمائے امت نے اصولِ فقہ کا جو عظیم الشان علم وضع کیا ہے اس کی کس کتاب میں درج ہے کہ عقل ایک مأخذِ تشریع ہے؟
۲-تفسیروں میں بگاڑ اور انحراف کی دوسری شکل یہ ہے کہ قرآن کو بائبل (یہود ونصاریٰ کی مزعومہ مقدس کتابیں) اور دیگر ادیان ومذاہب کی کتابوں کی صف میں لاکھڑا کیا جاتا ہے۔ زبانی اقرار کے باوجود طرزِعمل سے بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ ادیانِ سماویہ کی محرف تعلیمات پر قرآن کی حاکمانہ پوزیشن بھلا دی گئی ہے اور ذہن سے یہ بات محو ہوگئی ہے کہ اسلامی شریعت نے آکر سابقہ تمام شرائع کو منسوخ اور ملغیٰ کر دیا ہے۔اس تفسیری بگاڑ کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ دورانِ تفسیر بائبل اور دیگر ادیان ومذاہب کی کتابوں کے حوالے اور اقتباسات بہ کثرت دیے جاتے ہیں، مگر حدیثِ نبوی اور اقوالِ صحابہؓ سے بے اعتنائی برتی جاتی ہے، اور اگر مارے پیٹے اس کا کبھی ذکر ناگزیر ہوجاتا ہے تو بلا الفاظ نقل کیے،صرف مفہوم ومدعا بتادینے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ کسی بھی صورت میں اُس اہتمام واحترام سے مستند حدیثوں اور روایتوں کو نقل نہیں کیاجاتا جس فدویت اور فدائیت سے بائیبل اور دیگر کتبِ مقدسہ سے اخذ واستفادہ ہوتا ہے۔ اسی شکل کا ایک اظہار یہ ہے کہ لوگ انٹر فیتھ ڈائیلاگ(بین المذاہب مکالمہ) کے راستے سے وحدتِ ادیان تک پہنچتے ہیں اور اس آڑ میں اسلام کی شناخت، تفوق اور امتیاز کو ملیا میٹ کردینا چاہتے ہیں۔
۳-تفسیری بگاڑ اور انحراف کی تیسری شکل یہ ہے کہ دینِ اسلام کے ہمہ گیر اور جامع مفہوم کو بدل کر اسے بھی عام مذاہب کی صف میں لاکھڑا کیا جاتا ہے، بالخصوص عیسائیت کے ساتھ۔ غرض یہ ہوتی ہے کہ عیسائیت کی طرح اسلام کا اثر ونفوذ بھی فرد کی ذاتی زندگی تک محدود کر دیا جائے اور اجتماعی زندگی سے اس کا عمل دخل کاٹ دیا جائے۔ چنانچہ اس بات پر بار بار زور دیا جاتا ہے کہ دین صرف بندے اور معبود کے درمیان تعلق سے بحث کرتا ہے۔اس انحراف کا اظہار یوں ہوتا ہے کہ وہ اسلامی احکام جو کسی لحاظ سے سیاست، معیشت، معاشرت اور سزائوں وغیرہ سے بحث کرتے ہیں ان کی تردید، یا تردید سے ملتی جلتی تاویل کی جاتی ہے۔اس بگاڑ کے حامل کچھ مفسرین ہیں جو صاف کہتے ہیں کہ اجتماعی زندگی کے معاملات اپنی صواب دید کے مطابق چلانا انسان کا حق ہے، اس میں اللہ کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ اور کچھ ہیں جو شرما حضوری میں مانتے تو ہیں کہ انسان اس پہلو سے بھی اللہ کا بندہ ہے،مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اس میدان میں کارگزاری کا حق بالکلیہ انسان کو بخش دیا ہے۔’’ أنتم أعلم بأمور دنیاکم۔‘‘
کتبِ تفسیرمیں درانداز ہونے والے ان بگاڑوں کی وجہ سے دین کو ڈھنگ سے سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ دین کے بنیادی تصورات ومعتقدات پر تاریک سائے پڑ جاتے ہیں۔ان تفسیری انحرافوں کی وجہ سے جو روڑے اور کانٹے فہمِ دین کی راہ میں آگئے ہیں وہ مختصراً یہ ہیں:
۱-مغربی افکار، تصورات اور پیمانوں اور معیاروں کا ذہنوں پر غلبہ ہوگیا ہے۔ اسلام ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے جو محتاج ہے کہ کوئی اٹھے اور اس کی طرف سے دفاع کرے اور اس پر لگے ناتوانی اور بے صلاحیتی کے الزام کو غلط ثابت کرے۔ چنانچہ جہاں کچھ لوگ دفاع میں اٹھ کر دفاع کا حق ادا کرتے ہیں،وہیں کچھ لوگ اس جال میں پھنس کر غیر اسلامی افکار وعقائدکے تئیں مصالحت پسندانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں اور کوشش کرنے لگتے ہیں کہ اسلام اور جدید مغربی افکار ونظریات کے درمیان جمع وتطبیق کی کوئی شکل نکل آئے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے یہ لوگ گاہے دینی نصوص واحکام میں معنوی ولفظی تحریف کا ارتکاب کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔
۲-اسلام کا مطالعہ کسی غیر اسلامی فکر اور نظریے یا آئیڈیالوجی کی عینک لگا کر کیا جاتا ہے۔ پہلے اسلام سے باہر کسی خاص نظام اور تحریک اور نظریۂ حیات پر ایمان لے آیا جاتا ہے، پھر اس کی روشنی میں اسلام کا مطالعہ ودراسہ کرتے ہیں اور پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح سے اسلام کو اپنے من پسند نظریے اور نظام اور جماعتی وگروہی اصولوں سے نتھی کر دیں۔ چنانچہ ایسی تحریروں میں کبھی اسلام جمہوریت نواز بن جاتا ہے اور کبھی اشتراکیت کا حامی ہوجاتا ہے۔
۳–تفسیروں میں بگاڑ کا تیسرا سلبی نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بعض مسلمان بھی غیر اسلامی افکار ونظریات کو اسلام کا حصہ سمجھنے لگے ہیں اور اب اُن کو بھی اسلام وغیرِ اسلام کا فرق سمجھانے کے لیے دلائل دینے پڑتے ہیں۔فہمِ دین کی راہ میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مستشرقین کے مار گزیدہ یا شاہدِ مغرب کی عشوہ طرازیوں سے مسحوریا اپنے خود ساختہ نظریات کے فتراک کے نخچیر مسلمانوں کو ہی اسلام کی تعلیمات پر مطمئن کرنے میں سخت محنت صرف کرنا پڑتی ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان نئی تفسیری رایوں اور رجحانوں کے تعلق سے ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ اس بارے میں شریعت کا دو ٹوک فیصلہ تو اللہ کے نبیﷺ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’جو شخص ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کرے جو اس کا حصہ نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘ [من أحدث فی أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد](صحیح بخاریؒ:۱/۳۶۔ صحیح مسلمؒ:۱۳۔ سنن ترمذیؒ: ۲۶۵۲۔ سنن ابن ماجہؒ:۹۔ مسند احمدؒ:۲/۱۶۲)
چنانچہ وہ جملہ تفسیری آراء جو امرِ دین میں بہ منزلۂ بدعت ہیں واجب الرد اور لائقِ اجتناب ہیں۔اگر کوئی انہیں دین کا حصہ سمجھتا ہے، عامۃ الناس کو فتنوں میں ڈالنے اور دینِ اسلام کا رخِ زیبا مسخ کرنے کی نیت سے انہیں عام کرتا ہے تو وہ مرتد ہے اور دائرۂ ملت سے خارج ہے۔ اور مانا جائے گا کہ جس قدر اسے اسلام سے درپردہ عداوت اور نفرت ہے،اسی درجے میں روزِ محشر اسے عذابِ الیم دیا جائے گا۔
رہا ان منحرف تفسیری آراء وافکار سے واقفیت بہم پہنچانا، اس ارادے سے کہ انہیں اختیار کیا جائے اور اس طرح نام ونمود کی تحصیل کا شارٹ کٹ اپنایا جائے، تو یہ رویہ بھی صریحاً حرام ہے کیونکہ یہ مردود اور حرام چیزوں کو اختیار کرنے جیسا ہے۔ البتہ اگر ان آراء وافکار سے واقفیت اس لیے بہم پہنچائی جائے تاکہ انہیں رد کیا جائے، ان کے خطرے سے عام لوگوں کو آگاہ کیا جائے اور ایسے نام نہاد مفسرین کے جال سے ہوشیار وخبردار کیا جائے تو یہ عمل شرعاً پسندیدہ اور انشاء اللہ باعثِ اجر وثواب ہے۔ اگر کوئی یہ کام کرتا ہے تو نیک امید ہے کہ وہ اخروی ثواب کا مستحق ہوگا، اور نہیں کرتا ہے تو انشاء اللہ اس سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔
ان غلط تفسیری مناہج وطرق کی اصلیت اور حقیقت اجاگر کرنا ایک طرح سے بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی شکل ہے جس پر ثوابِ عظیم کی نوید سنائی گئی ہے۔ البتہ اگر کوئی اس طرح کی تفسیری آراء وافکار کو بہ غور سنتا ہے یا ایسے جاہل مفسروں کو انہیں پھیلاتے دیکھتا ہے اور وہ اس پوزیشن میں ہے کہ ہاتھ یا زبان سے ان پر نکیر کرے اور انہیں روکے،مگر وہ ایسا نہیں کرتا تو سمجھا جائے گاکہ اس نے ایک غلط کام میں خاموش تعاون کیا۔ البتہ اگر اس کی خاموشی کسی ظالم کے خوف کی بنا پر ہے، حالانکہ دل سے وہ ان افکار ونظریات پر نفریں بھیجتا ہے اور نجی محفلوں میں اپنی برأت ظاہر کرتا ہے تو اس کے حق میں مغفرت اور قوت کی دعا کی جاسکتی ہے۔ ممکن ہے وہ واقعی معذور ہو، اور ہو سکتا ہے کہ اس نے معذوری کا ڈھونگ رچایا ہو۔اللہ بہرحال دل کے رازوں سے باخبر ہے۔
جس کے نزدیک دین اہم مسئلہ ہے اور اللہ کی کتاب سرچشمۂ ہدایت ہے،وہ چاہے تو ان منحرف منہجوں سے احتیاط برت سکتا ہے۔ وہ سادہ لوحی میں ان خرافات پر صاد نہیں کہے گا اور یہ فتنے بہ آسانی اسے اپنا شکار نہ بنا پائیں گے۔ اس کے سامنے رجوع الی القرآن کا صحیح راستہ کھلا ہے جس پر چل کر وہ چاہے تو فہمِ قرآن کی لاثانی دولت کا حق دار بن سکتا ہے۔ ضلالت وانحراف اس کے فہمِ دین پر شنجون نہ مار سکیں گے اور قرآن کی بے آمیز تعلیمات کا خزانہ اس کے سامنے مہیا ہے۔وہ پورے شعور اور تعقل کے ساتھ قرآن کے چشمۂ صافی سے کسبِ فیض کر سکتا ہے اور سلفِ صالح کی طرح سعادت مندی اس کا مقدر بن سکتی ہے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔